عدیم ہاشمی پھر جُدائی، پھر جئے، پھر مر چلے

شیزان

لائبریرین
پھر جُدائی، پھر جئے، پھر مر چلے
لیکن اپنے دل کی جھولی بھر چلے
بڑھ رہی ہیں خواہشیں دل کی طرف
جیسے حملے کے لیے لشکر چلے
اِنتظار اور اِنتظار اور اِنتظار
کیسے کیسے مرحلے سَر کر چلے
زندگی ساری گزاری اِس طرح
جس طرح رسّی پہ بازی گر چلے
وہ مَسل دے یا اُٹھا کر چُوم لے
پُھول اُس دہلیز پر ہم دَھر چلے
ہے کوئی ایسا مرے جیسا عدیم
اپنے دل کو مار کر ٹھوکر چلے
چال اُس کی موچ سے بدلی عدیم
سب حسیں ہلکا سا لنگڑا کر چلے
تُند خُو کا وہ رویہ تھا عدیم
دل پہ جیسے کُند سا خنجر چلے
 
Top