حسان خان

لائبریرین
ازرقی هروی کے ایک قصیدے سے ایک بیت:
چو در دریایِ دستِ تو بجُنبد موجِ زرافشان

ستاره بادبان باید، فلک کشتی، زمین لنگر
(ازرقی هروی)
جب تمہارے دستِ [جُود و کرم] کے دریا میں موجِ زرافشاں حرکت میں آئے تو بادباں کے طور پر ستارہ، کشتی کے طور پر فلک، اور لنگر کے طور پر زمین لازم ہے۔
 

حسان خان

لائبریرین
ساکنِ خاکِ درِ او شده‌ام لیک چه سود
گرچه دارم صفتِ صیدِ حرم می‌کُشَدم
(محمد فضولی بغدادی)
میں نے اُس کے در کی خاک پر سکونت اختیار کی ہے، لیکن کیا فائدہ؟ کہ اگرچہ میں صیدِ حرم کی صفت رکھتا ہوں، [لیکن] وہ مجھے [پھر بھی] قتل کرتا ہے۔
× صیدِ حرم اُس جانور کو کہتے ہیں جو سرزمینِ حرم کی حدود میں ہو۔ اسلامی شریعت کے رُو سے اُس کا شکار حرام ہے۔
 
آخری تدوین:

حسان خان

لائبریرین
نیست جز لیلیٰ بقای عشقِ مجنون را سبب
ضایع است آن کس که بر گل‌چهره‌ای منسوب نیست
(محمد فضولی بغدادی)
عشقِ مجنوں کی بقا کا سبب بجز لیلیٰ نہیں ہے؛ وہ شخص ضائع ہے جو کسی گُل چہرہ سے منسوب نہیں ہے۔
 

حسان خان

لائبریرین
از آن در این چمنم میلِ گل‌عذاری نیست
که هیچ برگِ گلی بی‌بلای خاری نیست
(محمد فضولی بغدادی)

مجھے اِس چمن میں اِس لیے کس گُل رخسار کی جانب میل نہیں ہے کہ کوئی بھی برگِ گُل کسی خار کی بلا کے بغیر نہیں ہے۔
 

حسان خان

لائبریرین
به مُردن از غمِ دل رَسته بودم، آن لبِ لعل
حیات داد مرا باز در عذاب انداخت
(محمد فضولی بغدادی)

میں مر کر غمِ دل سے نجات پا گیا تھا، [لیکن] اُس لبِ لعل نے مجھے زندگی دے کر دوبارہ عذاب میں ڈال دیا۔
 

حسان خان

لائبریرین
به ره چو پیشِ تو آیم، تو را سلام کنم
به سرد پاسخ گویی علیک و برگردی
بسوختی تر و خشکِ مرا به پاسخِ سرد
که دید هرگز سوزنده‌ای به این سردی؟
(خاقانی شروانی)
میں راہ میں جب تمہارے سامنے آ کر تمہیں سلام کرتا ہوں؛ تم سرد مِہری سے 'علیک' جواب دے کر مُڑ جاتے ہو؛ تم نے [اپنے] سرد جواب سے میرے خشک و تر کو جلا ڈالا؛ اِس سردی کے ساتھ جلانے والا کب کسی نے دیکھا ہے؟
 

حسان خان

لائبریرین
به دنیا کارِ عُقبیٰ کن که شدّت می‌کشد آن کس
که تابستان نباشد غُصّهٔ برگِ زمستانش
(محمد فضولی بغدادی)

دنیا [ہی] میں کارِ آخرت کرو، کہ جس شخص کو موسمِ گرما میں موسمِ سرما کے ساز و ساماں اور تیّاری کا غم نہ ہو وہ سختی جھیلتا ہے۔
 

حسان خان

لائبریرین
فتاده‌است، فضولی! به دستم آن خمِ زلف
هزار شکر که دورِ فلک به کامِ من است
(محمد فضولی بغدادی)
اے فضولی! میرے دست میں [یار کا] وہ خَمِ زُلف آ گیا ہے؛ ہزار شکر کہ فلک کی گردش میری آرزو کے موافق ہے!
 
آخری تدوین:

حسان خان

لائبریرین
من نه تنها باختم در راهِ آن بت نقدِ دین
زان بتِ بی‌دین، فضولی، هیچ اهلِ دین نرَست!
(محمد فضولی بغدادی)

اے فضولی! صرف میں ہی اُس بت کی راہ میں نقدِ دین نہیں ہارا، [بلکہ] اُس بُتِ بے دین سے کوئی بھی اہلِ دین نہ بچا۔
 

حسان خان

لائبریرین
علی اِمشب مَیِ شیراز در جام و سبو دارد
الا یا ایُّها الساقی ادِر کأساً وَناوِلْها
(ناصر علی سرهندی)
'ناصر علی' کے جام و سبو میں اِس شب بادۂ شیراز ہے۔۔۔ اے ساقی! کاسۂ [شراب] گھماؤ اور پیش کرو۔
 

حسان خان

لائبریرین
عُرفی شیرازی کے ایک حمدیہ قصیدے سے ایک بیت:
نورِ حیرت در شبِ اندیشهٔ اوصافِ تو

بس همایون مرغِ عقل از آشیان انداخته
(عُرفی شیرازی)
[اے خدا!] نورِ حیرت نے تمہارے اوصاف کی فکر کی شب میں کتنے ہی فرخندہ و مبارک مُرغانِ عقل کو آشیان سے گرا دیا ہے۔

یعنی: اے خدا! تمہارے اوصاف کو سمجھنے کی فکر میں دانایانِ بزرگ کی عقل حیران ہو گئی ہے۔
شاعر نے اِس بیت میں حیرت کو نور سے، فکر و تفکّر کو شب سے، عقل کو مرغ سے، اور درجۂ عقل کو آشیانے سے تشبیہ دی ہے۔
 
آخری تدوین:

حسان خان

لائبریرین
عُرفی شیرازی کے ایک حمدیہ قصیدے سے ایک بیت:
در ثنایت چون گشایم لب که برقِ ناکسی

مَنطِقم را آتش اندر خانمان انداخته
(عُرفی شیرازی)
[اے خدا!] میں تمہاری ثنا میں لب کیسے کھولوں؟ کہ برقِ ناکَسی نے میرے خانۂ نُطق کے اندر آتش لگا دی ہے۔
 

حسان خان

لائبریرین
هزار نامه نوشتم به یار، لیک چه سود؟
کسی که لطف نماید به او رساند، نیست
(محمد فضولی بغدادی)

میں نے یار کو ہزار نامے لکھے، لیکن کیا فائدہ؟ کہ کوئی شخص ایسا نہیں ہے جو لُطف کر کے اُنہیں یار تک پہنچا دے۔
 

حسان خان

لائبریرین
هر گنجِ سعادت که خدا داد به حافظ
از یُمنِ دعایِ شب و وردِ سحری بود
(حافظ شیرازی)
خدا نے حافظ کو جو بھی گنجِ سعادت عطا کیا وہ دعائے شب اور وِردِ سَحَری کی برکت سے تھا۔
 
آخری تدوین:

حسان خان

لائبریرین
به ملکِ دهر، فضولی! مبند دل، کاینجا
بسی‌ست آمده، امّا کسی که ماند نیست
(محمد فضولی بغدادی)
اے فضولی! مُلکِ دہر (دنیا) سے دل مت باندھو، کہ یہاں آنے والے تو بسیار ہیں، لیکن ایسا کوئی نہیں ہے جو رُکا رہ جائے۔
× بِسْیار = بہت
 
آخری تدوین:

حسان خان

لائبریرین
شبی دیدم که در زلفِ تو دل، سرگشته می‌گردد
نمی‌دانم چه تعبیر است این خوابِ مُشوّش را
(محمد فضولی بغدادی)
میں نے ایک شب [خواب میں] دیکھا کہ تمہاری زلف میں [میرا] دل سرگشتہ گھوم رہا ہے۔۔۔ میں نہیں جانتا کہ اِس خوابِ پریشاں کی کیا تعبیر ہے۔
 
آخری تدوین:

حسان خان

لائبریرین
هست می‌گویند خالی آن عِذارِ آل را
چشم کَی برداشتم ز ابرو که بینم خال را؟
(محمد فضولی بغدادی)
کہتے ہیں اُس رُخسارِ سرخ پر ایک خال موجود ہے۔۔۔ [لیکن] میں نے [اُس کے] ابرو سے کب [ہرگز] نظر اٹھائی کہ میں خال کو دیکھوں؟
 
آخری تدوین:

حسان خان

لائبریرین
گفتمش: "با قدِّ خم زان خال، دور افتاده‌ام"
گفت: "باکی نیست گر نقطه نباشد دال را"
(محمد فضولی بغدادی)
میں نے اُس سے کہا: "میں [اپنے] قدِ خمیدہ کے ساتھ اُس خال سے دور ہو گیا ہوں۔"؛ اُس نے کہا: "کوئی تشویش نہیں اگر دال پر نقطہ نہ ہو۔"

× شاعر نے اپنے خَم قد کو 'دال' سے اور خالِ محبوب کو 'نقطہ' سے تشبیہ دی ہے۔ حَرفِ 'دال' نقطے کے بغیر لکھا جاتا ہے۔
 

حسان خان

لائبریرین
میر جایی که به نِیرانِ محبت می‌سوخت
صبح دیدیم به جا مانده کفِ خاک آنجا
(میر تقی میر)

'میر' جس جا پر محبت کی آتشوں سے جل رہا تھا، وہاں ہم نے صبح دیکھا کہ [صرف] کفِ خاک باقی رہا ہے۔
 

حسان خان

لائبریرین
سر کن اشعارِ ماتمِ دلِ میر
برمخوان واقعاتِ مُقبِل را
(میر تقی میر)
میر کے اشعارِ ماتمِ دل کو آغاز کرو۔۔۔ واقعاتِ مُقبِل کی قرائت مت کرو۔

× ہند ہجرت کر جانے والے فارسی شاعر آقا محمد شیخا متخلّص بہ مُقبِل اصفہانی نے واقعاتِ کربلا کو رثائی طرز میں موزوں و منظوم کیا تھا، جسے 'واقعاتِ مُقبِل' کے نام سے جانا جاتا ہے اور یہ مقتلِ منظوم مُحتشَم کاشانی کے مرثیے 'باز این چه شورش است که در خلقِ عالَم است' کی طرح ہند کے شیعوں میں اپنی غم انگیزی کے لیے مشہور رہا ہے۔ میر تقی میر نے اپنے ایک اردو شعر میں بھی اِن دونوں شاعروں کا ذکر کیا ہے:
مرثیہ میرے بھی دل کا رقّت آور ہے بلا
مُحتشَم کو میر میں کیا جانوں اور مُقبِل ہے کیا
 
آخری تدوین:
Top