از تست کہ ایں زمزمہ با طبعِ نظیری ست
بانگی کہ نباشد نکند کوہ صدا ہیچ


نظیری کی طبیعت کے پاس یہ جو زمزمہ ہے، تجھ سے ہے۔
اگر کوئی آواز موجود ہی نہ ہو تو پہاڑ بھی جوابی صدا نہیں کرتا۔

نظیری نیشاپوری

غوغای حزین است ز فریادِ نظیری
"بانگی کہ نباشد نکند کوہ صدا ہیچ"


حزیں کا شور نظیری کی فریاد (کی وجہ) سے ہے۔
اگر کوئی آواز موجود ہی نہ ہو تو پہاڑ بھی جوابی صدا نہیں کرتا۔


شیخ علی حزین
 
مشکلیں آسان ہوں اور حاجتیں بر آئیں سب
نقشبندی سلسلے کے اولیا کے واسطے

میرے والد صاحب کا تعلق بھی سلسلہء نقشبندیہ سے ہے۔
جامی غالباََ خواجہ عبید اللہ احرار کے مرید تھے جو کہ سلسلہء نقشبندیہ کی اہم شخصیت ہیں۔
نظم السلسله مع شرح رباعیات، فارسی - Maktabah Mujaddidiyah
 

حسان خان

لائبریرین
سوخت از حسرت سلیمی رحم کن بر حالِ او
ماهِ من تا کَی فروزی آتشِ رخسار را

(خلیفهٔ عثمانی سلطان سلیم خان اول)
'سلیمی' حسرت سے جل گیا، اُس کے حال پر رحم کرو۔۔۔ اے میرے ماہ! کب تک آتشِ رخسار کو فروزاں کرو گے؟
 
آخری تدوین:

حسان خان

لائبریرین
گرچه آن ماه جفا کرد فضولی بر من
من ندارم گِله از ماه ز گردون دارم
(محمد فضولی بغدادی)

اے فضولی! اگرچہ اُس ماہ نے مجھ پر جفا کی، [لیکن] مجھے ماہ سے گِلہ نہیں، [بلکہ] چرخِ فلک سے ہے۔
 

محمد وارث

لائبریرین
نامِ من بندۂ عشق است و نشانم داغ است
روزِ محشر بہمیں نام و نشاں برخیزم


واقف لاہوری (بٹالوی)

میرا نام بندۂ عشق ہے اور میرا نشان (سینے کے) داغ ہیں، روزِ محشر میں اِسی نام و نشان کے ساتھ اُٹھوں گا۔
 

حسان خان

لائبریرین
ای ابتدایِ دردت هر درد را نهایت
عشق تو را نه آخر، شوقِ تو را نه غایت
(کمال خُجندی)

اے کہ تمہارے درد کی ابتداء ہر درد کی انتہاء ہے؛ تمہارے عشق کا نہ کوئی آخر ہے، نہ تمہارے شوق کا کوئی اختتام ہے۔
 

حسان خان

لائبریرین
در حقِ ما ای رقیب هر چه تو خواهی بگوی
نیست به همچون تویی بِه ز خموشی جواب
(کمال خُجندی)

اے رقیب! ہمارے بارے میں تم جو بھی چاہتے ہو، کہو۔۔۔ تم جیسے کسی کے لیے خاموشی سے بہتر [کوئی] جواب نہیں ہے۔
 

حسان خان

لائبریرین
غنچه پیشِ دهنت لب به حدیثی نگشود
رسمِ خجلت‌زدگان است بلی کم‌سخنی
(کمال خُجندی)
غنچے نے تمہارے دہن کے سامنے سُخن کرنے کے لیے لب نہیں کھولے۔۔۔ ہاں! شرم زدوں کی عادت کم سُخنی ہے۔
 
آخری تدوین:

حسان خان

لائبریرین
چه سود از ناله کاندر چشمِ بختت
ز نفخِ صور بیداری نیاید
(خاقانی شروانی)

نالے سے کیا فائدہ؟ کہ تمہارے بخت کی چشم تو نفخِ صُور سے [بھی] بیدار نہیں ہو گی۔
× نَفْخ/نَفْخَه = پھونک، دم

تشریح: یعنی نالے سے تمہاری بدبختی خوش بختی میں تبدیل نہیں ہو جائے گی، لہٰذا اُس کا کوئی فائدہ نہیں ہے۔ کہ تمہارا بختِ خوابیدہ تو ایسا ہے اگر صور پھونکا جائے، کہ جس سے ہر مردہ بیدار ہو جائے گا، تو بھی اُس میں بیداری کے آثار ظاہر نہیں ہوں گے۔
 

حسان خان

لائبریرین
(رباعی)
بُویت شُنَوم ز باد، بی‌هوش شوم
نامت شُنَوم ز خَلق، مدهوش شوم
اوّل سخنم تویی، چو در حَرف آیم
واندیشهٔ من تویی، چو خاموش شوم
(رشیدالدین وطواط)
مجھے جب باد کے ذریعے تمہاری بُو محسوس ہوتی ہے، میں بے ہوش ہو جاتا ہے؛ میں جب خَلق سے تمہارا نام سنتا ہوں، مدہوش ہو جاتا ہوں؛ میں جب تکلّم کرنا شروع کرتا ہوں تو میرا اوّلین سخن تم ہوتے ہو؛ اور جب میں خاموش ہوتا ہوں تو میری فکر تم ہوتے ہو۔
 
آخری تدوین:

حسان خان

لائبریرین
خاقانی شروانی کی ایک غزل کی دو ابیات:
ز نیکان گر بدی جویی توان یافت
ز بد گر نیکی انگاری نیاید
ز مَی سرکه توان کردن ولیکن
ز سرکه مَی طمع داری نیاید
(خاقانی شروانی)

اگر تم نیکوں سے بدی تلاش کرو تو [اُسے] پایا جا سکتا ہے؛ [لیکن] اگر تم بد سے نیکی کا ظَن رکھو تو وہ ظاہر نہ ہو گی؛ شراب سے سِرکہ تو بنایا جا سکتا ہے، لیکن [اگر] تم سِرکے سے شراب کی امید رکھو تو وہ ظاہر نہ ہو گی۔
 

حسان خان

لائبریرین
دلا یاری مجوی از یارِ بدعهد
کزان خون‌خواره غم‌خواری نیاید
(خاقانی شروانی)

اے دل! یارِ بدعہد سے یاری مت تلاش کرو کہ اُس خوں خوار سے غم خواری ظاہر نہیں ہو گی۔
 

حسان خان

لائبریرین
سوخت از حسرت سلیمی رحم کن بر حالِ او
ماهِ من تا کَی فروزی آتشِ رخسار را

(خلیفهٔ عثمانی سلطان سلیم خان اول)
'سلیمی' حسرت سے جل گیا، اُس کے حال پر رحم کرو۔۔۔ اے میرے ماہ! کب تک آتشِ رخسار کو فروزاں کرو گے؟
تاریخِ ادبیاتِ فارسی سے متعلق تحریروں میں اِس جالب نُکتے کی بار بار تکرار کی جاتی ہے کہ سیاسی و مذہبی لحاظ سے باہم متخاصِم و بر سرِ پیکار رہے سلطان سلیم خان اول عثمانی اور شاہ اسماعیل صفوی اگرچہ بالترتیب دیارِ روم اور دیارِ ایران کے فرماں روا تھے، جہاں کی غالب تر زبانیں بالترتیب تُرکی اور فارسی تھیں، لیکن عثمانی خلیفہ و سلطان کا شعری دیوان فارسی میں ہے جب کہ صفوی شاہ نے اپنی مادری زبان ترکی میں اپنا شعری دیوان ترتیب دیا تھا۔
لسانی اعتبار سے دونوں پادشاہ ہی تُرکی زباں تھے۔
 

ضیاءالقمر

محفلین
باز آ باز آ هر آنچه هستی باز آ
گر کافر و گبر و بت‌پرستی باز آ
این درگه ما درگه نومیدی نیست
صد بار اگر توبه شکستی باز آ

ابوسعید ابوالخیر ؒ
تُو واپس آ،تُوواپس آ،تُو جو کچھ بھی ہے واپس آ۔اور اگرتو آتش پرست ہے اور اگر تُو
بُت پرست ہے تو بھی تُو واپس آجا۔ہماری یہ درگاہ نااُمیدی کی درگاہ نہیں ہے۔اگر تُو نے سو بار
بھی توبہ توڑی ہَے تو پھر بھی تُو واپس آجا۔
 

محمد وارث

لائبریرین
جنت نکند چارۂ افسردگیِ دل
تعمیر باندازۂ ویرانیِ ما نیست


مرزا غالب دہلوی

ہماری افسردگیِ دل کا چارہ جنت بھی نہیں کر سکتی کہ (اُس کی) تعمیر ہماری ویرانی کے اندازوں کے مطابق نہیں ہے۔
 

حسان خان

لائبریرین
جنت نکند چارۂ افسردگیِ دل
تعمیر باندازۂ ویرانیِ ما نیست


مرزا غالب دہلوی

ہماری افسردگیِ دل کا چارہ جنت بھی نہیں کر سکتی کہ (اُس کی) تعمیر ہماری ویرانی کے اندازوں کے مطابق نہیں ہے۔
معاصر اردو میں 'اندازہ' عموماً گمان کے معنی میں استعمال ہوتا ہے، لیکن غالب نے اِس بیت میں یہ 'به اندازه' کو اِس کے فارسی معنی 'بقدر' کے ساتھ استعمال کیا ہے۔ یعنی جنت کی آبادی ہماری ویرانی کے بقدر نہیں ہے یا ہم جس قدر ویران ہیں اُس کا مداوا جنت کی معموری و آبادی سے نہیں ہو سکتا۔
مرزا غالب نے ایک اردو مکتوب میں بھی یہ لفظ اِسی معنی میں استعمال کیا ہے:
"میں نے اپنی نظم و نثر کی داد بہ اندازۂ بایست پائی نہیں۔" (بہ اندازۂ بایِست = جس قدر لازم تھی اُس قدر)
 
آخری تدوین:

حسان خان

لائبریرین
ادِر كأساً وَناوِلْها الا یا ایُّها السّاقی
ز حد شد دردِ مخموری شفا دِه زان مَیِ باقی
(احمد حزینی)
اے ساقی! کاسۂ [شراب] گھماؤ اور پیش کرو۔۔۔ دردِ مخموری حد سے تجاوز کر گیا، اُس شرابِ ابدی سے شفا عطا کرو۔
 
آخری تدوین:

حسان خان

لائبریرین
که می‌گوید ز اهلِ دل که عشق آسان نمود اوّل
سراسر مشکل اندر مشکل است از عشق در دل‌ها
(احمد حزینی)
اہلِ دل میں سے کون کہتا ہے کہ عشق شروع میں آسان نظر آیا؟۔۔۔ عشق کے سبب دلوں میں سراسر مشکل ہی مشکل ہے۔
 

حسان خان

لائبریرین
الا یا ایُّها المعشوق حل کن مشکلِ دل‌ها
که مر عُشّاق را در دل فتاد از عشق مشکل‌ها
(احمد حزینی)
اے معشوق! دلوں کی مشکل کو حل کر دو کہ عاشقوں کے دل میں عشق کے باعث مشکلیں گر گئیں۔
 
آخری تدوین:

نبیل

تکنیکی معاون
کیا احمد حزینی نے حافظ کی غزل کا جواب لکھا ہے؟


الا یا ایھا الساقی ادر کاسا و ناولہا
کہ عشق آسان نمود اول ولے افتاد مشکلہا
 
Top