تربت امام حسین رضی اللہ عنہ کا معجزہ

نایاب

لائبریرین
عدیل بھائی الاحساء جو کہ فقہ جعفریہ کا گڑھ ہے، یہاں بھی ایک بات بہت مشہور ہوئی تھی کہ وہاں پر ایک بہت بڑا پتھر ہے، اتنا بڑا کہ 6 سے 8 کیوبک میٹر سمجھ لیں، وہ دس محرم کو خود بخود زمین سے اتنے انچ اوپر اٹھ جاتا ہے اور اس کے نیچے خون نظر آتا ہے اور یہ بات کتنے عرصے تک ای میل کی شکل میں گھومتی پھرتی رہی جبکہ پورے الاحساء (الھفوف) میں اس پتھر کا ہی وجود نہیں ہے۔
محترم بھائی یہ واقعہ دو یتیم بچوں کے قتل سے منسلک ہوتے مشہور ہوا تھا ۔۔۔۔۔۔۔۔
 

عدیل منا

محفلین
عدیل بھائی الاحساء جو کہ فقہ جعفریہ کا گڑھ ہے، یہاں بھی ایک بات بہت مشہور ہوئی تھی کہ وہاں پر ایک بہت بڑا پتھر ہے، اتنا بڑا کہ 6 سے 8 کیوبک میٹر سمجھ لیں، وہ دس محرم کو خود بخود زمین سے اتنے انچ اوپر اٹھ جاتا ہے اور اس کے نیچے خون نظر آتا ہے اور یہ بات کتنے عرصے تک ای میل کی شکل میں گھومتی پھرتی رہی جبکہ پورے الاحساء (الھفوف) میں اس پتھر کا ہی وجود نہیں ہے۔
میں نے بھی یہ بات سنی تھی۔ الاحساء میرے شہر دمام سے 100 کلومیٹر کے فاصلہ پر ہے۔ میں اس پتھر کو دیکھنے کیلئے گیا تھا مگر وہاں اس کا کوئی سراغ نہیں ملا
 

عدیل منا

محفلین
محترم بھائی یعنی اگر " ابو مخنف " کی عمر 135 سال ثابت کر دی جائے تو آپ کو واقعہ کربلا کے بارے اس کے بیان پر یقین آ جائے گا ۔ ؟
میرے محترم یہاں سعووی عرب میں آج سن 1434 ہجری میں اوسط عمر 80 سے 90 سال قرار دی جاتی ہے تو آج سے 1300 سو سال پہلے اوسط عمر کا اندازہ کرنا کچھ زیادہ مشکل نہیں ۔
اور یہ بھی ملحوظ رکھنا لازم کہ " مستند و مصدقہ احادیث " کے مجموعے کوئی 250 سال کے بعد ترتیب پائے ۔ اور ہمارے ایمان میں شامل ہیں ۔
محترم بھائی یعنی اگر " ابو مخنف " کی عمر 135 سال ثابت کر دی جائے تو آپ کو واقعہ کربلا کے بارے اس کے بیان پر یقین آ جائے گا ۔ ؟
میرے محترم یہاں سعووی عرب میں آج سن 1434 ہجری میں اوسط عمر 80 سے 90 سال قرار دی جاتی ہے تو آج سے 1300 سو سال پہلے اوسط عمر کا اندازہ کرنا کچھ زیادہ مشکل نہیں ۔
اور یہ بھی ملحوظ رکھنا لازم کہ " مستند و مصدقہ احادیث " کے مجموعے کوئی 250 سال کے بعد ترتیب پائے ۔ اور ہمارے ایمان میں شامل ہیں ۔
محترم! جتنی بھی مشہور شخصیات 13 یا 1400 سال پہلے گزری ہیں ان کی اوسط عمر 80 یا 90 سال سے زیادہ نہیں رہی۔ کوئی اگر اتنی طویل عمر کو پہنچا بھی تو تاریخ میں اس کا خاص طور پر ذکر کیا گیا ہے۔ مگر ابو مخنف لوط بن یحیٰی کی اتنی طویل عمری کا کہیں بھی کوئی اشارہ نہیں ملتا۔
احادیث اکٹھی کرنے میں جو احتیاط کی گئیں تھیں اس کا ایک معیار مقر ر کیا گیا تھا راوی کیلئے شرائظ رکھی گئیں۔ اس لئے احادیث کی اقسام ہیں ۔
ضعیف: جس کے راوی میں حدیث صحیح و حسن کی شرائط نہ پائے جائیں۔
موضوع: جس کے راوی میں پر حدیث نبوی میں جھوٹ بولنے کا طعن موجود ہو۔
شاذ: جس کا راوی قابل اعتبار ہو مگر ایسی جماعت کا مخالف ہو جو اس سے زیادہ قابل اعتبار ہو۔
ایسی 14 شرائط ہیں۔ مگر تاریخ اکٹھی کرنے میں ایسی کوئی احتیاط نہیں برتی گئیں۔ جو واقعہ جہاں سے ملا لے لیا گیا۔ یہ نہیں دیکھا گیا کہ کہنے والے کا تعلق کس مکتبہ فکریہ سے ہے مختصر یہ کہ ہماری تاریخی کتب میں بہت سی ایسی باتیں شامل ہیں جن کا حقیقت سے کوئی تعلق نہیں۔
 

میر انیس

لائبریرین
میرے علم کے مطابق ہر سال 10 محرم کو یہ مٹی اپنا رنگ تبدیل کر لیتی ہے۔ اس میں کس حد تک سچائی ہے؟

turbat.jpg
اس معجزے پر میرا پکا ایمان ہے کیونکہ نایاب ہی کی طرح میں نے بھی خود اپنی آنکھوں سے ایک تسبیح دیکھی ہے جس کے 2 دانے یومِ عاشور عین عصر کے وقت سرخ ہوجاتے تھے اور چونکہ میں اسکا عینی شاہد ہوں اسلئے مجھے مزید کسی دلیل کی ضرورت نہیں ہے ۔ چونکہ امام حسین علیہ السلام نے جو اپنی اور اپنے آل و اصحاب کی قربانی دی تھی وہ تھی ہی خالصتاََ اللہ کے لئے تھی تو کیا تعجب ہے کہ اللہ انکی اس بڑی قربانی کو ہمیشہ دنیا کے ذہن میں رکھنے کیلئے انکے مقتل کو عین اسی وقت سرخ نہ کردے ۔ اب اس سے جو لوگ متفق نہیں ہیں ظاہر ہے انہوں نے ایسا کبھی نہیں دیکھا اور سنا ہوگا اسلئے وہ اس بات پر یقین نہیں کریں گے پر ان سب سے میں یہ پوچھتا ہوں کہ اس بات پر تو سب متفق ہیں نا حضرت امام حسین نے قربانی اللہ کے دین کو بچانے کیلئے دی تھی اور اتنی بڑی قربانی کی مثال اور کہیں اور کسی مذہب میں نہیں ملتی تو اللہ کیا اس بات پر قادر نہیں کے اسکی ایک یادگار بنادے اللہ کیلئے یہ سب کیوں ناممکن تھا کہ وہ آسمان سے خون کی بارش کراتا اور سرخ آندھیاں چلواتا وہی اللہ جب حضرت ابراہیم علیہ السلام کی قربانی قبول کرکے اپنی طرف سے مینڈھا بھیج سکتا ہے تو یہ سب کرنے پر بھی قادر ہے ۔
 

قیصرانی

لائبریرین
اس معجزے پر میرا پکا ایمان ہے کیونکہ نایاب ہی کی طرح میں نے بھی خود اپنی آنکھوں سے ایک تسبیح دیکھی ہے جس کے 2 دانے یومِ عاشور عین عصر کے وقت سرخ ہوجاتے تھے اور چونکہ میں اسکا عینی شاہد ہوں اسلئے مجھے مزید کسی دلیل کی ضرورت نہیں ہے ۔ چونکہ امام حسین علیہ السلام نے جو اپنی اور اپنے آل و اصحاب کی قربانی دی تھی وہ تھی ہی خالصتاََ اللہ کے لئے تھی تو کیا تعجب ہے کہ اللہ انکی اس بڑی قربانی کو ہمیشہ دنیا کے ذہن میں رکھنے کیلئے انکے مقتل کو عین اسی وقت سرخ نہ کردے ۔ اب اس سے جو لوگ متفق نہیں ہیں ظاہر ہے انہوں نے ایسا کبھی نہیں دیکھا اور سنا ہوگا اسلئے وہ اس بات پر یقین نہیں کریں گے پر ان سب سے میں یہ پوچھتا ہوں کہ اس بات پر تو سب متفق ہیں نا حضرت امام حسین نے قربانی اللہ کے دین کو بچانے کیلئے دی تھی اور اتنی بڑی قربانی کی مثال اور کہیں اور کسی مذہب میں نہیں ملتی تو اللہ کیا اس بات پر قادر نہیں کے اسکی ایک یادگار بنادے اللہ کیلئے یہ سب کیوں ناممکن تھا کہ وہ آسمان سے خون کی بارش کراتا اور سرخ آندھیاں چلواتا وہی اللہ جب حضرت ابراہیم علیہ السلام کی قربانی قبول کرکے اپنی طرف سے مینڈھا بھیج سکتا ہے تو یہ سب کرنے پر بھی قادر ہے ۔
محترم اس طرح بات بہت دور نکل جائے گی۔ اگر دو دانے رنگ بدلتے ہیں تو باقی تسبیح کیوں نہیں۔ اسی طرح یہ بھی عجیب سا اعتراض اٹھ سکتا ہے کہ دوسرے ملک تسبیح بھیج دی جائے جہاں محرم کی کوئی اور تاریخ ہو یعنی وہاں چاند ایک دن بعد یا ایک دن قبل دکھائی دیا ہو تو بات واضح ہو جائے گی کہ آیا کہ تاریخ سے منسلک ہے یا کچھ اور :)
 

عسکری

معطل
محترم اس طرح بات بہت دور نکل جائے گی۔ اگر دو دانے رنگ بدلتے ہیں تو باقی تسبیح کیوں نہیں۔ اسی طرح یہ بھی عجیب سا اعتراض اٹھ سکتا ہے کہ دوسرے ملک تسبیح بھیج دی جائے جہاں محرم کی کوئی اور تاریخ ہو یعنی وہاں چاند ایک دن بعد یا ایک دن قبل دکھائی دیا ہو تو بات واضح ہو جائے گی کہ آیا کہ تاریخ سے منسلک ہے یا کچھ اور :)
یا پھر ہمارے ہاتھ لگ گئی تو ہم کھول کر دیکھیں گے کہ لال کیوں ہوئی :grin:
 

نایاب

لائبریرین
محترم! جتنی بھی مشہور شخصیات 13 یا 1400 سال پہلے گزری ہیں ان کی اوسط عمر 80 یا 90 سال سے زیادہ نہیں رہی۔ کوئی اگر اتنی طویل عمر کو پہنچا بھی تو تاریخ میں اس کا خاص طور پر ذکر کیا گیا ہے۔ مگر ابو مخنف لوط بن یحیٰی کی اتنی طویل عمری کا کہیں بھی کوئی اشارہ نہیں ملتا۔
احادیث اکٹھی کرنے میں جو احتیاط کی گئیں تھیں اس کا ایک معیار مقر ر کیا گیا تھا راوی کیلئے شرائظ رکھی گئیں۔ اس لئے احادیث کی اقسام ہیں ۔
ضعیف: جس کے راوی میں حدیث صحیح و حسن کی شرائط نہ پائے جائیں۔
موضوع: جس کے راوی میں پر حدیث نبوی میں جھوٹ بولنے کا طعن موجود ہو۔
شاذ: جس کا راوی قابل اعتبار ہو مگر ایسی جماعت کا مخالف ہو جو اس سے زیادہ قابل اعتبار ہو۔
ایسی 14 شرائط ہیں۔ مگر تاریخ اکٹھی کرنے میں ایسی کوئی احتیاط نہیں برتی گئیں۔ جو واقعہ جہاں سے ملا لے لیا گیا۔ یہ نہیں دیکھا گیا کہ کہنے والے کا تعلق کس مکتبہ فکریہ سے ہے مختصر یہ کہ ہماری تاریخی کتب میں بہت سی ایسی باتیں شامل ہیں جن کا حقیقت سے کوئی تعلق نہیں۔
میرے محترم بھائی " اسم الرجال " کے ماہرین اور " ثقہ علماء کی تخریج شدہ مستند و مصدقہ کئی احادیث سن 1970 سے لیکر سن 1988 تک " ضعیف و موضوع تک کے درجہ تک پہنچ چکی ہیں ۔ پاکستان جانا ہو تو پنجاب پبلک لائیبریری کا دورہ کیجیئے گا ۔ اور سن 1970 سے پہلے کی شائع شدہ " صحیح بخاری و صحاح ستہ " سمیت احادیث کے مجموعوں کا مطالعہ کیجئے گا ۔ اگر یہ ممکن نہ ہو تو کسی ایسے پاکستانی سے جس نے 70 سے 80 کے درمیان میٹرک پاس کیا ہو ۔ اس سے " آخری خطبہ پاک کے متن بارے اور " علی و فاطمہ " کے ذکر بارے پوچھ لیجئے گا ۔
اور باقی رہا اوسط عمر بارے تو ذرا تلاش کیجئے گا کہ جناب امام مالک امام شافعی امام حنبل امام ابو حنیفہ کی عمر مبارک کیا تھی ۔
امام ذہبی نے "ابو مخنف " کی تاریخ وفات تو ثابت کر دی ۔ لیکن تاریخ پیدائیش سے انجان رہے ۔ سبحان اللہ
 
چونکہ یہ دھاگہ عدیل منّا نے شروع کیا ہے لہٰذا میں انہی سے مخاطب ہوکر یہ پوچھنا چاہوں گا کہ آپ نے یہ سوال واقعی علم حاصل کرنے کیلئے کیا ہے یا محض شوشہ چھوڑ کر اور جھیل کی پرسکون سطح پر کنکر پھینک کر لہروں اور دائروں کا تماشا دیکھنے والی نفسیات کارفرما ہے؟
اگر مقصد دھماچوکڑی مچانا ہے تو معذرت کیونکہ بات کرنا محض وقت کا ضیاع ہوگا۔ لیکن اگر سنجیدگی سے اس قسم کے سوالات پر گفتگو کرنا چاہتے ہیں تو چند باتوں کا طے کرنا ضروری ہے:
آپ کے نزدیک کسی بات کو جاننے یعنی اسکے متعلق تسلی بخش علم حاصل کرنے کی کیا کیا صورتیں ہوسکتی ہیں؟ یہ سوال اسلئیے پوچھا ہے تاکہ آپ سے اسی حوالے سے گفتگو کی جاسکے جسکو آپ تسلیم کرتے ہوں :)
 

میر انیس

لائبریرین
میری رائے:
  1. مجے نہیں معلوم اس ”خبر“ میں کس حد تک سچائی ہے۔ یہ تو آپ تحقیق کرکے بتلائیں کہ یہ خبر کس حد تک سچی ہے۔
  2. اسلامی تعلیمات کے مطابق ”معجزہ“ صرف انبیا علیہ السلام سے منسوب ہوتا ہے۔ غیر نبی سے منسوب ایسے غیر معمولی واقعات ”کرامات“ کہلاتے ہیں۔
  3. قرآن و صحیح احادیث میں مذکور ”معجزاتِ انبیاء “ پر ”ایمان“ لانا ہر مسلمان پر فرض ہے۔ جو اس کا ”انکار“ کرے یا اس میں شک و شبہ کا اظہار کرے، وہ دائرہ اسلام سے خارج ہوجاتا ہے۔
  4. غیر نبی سے منسوب بہت سی ”کرامات“ کچھ حقیقی ہیں اور کچھ عقیدتمندوں کی اپنی ذہنی اختراع۔ اور جو ”حقیقی اور مصدقہ کرامات“ ہیں بھی، اُن کا دینِ اسلام سے اس اعتبارسے کوئی ”تعلق“ نہیں کہ ان پر ”ایمان لانا“ فرضِ عین ہو اور جو ایمان نہ لائے، وہ دائرہ اسلام سے خارج
واللہ اعلم بالصواب

1- یہ خبر سچی ہے اور اس سے ملتے جھلتی بات میں نے اور نایاب نے اپنی آنکھوں سے دیکھی ہے
2- قران یا حدیث کے حوالہ جات درکار ہیں کہ معجزہ صرف انبیاء سے ہی منسوب ہوتے ہیں اور آنحضرت کی کس حدیث کی رو سے غیر نبی کے واقعات کرامات کہلاتے ہیں۔ اول بات تو عام غیر نبی اور آلِ رسوٌل (ص) میں فرق ہے ۔ دوسرے ان آلِ رسول اور حضرات حسنین میں بھی فرق ہے جو جوانانَ جنت کے سردار ہیں اور جنت میں کوئی جائے یا نا جائے انبیاء تو جائیں گے ہی حدیث میں یہ کہیں نہیں ہے کہ حسن(ع) اور حسین(ع) انبیاء کے علاوہ سب جنتیوں کے سردار ہیں اسلئے ان حضرات علیہ السلام کا ذکر کرتے ہوئے یہ خیال ضرور رکھنا چاہیئے کہ ان میں اور عام ہم جیسے غیر نبیوں میں فرق ہے مثلاََ عام غیر نبی کیلئے آیاتِ کسا ء نازل نہیں ہوئی پر انکے لئے ہوئی ہیں عام غیر نبی پر صدقہ حرام نہیں پر ان پر ہے۔ عام غیر نبی پر درود و سلام نہیں ہے پر آنحضرت (ص) کی اولاد پر ہے مختصراََ یہ سمجھ لیں کہ جس اللہ نے نبیوں کو عام انسانوں سے الگ اور مختلف مقام دیا ہے اسی طرح غیر نبیوں میں ان آئمہ کا الگ مقام ہے ۔
دوسری بات یہ ہے کہ لغت میں معجزہ اس بات کو کہتے ہیں جس کو کرنے سے دنیا عاجز ہو ۔ جو بھی کام قانون ِفطرت کے خلاف ہو۔
3- بے شک ۔پر اسی قران نے جا بجا ایسے واقعات بھی پیش کئے ہیں جو غیر نبی نے انجام دئے اور ان پر ایمان لانا بھی واجب ہے جن میں فرشتوں کے کے بھی واقعات ہیں جب کہ فرشتے بھی نبی تو بہر حال نہیں ہیں۔ اور حجرت یحیٰ بن برقیا کا ملکہ بلقیس کا تخت چشمِ زدن میں لانا بھی شامل ہے۔ یعنی قران اور حدیث( جب کے اسکا صحیح ہونا ثابت ہو ) پر ایمان لانا واجب ہے چاہے وہ معجزہ ہو یا نہ ہو۔
4- میں اس بات کو مانتا ہوں کہ چاہے فقہ جعفریہ ہو یا فقہ حنفیہ یا کوئی اور فرقہ ہر ایک میں کچھ ایسے ضعیف الاعتقاد لوگ ضرور موجود ہیں جنہوں نے بہت سے ایسے واقعات مشہور کردئے جن کا حقیقت سے کوئی تعلق نہیں اور ایسا انہوں نے عام اور غریب لوگوں کی جہالت کا فائدہ اٹھا کر کیا پر انکی وجہ سے ہم اصل اور حقیقی واقعات کو فراموش نہیں کرسکتے ۔
میں تو کہتا ہوں سب چھوڑیں امام حسین پر اب تک گریہ ہونا ان کے غم میں ماتم ہونا ہی میرے نزدیک سب سے بڑا معجزہ ہے کیں کہ لوگ اپنے باپ کو اور ماں کو اتنا نہیں روتے اگر روتے بھی ہیں تو چند دن پھر بھول جاتے ہیں پر انکا غم چودہ سو سال بعد بھی اب تک ہمارے دلوں میں ترو تازہ ہے۔ اور جب وہ دن آتے ہیں تو وہ لوگ جن کو ان سے سچی محبت ہے چاہے وہ کسی بھی فرقے سے ہیں سب کچھ چھوڑ کر انکے غم میں مشغول ہوجاتے ہیں ۔ اگر یہ سب ڈھونگ ہے تو یہ ایک فطری بات ہے کہ اگر انسان ڈرامہ بھی کر رہا ہو تو موت کو دیکھ کر سب بھول جاتا ہے پر اسی دور کا یہ معجزات ہیں کہ
1- اس سال 6 محرم کو ایک دھماکہ ہونے کے باوجود کئی لوگوں کے شہید ہونے کے باوجود اورنگی کے امام بارگاہ میں مجلس اسی طرح چلتی رہی یہ تو آپ اپنی آنکھوں سے ٹی وی پر دیکھ رہے ہوں گے اسکے لئے کسی تحقیق کی ضرورت نہیں ہے۔ جس نے نہ دیکھا ہو نیٹ پر سرث کرلے ۔
2- دو سال پہلےآٹھ محرم کو جس جلوس میں بم دھماکہ ہوا اس میں اسکے دوسرے ہی سال پہلے سے زیادہ لوگ تھے اور پھر وہی قانونِ فطرت کے خلاف بات کہ ایک ماں نے اپنے اس چھ سات سال کے بیٹے کو دوبارہ تیار کرکے علم ہاتھ میں دے کر بھیج دیا جو ایک سال پہلے شدید زخمی ہوگیا تھا آپ نے مدر ڈے پر ایسے بہت سے ایس ایم ایس پڑہیں ہونگے جس میں ماں کی اپنی اولاد سے محبت دکھلائی گئی ہو پر یہ کیسی محبت ہے جو چودہ سال پہلے ہونے والے ایک واقعے کی یاد میں نکلنے والے جلوس پر قربان ہورہی ہے ؟
3-چند سال پہلے عاشور کے جلوس میں جو خوفناک دھماکہ ہوا تھا اسکی اب بھی وڈیو نکال کر دیکھ لیں کہ جہاں دھماکہ ہوا وہاں لوگوں کہ جسم کے چیتھڑے اڑ رہے تھے پر علم اٹھانے والے پھر بھی علم اٹھائے ہوئے تھے جبکہ قانونِ فطرت یہ ہے کہ لوگوں کو اپنی جوتیاں چھوڑ کر بھاگ جانا چاہیئے تھا۔ یہ سارے اور ایسے ہزاروں واقعات ہم کو بتاتے ہیں کہ یہ سب اللہ کی ایک خاص محبت کی وجہ سے ہوتا ہے کہ چاہے امام حسین(ع) کے ذکر کو جتنا دبایا جائے وہ اور پھیلتا جاتا ہے بیشک اللہ کسی کی قربانی ضائع نہیں ہونے دیتا اور جو تاریخ کی سب سے بڑی قربانی ہے اسکے نشان کیسے مٹنے دے
 

قیصرانی

لائبریرین
شکریہ فاتح ۔۔۔ ۔ آپ نے جرات مندی سے خدا اور مذہب کا انکار کیا۔۔۔ مجھے اب کوئی پریشانی نہیں

کسی نے ویسے ہی میرے کان میں کہہ دیا تھا کہ آپ قادیان کے مدعی نبوت کو ماننے والے ہیں
اور آپ کے نام کی ترتیب و تدوین سے سرگوشی کرنے والے کی کسی حد تک تائید بھی ہو رہی تھی۔
سنی سنائی بات کو بغیر تصدیق آگے بڑھانا آپ جیسی علمی، ادبی اور ایک طرح سے مذہبی شخصیت کو زیب نہیں دیتا :)
 

نایاب

لائبریرین
چونکہ یہ دھاگہ عدیل منّا نے شروع کیا ہے لہٰذا میں انہی سے مخاطب ہوکر یہ پوچھنا چاہوں گا کہ آپ نے یہ سوال واقعی علم حاصل کرنے کیلئے کیا ہے یا محض شوشہ چھوڑ کر اور جھیل کی پرسکون سطح پر کنکر پھینک کر لہروں اور دائروں کا تماشا دیکھنے والی نفسیات کارفرما ہے؟
اگر مقصد دھماچوکڑی مچانا ہے تو معذرت کیونکہ بات کرنا محض وقت کا ضیاع ہوگا۔ لیکن اگر سنجیدگی سے اس قسم کے سوالات پر گفتگو کرنا چاہتے ہیں تو چند باتوں کا طے کرنا ضروری ہے:
آپ کے نزدیک کسی بات کا جاننے یعنی اسکے متعلق تسلی بخش علم حاصل کرنے کی کیا کیا صورتیں ہوسکتی ہیں؟ یہ سوال اسلئیے پوچھا ہے تاکہ آپ سے اسی حوالے سے گفتگو کی جاسکے جسکو آپ تسلیم کرتے ہوں :)
محترم عدیل منا بھائی نے فیس بک پر گردش یہ تصویر دیکھ لی تھی جو کہ اک شیعہ فورم کی جانب سے عام کی گئی تھی ۔ سو محفل پر شریک کرتے علم حاصل کرنا چاہا ۔ اور یہ سوال سامنے رکھا کہ " ایسی روایات پر یقین رکھنا ایمان کا لازم جز تو نہیں " گفتگو شروع ہوئی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اور ہم مسلمان اپنی لگی بندھی راہ چل نکلے ۔ احادیث کو موضوع گفتگو بنا لیا ۔ وہ احادیث جو کہ امت مسلمہ کے عظیم جلیل القدر بزرگوں نے جمع فرمائی تھیں کہ کہ امت مسلمہ کے افراد کو ان سے آگہی پاکر اپنی ذاتی شخصی اصلاح کرنے میں آسانی ہو گی ۔ وہ " اسوہ حسنہ " کے بارے آگہی پا تے اچھے مسلمان بن کر امت مسلمہ کو جسد واحد ثابت کریں گے ۔ مگر امت مسلمہ کے بزعم ٹھیکیداروں نے ان احادیث کی مدد سے وہ وہ فساد پھیلائے ہیں کہ اللہ کی پناہ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اتفاق و اتحاد کا پرندہ تو ان احادیث کے شور سے ڈر کر یوں اڑا کہ اسے واپس لوٹنا بھی اب گوارہ نہیں ۔
 

میر انیس

لائبریرین
یہ بات اس سال دس محرم کے موقع پر میرے علم میں آئی ہے اور جس نے یہ بات کی میں نے اس سے اسی سے ملتے جلتے الفاظ کہے جن کا آپ نے ذکر کیاہے۔ اس پر اس نے جو جواب دیا وہ یہاں لکھنے کے قابل نہیں۔ اس کے جواب سے میں بہت اپ سٹ رہا، اس لئے اپنی تسلی حاصل کرنے کیلئے کہ شاید آپ احباب اس بارے میں کچھ جانتے ہوں تو یہاں ذکر کیا ہے۔
سانحہ کربلا سے متعلق بہت سی روایات ہیں۔ مگر سب سچ پر مبنی نہیں ہیں۔ اس کا انداذہ آپ اس بات سے لگا لیں کہ یہ واقعہ 60ھ میں ہوا اس کو سب سے پہلے بیان کرنے والا "ابو مخنف لوط بن یحیٰی" ہے جو کہ امام الذھبی کے مطابق 170ھجری میں مرا۔ یعنی اس واقعہ کے 110 سال بعد۔ تو اس واقعہ کے وقت اس کی عمر کم سے کم 16، 17سال تو ہونی چاہئے تھی۔ بہرحال اس بارے میں مزید بات کرنے سے بات کہیں کی کہیں چلی جائے گی۔ اس پوسٹ میں سوال کا مقصد یہ تھا کہ یہ کوئی ایسا سنجیدہ مسئلہ تو نہیں کہ جس پر ایمان لانا ضروری ہو؟
اس وقعے کو دیر سے منظر عام پر آنے کی ایک بڑی وجہ یہ تھی کہ اسکو بیان کرنے ہی نہیں دیا جاتا تھا چونکہ بنی امیہ کی حکومت تھی اور انہوں نے تو یہ مشہور کیا تھا کہ نعذو باللہ امام حسین نے بگاوت کی تھی۔ لہٰذا ایسے لوگوں کو چن چن کے قتل کردیا جاتا جو اسکو عام کرنے کی کوشش کر رہے تھے ۔ اسکے بعد لوگوں نے تحقیق کی اور اس واقعہ کو نقل کیا۔ اس بات پر اس وجہ سے تنقید کرنا کہ یہ دیر سے کیوں نقل ہوا سمجھ نہیں آتا جبکہ احادیث بھی کافی عرصے بعد جمع ہوئی ہیں اور ان میں سے بھی بہت سی احادیث ضعیف اور موضوع ثابت ہوچکی ہیں تو پھر واقعہ کربلا میں بھی ہوسکتا ہے کہ کچھ ضعیف روایات شامل ہوں یا کچھ سے کچھ بن گئی ہوں پر اس بات کو وجہ بنا کر اس واقع سے انکار نہیں کیا جاسکتا۔
 

میر انیس

لائبریرین
محترم اس طرح بات بہت دور نکل جائے گی۔ اگر دو دانے رنگ بدلتے ہیں تو باقی تسبیح کیوں نہیں۔ اسی طرح یہ بھی عجیب سا اعتراض اٹھ سکتا ہے کہ دوسرے ملک تسبیح بھیج دی جائے جہاں محرم کی کوئی اور تاریخ ہو یعنی وہاں چاند ایک دن بعد یا ایک دن قبل دکھائی دیا ہو تو بات واضح ہو جائے گی کہ آیا کہ تاریخ سے منسلک ہے یا کچھ اور :)
باقی تسبیح اسلئے نہیں کہ اس میں ہر دانا نایاب نہیں ہے۔ تسبیح بنانے والے کو صرف دو دانے ہی میسر آسکے باقی دانے اس میں عام تھے واضع رہے کہ تسبیح کا ہر دانہ الگ ہوتا ہے اسکا ضروری نہیں دوسرے دانے سے تعلق ہو۔ بات واقعی دور نکل جائے گی کیونکہ شب قدر پر جو روح الامین کا آسمان سے زمین پر آنا اور طلوع فجر تک سلامتی کا اشارہ ہے تو وہ صرف مکہ کیلئے ہے یا ساری دنیا کے لئے کیوں کہ پھر سعو دی عرب میں شب قدر جس رات کو ہوتی ہے پاکستان میں اسکے دوسرے دن اور کبھی تیسرے دن ہوتی ہے جبکہ روح الامین کا آسمان سے زمین پر اللہ کا امر لے کر اترنا تو پوری دنیا کیلئے ہے نہ کہ ایک دن پاکستان کیلئے ایک دن عرب کیلئے ایک دن یورپ کیلئے ۔ بھائی یہ بہت گہری باتیں ہیں انکو سلجھانے کیلئے تو ایک کتاب الگ سے چاہیئے۔ بس آسان لفظوں میں یہ سمجھ لیں جو ایک دن پہلے سعودی عرب کیلئے ہے وہی ایک دن بعد ہمارے لئے ہے بالکل اسی طرح اگر عراق میں ایک دن پہلے جو ہوگا وہ تاریخ کے حساب سے پاکستان میں ہوگا
 

میر انیس

لائبریرین
محترم اس طرح تو دنیا کے باقی مقامات پر تسبیح کے دیگر دانے موجود ہونے چاہیئں؟ دوسرا اس تسبیح میں ایسی کیا خاص بات ہے کہ اس کے دو دانے اپنا رنگ بدل لیتے ہیں؟ یہ بھی تو عین ممکن ہے کہ یہ دانے کسی اور واقعے کی وجہ سے رنگ بدلتے ہوں۔ دس محرم صرف حضرت حسین رض کے حوالے سے ہی تو اہم نہیں؟

دوسرا یہ ماتم، یہ تعزیئے یہ سب کچھ، اس کا کیا فائدہ؟ اگر اس کی بجائے حضرت حسین رض کی زندگی اور ان کی تعلیمات کو پھیلانے پر وہی وقت اور محنت صرف کر دی جائے تو کیا یہ بہتر نہیں؟ کیا یہ سب ماتم وغیرہ ہمیں ایام جاہلیت کی یاد نہیں دلاتا؟ اسلام ہمیں ہر معاملے میں میانہ روی کا حکم دیتا ہے۔ پھر یہ ماتم وغیرہ منانے اور اس طرح کے واقعات کے درست ہونے پر اصرار میں اتنی شدت پسندی کیوں؟

یہ بات واضح کر دوں کہ موضوع کی مناسبت سے میں نے اہل تشیع کا حوالہ دیا ہے۔ تاہم کسی بھی فرقے یا فقہ کی طرف سے غلو سے کام لیا جائے، میں اسے پسند نہیں کرتا اور مجھے یقین ہے کہ شاید اللہ کو بھی یہ بات پسند نہ ہو کہ ہم لوگ اپنے آپ کو زخم پہنچائیں، چرکے لگائیں، ماتم کریں، سینہ پیٹیں اور یہ سب کچھ کریں۔ بجائے اس کے کہ شہید کی حیات کے بارے ہم زیادہ مہذب انداز میں بات چیت کریں
قیصرانی بھائی آپ اس محفل میں بہت پرانے ہیں اب تک تو بات دوسری ہورہی تھی پر آپ اب مجھ کو ایسی بحث میں الجھاناے چاہتے ہیں جسکا انجام فرقہ واریت پر ہوگا ۔ آپ کی اس سوچ کی وجہ یہی ہے کہ آپ ایسے گھرانے سے تعلق رکھتے ہیں جو ان سب چیزوں کا قائل نہیں اور میں اسلئے ماتم زنی اور تعزیہ داری کو عین اسلام کے مطابق سمجھتا ہوں کہ میں اس فرقہ سے تعلق رکھتا ہوں جو ان سب باتوں کو جائز سمجھتا ہے۔ آپ نے ہمارے فرقے کے ایک اہم عبادت کو عہدِ جاہلیت سے ملا کر ہمارے جذبات کو بہت ٹھیس پنہچائی ہے اگر میں بھی آپ کے فرقے کی کچھ ایسی ہی باتوںکا ذکر کروں جو مجھ کو ابو جہل کی سنت نظر آتی ہیں تو ظاہر ہے آپ کی دل شکنی تو ہوگی ہی پر میرے آپ ہی کے فرقے کے اور بھائیوں کی بھی دل شکنی ہوگی ۔ میں نے جو باتیں اس دھاگے میں ثابت کیں انکو تو آپ غلط قرار دے نہیں سکے اور آگئے وہی طعنے اور تشنوں پر جو آپ کا نہیں پر اکثر جاہلوں کا طرہ امتیاز ہے۔ بھائی صاحب اب میں اپنا موقف تو ضرور پیش کروں گا ماتم کے بارے میں وہ یہ ہے کہ قران کی رو سے اور احادیث سے بھی ماتم اور رونا کبھی حرام نہیں رہا قران میں انبیاء کے رونے اور انکی پاک ازواج کے ماتم کا ذکر ہے احادیث کی کتابوں سے بی بی اماں عائشہ (ر)کا ماتم کرنا ثابت ہے ۔ جب آنحضرت (ص) کے دندان مبارک شہید ہوئے تو کیا حضرت اویس قرنی نے اپنے سارے دانت شہید نہیں کردئے تھے؟ کیا ایسی کوئی روایت ہے کہ آپ(ص) نے اس واقعہ کی مذمت کی ہو یا حضرت اویس قرنی (ر) کو منع کیا ہو کہ یہ غلط کام کیا؟ اگر اللہ کو خون نکالنا چرکے لگانا پسند نہیں تھا تو یہ واقعہ بھی تو خون نکالنے کا ہے اللہ نے قران میں اسکو منع کیوں نہیں کیا جب کہ اسوقت تک وحی کا سلسلہ بھی جاری تھا۔ کیا آنحضرت(ص) کا بیبیوں سے حضرت حمزہ کے ماتم کرنے کا حکم دینا احادیث سے ثابت نہیں ہے۔ کیا حضرت بلال حبشی (ر) کا مسجد نبوی میں اپنے سر اور رخسار پیٹتے ہوئے داخل ہونا ثابت نہیں ہے۔
ماتم اور تعزیہ کا کم از کم یہ فائدہ ضرور ہے کہ اس سے امام حسین (ع) کی شہادت کو ترویج ملی وہ زبان زد عام ہوا جب حضرت امام جعفر صادق سے پوچھا گیا تھا کہ کربلا کی یاد کو اتنے جذبے سے کیوں منایا جاتا ہے تو آپ نے فرمایا کہ اگر اس واقعہ کو زندہ نہ رکھا جاتا تو غدیر کی طرح لوگ اسکو بھی بھول جاتے۔
بہر حال میرا موضوع اسوقت ماتم نہیں تھا صرف میں نے ایک بات کا جواب دیا ہے ویسے ہمارے ہاں تو یہ بھی کہا جاتا ہے کہ ماتم کرنے کا سب سے بڑا فائدہ یہ بھی ہے کہ آپ مارتے ہاتھ اپنے سینے پر ہیں پر اس سے تکلیف امام حسین کے قاتلوں کو ہوتی ہے
 

میر انیس

لائبریرین
مذہب میں روایت کا کوئی چکر نہیں ہوتا جناب۔ مذہب میں جو فرض ہے وہ فرض ہے اور جس سے منع کیا گیا ہے وہ ممنوع ہے۔ مذہب کی بجائے اگر آپ عقیدے میں روایات کی بات کریں تو کچھ اور بات ہے :)
اب بات مجھ کو لگتا ہے یقیناَ آگے بڑھ جائے گی کیوں کہ شاید قیصرانی صاحب حقیقت میں موضوع سے ہٹنا چاہ رہے ہیں۔ اگر میں ثابت کردوں کہ ماتم کرنا سنتِ نبوی ہے تو کیا کل سے آپ ماتم کرنا شروع کردیں گے ؟
 

حسان خان

لائبریرین
مذہب میں روایت کا کوئی چکر نہیں ہوتا جناب۔ مذہب میں جو فرض ہے وہ فرض ہے اور جس سے منع کیا گیا ہے وہ ممنوع ہے۔ مذہب کی بجائے اگر آپ عقیدے میں روایات کی بات کریں تو کچھ اور بات ہے :)

قیصرانی بھائی جان، آپ شاید بھول رہے ہیں کہ میں ایک بے دین مسلمان ہوں۔ میرے لیے تمام مذاہب، اور تمام فِرَق بالآخر انسانی ذہن کی تخلیق ہیں۔ اس لیے میں مذہب پر بات کرتے وقت اُس کے دنیاوی اور ثقافتی اظہار کو ہی مدِ نظر رکھتا ہوں۔ :) اور ان اظہارات کا اہم محرک یہی صدیوں کی جمع شدہ روایات ہے جن سے اس وقت دنیا کے کروڑوں لوگوں کی جذباتی وابستگی ہے۔
 

قیصرانی

لائبریرین
قیصرانی بھائی آپ اس محفل میں بہت پرانے ہیں اب تک تو بات دوسری ہورہی تھی پر آپ اب مجھ کو ایسی بحث میں الجھاناے چاہتے ہیں جسکا انجام فرقہ واریت پر ہوگا ۔ آپ کی اس سوچ کی وجہ یہی ہے کہ آپ ایسے گھرانے سے تعلق رکھتے ہیں جو ان سب چیزوں کا قائل نہیں اور میں اسلئے ماتم زنی اور تعزیہ داری کو عین اسلام کے مطابق سمجھتا ہوں کہ میں اس فرقہ سے تعلق رکھتا ہوں جو ان سب باتوں کو جائز سمجھتا ہے۔ آپ نے ہمارے فرقے کے ایک اہم عبادت کو عہدِ جاہلیت سے ملا کر ہمارے جذبات کو بہت ٹھیس پنہچائی ہے اگر میں بھی آپ کے فرقے کی کچھ ایسی ہی باتوںکا ذکر کروں جو مجھ کو ابو جہل کی سنت نظر آتی ہیں تو ظاہر ہے آپ کی دل شکنی تو ہوگی ہی پر میرے آپ ہی کے فرقے کے اور بھائیوں کی بھی دل شکنی ہوگی ۔ میں نے جو باتیں اس دھاگے میں ثابت کیں انکو تو آپ غلط قرار دے نہیں سکے اور آگئے وہی طعنے اور تشنوں پر جو آپ کا نہیں پر اکثر جاہلوں کا طرہ امتیاز ہے۔ بھائی صاحب اب میں اپنا موقف تو ضرور پیش کروں گا ماتم کے بارے میں وہ یہ ہے کہ قران کی رو سے اور احادیث سے بھی ماتم اور رونا کبھی حرام نہیں رہا قران میں انبیاء کے رونے اور انکی پاک ازواج کے ماتم کا ذکر ہے احادیث کی کتابوں سے بی بی اماں عائشہ (ر)کا ماتم کرنا ثابت ہے ۔ جب آنحضرت (ص) کے دندان مبارک شہید ہوئے تو کیا حضرت اویس قرنی نے اپنے سارے دانت شہید نہیں کردئے تھے؟ کیا ایسی کوئی روایت ہے کہ آپ(ص) نے اس واقعہ کی مذمت کی ہو یا حضرت اویس قرنی (ر) کو منع کیا ہو کہ یہ غلط کام کیا؟ اگر اللہ کو خون نکالنا چرکے لگانا پسند نہیں تھا تو یہ واقعہ بھی تو خون نکالنے کا ہے اللہ نے قران میں اسکو منع کیوں نہیں کیا جب کہ اسوقت تک وحی کا سلسلہ بھی جاری تھا۔ کیا آنحضرت(ص) کا بیبیوں سے حضرت حمزہ کے ماتم کرنے کا حکم دینا احادیث سے ثابت نہیں ہے۔ کیا حضرت بلال حبشی (ر) کا مسجد نبوی میں اپنے سر اور رخسار پیٹتے ہوئے داخل ہونا ثابت نہیں ہے۔
ماتم اور تعزیہ کا کم از کم یہ فائدہ ضرور ہے کہ اس سے امام حسین (ع) کی شہادت کو ترویج ملی وہ زبان زد عام ہوا جب حضرت امام جعفر صادق سے پوچھا گیا تھا کہ کربلا کی یاد کو اتنے جذبے سے کیوں منایا جاتا ہے تو آپ نے فرمایا کہ اگر اس واقعہ کو زندہ نہ رکھا جاتا تو غدیر کی طرح لوگ اسکو بھی بھول جاتے۔
بہر حال میرا موضوع اسوقت ماتم نہیں تھا صرف میں نے ایک بات کا جواب دیا ہے ویسے ہمارے ہاں تو یہ بھی کہا جاتا ہے کہ ماتم کرنے کا سب سے بڑا فائدہ یہ بھی ہے کہ آپ مارتے ہاتھ اپنے سینے پر ہیں پر اس سے تکلیف امام حسین کے قاتلوں کو ہوتی ہے
محترم میں نے صرف اپنا نقطہ نظر بیان کیا ہے۔ آپ کو اگر لگتا ہے کہ میں بحث کسی اور طرف لے جا رہا ہوں تو آپ جواب نہ دیں یا میری پوسٹ کو رپورٹ کر دیں؟ زبردستی تو آپ مجھ سے اپنی بات نہیں منوا سکتے۔ اور جہاں تک میرے فرقے کی بات ہے تو محترم میں فرقے بازی کو ہی نہیں مانتا۔ آپ اویس قرنی کے بارے کوئی مستند روایت لے کر آئیں۔ اس بارے بھی کافی گڑبڑ ہے کہ ایسا کوئی کردار موجود تھا کہ نہیں۔ جس چیز کو عین اسلامی قرار دے رہے ہیں کیا وہ سنت سے واضح ہے؟ کوئی حدیث لائیں جس میں لکھا ہو کہ سینہ اپنا پیٹا جائے اور تکلیف دشمن کو ہو؟ البتہ بحث برائے بحث کرنی ہے تو بسم اللہ۔ میں ویسے ویک اینڈ کی وجہ سے فری ہوں۔ جم کر بحث ہو جائے گی
 

قیصرانی

لائبریرین
اب بات مجھ کو لگتا ہے یقیناَ آگے بڑھ جائے گی کیوں کہ شاید قیصرانی صاحب حقیقت میں موضوع سے ہٹنا چاہ رہے ہیں۔ اگر میں ثابت کردوں کہ ماتم کرنا سنتِ نبوی ہے تو کیا کل سے آپ ماتم کرنا شروع کردیں گے ؟
اس حسنِ ظن کے لئے شکر گذار ہوں کہ دلوں کا حال پہلے تو صرف اللہ جانتا تھا، اب دیگر محترمان بھی اس کا دعوٰی کرنے لگ گئے ہیں :)
 
Top