تربت امام حسین رضی اللہ عنہ کا معجزہ

جتنی دیر سے آپ اس دھاگے پر تشریف لائے ہیں، اس سے مجھے یہی شک آپ کے بارے ہو رہا ہے :laugh:

یہ جو عربی لکھی ہے، اس کا ترجمہ بھی عنایت فرما دیں، جب یاد آئے تو
حاضر تو تھا مگر غائب ہو کر!
یاد نہیں آ رہا کچھ کرنا بھی تھا:atwitsend:
اچھا قیصر بھائی!
ہن ساڈی عمر تے جواب دے گئی لہذا سون دی تیاری:(

پھر ملیں گے!
 

قیصرانی

لائبریرین
حاضر تو تھا مگر غائب ہو کر!
یاد نہیں آ رہا کچھ کرنا بھی تھا:atwitsend:
اچھا قیصر بھائی!
ہن ساڈی عمر تے جواب دے گئی لہذا سون دی تیاری:(

پھر ملیں گے!
اپنا خیال رکھیئے گا اور "اس" عمر میں کچھ اپنا خیال بھی رکھا کیجئے :laugh:
 
محترم بھائی آپ کا تبصرہ پڑھ کر اک قصہ یاد آگیا ۔ کافی عرصہ قبل کی بات ہے ۔ نیا نیا مسلمان بنا تھا سعودی عرب آ کر ۔ اور بات بات میں قران و حدیث کے ذکر سے مشرف ہوتے غیر مسلموں سے بحث کرتے بزعم تبلیغ جنت کماتا تھا ۔ اک دن اک کرسچن نے مجھے کہا کہ کیا آپ میرے کچھ اعتراضات کے جوابات دے سکتے ہیں جو کہ آپ کے قران و حدیث سے متعلق ہیں ۔ اندھا کیا چاہے دو آنکھیں ۔ حامی بھر لی ۔۔۔ بات شروع ہوئی ۔
کہنے لگا کہ کیا آپ جانتے ہیں کہ قران کی اک آیت ہے جس میں قران نے مسلمانوں سے کہا ہے کہ " اللہ کی رسی کو مضبوطی سے پکڑ لو اور تفرقے میں نہ پڑو ۔ میں نے بالکل ہے ۔ پوچھنے لگا کہ اس آیت سے کیا مراد ہے ۔ ؟ میں نے صاف سیدھی بات ہے کہ اللہ نے مسلمانوں کو اللہ کی ذات کو مرکز بناتے اتحاد و اتفاق کی تلقین کی ہے ۔ کہنے لگا کہ جو یہ آیت نہ مانے یا اس سے اختلاف کرے کیا وہ مسلمان رہےگا ۔۔۔ ۔۔؟
میں نے جھٹ سے کہہ دیا کہ اللہ کی آیتوں کا انکار کرنے والا تو مسلمان نہیں رہے گا ۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔۔ ۔
کہنے لگا کیا آپ نے یہ حدیث سنی ہے جو کہ مسلمانوں کے رسول سے ثابت ہے ۔ ؟ میں نے پوچھا کون سی حدیث ؟
کہنے لگا کہ وہ جس میں کہا گیا ہے کہ " میری امت میں بہتر تہتر فرقے ہوں گے اور اک فرقہ ناجی ہوگا "
میں نے اقرار کیا کہ بالکل ہے اور اس کی بنیاد اختلاف پر ہے ۔ تو کہنے لگا کہ مسلمان کے لیئے کس کی بات اہم ہوگی ۔
اللہ کی یا اللہ کے رسول کی ؟
مجھے جب اس کی بات کی سمجھ آئی تو میں نے کان لپیٹے اور کہا کہ ذرا کفیل سے مل آؤں اس نے بلایا تھا ۔۔۔ ۔۔۔ ۔
سو اک صفحہ روز افاقہ لازم درست لکھا آپ نے ۔۔۔ ۔۔۔
میں کچھ شیئر کروں گا مگر افاقہ ہونے پر۔
فی الحال اللہ ہی حافظ ہم سب کا!
 

عدیل منا

محفلین
محترم بھائی آپ کا تبصرہ پڑھ کر اک قصہ یاد آگیا ۔ کافی عرصہ قبل کی بات ہے ۔ نیا نیا مسلمان بنا تھا سعودی عرب آ کر ۔ اور بات بات میں قران و حدیث کے ذکر سے مشرف ہوتے غیر مسلموں سے بحث کرتے بزعم تبلیغ جنت کماتا تھا ۔ اک دن اک کرسچن نے مجھے کہا کہ کیا آپ میرے کچھ اعتراضات کے جوابات دے سکتے ہیں جو کہ آپ کے قران و حدیث سے متعلق ہیں ۔ اندھا کیا چاہے دو آنکھیں ۔ حامی بھر لی ۔۔۔ بات شروع ہوئی ۔
کہنے لگا کہ کیا آپ جانتے ہیں کہ قران کی اک آیت ہے جس میں قران نے مسلمانوں سے کہا ہے کہ " اللہ کی رسی کو مضبوطی سے پکڑ لو اور تفرقے میں نہ پڑو ۔ میں نے بالکل ہے ۔ پوچھنے لگا کہ اس آیت سے کیا مراد ہے ۔ ؟ میں نے صاف سیدھی بات ہے کہ اللہ نے مسلمانوں کو اللہ کی ذات کو مرکز بناتے اتحاد و اتفاق کی تلقین کی ہے ۔ کہنے لگا کہ جو یہ آیت نہ مانے یا اس سے اختلاف کرے کیا وہ مسلمان رہےگا ۔۔۔ ۔۔؟
میں نے جھٹ سے کہہ دیا کہ اللہ کی آیتوں کا انکار کرنے والا تو مسلمان نہیں رہے گا ۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔۔ ۔
کہنے لگا کیا آپ نے یہ حدیث سنی ہے جو کہ مسلمانوں کے رسول سے ثابت ہے ۔ ؟ میں نے پوچھا کون سی حدیث ؟
کہنے لگا کہ وہ جس میں کہا گیا ہے کہ " میری امت میں بہتر تہتر فرقے ہوں گے اور اک فرقہ ناجی ہوگا "
میں نے اقرار کیا کہ بالکل ہے اور اس کی بنیاد اختلاف پر ہے ۔ تو کہنے لگا کہ مسلمان کے لیئے کس کی بات اہم ہوگی ۔
اللہ کی یا اللہ کے رسول کی ؟
مجھے جب اس کی بات کی سمجھ آئی تو میں نے کان لپیٹے اور کہا کہ ذرا کفیل سے مل آؤں اس نے بلایا تھا ۔۔۔ ۔۔۔ ۔
سو اک صفحہ روز افاقہ لازم درست لکھا آپ نے ۔۔۔ ۔۔۔
اللہ تعالیٰ فرقے بنانے سے منع فرما رہے ہیں دوسری طرف اس حدیث کو بنیاد بنا کر فرقے بنانے کا جواز پیش کیا جاتا ہے۔ جبکہ حدیث کے الفاظ پر غور کیا جائے تو "فرقے ہونگے" فرمایا ہے۔ یہ نہیں فرمایا کہ فرقے بناؤ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے جیسے اور پیشن گوئیاں کی ہیں یہ بھی انہی میں سے ایک ہے۔
 

صرف علی

محفلین
السلام علیکم
خاک کربلا کا عصر عاشور خون کے رنگ میں تبدیل ہونا تو حادیث میں بھی آیا ہے :
شیعہ اور سنی کتب میں منقولہ معتبر احادیث میں مروی ہے کہ جبرائیل امین (ع) نے کربلا کی خاک میں سے تھوڑی سی مٹی امام حسین علیہ السلام کی شہادت کی خبر کے ساتھ ہی رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے سپرد کی اور رسول اکرم (ص) نے وہ مٹی ام المؤمنین امّ سلمہ کے پاس رکھ لی اور فرمایا: “جب اس مٹی کا رنگ خون کے رنگ میں بدل جائے تو سمجھ لینا کہ میرے فرزند حسین (علیہ السلام) کربلا کی سرزمین پر قتل ہوئے ہیں”۔
حدیث کا متن یہ ہے: عن عمر بن ثابت عن الاعمش عن شقيق عن امّ سلمة قالت: كان الحسن والحسين (عليهما السلام) يلعبان بين يدي رسول اللّه (صلى الله عليه وآله) في بيتي؛ فنزل جبریل فقال: “يا محمّد إن امتك تقتل ابنك هذا من بعدك” و أومأ بيده إلى الحسين(ع). فبكى رسول اللّه (صلى الله عليه وآله) وضمّه إلى صدره ثم قال رسول اللّه(ص): “وضعت عندك هذه التربة” فشمّها رسول اللّه (ص) قال: ريح كرب و بلاء، و قال: “يا ام سلمة إذا تحولت هذه التربة دماً فاعلمي أن ابني قد قتل”.
ترجمه: عمر بن ثابت نے اعمش سے اور اعمش نے شقیق سے روایت کی ہے کہ جناب ام سلمہ نے کہا: ایک دن حسن اور حسین علیہما السلام میرے گھر میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے سامنے کھیل رہے تھے کہ اسی وقت جبرائیل (ع) نازل ہوئے اور رسول اللہ (ص) سے عرض کیا: آپ کے بعد آپ کی امت آپ کے اس بیٹے کو قتل کرے گی اور امام حسین علیہ السلام کی طرف ہاتھ سے اشارہ کیا۔ رسول اللہ (ص) روئے اور امام حسین (ع) کو اپنے سینے سے لگایا۔ اس کے بعد رسول اللہ (ص) نے جبرائیل کی دی ہوئی مٹی کو سونگھا اور فرمایا “اس سے کرب و بلاء کی بو آرہی ہے۔ اور مجھ سے مخاطب ہوکر فرمایا: اے ام سلمہ! میں یہ مٹی تمہارے پاس رکھتا ہوں اور جب یہ خون میں بدل جائے تو جان لو کہ میرے بیٹے حسین قتل کئے گئے ہیں۔
سنی محدثین ۔ جنہوں نے یہ حدیث نقل کی ہے ۔ میں سے بعض کے نام درج ذیل ہیں:
ابن حجر عسقلانی، “تہذيب الہذیب”،
ابن ابی بکر ہیثمی، “مجمع الزوائد”
الطبرانی، “المعجم الکبیر

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اور آج بھی ایسا ہوتا ہے یہ کوئی بڑی بات نہیں ہے کیوں کے امام حسین علیہ السلام کا قتل کیا جانا بڑی بات ہے کہ آپ کو ان لوگوں نے قتل کیا جو خود کو مسلمان کہتے تھے ۔
 

شاکرالقادری

لائبریرین
میں پہلا اقتباس اپنے مراسلے کا نقل کر رہا ہوں پھر اس کے بعد قیصرانی صاحب کی نصیحت اور پھر فاتح صاحب کے حق الیقین کی بات کو کوٹ کر رہا ہوں۔۔ آپ اقتباسات پڑھیے میں ان کے بعد اپنا تبصر لکھتا ہوں:

شکریہ فاتح ۔۔۔ ۔ آپ نے جرات مندی سے خدا اور مذہب کا انکار کیا۔۔۔ مجھے اب کوئی پریشانی نہیں
کسی نے ویسے ہی میرے کان میں کہہ دیا تھا کہ آپ قادیان کے مدعی نبوت کو ماننے والے ہیں
اور آپ کے نام کی ترتیب و تدوین سے سرگوشی کرنے والے کی کسی حد تک تائید بھی ہو رہی تھی۔

سنی سنائی بات کو بغیر تصدیق آگے بڑھانا آپ جیسی علمی، ادبی اور ایک طرح سے مذہبی شخصیت کو زیب نہیں دیتا :)

آپ جیسے لوگوں کا مسئلہ ہی ہے کہ کانوں میں کی گئی سرگوشیوں کو اپنے ایمان اور عقائد کی بنیاد بنا لیتے ہیں۔
اگر میں مرزا غلام احمد قادیانی کو باقی مذہبی پیشواؤں، رہنماؤں یا انبیا سے بہتر مانتا ہوتا تو مجھے ببانگ دہل یہ کہنے سے آپ سمیت کوئی نہ روک پاتا کیونکہ مجھ سے دیرینہ تعلق کی بنا پر یہ تو آپ جانتے ہی ہیں کہ ڈرتا میں کسی کے باپ سے بھی نہیں۔ :)
آپ نے تو محض سرگوشی ہی سن کر اسے ایمان کا جزو بنا لیا تھا مگر ہم تو "عین الیقین" کے درجے پر فائز ہیں کہ جب آپ ہمارے غریب خانے پر تشریف لائے تھے تب آپ نے اپنی ایک ویڈیو ہماری ہارڈ ڈسک پر کاپی کی تھی جس میں درخت کی شاخوں کے سائے سے بننے والی اتفاقیہ بے سر و پا شکلوں کو آپ سمیت آپ کے گاؤں کے کافی لوگ اسم "اللہ" سمجھ کر چوما چاٹی اور پوجا کر رہے تھے۔ تب ہم ایمان لے آئے تھے آپ کی ضعیف الاعتقادی پر۔ اس ویڈیو کے لیے ہم آپ کے شکرگزار ہیں کہ ہم نے دو مختلف کانفرنسز میں اپنی پریزنٹیشن میں وہ ویڈیو شامل کی تھی اس ٹیگ کے ساتھ کہ we see what we want to see (ہم وہی دیکھتے ہیں جو دیکھنا چاہتے ہیں)۔ :)
پہلے قیصرانی کے تبصرہ پر تبصرہ:

حضور والا۔! کیا میں نے کسی سنی سنائی بات کو پھیلایا اگر پھیلایا تو کہاں ہے اس کا ثبوت؟
فاتح کی جانب سے خدا اور مذہب کے انکار کے بعد میں نے براہ راست ان سے کہا تھا کہ اچھا ہوا آپ نے حقیقت بتا دی میرے کان میں تو "ویسے ہی" کسی نے کہہ دیا تھا ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔!
کیا محفل پر موجود کوئی بھی شخص یہ ثبوت فراہم کر سکتا ہے کہ میں نے کہیں اس بات کو پھیلایا ہو کہ فاتح قادیانی ہے اگر کوئی ثبوت نہیں تو آپ جیسے پڑھے لکھے شخص کا مجھ پر الزام کیا حیثیت رکھتا ہے۔ جو آپ نے خود ہی مجھے مجرم تصور کر کے یہ نصیحت شروع کر دی کہ "آپ جیسی علمی، ادبی اور ایک طرح سے مذہبی شخصیت کو زیب نہیں دیتا :)"
قیصرانی! میری شخصیت علمی ادبی ہو یا میری حیثیت محص ایک جاہل کی سی ہو لیکن میں لفظ جو استعمال کرتا ہوں وہ سوچ بچار کے بعد استعمال کرتا ہوں مجھے آپ سے یہ توقع نہیں تھی
بریں عقل و دانش بباید گریست
مجھے تو اس عقل و دانش پر رونا آنا رہا ہے۔
اب ذرا فاتح کی بات پر تبصرہ:

فاتح صاحب! آپ تو شاعر ہیں، ادیب ہیں، اور ماہر نفسیات ہیں ۔۔۔۔ الفاظ کا ان کے درست معانی کے ساتھ استعمال آپ سے بہتر کون جانتا ہوگا۔ ۔ ۔ میں تو اسے شاعر یا ادیب ہی ماننے کو تیار نہیں جو حرف و لفظ کے ساتھ منصفانہ برتاؤ نہ کرے ۔۔۔ ۔۔ بلالایئے اپنے دور کے کسی سب سے بڑے مستند شاعر ادیب اور ماہر لسانیات کو اور میرے مراسلے کو پڑھوا کر اس سے پوچھیے کہ میں مقتبسہ جملوں میں وہ کونسی بات ہے وہ کون سے الفاظ ہیں جن کی بنا پر آپ نے یہ بات اخذ کر لی کہ:
آپ نے تو محض سرگوشی ہی سن کر اسے ایمان کا جزو بنا لیا تھا

آپ مجھے نفسیات کی بات بتاتے ہیں اور اپنے "عین الیقین" کا دعوی کرے ہیں لیکں مجھے معلوم نہیں وہ کونسی نفسیاتی کیفیت تھی یا آپ کے دماغ کے کون کون سے خلیوں میں ایسا کیمیائی تعامل ہوا کہ میرے مراسلے میں آپ کو وہ الفا ظ نظر نہ آئے جو پوری کی پوری سرگوشی کو غیر مصدقہ اور مشکوک ثابت کر رہے تھے چلیے میں آپ کو دوبارہ دکھا دیتا ہوں ۔
کسی نے ویسے ہی میرے کان میں کہہ دیا تھا کہ آپ قادیان کے مدعی نبوت کو ماننے والے ہیں
اور آپ کے نام کی ترتیب و تدوین سے سرگوشی کرنے والے کی کسی حد تک تائید بھی ہو رہی تھی۔
براہ کرم اپنے رویوں پر غور کیجئے

شکریہ
 

قیصرانی

لائبریرین
میں پہلا اقتباس اپنے مراسلے کا نقل کر رہا ہوں پھر اس کے بعد قیصرانی صاحب کی نصیحت اور پھر فاتح صاحب کے حق الیقین کی بات کو کوٹ کر رہا ہوں۔۔ آپ اقتباسات پڑھیے میں ان کے بعد اپنا تبصر لکھتا ہوں:






پہلے قیصرانی کے تبصرہ پر تبصرہ:

حضور والا۔! کیا میں نے کسی سنی سنائی بات کو پھیلایا اگر پھیلایا تو کہاں ہے اس کا ثبوت؟
فاتح کی جانب سے خدا اور مذہب کے انکار کے بعد میں نے براہ راست ان سے کہا تھا کہ اچھا ہوا آپ نے حقیقت بتا دی میرے کان میں تو "ویسے ہی" کسی نے کہہ دیا تھا ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔!
کیا محفل پر موجود کوئی بھی شخص یہ ثبوت فراہم کر سکتا ہے کہ میں نے کہیں اس بات کو پھیلایا ہو کہ فاتح قادیانی ہے اگر کوئی ثبوت نہیں تو آپ جیسے پڑھے لکھے شخص کا مجھ پر الزام کیا حیثیت رکھتا ہے۔ جو آپ نے خود ہی مجھے مجرم تصور کر کے یہ نصیحت شروع کر دی کہ "آپ جیسی علمی، ادبی اور ایک طرح سے مذہبی شخصیت کو زیب نہیں دیتا :)"
قیصرانی! میری شخصیت علمی ادبی ہو یا میری حیثیت محص ایک جاہل کی سی ہو لیکن میں لفظ جو استعمال کرتا ہوں وہ سوچ بچار کے بعد استعمال کرتا ہوں مجھے آپ سے یہ توقع نہیں تھی
بریں عقل و دانش بباید گریست
مجھے تو اس عقل و دانش پر رونا آنا رہا ہے۔
اب ذرا فاتح کی بات پر تبصرہ:

فاتح صاحب! آپ تو شاعر ہیں، ادیب ہیں، اور ماہر نفسیات ہیں ۔۔۔ ۔ الفاظ کا ان کے درست معانی کے ساتھ استعمال آپ سے بہتر کون جانتا ہوگا۔ ۔ ۔ میں تو اسے شاعر یا ادیب ہی ماننے کو تیار نہیں جو حرف و لفظ کے ساتھ منصفانہ برتاؤ نہ کرے ۔۔۔ اور آپ تو "حق الیقین" کی منزل پر فائز ہونے کے دعویدار ہیں ۔۔ بلالایئے اپنے دور کے کسی سب سے بڑے مستند شاعر ادیب اور ماہر لسانیات کو اور میرے مراسلے کو پڑھوا کر اس سے پوچھیے کہ میں مقتبسہ جملوں میں وہ کونسی بات ہے وہ کون سے الفاظ ہیں جن کی بنا پر آپ نے یہ بات اخذ کر لی کہ:


آپ مجھے نفسیات کی بات بتاتے ہیں اور اپنے "عین الیقین" کا دعوی کرے ہیں لیکں مجھے معلوم نہیں وہ کونسی نفسیاتی کیفیت تھی یا آپ کے دماغ کے کون کون سے خلیوں میں ایسا کیمیائی تعامل ہوا کہ میرے مراسلے میں آپ کو وہ الفا ظ نظر نہ آئے جو پوری کی پوری سرگوشی کو غیر مصدقہ اور مشکوک ثابت کر رہے تھے چلیے میں آپ کو دوبارہ دکھا دیتا ہوں ۔

براہ کرم اپنے رویوں پر غور کیجئے

شکریہ
محترم آپ نے خود فرمایا تھا کہ "میرے کان میں کسی نے سرگوشی کی۔ آپ نے وہ سرگوشی محفل پر لکھ دی۔ اب بتائیے کہ سرگوشی بھی "کسی" نے کی، یعنی آپ نے کسی سے بات سنی اور اس کو آگے محفل پر لکھ دیا۔ اگر یہی بات آپ نے "کسی" کی بجائے نام لے کر کہی ہوتی تو اور بات تھی۔ تاہم آپ اپنی جگہ خوش رہیئے ہم اپنی جگہ خوش ہیں۔ مجھے کسی بزرگ کو نصیحت کا شوق نہیں ہے۔ آپ میرے بڑے ہیں۔ اگر آپ کو میری بات بری لگی تو براہ راست ڈانٹ سکتے ہیں۔ تاہم اگر جواب الجواب کی بات ہے تو پھر میری بات وہیں کہ

میرے کان میں کسی نے سرگوشی کی

کی وضاحت کیجئے کہ کیا یہ بات "محض سنی سنائی" کی درجہ بندی میں ہے یا نہیں؟ پھر آپ نے محفل پر اس بات کو لکھ بھی دیا۔ کیا اس سے بڑھ کر کچھ اور ہو سکتا ہے پھیلانے کے ضمن میں؟
 

شاکرالقادری

لائبریرین
قیصرانی! میں اب اس کے بعد او کچھ نہیں کہونگا کہ میں نے ایک بات کے جواب میں براہ راست اسی شخص سے مخاطب ہو کراس بات کا اظہار کیا تھا کہ:

"اچھا ہوا آپ نے حقیقت آشکار کردی ۔ ورنہ مجھے تو کوئی ایسے ہی یہ بات بتا رہا تھا"

جب تک فاتح نے حقیقت آشکا رنہیں کی تھی میں نے سنی سنائی کو نہ تو سچ جانا۔ اور نہ ہی اس کو پھیلایا ۔ فاتح سے کی گئی گفتگو سے پہلے اور فاتح کی تصدیق سے پہلے اگگر میں نے سنی سنائی بات کو کہیں پھیلایا ہو تو آپ ضرور نشاندہی کریں اور نصیحت کا شوق بھی پورا کریں۔۔ اب فاتح نے سچی اور درست بات بتا دی ہے۔ اور یہ سنی سنائی نہیں ہے۔ اب اس بات کو میں اپنے آپ تک محدود رکھوں یا اس کا راوی بن کر اسے پھیلاؤں مجھے اس کا پورا حق ہے ۔ کیوں کہ بات منہ سے نکل جائے تو وہ اپنی نہیں رہتی دوسرے کی ہو جاتی ہے۔ فاتح نے نہایت جرات اور پامردی سے اپنی بات مجھے بتائی ہے اور یہ بھی بتایا ہے کہ وہ حق بات کرنے کے لیے کسی کے باپ سے بھی نہیں ڈرتے۔

میں بھی حق بات کہنے کے لیے کسی کے باپ سے ڈروں یا نہ ڈروں ۔۔۔۔۔ اپنے اللہ سے ضرور ڈرتا ہوں ۔۔۔ اور حق بات یہی ہے کہ میں نے فاتح کے بارے میں ان سے تصدیق کیے بغیر نہ تو کوئی بات پھیلائی ہے اور نہ آئندہ پھیلاؤنگا ۔۔ کیونکہ میرے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا مکمل فرمان یہی ہے:
کسی کے جھوٹا ہونے کے لیے یہ بات کافی ہے کہ وہ ہر سنی سنائی بات کو بغیر تصدیق کے پھیلاتا پھرے۔

اور یہ بات تو آپ کو پتہ ہے کہ میں نے فاتح سے بات کرتے ہوئے تصدیق چاہی تھی ۔۔۔ سو انہوں نے اپنے قادیانی ہونے کی تصدیق نہیں کی بلکہ سرے سے ہی خدا اور مذاہب سے انکار کر دیا۔
سو بات ختم
وما علینا الاالبلاغ
 

قیصرانی

لائبریرین
قیصرانی! میں اب اس کے بعد او کچھ نہیں کہونگا کہ میں نے ایک بات کے جواب میں براہ راست اسی شخص سے مخاطب ہو کراس بات کا اظہار کیا تھا کہ:

"اچھا ہوا آپ نے حقیقت آشکار کردی ۔ ورنہ مجھے تو کوئی ایسے ہی یہ بات بتا رہا تھا"

جب تک فاتح نے حقیقت آشکا رنہیں کی تھی میں نے سنی سنائی کو نہ تو سچ جانا۔ اور نہ ہی اس کو پھیلایا ۔ فاتح سے کی گئی گفتگو سے پہلے اور فاتح کی تصدیق سے پہلے اگگر میں نے سنی سنائی بات کو کہیں پھیلایا ہو تو آپ ضرور نشاندہی کریں اور نصیحت کا شوق بھی پورا کریں۔۔ اب فاتح نے سچی اور درست بات بتا دی ہے۔ اور یہ سنی سنائی نہیں ہے۔ اب اس بات کو میں اپنے آپ تک محدود رکھوں یا اس کا راوی بن کر اسے پھیلاؤں مجھے اس کا پورا حق ہے ۔ کیوں کہ بات منہ سے نکل جائے تو وہ اپنی نہیں رہتی دوسرے کی ہو جاتی ہے۔ فاتح نے نہایت جرات اور پامردی سے اپنی بات مجھے بتائی ہے اور یہ بھی بتایا ہے کہ وہ حق بات کرنے کے لیے کسی کے باپ سے بھی نہیں ڈرتے۔

میں بھی حق بات کہنے کے لیے کسی کے باپ سے ڈروں یا نہ ڈروں ۔۔۔ ۔۔ اپنے اللہ سے ضرور ڈرتا ہوں ۔۔۔ اور حق بات یہی ہے کہ میں نے فاتح کے بارے میں ان سے تصدیق کیے بغیر نہ تو کوئی بات پھیلائی ہے اور نہ آئندہ پھیلاؤنگا ۔۔ کیونکہ میرے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا مکمل فرمان یہی ہے:
کسی کے جھوٹا ہونے کے لیے یہ بات کافی ہے کہ وہ ہر سنی سنائی بات کو بغیر تصدیق کے پھیلاتا پھرے۔

اور یہ بات تو آپ کو پتہ ہے کہ میں نے فاتح سے بات کرتے ہوئے تصدیق چاہی تھی ۔۔۔ سو انہوں نے اپنے قادیانی ہونے کی تصدیق نہیں کی بلکہ سرے سے ہی خدا اور مذاہب سے انکار کر دیا۔
سو بات ختم
وما علینا الاالبلاغ
محترم یہ تو آپ نے پورا پنڈورا بکس کھول دیا ہے۔ کل کلاں تو کوئی بھی کسی کے بارے کوئی بھی بات کہہ سکتا ہے کہ

میرے کان میں کسی نے سرگوشی کی تھی۔۔۔

خیر، بات کو یہیں ختم کر دیں تو بہتر رہے گا۔ آج کا دن ویسے بھی آپ کے نام ہے۔ ہم آپ کی خوشیوں کو تکلیف میں نہیں بدلنا چاہتے :)
 
میرے علم کے مطابق ہر سال 10 محرم کو یہ مٹی اپنا رنگ تبدیل کر لیتی ہے۔ اس میں کس حد تک سچائی ہے؟

محترم یوسف ثانی بھائی نے جو تحریر کیا تھا، میں اس سے متفق ہوں۔ اول تو یہ معجزہ نہیں۔ اسے کرامت کہنے میں بھی تردد ہے کیونکہ وہ اولیاء کے ہاتھوں ظہور پذیر ہوتی ہے جس میں ان کی اپنی خواہش کا بھی دخل نہیں ہوتا۔ یہ صرف ایک مٹی کا ڈھیلا ہے جسے شیشے میں سجا دیا گیا ہے۔ اس پر ایمان یا یقین کرنا ضروری نہیں کیونکہ یہ کوئی اعتقادی مسئلہ نہیں اور نہ یہ کسی نص سے ثابت ہے کہ اس کو لازماً مانا جائے جبکہ اسکا انکار بھی کفر و گمراہی میں داخل نہیں ہے۔عام طور پر ایسی حرکات بعض لوگ سستی شہرت حاصل کرنے کیلئے بھی کرتے ہیں۔
سانحہ کربلا کے حوالے سے عوام میں بہت سی قصے کہانیاں پھیلی ہوئی ہیں۔ اس میں صحیح روایات بہت کم ہیں۔سیدنا حسین رضی اللہ عنہ کو جس طرح ظلم کرکے شہید کیا گیا ، وہ انسانی تاریخ کا سیاہ ترین واقعہ تھا۔ اس کا رنج و غم ہر سچے عاشق رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو ہے کیونکہ سیدنا حسین رضی اللہ عنہ جگر گوشہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم تھے۔ رضی اللہ عنہ وارضاہ

البتہ ہمیں چاہیے کہ اپنے دینی شعور کو بڑھائیں اور ضعیف الاعتقادی سے بچیں۔ یہ اسی صورت میں ممکن ہوگا جب ہم قرآن و سنت کو باقاعدی اپنی زندگیوں کا حصہ بنائیں گے۔ عدیل منا بھائی نے اچھا کیا کہ آنکھیں بند کر کے مان لینے کی بجائے تحقیق کرنا ضروری سمجھی۔
 

میر انیس

لائبریرین
محترم یوسف ثانی بھائی نے جو تحریر کیا تھا، میں اس سے متفق ہوں۔ اول تو یہ معجزہ نہیں۔ اسے کرامت کہنے میں بھی تردد ہے کیونکہ وہ اولیاء کے ہاتھوں ظہور پذیر ہوتی ہے جس میں ان کی اپنی خواہش کا بھی دخل نہیں ہوتا۔ یہ صرف ایک مٹی کا ڈھیلا ہے جسے شیشے میں سجا دیا گیا ہے۔ اس پر ایمان یا یقین کرنا ضروری نہیں کیونکہ یہ کوئی اعتقادی مسئلہ نہیں اور نہ یہ کسی نص سے ثابت ہے کہ اس کو لازماً مانا جائے جبکہ اسکا انکار بھی کفر و گمراہی میں داخل نہیں ہے۔عام طور پر ایسی حرکات بعض لوگ سستی شہرت حاصل کرنے کیلئے بھی کرتے ہیں۔
آپ کو بیشک یہ حق حاصل ہے کہ جس کی بات سے متفق ہونا چاہیں ہوجائیں بالکل اسی طرح ہم لوگوں کو یہ حق حاصل ہے کہ جس بات پریقین چاہے کریں۔پر میں پھر بھی آپ سے یہ ضرور پوچھنا چاہوں گا کہ قران کی کس آیت میں یہ آیا ہے کہ اگر نبی سے کوئی ایسا کام سر زرد ہو تو وہ معجزہ اور نبی کے کسی نائب یا وصی یا کسی ولی سے سرزرد ہو تو وہ کرامت اگر ایسی کوئی حدیث موجود ہے تو وہ یہاں ضرور حوالے کے طور پر پیش کریں۔ دوسرے ہم اسکو معجزہ کیوں کہتے ہیں یہ میں تفصیل سے بیان کر چکا ہوں شاید وہ آپ نے نہیں پڑھاآپ نے کہا کرامت بھی جب کہی جاسکتی تھی جب کسی ولی کے ہاتھ سے ہوتی یہ تو ایک مٹی کا ڈھیلا ہے اور نص سے ثابت نہیں ہے۔ عام طور پر ہم اگر کسی بات سے اپنے عقیدے کے مطابق متفق نہیں ہوتے تو اس میں منطقیں بھی اپنی ہی لگاتے ہیں ۔ جناب جن مٹی کے ڈھیلوں نے آنحضرت (ص) کے ہاتھ میں آکر کلمہ پڑھا تھا وہ بھی محض مٹی کے ڈھیلے ہی تھے اور معجزہ ہوتا ہی وہ ہے جو عام طور پر ہو ہی نہیں سکتا ہو جسکو کرنے سے سب عاجز ہوں یہ الگ بات ہے کہ وہ مٹی کے ڈھیلے جو زمین میں ٹھوکرے کھاتے پھر رہے ہیں انکو ایک نبی اپنے ہاتھ میں لے لے تو وہ خاص بن جائیں اور عام کے ڈھیلے حضرت جبرئیل علیہ السلام کے قدموں سے مس ہوجائیں تو خود بخود حرکت کرنےلگیںہیں اور اسکا فائدہ سامری اٹھالے اگر کس نبی کے جانشین کا خون اس میں مل جائیں تو وہ قیامت تک کے لئے خاص بن جائیں اور خالص اللہ کیلئے دی جانے والی قربانی کی ہمیشہ کیلئے یاد گار بن جائیں۔یہ عام مٹی کے ڈھیلے نہیں ہیں انکا رنگ بدلے یا نہیں پر کم از کم آپ کا اس پر تو ایمان ہونا چاہیئے کہ اس میں خاندانَ عصمت و طہارت کا پاک و پاکیزہ خون لگا ہے تو اب یہ عام مٹی کے ڈھیلے نہیں رہے۔اور اس بات سے کون سستی شہرت حاصل کر رہا ہے یہ بھی بتادیں جن لوگوں نے یہ دعوٰی کیا وہ تو اسکا کسی سے نہ کوئی ہدیہ مانگتے ہیں نا ہی انہوں نے مشہور ہونے کی کوشش کی یہاں تک کے لوگ تو انکا نام تک بھی نہیں جانتے۔ پر میں کیا کروں کہ یہ سب میں نے اپنی آنکھوں سے دیکھا ہے اور آپ کو بھی دکھا سکتا ہوں اگر آپ آئیندہ عاشور والے دن مجھ سے مل لیں تو پھر جتنے ٹیسٹ چاہیں کر لیجئے گا۔اور آخر میں ایک بات آپ نے یہ کیا کہا کہ کرامت وہ ہوتی ہے جو اولیا کے ہاتھ سے ظہور پزیر ہو اور ان میں انکی اپنی خواہش کا دخل نہ ہو یہ آپ نے کیسی انوکھی بات کی ہے جناب اگر انکی اپنی خواہش ظاہر نہ ہو تو وہ کرامت کیسے بنے گی کرامت تو جب ہی ہوگی کہ وہ جو خواہش کریں اللہ وہ پوری کرے میں تو ایسے کسی ولی کو ولی نہیں مانتا جسکی رضا میں اللہ کی رضا شامل نہ ہو وہ خواہش کرے شکر نمک بن جائے تو اللہ اسکو نمک کو شکر بنادے اگر وہ خواہش کریں کہ قالین کا شیر مجسم حالت میں آجائے تو اللہ انکی یہ آرزو فورا پوری کردے
اگر وہ خواہش کریں کہ پہاڑ اپنی جگہ چھوڑ دے تو اللہ پہاڑ کو حکم دے کہ چونکہ میرا نہایت عبادت گذار اور مطیع بندے چاہتا ہے کہ تو اپنی جگہ چھوڑ دے تو تُو سرک جا۔
 
آپ کو بیشک یہ حق حاصل ہے کہ جس کی بات سے متفق ہونا چاہیں ہوجائیں بالکل اسی طرح ہم لوگوں کو یہ حق حاصل ہے کہ جس بات پریقین چاہے کریں۔پر میں پھر بھی آپ سے یہ ضرور پوچھنا چاہوں گا کہ قران کی کس آیت میں یہ آیا ہے کہ اگر نبی سے کوئی ایسا کام سر زرد ہو تو وہ معجزہ اور نبی کے کسی نائب یا وصی یا کسی ولی سے سرزرد ہو تو وہ کرامت اگر ایسی کوئی حدیث موجود ہے تو وہ یہاں ضرور حوالے کے طور پر پیش کریں۔ دوسرے ہم اسکو معجزہ کیوں کہتے ہیں یہ میں تفصیل سے بیان کر چکا ہوں شاید وہ آپ نے نہیں پڑھاآپ نے کہا کرامت بھی جب کہی جاسکتی تھی جب کسی ولی کے ہاتھ سے ہوتی یہ تو ایک مٹی کا ڈھیلا ہے اور نص سے ثابت نہیں ہے۔

جناب ! معجزہ "عجز“ سے ہے یعنی وہ کام جس سے دوسرے عاجز ہوں اور وہ اللہ اپنے برگزیدہ نبیوں علیھم السلام کے ذریعے ظاہر کرواتا ہے کیونکہ معجزہ بھی دعوتِ دین کیلئے ہوتا ہے اور اس کے ذریعے تصدیق نبوت ہوتی ہے کہ عوام کو یقین آجائے کہ یہ کام عام آدمی نہیں کرسکتا اور یقینا اللہ کی تائید اس بندے (نبی) کے ساتھ ہے مثلا سیدنا ابراہیم علیہ السلام پر آگ کا ٹھنڈا ہونا، عصائے سیدنا موسیٰ کا اژدھا بننا، سیدنا صالح علیہ السلام کی اونٹنی کا پہاڑ سے نکلنا، آقائے دوجہاں ﷺ کا چاند دو ٹکڑے کرنا وغیرہ۔ اسی لیے معجزہ کا لفظ انبیاء کے ساتھ خاص کردیا گیا ہے۔ اس کی وجہ یہی ہے کہ نبی ہر وقت اللہ کی حفاظت میں ہوتا ہے اور وہ اللہ کی مرضی کے خلاف کوئی کام نہیں کرتا کیونکہ اس پر وحی نازل کی جاتی ہے۔
کرامت "اکرام“ سے ہے ۔اولیاء کی خوارق عادات کو انبیاء علیھم السلام سے متفرق کرنے کیلئے کرامات کا نام دیا گیا ہے کیونکہ ولی نبوت کا دعویٰ نہیں کرتا اور کرامت اسی ولی سے صادر ہوتی ہے جو متقی اور متبع سنت ہو مثلا حضرت مریم علیھا السلام کیلئے بے موسمی پھلوں کا سامنے آنا، ان کے بطن سے بن باپ کے سیدنا عیسیٰ علیہ السلام کا پیدا ہونا، سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کا ساریۃ الجبل کا واقعہ ، سیدنا اسید بن حضیر کا تلاوت قرآن کے وقت سر پر سایہ کا نمودار ہونا وغیرہ۔ یہ تقسیم میری نہیں بلکہ علمائے اسلام اور سلف صالحین کی ہے۔
علمائے اسلام نے ان دونوں میں یہ فرق بھی لکھا ہے کہ معجزہ سے نبی کفار کے سامنے حجت قائم کرتا ہے اور ولی کی کرامت خود اس ولی کی تکریم کیلئے ظہور پذیر ہوتی ہے یا دین کی نصرت کیلئے۔ولی کی کرامت خود اس کیلئے دلیل اور قلبی اطمینان کا باعث بنتی ہے کہ وہ صراط مستقم پر ہے اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت شریفہ پر گامزن ہے۔جو شخص متبع سنت نہ ہو، اس کے ذریعے اگر کچھ عجیب بات ظہور پذیر ہو تو وہ شیطانی دھوکہ کہلاتی ہے۔
سیدنا حسین رضی اللہ عنہ پر میں اور میرا خاندان قربان، یہ عاصی و گناہ گار تو خود ان کی اولاد سے ہے۔ لہو تو دور کی بات ، اگر اس مٹی کا یقین ہوچلے کہ یہ سیدنا حسین رضی اللہ عنہ کے نعل شریف سے مس ہوئی ہے تو میں اسے محبت سے اپنی آنکھوں کا سرمہ بنالوں۔
لیکن یہ ضعیف الاعتقادی ہوگی کہ محض کسی کے دعویٰ کرنے سے ہم یہ مان لیں کہ واقعی یہ کربلا کی مٹی ہے۔آپ خود فیصلہ کیجئے کہ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشاد مبارک کی بھی تحقیق کی جاتی ہے کہ آیا فلاں روایت صحیح ہے یا نہیں ، اس کے راوی سچے، عادل اور دیانت دار ہیں کہ نہیں ، تب ہی وہ حدیث قبول کی جاتی ہے اور اس سے استدلال کیا جاتا ہے۔ یہ تو محض مٹی کا ایک ٹکڑا ہے۔
آپ نے اعتراض کیا ہے کہ اولیاء کے اذن کے بغیر کیسے کرامت کیسے ظہور پذیر ہوتی ہے تو اس کا یہی جواب ہے کہ اللہ کا ولی اپنی مرضی اور خواہش چھوڑ کر اللہ کی مرضی اپنا لیتا ہے۔ اس لیے اللہ اس کے ذریعے خارق عادت کا ظہور کروادیتا ہے۔معجزہ اور کرامت کا فرق اور غرض و غایت پہلے لکھ چکا ہوں ، مزید تشفی کیلئے علماء سے رجوع کیجئے۔
 

عسکری

معطل
یہ پرسنلی کیا کیا ہو رہا ہے محفل پر؟ اٹینشن !!!!!!!!!!!!!!!!!!! آجکل موضوع سے زیادہ ایک دوسرے کو تمیز سکھائی جا رہی ہے مولا خیر کرے :grin: مجھے بھی کل دو بندوں سے کہا سوچ کر بولا کریں :mrgreen:
 

میر انیس

لائبریرین
جناب ! معجزہ "عجز“ سے ہے یعنی وہ کام جس سے دوسرے عاجز ہوں اور وہ اللہ اپنے برگزیدہ نبیوں علیھم السلام کے ذریعے ظاہر کرواتا ہے کیونکہ معجزہ بھی دعوتِ دین کیلئے ہوتا ہے اور اس کے ذریعے تصدیق نبوت ہوتی ہے کہ عوام کو یقین آجائے کہ یہ کام عام آدمی نہیں کرسکتا اور یقینا اللہ کی تائید اس بندے (نبی) کے ساتھ ہے مثلا سیدنا ابراہیم علیہ السلام پر آگ کا ٹھنڈا ہونا، عصائے سیدنا موسیٰ کا اژدھا بننا، سیدنا صالح علیہ السلام کی اونٹنی کا پہاڑ سے نکلنا، آقائے دوجہاں ﷺ کا چاند دو ٹکڑے کرنا وغیرہ۔ اسی لیے معجزہ کا لفظ انبیاء کے ساتھ خاص کردیا گیا ہے۔ اس کی وجہ یہی ہے کہ نبی ہر وقت اللہ کی حفاظت میں ہوتا ہے اور وہ اللہ کی مرضی کے خلاف کوئی کام نہیں کرتا کیونکہ اس پر وحی نازل کی جاتی ہے۔
کرامت "اکرام“ سے ہے ۔اولیاء کی خوارق عادات کو انبیاء علیھم السلام سے متفرق کرنے کیلئے کرامات کا نام دیا گیا ہے کیونکہ ولی نبوت کا دعویٰ نہیں کرتا اور کرامت اسی ولی سے صادر ہوتی ہے جو متقی اور متبع سنت ہو مثلا حضرت مریم علیھا السلام کیلئے بے موسمی پھلوں کا سامنے آنا، ان کے بطن سے بن باپ کے سیدنا عیسیٰ علیہ السلام کا پیدا ہونا، سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کا ساریۃ الجبل کا واقعہ ، سیدنا اسید بن حضیر کا تلاوت قرآن کے وقت سر پر سایہ کا نمودار ہونا وغیرہ۔ یہ تقسیم میری نہیں بلکہ علمائے اسلام اور سلف صالحین کی ہے۔
علمائے اسلام نے ان دونوں میں یہ فرق بھی لکھا ہے کہ معجزہ سے نبی کفار کے سامنے حجت قائم کرتا ہے اور ولی کی کرامت خود اس ولی کی تکریم کیلئے ظہور پذیر ہوتی ہے یا دین کی نصرت کیلئے۔ولی کی کرامت خود اس کیلئے دلیل اور قلبی اطمینان کا باعث بنتی ہے کہ وہ صراط مستقم پر ہے اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت شریفہ پر گامزن ہے۔جو شخص متبع سنت نہ ہو، اس کے ذریعے اگر کچھ عجیب بات ظہور پذیر ہو تو وہ شیطانی دھوکہ کہلاتی ہے۔
سیدنا حسین رضی اللہ عنہ پر میں اور میرا خاندان قربان، یہ عاصی و گناہ گار تو خود ان کی اولاد سے ہے۔ لہو تو دور کی بات ، اگر اس مٹی کا یقین ہوچلے کہ یہ سیدنا حسین رضی اللہ عنہ کے نعل شریف سے مس ہوئی ہے تو میں اسے محبت سے اپنی آنکھوں کا سرمہ بنالوں۔
لیکن یہ ضعیف الاعتقادی ہوگی کہ محض کسی کے دعویٰ کرنے سے ہم یہ مان لیں کہ واقعی یہ کربلا کی مٹی ہے۔آپ خود فیصلہ کیجئے کہ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشاد مبارک کی بھی تحقیق کی جاتی ہے کہ آیا فلاں روایت صحیح ہے یا نہیں ، اس کے راوی سچے، عادل اور دیانت دار ہیں کہ نہیں ، تب ہی وہ حدیث قبول کی جاتی ہے اور اس سے استدلال کیا جاتا ہے۔ یہ تو محض مٹی کا ایک ٹکڑا ہے۔
آپ نے اعتراض کیا ہے کہ اولیاء کے اذن کے بغیر کیسے کرامت کیسے ظہور پذیر ہوتی ہے تو اس کا یہی جواب ہے کہ اللہ کا ولی اپنی مرضی اور خواہش چھوڑ کر اللہ کی مرضی اپنا لیتا ہے۔ اس لیے اللہ اس کے ذریعے خارق عادت کا ظہور کروادیتا ہے۔معجزہ اور کرامت کا فرق اور غرض و غایت پہلے لکھ چکا ہوں ، مزید تشفی کیلئے علماء سے رجوع کیجئے۔
کفایت صاحب میرے خیال میں اس دھاگے میں شامل ہوتے وقت آپ نے اسکی شروع کی تحاریر ملا حظہ نہیں فرمائیں۔وہ سب آپ پہلے پڑھ لیتے تو آپ کو معلوم ہوتا کہ میں معجزے کی تعریف پہلے ہی کر چکا ہوں اسلئے پہلے وہ پڑھ لین پھر آگے بات کرتے ہیں ۔
اب آتا ہوں آپ کی اس تحریر کے جواب کی طرف اول تو جو بات میں کہ رہا تھا کہ یہ کس نے طے کیا ہے کہ نبی ہی سے معجزات سرزرد ہوتے ہیں اسکی کوئی قرانی یا نقلی دلیل میں نے حدیث کے حوالے سے مانگی تھی وہ دیئے بغیر آپ نے وہی اپنا نظریہ دینا شروع کردیا ہمارے نزدیک پنجتن پاک کو اللہ نے سارے انبیاء اور سارے اوصیاء سارے فرشتوں سے افضل قرار دیا ہے یہی وجہ ہے کہ یہ لوگ کوثر کے مالک اور جنت کے سردار ہیں۔ اسلئے اس سلسلے میں مزید بحث بیکار ہے یہ بات میں پہلے بھی ایک صاحب کو سمجھا چکا ہوں کہ بھائی یہاں عقیدے کا فرق ہے آپ زبردستی اپنا عقیدہ ہم پر کیوں ٹھونسنا چاہتے ہین اگر آپ کی نظر میں یہ معجزہ نہیں کرامت ہے تو آپ ہم سے معجزہ کہنے کا حق کیوں چھین رہے ہیں اور اگر آپ اسکو کرامت بھی نہ سمجھیں تو بھی یہ آپ کی مرضی۔ لیکن یہ میں اپنی آنکھوں سے دیکھ چکا ہوں اسلئے میں تو یقین کروں گا۔جسطرح اللہ کا ولی اپنی مرضی اللہ پر چھوڑ دیتا ہے اسی طرح اللہ بھی ولیوں کے سردار سے وعدہ کرتا ہے شبِ حجرت کہ آج میں نےاس سےاسکا نفس خرید لیا اور اپنی مرضی اسکو بیچ دی اور جو اللہ کی مرضی اپنے نفس کے بدلے خرید چکا ہو وہ اگر زندہ کو مردہ بولدے تو وہ مردہ ہوجائے اور مردے کو زندہ بو دے تو وہ زندہ ہوجائے میرے خیال میں یہ اشارے ہی کافی ہیں پورا واقعہ تو آپ کا سنا ہوا ہوگا۔
علامہ اقبال نے بالکل صحیح فرمایا کہ
کی محمد(ص) سے وفا تو نے تو ہم تیرے ہیں
یہ جہاں چیز ہے کیا لوح و قلم تیرے ہیں
اور لوح قلم کسی انسان کے حوالے کرنے کا مطلب جانتے ہیں آپ یا وہ بھی تفصیل سے گوش گزار کروں اور یہ غور کریں کہ علامہ اقبال نے جو یہ اللہ کی طرف سے کافی تحقیق کے بعد کہا ہے وہ لوح قلم آنحضرت(ص) کے حوالے نہیں ان سے وفا کرنے والے کے حوالے کرنے کو کہا ہے کیونکہ آپ(ص) کا مقام تو اس سے بھی افضل ہے۔
 
پنجتن پاک کو اللہ نے سارے انبیاء اور سارے اوصیاء سارے فرشتوں سے افضل قرار دیا ہے
سرخ کردہ الفاظ کو میں نے کرامت میں ذکر کیا ہے نہ کہ معجزات میں۔
آپ کی باقی باتوں میں بحث بیکار ہے لیکن یہاں آپ بہت بڑی ٹھوکر کھا رہے ہیں ۔ جس بات کو آپ اللہ کی طرف منسوب کررہے ہیں ، اس کا ثبوت مجھے دے سکیں گے کہ اللہ نے اہل بیت النبی ٖ ﷺ کو تمام انبیاء سے افضل قرار دیا ہے ؟؟
 

نایاب

لائبریرین
جناب ! معجزہ "عجز“ سے ہے یعنی وہ کام جس سے دوسرے عاجز ہوں اور وہ اللہ اپنے برگزیدہ نبیوں علیھم السلام کے ذریعے ظاہر کرواتا ہے کیونکہ معجزہ بھی دعوتِ دین کیلئے ہوتا ہے اور اس کے ذریعے تصدیق نبوت ہوتی ہے کہ عوام کو یقین آجائے کہ یہ کام عام آدمی نہیں کرسکتا اور یقینا اللہ کی تائید اس بندے (نبی) کے ساتھ ہے مثلا سیدنا ابراہیم علیہ السلام پر آگ کا ٹھنڈا ہونا، عصائے سیدنا موسیٰ کا اژدھا بننا، سیدنا صالح علیہ السلام کی اونٹنی کا پہاڑ سے نکلنا، آقائے دوجہاں ﷺ کا چاند دو ٹکڑے کرنا وغیرہ۔ اسی لیے معجزہ کا لفظ انبیاء کے ساتھ خاص کردیا گیا ہے۔ اس کی وجہ یہی ہے کہ نبی ہر وقت اللہ کی حفاظت میں ہوتا ہے اور وہ اللہ کی مرضی کے خلاف کوئی کام نہیں کرتا کیونکہ اس پر وحی نازل کی جاتی ہے۔
کرامت "اکرام“ سے ہے ۔اولیاء کی خوارق عادات کو انبیاء علیھم السلام سے متفرق کرنے کیلئے کرامات کا نام دیا گیا ہے کیونکہ ولی نبوت کا دعویٰ نہیں کرتا اور کرامت اسی ولی سے صادر ہوتی ہے جو متقی اور متبع سنت ہو مثلا حضرت مریم علیھا السلام کیلئے بے موسمی پھلوں کا سامنے آنا، ان کے بطن سے بن باپ کے سیدنا عیسیٰ علیہ السلام کا پیدا ہونا، سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کا ساریۃ الجبل کا واقعہ ، سیدنا اسید بن حضیر کا تلاوت قرآن کے وقت سر پر سایہ کا نمودار ہونا وغیرہ۔ یہ تقسیم میری نہیں بلکہ علمائے اسلام اور سلف صالحین کی ہے۔
علمائے اسلام نے ان دونوں میں یہ فرق بھی لکھا ہے کہ معجزہ سے نبی کفار کے سامنے حجت قائم کرتا ہے اور ولی کی کرامت خود اس ولی کی تکریم کیلئے ظہور پذیر ہوتی ہے یا دین کی نصرت کیلئے۔ولی کی کرامت خود اس کیلئے دلیل اور قلبی اطمینان کا باعث بنتی ہے کہ وہ صراط مستقم پر ہے اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت شریفہ پر گامزن ہے۔جو شخص متبع سنت نہ ہو، اس کے ذریعے اگر کچھ عجیب بات ظہور پذیر ہو تو وہ شیطانی دھوکہ کہلاتی ہے۔
سیدنا حسین رضی اللہ عنہ پر میں اور میرا خاندان قربان، یہ عاصی و گناہ گار تو خود ان کی اولاد سے ہے۔ لہو تو دور کی بات ، اگر اس مٹی کا یقین ہوچلے کہ یہ سیدنا حسین رضی اللہ عنہ کے نعل شریف سے مس ہوئی ہے تو میں اسے محبت سے اپنی آنکھوں کا سرمہ بنالوں۔
لیکن یہ ضعیف الاعتقادی ہوگی کہ محض کسی کے دعویٰ کرنے سے ہم یہ مان لیں کہ واقعی یہ کربلا کی مٹی ہے۔آپ خود فیصلہ کیجئے کہ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشاد مبارک کی بھی تحقیق کی جاتی ہے کہ آیا فلاں روایت صحیح ہے یا نہیں ، اس کے راوی سچے، عادل اور دیانت دار ہیں کہ نہیں ، تب ہی وہ حدیث قبول کی جاتی ہے اور اس سے استدلال کیا جاتا ہے۔ یہ تو محض مٹی کا ایک ٹکڑا ہے۔
آپ نے اعتراض کیا ہے کہ اولیاء کے اذن کے بغیر کیسے کرامت کیسے ظہور پذیر ہوتی ہے تو اس کا یہی جواب ہے کہ اللہ کا ولی اپنی مرضی اور خواہش چھوڑ کر اللہ کی مرضی اپنا لیتا ہے۔ اس لیے اللہ اس کے ذریعے خارق عادت کا ظہور کروادیتا ہے۔معجزہ اور کرامت کا فرق اور غرض و غایت پہلے لکھ چکا ہوں ، مزید تشفی کیلئے علماء سے رجوع کیجئے۔
سبحان اللہ
میرے محترم بھائی
کیا بن باپ کے حضرت عیسی علیہ السلام کو جنم دینا یہ کرامت جناب مریم علیھا السلام کی تھی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔؟
کیا آپ کے سامنے بن موسم پھلوں کا آنا آپ کی کرامت تھی ،،،،،،،،،؟
میرے بھائی یہ کن کتابوں سے اخذ کردہ معلومات ہیں ۔ ؟؟؟؟؟
سچ کہا کہنے والے نے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ علموں بس کریں او یار ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
معجزے و کرامت کی تفسیر خود سے کرنی اور بنیاد بنانا سلف الصالحین کو ۔۔۔۔۔۔۔۔
قران پاک کے بیان سے لاعلم ایسی تاویلات پیش کرتے ۔
" اللہ کے کلمہ " کو انسان سے صادرر ہونے والی کرامت ثابت کرتا ہے ۔
 
ہر وہ کرامت جو کسی ولی کیلئے ظاہر ہو، دراصل حضور نبی کریم کا معجزہ ہے، کیونکہ وہ ولی انہی کی امت سے تعلق رکھتا ہے اور انہی کے درِ دولت سے وابستگی کی وجہ سے ولی ہے۔۔
دوسری بات یہ کہ مستند روایات میں ہے کہ جب مسجدِ نبوی میں مرمت اور توسیع کے دوران اس کھجور کے تنے کو کاٹا گیا جس سے حضور نبی کریم ٹیک لگا کر بیٹھا کرتے تھے، تو اس میں سے رونے کی آوازیں آئیں۔۔۔وہ جگہ آج ریاض الجنۃ میں ستونِ حنانہ کے نام سے جانی جاتی ہے۔
اصولی بات ہے کہ اگر مسجد کا تنا فراق میں رو سکتا ہے، تو یہ بھی ممکن ہے جو اس دھاگے میں بیان کیا گیا۔۔میں اسکی تصدیق کرنے کی پوزیشن میں نہیں ہوں کیونکہ میں نے دیکھا نہیں، لیکن اللہ تعالیٰ کی قدرت سے کچھ بعید نہیں۔
واللہ اعلم
 
سبحان اللہ
میرے محترم بھائی
کیا بن باپ کے حضرت عیسی علیہ السلام کو جنم دینا یہ کرامت جناب مریم علیھا السلام کی تھی ۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔؟
کیا آپ کے سامنے بن موسم پھلوں کا آنا آپ کی کرامت تھی ،،،،،،،،،؟
میرے بھائی یہ کن کتابوں سے اخذ کردہ معلومات ہیں ۔ ؟؟؟؟؟
سچ کہا کہنے والے نے ۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔۔ ۔ علموں بس کریں او یار ۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔۔ ۔
معجزے و کرامت کی تفسیر خود سے کرنی اور بنیاد بنانا سلف الصالحین کو ۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔
قران پاک کے بیان سے لاعلم ایسی تاویلات پیش کرتے ۔
" اللہ کے کلمہ " کو انسان سے صادرر ہونے والی کرامت ثابت کرتا ہے ۔
ہر کام اللہ کے حکم سے ہی ظہور پذیر ہوتا ہے۔ اگر بن باپ کے عیسیٰ علیہ السلام کی پیدائش کرامت نہ ہوتی تو سیدۃ مریم علیھا السلام جبریل امیں علیہ السلام کو دیکھ کر اور ان کے لڑکے کی بشارت دینے پر کیوں متعجب ہوتیں اور یہ کیوں فرماتیں کہ بھلا مجھ سے کیسے بچے کی پیدائش ہوسکتی ہے جبکہ مجھے کسی بشر نے نہیں چھوا ۔
  1. قَالَ إِنَّمَا أَنَا رَسُولُ رَبِّكِ لِأَهَبَ لَكِ غُلامًا زَكِيًّا
  2. قَالَتْ أَنَّى يَكُونُ لِي غُلامٌ وَلَمْ يَمْسَسْنِي بَشَرٌ وَلَمْ أَكُ بَغِيًّا
یہاں یہ بات بھی ظاہر ہوئی کہ کرامت میں ولی کا خود دخل نہیں ہوتا جیسا کہ میں پہلے لکھ چکا ہوں کہ کرامت ولی کی اپنی خواہش سے نہیں ہوتی۔ آپ کے بیان سے یہ بات ظاہر ہوتی ہے کہ گویا مریم علیھا السلام نے خود سے چاہا کہ عیسیٰ علیہ السلام پیدا ہوں ؟؟ افسوس کہ آپ کی تعقل پسندی قرآن کے ارشاد سے ٹکرا رہی ہے۔بلاشبہ سیدنا عیسیٰ علیہ السلام کلمۃ اللہ تھے اور اللہ نے مریم علیھا السلام کے ذریعے انھیں پیدا فرمایا اور یہ امر مریم علیھا السلام کی کرامت میں شمار ہوئی۔اسی طرح بے موسمی پھلوں کا آنے والا واقعہ کسی تفسیر میں ملاحظہ کرلیں یا کم از کم تفسیر کو ہی پڑھ لیں۔

فَتَقَبَّلَهَا رَبُّهَا بِقَبُولٍ حَسَنٍ وَأَنْبَتَهَا نَبَاتًا حَسَنًا وَكَفَّلَهَا زَكَرِيَّا ۖ كُلَّمَا دَخَلَ عَلَيْهَا زَكَرِيَّا الْمِحْرَابَ وَجَدَ عِنْدَهَا رِزْقًا ۖ قَالَ يَا مَرْيَمُ أَنَّىٰ لَكِ هَٰذَا ۖ قَالَتْ هُوَ مِنْ عِنْدِ اللَّهِ ۖ إِنَّ اللَّهَ يَرْزُقُ مَنْ يَشَاءُ بِغَيْرِ حِسَابٍ ) آل عمران – 37)
آپ نے کرامت اور معجزے کے فرق کو سمجھا ہی نہیں تو یہاں کیا اچنبھا محسوس ہو رہا ہے ؟؟ رہ گئی بات خود سے تعریف کرنے کی تو ذرا اپنے آپ کو سلف صالحین اور علمائے امت کے ارشادات اور تعلیمات تک پہنچائیں تو ہر بات سمجھ میں آجائے گی۔ہر بات کو عقل کی کسوٹی پرکسنا عقلمندی ہے نہ ہوش مندی ۔
اللہ تعالیٰ ہمیں ہدایت نصیب فرمائے اور ہر بات اپنی عقل ناقص پر تولنے سے بچائے آمین۔
آپ کے مزید بے بنیاد اعتراضات کا جواب دینا میں ضروری نہیں سمجھتا۔ السلام علیٰ من اتبع الھدیٰ۔
 
اسی طرح بے موسمی پھلوں کا آنے والا واقعہ کسی تفسیر میں ملاحظہ کرلیں یا کم از کم تفسیر کو ہی پڑھ لیں۔

فَتَقَبَّلَهَا رَبُّهَا بِقَبُولٍ حَسَنٍ وَأَنْبَتَهَا نَبَاتًا حَسَنًا وَكَفَّلَهَا زَكَرِيَّا ۖ كُلَّمَا دَخَلَ عَلَيْهَا زَكَرِيَّا الْمِحْرَابَ وَجَدَ عِنْدَهَا رِزْقًا ۖ قَالَ يَا مَرْيَمُ أَنَّىٰ لَكِ هَٰذَا ۖ قَالَتْ هُوَ مِنْ عِنْدِ اللَّهِ ۖ إِنَّ اللَّهَ يَرْزُقُ مَنْ يَشَاءُ بِغَيْرِ حِسَابٍ ) آل عمران – 37)

میں یہاں تفسیر ابن کثیر لکھنا چاہتا تھا جو رہ گیا۔
 
Top