حسان خان

لائبریرین
از دبستانِ غمت طفلِ دلِ عینیِ زار
عید و آدینه به هم آمد و آزاد نشد
(صدرالدین عینی)
[اگرچہ] عید اور جُمعہ باہم آئے [لیکن پھر بھی] تمہارے مکتبِ غم سے عینیِ زار کا طفلِ دل آزاد نہ ہوا۔
× مکتب = اسکول

تشریح: عید اور جُمعہ تعطیل کے روز ہوتے ہیں اور بچّوں کو اُن روزوں میں مکتب نہیں جانا پڑتا۔ لیکن مندرجۂ بالا بیت میں شاعر اپنے محبوب کو مخاطَب کرتے ہوئے کہہ رہا ہے کہ میرا طفلِ دل تمہارے غم کے مکتب میں ایسا گرفتار ہے کہ اِس بار عید اور جُمعہ کے ایک ساتھ آنے کے باوجود بھی میرے طفلِ دل کو آزادی نہ مل سکی۔ حالانکہ ایسے موقع پر ہر بچّے کو تعطیل مل جاتی ہے۔
 

حسان خان

لائبریرین
(دعائیہ مصرع)
"فُزُون آفریناد ایزد چو تو"
(فردوسی طوسی)
ایزد تعالیٰ تم جیسے [افراد] زیادہ و بِسیار تخلیق کرے!
 
آخری تدوین:

حسان خان

لائبریرین
مرا نفرینِ تو چون آفرین است
که گفتارت به گوشم شَکَّرین است
(فخرالدین اسعد گُرگانی)
مجھے (یا میرے نزدیک) تمہاری نفرین، آفرین کی مانند ہے۔۔۔۔ کہ تمہاری گفتار میرے گوش میں شَکَر کی طرح شیریں ہے۔
× نفرین = لعنت، بد دعا؛ دُشنام، گالی
× گوش = کان
 
آخری تدوین:

حسان خان

لائبریرین
رفتم بہ کلیسیائے ترسا و یہود
میں‌ آتش پرستوں‌ اور یہودیوں‌ کی عبادت گاہوں میں گیا
اگرچہ اِس سے مصرعے کے مفہوم میں تو کوئی فرق واقع نہیں ہوتا، لیکن صرف طلَبہ کی اطلاع کے لیے عرض ہے کہ 'ترسا' فارسی میں مسیحی کو کہتے ہیں۔
'آتش پرست' یا 'مجوسی' کے لیے فارسی میں ایک دیگر لفظ 'گَبْر' موجود ہے۔ (نگاہ کنید بہ: "گر کافر و گبر و بت‌پرستی باز آ")
 

حسان خان

لائبریرین
ز خط بر مُصحفِ حُسنت فُزُون شد رغبتِ دل‌ها
که با اعراب طِفلان خوب‌تر خوانند قرآن را
(محمد فضولی بغدادی)
تمہارے مُصحفِ حُسن پر خط [آنے] سے دلوں کی رغبت میں اضافہ ہو گیا۔۔۔ کیونکہ اعراب کے ساتھ بچّے قرآن کو خوب تر و بہتر خوانتے ہیں۔
× خوانْنا (بر وزنِ 'جاننا') = پڑھنا
جمہوریۂ آذربائجان کے شاعر علی آغا واحد نے محمد فضولی بغدادی کی مندرجۂ بالا فارسی بیت کا منظوم تُرکی ترجمہ یوں کیا تھا:
کؤنۆل‌لر رغبتی آرتار گؤرن دمده اۆزۆن خطّین

اوشاق‌لار زیرزبرله تیز اۏخور قرآنې، بیل، جانېم
جس دم تمہارے چہرے کا خط نظر آتا ہے، دلوں کی رغبت میں اضافہ ہو جاتا ہے؛ اے میری جان! جان لو، [کہ] بچّے زیر زبر کے ساتھ قرآن کو تیز تیز خوانتے ہیں۔
Könüllər rəğbəti artar görən dəmdə üzün xəttin,
Uşaqlar zirzəbərlə tez оxur Quranı, bil, canım!
 

حسان خان

لائبریرین
محمد فضولی بغدادی اپنی ایک فارسی نعتیہ غزل کے مطلع میں کہتے ہیں:
فضولی را دمادم هست عزمِ طوفِ درگاهت

چه باشد گر دِهی انجامی این عزمِ دمادم را
(محمد فضولی بغدادی)
فضولی کو ہر لمحہ آپ کی درگاہ کے طواف کا عزم و ارادہ رہتا ہے؛ کیا ہو جائے اگر آپ اِس عزمِ مسلسل کو ذرا انجام تک پہنچا دیں؟
(یعنی اے رسول! لطفاً مجھے طوافِ درگاہِ خود کرنے کی اجازت و عنایت عطا فرما دیجیے۔)

جمہوریۂ آذربائجان کے شاعر علی آغا واحد نے محمد فضولی بغدادی کی مندرجۂ بالا فارسی بیت کا منظوم تُرکی ترجمہ یوں کیا تھا:
فضولی مُتّصل سرمست‌دیر، عزمِ طوافېنله

بو عزمیندن آیېرما سن اۏنو، تا عمر وار بیر دم
فضولی ہمیشہ آپ [کی درگاہ] کے طواف کے عزم سے سرمست ہے؛ جب تک ایک لمحہ [بھی] عمر موجود ہے، آپ [فضولی] کو اپنے اِس عزم سے جدا و دور مت کیجیے گا۔
Füzuli müttəsil sərməstdir, əzmi-təvafınlə,
Bu əzmindən ayırma sən оnu, ta ömr var bir dəm.


منظوم تُرکی ترجمے کا مضمون اصل فارسی بیت سے مختلف ہے۔
 
آخری تدوین:

حسان خان

لائبریرین
سِلیحِ من ار با منستی کُنون
بر و یالت آغشته گشتی به خون
(فردوسی طوسی)
اگر میرا اسلحہ اِس وقت میرے ساتھ ہوتا تو تمہارا سینہ و گردن خون میں آغُشتہ ہو جاتا۔
 
آخری تدوین:

حسان خان

لائبریرین
(دعائیہ بیت)
به کامِ تو بادا همه کارِ تو
خداوندِ گیتی نگه‌دارِ تو
(منسوب به فردوسی طوسی)

تمہارے تمام کام تمہاری آرزو کے موافق ہوں! خداوندِ عالَم تمہارا نگہدار و محافظ ہو!
 

حسان خان

لائبریرین
مانندِ تو دل‌بری که دیده‌ست
در شکلِ بشر پری که دیده‌ست
(شاهزادهٔ عثمانی جم سلطان)

تمہاری مانند کوئی دلبر کس نے دیکھا ہے؟ شکلِ بشر میں پری کس نے دیکھی ہے؟
 
بہت پیاری کاوش ہے جناب محمد وارث صاحب
واقعتاً اس دھاگے کو جسے شروع کیے اب دسواں سال ہے محمد وارث صاحب اور حسان خان بھائی نے بدرجہء اولیٰ، پھر دیگر محفلین نے اپنی مساعی سے چار چاند لگادئیے ہیں۔پانچ ہزار سے زیادہ خوبصورت مراسلے!
 

محمد وارث

لائبریرین
مرا بدوزخِ ہجر اے صنم عذاب مکن
برائے سوختنم عشق شعلہ خو کافیست


شیخ علی حزیں‌ لاھیجی

اے صنم، مجھے ہجر کے دوزخ میں عذاب مت دے، مجھے جلانے کے لیے تو شعلہ خو عشق ہی کافی ہے۔
 

حسان خان

لائبریرین
در طُرّه‌هاش نُسخهٔ اِیَّاکَ نَعْبُدْ است
در چشم‌هاش غمزهٔ اِیَّاکَ نَسْتَعِینْ
(مولانا جلال‌الدین رومی)
اُس [یار] کی زلفوں میں اِیَّاکَ نَعْبُدُ کا نُسخہ ہے؛ [اور] اُس کی چشموں میں اِیَّاکَ نَسْتَعِینْ کا غمزہ ہے۔
 
آخری تدوین:

حسان خان

لائبریرین
مسعود سعد سلمان لاہوری، سلطان ابراہیم بن مسعود غزنوی کی مدح میں کہے گئے ایک قصیدے کے مطلع میں کہتے ہیں:
اگر مملکت را زبان باشدی

دعاگویِ شاهِ جهان باشدی
(مسعود سعد سلمان لاهوری)
اگر مملکت کی زبان ہوتی تو وہ شاہِ جہاں کی دعاگو ہوتی۔

× 'باشدی' میں 'یائے شرط و جزا' کا استعمال ہوا ہے۔
 

حسان خان

لائبریرین
عثمانی بوسنیائی شاعر 'حسن ضیائی موستارلی' (وفات: ۱۵۸۴ء) اپنے فارسی قصیدے کے مطلع میں کہتے ہیں:
گرچه نه ز شیراز و خُجند و همَدانم
طرزِ شُعَرایِ عجم امّا همه دانم
(حسن ضیائی موستارلی)

اگرچہ میں شیراز و خُجند و ہمَدان سے نہیں ہوں، [لیکن] میں شعرائے عجم کی طرز تماماً جانتا ہوں۔
 

حسان خان

لائبریرین
عثمانی بوسنیائی شاعر 'حسن ضیائی موستارلی' (وفات: ۱۵۸۴ء) اپنے فارسی قصیدے میں کہتے ہیں:
من جُرعه‌کَشِ مجلسِ جامی نَیَم امّا

مستِ مَیِ عرفانم و جامیِ زمانم
(حسن ضیائی موستارلی)
میں [عبدالرحمٰن] جامی کی مجلس کا جُرعہ نوش نہیں ہوں لیکن میں شرابِ عرفان سے مست ہوں اور جامیِ زماں ہوں۔
× جُرعہ کَش / جُرعہ نوش = جُرعہ (گھونٹ) نوش کرنے والا
 

حسان خان

لائبریرین
به سانِ چشم که گِرید برایِ هر عُضوی
غمی به هر که رسد می‌کند ملول مرا
(راضی)
جس طرح چشم [جسم کے] ہر ایک عُضو کے برائے روتی ہے؛ [اُسی طرح] جس بھی شخص کو کوئی غم پہنچتا ہے، مجھے ملول کر دیتا ہے۔

× لغت نامۂ دہخدا کے مطابق مندرجۂ بالا بیت کسی 'راضی' تخلّص والے شاعر کی ہے۔
 
آخری تدوین:

حسان خان

لائبریرین
مشرقی تُرک دنیا کے عظیم ترین شاعر و ادیب امیر نظام الدین علی شیر نوائی شاعرِ ذواللسانین تھے، یعنی تُرکی و فارسی ہر دو زبانوں میں اُن کے شعری دواوین موجود ہیں۔ وہ اپنے ایک فارسی قطعے میں فرماتے ہیں:
(قطعه)

معنیِ شیرین و رنگینم به تُرکی بی‌حد است
فارسی هم لعل و دُرهایِ ثمین، گر بِنْگری
گوییا در راست بازارِ سُخن بِگْشوده‌ام
یک طرف دُکّانِ قنّادی و یک سو زرگری
زین دُکان‌ها هر گدا کالا کجا داند خرید
زانکه باشند اغنیا این نقدها را مُشتری
(امیر علی‌شیر نوایی)
زبانِ تُرکی میں میرے مضامینِ شیرین و رنگیں بے حد ہیں؛ [لیکن] اگر تم نگاہ کرو تو [میری] فارسی [شاعری] بھی قیمتی لعل و مُروارید ہے۔ گویا میں نے در حقیقت بازارِ سُخن کھولا ہوا ہے؛ [جس میں] ایک طرف قنّادی کی دکان ہے اور ایک جانب زرگری کی؛ اِن دکانوں سے ہر گدا کہاں مال خرید سکتا ہے؟؛ کیونکہ اِن متاعوں کے خریدار تو اغنیاء ہیں۔
× مُروارِید = موتی
× دُکانِ قنّادی = وہ دُکاں جہاں شیرینیاں (مٹھائیاں) پکائی جاتی ہیں۔
 
آخری تدوین:

محمد وارث

لائبریرین
مائیم و ذوقِ سجدہ چہ مسجد چہ بُتکدہ
در عشق نیست کفر ز ایماں شناختن


مرزا غالب دہلوی

ہم ہیں اور ذوقِ سجدہ ہے، کیا مسجد اور کیا بُتکدہ، عشق میں کفر کو ایمان سے علیحدہ پہچاننا نہیں‌ ہے۔
 
Top