شمشاد

لائبریرین
بہت اچھا لکھا ہے جناب عالی۔ اگر ملکہ عالیہ کو معلوم ہو گیا تو مفسر کے ساتھ ساتھ آپ کی بھی خیر نہیں۔
 

سیدہ شگفتہ

لائبریرین
میں نے اک دو جگہ نیلم کی ارسال کردہ حکایتوں کا حشر نشر کیا۔ اور اک آدھی حکایت کا اور حشر نشر کرتے کرتے رک گیا تو یونہی ذہن میں آیا کہ یہاں تو اور بھی بہت سے قلمکار (مجھے قلمکاری کا کوئی دعوی نہیں) لوگ موجود ہیں جو کسی بھی حکایت کا خوب حلیہ بگاڑ سکتے ہیں۔ تو کیوں نہ اک دھاگہ ایسا شروع کیا جائے۔ جہاں پر حکایتوں کا مزاحیہ و طنزیہ رنگ دے کر نئے انداز میں پیش کیا جائے۔ لیکن اگر طنز کی بجائے مزاح پر زور دیا جائے تو یقیناً زیادہ لطف آئے گا۔

پیش خدمت ہیں پہلے وہ حکایتیں جن کو میں نے اُدھر پیش کر رکھا تھا۔ سوچا وہ بھی اٹھا کر اِدھر ہی لے آتا ہوں۔

(اصل حکایت ٹی-وی)​
آئی پیڈ-III
ایک پرائمری اسکول ٹیچر نے کلاس کے بچوں کو کلاس ورک دیا کہ وہ ایک مضمون لکھیں کہ وہ (بچے) کیا چاہتے ہیں کہ ان کا خدا ان کے لیے کرے۔​

سب بچوں نے مضمون لکھا وہ تمام بچوں کے مضامین اپنے گھر پر چیک کرنے لگی اس دوران ایک مضمون نے اس کو آبدیدہ کردیا اور بے اختیاری میں اس کے آنسو نکل آئے​

اس کا شوہر اس کے قریب ہی بیٹھا تھا اس کے آنسو دیکھ کر پوچھنے لگا کہ کیا ہوا؟​
...​
ٹیچر بولی یہ مضمون پڑھیے یہ ایک بچے نے مضمون لکھا ہے​

شوہر نے مضمون لیکر پڑھنا شروع کیا اس میں لکھا تھا “اے خدا آج میں آپ سے بہت خاص مانگتا ہوں اور وہ یہ کہ مجھے آئی-پیڈ-III لے دے، میں بھی ایسے ہی جینا چاہتا ہوں کہ جیسے میرے امی ابو کی عیاشی لگی ہوئی۔ چلو ابو کا ٹیبلٹ تو آفیشل ہے پر امی نے جو دھوم مچائی ہوئی وہ۔ میں آئی-پیڈ-III لیکر بہت خاص بن جاؤں گا میرے ماں باپ، میرے بہن بھائی سب میرے ہی گرد بیٹھے رہیں گے۔ جب میں ٹیمپل-رن براوؤ کھیل رہا ہونگا تو سب کی نظر میری اچیومنٹس پر ہوگی۔ میں دی-کرس اور مشینیریم جیسی ذہنی گیمز کھیلوں گا تو سب دوست مجھ سے جلیں گے۔ میں تمام گھر والوں کی توجہ کا مرکز بنا رہوں گا۔ بہن بھائی جہاں بھی گیم میں اٹکیں گے تو مجھ ہی پکارا جائے گا۔دوست احباب پائریٹڈ گیمز کے لیئے میرے پیچھے پیچھے پھریں گے۔ ہر کوئی پوچھے گا مجھ سے کہ یہ جیل بریک کیسے ہوگا۔ امی جب ون ٹچ ڈرائنگ جیسی بچگانہ گیمز پر دو دو گھنٹے اٹکی رہیں گی تو میں دل کھول کر مذاق اڑاؤں گا۔​

اور تو اورابو کی توجہ کا بھی ایسے ہی مرکز بن جاؤں گا جیسے کوئی بلیک بیری۔جتنے بھی تھکے ہونگے مجھے کہیں گے کہ میری ٹیبلٹ پر بھی یہ والی گیمز کر دو نہ۔ الغرض سب کو خوب ذلیل کر کے دل کی بھڑاس نکالوں گا۔​

اے خدا میں نے تجھ سے زیادہ نہیں مانگا بس یہ مانگا ہے کہ مجھے اس نوکیا 1210کی جگہ آئی-پیڈ-III لے دے۔​

ٹیچر کے شوہر نے افسوسناک انداز سے بیگم کو دیکھتے ہوئے کہا “ اے خدایا کتنا کمینہ بچہ ہے۔ اور اپنے ماں باپ کے پیسے کا کیسے اجاڑا کرنا چاہتا ہے۔​

ٹیچر نے نظریں اٹھا کر اپنے شوہر کی طرف دیکھا اور کہا کہ یہ مضمون “ہمارے اپنے بچے“ کا لکھا ہوا ہے.:cry:

====================​
انوکھا بیج - اک سبق آموز کہانی
زید گملے والی کہانی سے مالک بن بیٹھا اور سابقہ مالک کی طرح اس نے بھی شادی نہ کی اور نہ ہی اسکی کوئی اولاد ہوئی۔ دور اندیش ہوتا تو شادی کرتا، ملوکیت کو فروغ دیتا اور اس جھنجٹ سے جان چھڑاتا مگر بوڑھا ہونے پر وہی مسئلہ دوبارہ درپیش آگیا۔ سست تو ازل سے تھا۔ نئی ترکیب کہاں سوچتا سو پرانی والی میں ہی ترمیم کرلی۔ اور بیج تمام ڈائریکٹرز کے درمیان بانٹ دیا۔ خوبی قسمت دیکھیئے کہ تمام پرانے ڈائریکٹرز اپنے ساتھ ہونے والی ظلم کی داستا ں مشہور کر گئے تھے۔ تو تمام نئے اس کمینگی سے بخوبی آگاہ تھے۔​
کچھ عرصہ بعد سب ڈائریکٹر اپنے بیج کے سڑنے کی باتیں کرنے لگے سوائے جگے کے جو پریشان تھا ۔ وہ خاموش رہتا اور اپنی خِفت کو مٹانے کیلئے مزید محنت سے دفتر کا کام کرتا رہا ۔ دراصل جگے نے پرانا گملا خرید کر اس میں پرانی مٹی ڈالی اور کھاد بھی نہ ڈالی۔ مگر پھر بھی بیج سے پودا اگ آیا جو اصل پریشانی کا سبب تھا۔​
ایک ماہ بعد زید نے پھر سب ڈائریکٹرز کا اجلاس بلایا اور کہا کہ سب وہ گملے لے کر آئیں جن میں انہوں نے بیج بویا تھا ۔ سب اجڑے اور سوکھے سڑے گملوں کے ساتھ اجلاس میں پہنچے مگر جگا جس کا بیج اُگا ہوا تھا وہ خوبصورت پودے کے ساتھ اجلاس میں شامل ہوا اور ادارے کے سربراہ سے دُور والی کرسی پر بیٹھ گیا ۔ اجلاس شروع ہوا تو سب نے اپنے بیج اور پودے کے ساتھ کی گئی محنت کا حال سنایا اور کہا کہ یہ نامراد پودا تو اگنے میں ہی نہیں آرہا۔ اور کسی دوشیزہ کے اخلاق کی مانند سڑتا رہا۔ اس اُمید سے کہ اسے ہی سربراہ بنایا جائے​
سب کی تقاریر سننے کے بعد زید نے بھی حسب روایت کہا “ایک آدمی کم لگ رہا ہے” اور الفاظ کے چناؤ میں بھی تبدیلی نہ کی۔ اس پر جگا جو ایک اور ڈائریکٹر کے پیچھے چھُپا بیٹھا تھا کھڑا ہو کر سر جھکائے بولا “جناب ۔ مجھ سے جو کچھ ہو سکا میں نے کیا مگر میرے والا بیج اگ پڑا ”۔ اس پر کچھ ساتھی ہنسے اور کچھ نے جگے کے ساتھ ہمدردی کا اظہار کیا۔ اک تو باقاعدہ لپٹ لپٹ کر رونے لگا۔ جگے نے اسے تسلی دی کہ کوئی بات نہیں ہوتا رہتا ہے۔​
چائے کے بعد زیدنے اعلان کیا کہ اس کے بعد جگا ادارے کا سربراہ ہو گا ۔ اس پر کئی حاضرین مجلس جو دوراندیش تھے اور پہلے سے سوچ رہے تھے کہ اس بار بھی کوئی گھٹیا پن تو لازمی ہوگا آرام سے بیٹھے رہے۔ بقیہ نے حیرانگی کا اظہار کیا۔ ادارے کے سربراہ نے کہا “اس ادارے کو میں نے اک گملے کی وجہ سے اس مقام پر پہنچایا ہے اور میرے بعد بھی ایسا ہی آدمی ہونا چاہیئے اور جگا ہی وہ آدمی ہے جو محنتی ہونے کے ساتھ دیانتدار بھی ہے ۔ میں نے آپ سب کو صحیح اور بہترین بیج دیئے تھے جن کا نہ اگنے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا تھا ۔ سوائے جگے کے آپ سب نے بیج اگانے کی زحمت بھی نہ کی"۔​
اخلاقی سبق: اے بندے ۔ مت بھول کہ جب تجھے کوئی بیج اور گملا دے تو اسے اک بار اگا کر تو دیکھ لے۔ تیرا کیا جائے گا۔ ہو سکتا ہے قسمت کھل جائے۔​

ہاہاہا
ہاہاہاہا
او گاڈ :happy::happy::rollingonthefloor:
 

سیدہ شگفتہ

لائبریرین
نیرنگ خیال بھائی ، اتنے شاندار جملے :happy:

بہت دلچسپ اوکے سبق آموز بھی ۔
ابھی انوکھا بیج تک پڑھا ہے اب مزید بھی پڑھنا پڑے گا یعنی، بہت دلچسپ لکھا :happy:
 

نیرنگ خیال

لائبریرین
نیرنگ خیال بھائی ، اتنے شاندار جملے :happy:

بہت دلچسپ اوکے سبق آموز بھی ۔
ابھی انوکھا بیج تک پڑھا ہے اب مزید بھی پڑھنا پڑے گا یعنی، بہت دلچسپ لکھا :happy:

آپی ساری پڑھ لیں جلدی جلدی تا کہ باقی نئی حکایتیں بھی آ سکیں :)
 

نیرنگ خیال

لائبریرین
زبان کا زخم (اصل حکایت)​
حکایات کا بے جا استعمال (نئی حکایت)​

ایک بچہ بہت بدتمیز اور غصے کا تیز تھا۔ اسے بات بے بات فوراً غصہ آجاتا ، وہ تمام عواملجن کی وجہ سے وہ اسقدر بدتمیز اور غصیلہ تھا اگران کا ذمہ دار والدین کو ٹھہرایا جائے گا تو کہانی آگے نہ بڑھے گی حالانکہ سچ بات یہی ہے۔ خیر حکایت آگے بڑھانے کو ہم وجہ کو نظر انداز کرتے ہیں تا کہ لوگوں کو عبرت آموز حکایت پڑھنے کو ملے۔ اور دیکھیں کے بچے کے والدین کو احساس ہوا یا نہیں اپنی کوتاہیوں کا اور انہوں نے اس کے سدھار کے لیئے کوئی کوشش کی یا نہیں۔ اور اگر ایسی حکایات نہ بنے گیں تو لوگوں کا کیا بنے گا۔ وہ عبرت کیسے پکڑیں گے۔ آخر انہوں نے بھی تو سبق حاصل کرنا ہے۔
تو جناب ہوا یوں کہ والدین نے اس بچے پر کنٹرول کی بہت کوشش کی لیکن کامیاب نہ ہوئے، کیوں کہ اب پانی سر سے گزر چکا تھا اور بچہ بھی ماں باپ کے حربوں کو خوب سمجھنے لگا تھا۔الٹا وہ انکو بتاتا کہ انسان کو اپنے بچوں کی تربیت یوں کرنی چاہیئے۔ اسکی ان حرکتوں کی وجہ سے گھر میں ماں باپ الگ طوفان بدتمیزی برپا کیئے رکھتے۔ باپ کہتا بالکل اپنے نانا جیسا ہے۔ اور ماں کہتی دادا پر گیا ہے۔ جبکہ اسکی پیدائش پر پورا خاندان کہہ رہا تھا کہ میرے پر گیا ہے ۔۔۔میرے پر گیا ہے۔
ایک روز اس کے والد کو ایک ترکیب سوجھی ۔ اور انٹرنیٹ پر "بدتمیز بچے کا علاج" سرچ کیا تو اک حکایت مل گئی۔خوشی سے اچھل پڑا کے لو جی مل گیا علاج ۔ شام کو دفتر سے واپسی پر کیلوں کا ڈبہ لے آیا۔ اور انتظار کرنے لگا کہ بچہ غصے میں آئے تو عملی انداز میں بچے کی تربیت کا کام سر انجام دیا جائے۔
زیادہ انتظار نہ کرنا پڑا ۔ بیٹے کے غصہ میں آتے ہی باپ نے خلاف توقع بڑی نرمی سے کہا کہ بیٹا وہاں میز سے کیلوں کا ڈبہ اٹھا لاؤ۔ بیٹا نے باپ کو حیرت سے دیکھا اور کچھ نہ سمجھنے کے انداز میں جا کر اک ٹرے میں پانچ چھ کیلے رکھ لایا۔ باپ کا دماغ گھوم گیا۔ مگر بڑی نرمی سے دوبارہ سمجھایا بیٹا کیلے نہیں کیلیں۔
اب بیٹے کو گھر کے پچھلے حصے کے پاس لے جا کر کہا، بیٹے جب تمہیں غصہ آئے اس ڈبہ میں سے ایک کیل نکال کر یہاں دیوار میں ٹھونک دینا پہلے دن میں ہی لڑکے نے دیوار میں لاتعداد کیلیں ٹھونک ماریں۔ باپ کو بڑا غصہ آیا کہ حکایت میں ۳۷ تھیں۔ خیر دو دن گزرے ہونگے کہ بیٹے باپ کے سامنے پیش ہوا۔ باپ خوش ہو گیا کہ دوسرے حصے کو سنانے کا وقت آگیا ہے۔ مگر بیٹے کی یہ بات سنکر ساری خوشی خاک میں مل گئی۔
کیلوں کا ڈبہ ختم ہو گیا ہے
اگلے دن باپ اک اور ڈبہ لے آیا۔ مگر اک دن بعد ہی دوبارہ بیٹا سامنے کھڑا دیکھکر اسکا پارہ ساتویں آسمان پر پہنچ گیا اور چیخ کر بولا تو کیا ڈبہ پھر ختم ہو گیا۔
نہیں پاپا۔ بیٹے نے جواب دیا۔ دیوار میں جگہ ختم ہو گئی ہے۔
تو دوسری دیوار میں شروع ہو جاو جا کر۔ باپ نے بیچارگی سے سر ہلاتے ہوئے کہا۔
پہلے ہفتے میں ہی بچہ سمجھ گیا کہ غصہ کنٹرول کرنا آسان ہے لیکن دیوار میں کیل ٹھونکنا خاصا مشکل کام ہے۔ کیوں کہ غصے میں اندھے ہو کر کیل ٹھونکنے سے اکثر ہاتھ پر بھی چوٹ لگ جاتی۔ اس نے یہ بات اپنے والد کو بتا ئی۔
والد جو سوچ رہا تھا کہ یہ حکایت تو میرے گلے پڑ گئی۔ پورا گھر کیلوں کیل ہوا ہوا ہے۔ اور ہر وقت جو ٹھک ٹھک کی آواز وہ الگ۔ خوش ہو گیا۔ کہ بچہ تیز جا رہا ہے۔ پھر خیال آیا کہ حکایت والے نے اضافی وقت احتیاط لکھا ہوگا۔

اب پارٹ ٹو کے مطابق کہا کہ جب تمہیں غصہ آئے اور تم اسے کنٹرول کرلو تو ایک کیل دیوار میں نکال دینا۔اس کام میں بیٹے کو بہت جلد احساس ہو گیا۔ کہ کیل نکالنا کوئی آسان کام نہیں۔ جب کوئی کیل نکالتا تو کیل اکثر سیدھا نہ نکلتا اور زور آزمائی کی وجہ سے سارا پلستر اکھڑ جاتا۔ اب اسے اس بات پر غصہ آتا کہ اک تو غصہ کنڑول کرو اور اوپر سے کیل نکالنے کی مشقت۔ اس سے تو کہیں بہتر ہے کہ کسی کو چار گالیاں دے کر من کا بوجھ ہلکا کر لیا جائے۔ خیر لڑکے نے باپ کی ہدایت کے مطابق کا کیا اور بہت جلد دیوار سے ساری کیلیں جن کی تعداد کا کوئی حساب نہیں تھا ، نکال دیں۔
باپ جب بیٹے کو لے کر نصیحت کی غرض سے دیوار کے پاس پہنچا تو پوری دیوار میں جابجا سوراخ اکھڑا پلستر اوراینٹوں کے ٹوٹنے سے بد ہیئت دیوار کو دیکھکر غصے میں پاگل ہو گیا۔سوراخوں میں چیونیٹیوں نے گھر بنا رکھے تھے۔ ابھی کچھ مہینے پہلے ہی پینٹ کروایا تھا۔ اسکا بھی ناس ہو چکا تھا۔ بیٹا باپ کی حالت دیکھ کر کیل اور ہتھوڑی لے آیا۔ اور کہا ابا جی آپ کو بھی اس مشق کی اشد ضرورت ہے۔
باپ نے باپنے غصے پر قابو پا کر اس حکایت لکھنے والے کے اسلاف کی شان میں دل ہی دل میں بے بہا نذرانہ عقیدت پیش کرتے ہوئے کہا، بیٹا تم نے اپنے غصہ کو کنٹرول کرکے بہت اچھا کیا لیکن اب اس دیوار کو غور سے دیکھو یہ پہلے جیسی نہیں رہی، اس میں یہ سوراخ کتنے برے لگ رہے ہیں۔ پینٹ پر خرچہ الگ ہوگا اب بیٹا۔ جبکہ ہلکی پھلکی مرمت کا بھی بندوبست کرنا پڑے گا۔ کیوں کہ یہ ہمارا گھر ہے اور ہم نے اسے بنوانا ہے۔ بالکل اسی طرح جب تم کسی پر چیختے چلاتے ہو تو اس کے دل پر بھی زخم بنتے چلے جاتے ہیں۔ بھلے تم بعد میں معافی مانگ لو مگر نشان وہیں رہے گا۔ اور اگر وہ بندہ کمینہ ہے تو اپنی باری پر بدلہ ضرور لے گا۔ اور پھر زخم در زخم کی اک داستاں شروع ہو جائے گی۔بیٹا باپ کی بات سمجھ گیا۔ اور اس نے اک سیاسی وعدہ بھی کیا کہ اب وہ سدھر گیا ہے۔ مگر اک سوال جو اسکے ننھے ذہن میں آیا وہ یہ کہ چھوٹے بھائی کے دل میں جو سوراخ ہے وہ ماں باپ کے جملوں کی وجہ سے ہے؟ ان کی غصیلہ پن اور بدزبانی کو روکنے کے لیئے کیا کرنا چاہیئے۔ اس سوال پر باپ پر وہی غصے کا موروثی دورہ پڑ گیا۔ اور وہ دیوار میں کیلیں ٹھونکنے لگا۔ جبکہ بیٹے نے کمرے کی را ہ لی۔
اخلاقی سبق: جب آپ کسی کو نصیحت کرو تو لازم ہے کہ وہ برائی آپ کے اپنے اندر نہ پائی جاتی ہو۔ باقی بھلے ہزار برائیاں ہوں۔ اور بچوں کی تربیت پنگوڑے سے کرنی چاہیئے نہ کہ جب کہیں سے حکایت ہاتھ آجائے تب۔​
 

قیصرانی

لائبریرین
بیٹا باپ کی حالت دیکھ کر کیل اور ہتھوڑی لے آیا۔ اور کہا ابا جی آپ کو بھی اس مشق کی اشد ضرورت ہے۔

مگر اک سوال جو اسکے ننھے ذہن میں آیا وہ یہ کہ چھوٹے بھائی کے دل میں جو سوراخ ہے وہ ماں باپ کے جملوں کی وجہ سے ہے؟

انتہا ہے یار۔ جیتے رہیئے۔ بہت دن بعد کھل کر ہنس رہا ہوں :)
 

نیرنگ خیال

لائبریرین
شکریہ آپکا :)

انتہا ہے یار۔ جیتے رہیئے۔ بہت دن بعد کھل کر ہنس رہا ہوں :)
ہا ہا ہا قیصرانی بھائی۔۔۔۔ آج موبائل کے انٹرنیٹ سے سائن ان ہو کر یہ لکھی۔ :) :) خوشی ہوئی کہ آپکو پسند آگئی۔ :)

بہت شاندار طریقے سے اتنی پیاری حکایت کا ستیاناس مارا ہے :applause: :heehee:

نیرنگ خیال ایسے ہی بیچاری حکایتوں کو نیا رنگ دیتے رہو ۔۔۔ ۔۔ شاباش :laugh:
آپی میری محنت کو ناس کہہ دیا۔ اووووں اوووووں :cry:
شکریہ آپی۔ :)
 

مہ جبین

محفلین
شکریہ آپکا :)


ہا ہا ہا قیصرانی بھائی۔۔۔ ۔ آج موبائل کے انٹرنیٹ سے سائن ان ہو کر یہ لکھی۔ :) :) خوشی ہوئی کہ آپکو پسند آگئی۔ :)


آپی میری محنت کو ناس کہہ دیا۔ اووووں اوووووں :cry:
شکریہ آپی۔ :)

:haha:
نیرنگ خیال ! یہ سچی مچی والا ناس تھوڑی ہے ۔۔۔۔ مزاحیہ ناس ہے بھائی :lol:
 

تعبیر

محفلین
اتنا زبردست تھریڈ اور مجھے پتہ ہی نہیں چلا :(
سیدھا متفرقات سے یہاں آئی ہوں اور ابھی صرف کیلوں والا ہی پڑھا ہے اف اف افففففف
اتنا دلچسپ :ROFLMAO::ROFLMAO::ROFLMAO:
بہت خوب نیرنگ خیال
 

نیرنگ خیال

لائبریرین
اتنا زبردست تھریڈ اور مجھے پتہ ہی نہیں چلا :(
سیدھا متفرقات سے یہاں آئی ہوں اور ابھی صرف کیلوں والا ہی پڑھا ہے اف اف افففففف
اتنا دلچسپ :ROFLMAO::ROFLMAO::ROFLMAO:
بہت خوب نیرنگ خیال
ارے حیرت ہے اتنی تاخیر :eek:
خیر میں نے کسی کو ٹیگ نہیں کیا تو اس لیئے :p
اب باقی بھی پڑھ لیں۔ یہ تبصرہ کر کے غائب نہ ہو جایئے گا تعبیر آپی​
 

تعبیر

محفلین
ارے حیرت ہے اتنی تاخیر :eek:
خیر میں نے کسی کو ٹیگ نہیں کیا تو اس لیئے :p
اب باقی بھی پڑھ لیں۔ یہ تبصرہ کر کے غائب نہ ہو جایئے گا تعبیر آپی​
بس بھئی دیر اور تاخیر کا دوسرا نام تعبیر ہے :p
خبردار جو آئندہ مجھے ٹیگ نہیں کیا ورنہ نہیں تو، آگے جانتے ہیں نا آپ :p
جی ضرور پڑھونگی ان شاءاللہ لیکن یہ سیکشن مجھ سے ہمیشہ غائب ہو جاتا ہے پتہ نہیں کیسے
نیلم کے تھریڈ سے یہاں کا دروازہ کھلتا ہے میرے لیے :D
ایک بات تو کہ دوں کہ آپ ماشاءاللہ بہت ٹیلینٹڈ ہیں :)
 

نیرنگ خیال

لائبریرین
بس بھئی دیر اور تاخیر کا دوسرا نام تعبیر ہے :p
خبردار جو آئندہ مجھے ٹیگ نہیں کیا ورنہ نہیں تو، آگے جانتے ہیں نا آپ :p
جی ضرور پڑھونگی ان شاءاللہ لیکن یہ سیکشن مجھ سے ہمیشہ غائب ہو جاتا ہے پتہ نہیں کیسے
نیلم کے تھریڈ سے یہاں کا دروازہ کھلتا ہے میرے لیے :D
ایک بات تو کہ دوں کہ آپ ماشاءاللہ بہت ٹیلینٹڈ ہیں :)
آپی ٹیگ تو کسی کو بھی نہیں کیا۔ :(
بس جلدی سے ساری پڑھ لیں۔ اور بتائیں کہ کیسی ہیں۔
نیلم کے دھاگوں سے راستہ اس لیئے ملتا کہ اسکی حکایتوں کا حشر نشر ہو رہا۔ اور اس نے مجھے ڈرا رکھا کہ کسی اور کی حکایت کا برا حشر کیا تو مار پڑے گی۔
اللہ کا بہت شکر ہے آپی کہ اس نے مجھے غرور سے محفوظ رکھا۔ :) :)
 
Top