شعر و شاعر (اشعار اور خالق)

طارق شاہ

محفلین

بے یقینی کا یہ عالَم ہو ، تو جینا کیسا
ایک پَل بھی مجھے جینے کا گُماں ہو تو جیوں

امِیر خُسرو
(ترجمہ صوفی تبسّم)
 

طارق شاہ

محفلین

اُدھر جلوۂ مُضطرب، توبہ توبہ !
اِدھر، یہ دِلِ بے قرار اللہ اللہ

وہ لب ہیں، کہ ہے وجد میں موجِ کوثر
وہ زُلفیں ہیں یا خُلدِ زار، اللہ اللہ

امِیر خُسرو
( ترجمہ صُوفی تبسّم
)
 

طارق شاہ

محفلین

تِرے جوشِ حیرتِ حُسن کا اثر اِس قدر ہے یہاں ہُوا
کہ نہ آئینے میں جِلا رہی، نہ پَری میں جلوہ گری رہی

چَلی سمتِ غیب سے اِک ہَوا کہ چمن ظہُور کا جل گیا
مگر ایک شاخِ نہالِ غم، جسے دِل کہَیں، سو ہَری رہی

سِراج اورنگ آبادی
 

طارق شاہ

محفلین

ہر چند! ہر ایک شے میں تُو ہے
پر تجھ سی تو، کوئی شے نہیں ہے

ہاں، کھائیو مَت فریبِ ہستی!
ہر چند کہَیں کہ ہے، نہیں ہے

ہستی ہے، نہ کُچھ عَدم ہے غاؔلب!
آخر تُو کیا ہے؟، اے نہیں ہے

مرزا اسداللہ خاں غالؔب
 

طارق شاہ

محفلین

حُسنِ نِسوانی ہے بجلی تیری فِطرت کے لیے !
پھر عجب یہ ہے کہ، تیرا عِشق بے پروا بھی ہے

تیری ہستی کا ہے آئین ِتفنّن پر مدار
تو کبھی ایک آستانے پر جَبِیں فرسا بھی ہے

ہے حَسِینوں میں وَفا نا آشنا تیرا خطاب
اے تلوّن کیش! تو مشہوُر بھی ، رُسوا بھی ہے

علامہ اقباؔل
 
Top