حسان خان

لائبریرین
تا نقشِ تو بر لوحِ دل و دیده کشیدیم
قطعاً نکشیدیم سر از تیغِ جفایت
(محمد فضولی بغدادی)
جب سے ہم نے [اپنے] دل و دیدہ کی لوح پر تمہارا نقش کھینچا [ہے]، ہم نے [اپنے] سر کو تمہاری تیغِ جفا سے قطعاً نہیں کھینچا۔
 

حسان خان

لائبریرین
کس نیست که اندیشهٔ زلفِ تو ندارد
تنها نه فضولی‌ست گرفتارِ بلایت
(محمد فضولی بغدادی)
کوئی شخص [ایسا] نہیں ہے کہ جو تمہاری زُلف کی فکر نہ رکھتا ہو؛ صرف فضولی [ہی] تمہاری بلا کا گرفتار نہیں ہے۔
 

محمد وارث

لائبریرین
بوقتِ گرسنگی نفسِ دوں گدائی کرد
چو یافت یک لبِ ناں دعویِٰ خدائی کرد


ابوطالب کلیم کاشانی

بُھوک کے وقت تو سفلے اور پست نفس نے گدائی کی اور جب روٹی کا ایک ٹکڑا مل گیا تو خدائی کا دعویٰ کر دیا۔
 

حسان خان

لائبریرین
نیست مقصودِ دلِ بی‌چاره غیر از وصلِ یار
فَاسْتَجِبْ مَا قَدْ دَعَا عَبْدٌ ضَعِیفٌ یَا مُجِیبْ
(محمد فضولی بغدادی)

[میرے] دلِ بے چارہ کا مقصود وصلِ یار کے سوا نہیں ہے؛ پس اے دعا قبول کرنے والے [خدا! اِس] بندۂ ناتواں نے جو دعا کی ہے اُسے قبول کر لو۔
 

محمد وارث

لائبریرین
ہر زماں اے مژہ بر داغِ دلم اشک مریز
کیں گُلے نیست کہ محتاج بہ شبنم باشد


طالب آملی

اے پلکو، ہر وقت ہی میرے دل کے داغ پر اشک مت بہاؤ، کہ یہ (داغِ دل) کوئی پُھول نہیں ہے کہ (نکھرنے کے لیے) شبنم کا محتاج ہو۔
 

لاریب مرزا

محفلین
بوقتِ گرسنگی نفسِ دوں گدائی کرد
چو یافت یک لبِ ناں دعویِٰ خدائی کرد


ابوطالب کلیم کاشانی

بُھوک کے وقت تو سفلے اور پست نفس نے گدائی کی اور جب روٹی کا ایک ٹکڑا مل گیا تو خدائی کا دعویٰ کر دیا۔
خوب!!
 

محمد وارث

لائبریرین
ما و مجنوں ہم سبق بُودیم در دیوانِ عشق
اُو بصحرا رفت و ما در کوچہ ہا رُسوا شدیم


ہم اور مجنوں مکتبِ عشق میں‌ ہم سبق تھے، وہ تو صحراؤں کی طرف نکل گیا اور ہم شہر شہر کوچہ کوچہ رُسوا ہو گئے۔

اس شعر کی مختلف شکلیں ملتی ہیں، اور شاعر بھی نامعلوم ہے۔ ایک شکل کچھ اس طرح سے ہے۔

ما و مجنوں ہم سفر بودیم در دشتِ جنوں
اُو بہ منزل ہا رسید و ما ہنوز آوارہ ایم


یعنی ہم اور مجنوں دشتِ جنوں میں ہم سفر تھے، وہ تو منزل تک پہنچ گیا اور ہم ابھی تک آوارہ ہیں۔ اس دوسری شکل کے دوسرے مصرعے میں "منزل ہا" کی جگہ "مطلب ہا" بھی لکھا ملتا ہے۔
 

حسان خان

لائبریرین
خورشید بسی خاک‌نشین شد به هوایت
روزی نتوانِست که بوسد کفِ پایت
(محمد فضولی بغدادی)

خورشید تمہاری آرزو میں کئی بار خاک نشیں ہوا، [لیکن پھر بھی] وہ کسی روز تمہارے کفِ پا کو بوس نہ پایا۔
(یعنی اِس قدر عاجزی و خاکساری دکھانے کے باوجود خورشید کو تمہاری پابوسی کا امکان نہ مِل سکا۔)
× بوسنا = بوسہ دینا، چُومنا
 
دی گفت طبیب از سرِ حسرت چو مرا دید
هیهات که دردِ تو ز قانونِ شفا رفت
(حافظ شیرازی)

کل طبیب نے جب مجھے دیکھا، حسرت سے کہا :"ہائے افسوس کہ تیرا درد شفا کے قانون سے باہر ہوگیا۔"

مترجم:قاضی سجاد حسین
 
دل گفت وصالش بدعا باز توان یافت
عمریست که عمرم همه در کارِ دعا رفت
(حافظ شیرازی)

دل بولا اس کا وصال دعا کے ذریعے دوبارہ حاصل کیا جاسکتا ہے۔ایک زمانہ گزر گیا ہے کہ میری عمر تمام‌تر دعا میں صرف ہوگئی ۔

مترجم:قاضی سجاد حسین
 

حسان خان

لائبریرین
دی گفت طبیب از سرِ حسرت چو مرا دید
هیهات که دردِ تو ز قانونِ شفا رفت
(حافظ شیرازی)

کل طبیب نے جب مجھے دیکھا، حسرت سے کہا :"ہائے افسوس کہ تیرا درد شفا کے قانون سے باہر ہوگیا۔"

مترجم:قاضی سجاد حسین
'قانون' اور 'شفا' ابنِ سینا کی دو کتابوں کے نام بھی تھے۔
 

حسان خان

لائبریرین
آتشی از شوقِ گُل در دل ندارد غالباً
چون نمی‌سوزد قفس را ناله‌هایِ عندلیب
(محمد فضولی بغدادی)
غالباً بُلبُل کے دل میں گُل کے اشتیاق کی کوئی آتش نہیں ہے؛ [ورنہ] بُلبُل کے نالے قفس کو کیوں نہیں جلا رہے؟

جمہوریۂ آذربائجان کے شاعر میرمهدی سیّدزاده نے محمد فضولی بغدادی کی مندرجۂ بالا فارسی بیت کا منظوم تُرکی ترجمہ یوں کیا تھا:
آتش اۏلسایدې گلۆن شوقیله قلبینده اگر

مین قفس آهې اۏدییله یاندېراردې عندلیب
اگر بُلبُل کے دل میں اشتیاقِ گُل کے ذریعے آتش ہوتی تو وہ اپنی آہ کی آتش سے ہزاروں قفس جلا ڈالتا۔
Atəş оlsaydı gülün şövqilə qəlbində əgər
Min qəfəs ahı оdiylə yandırardı əndəlib
 
آخری تدوین:

محمد وارث

لائبریرین
کفر و دین و کعبہ و دیر از ازل بُودند، لیک
صلح و جنگے برسرِ تسبیح و زنارے نہ بُود


عرفی شیرازی

کفر اور دین، کعبہ اور بُتخانہ تو ازل سے موجود تھے لیکن تسبیح اور زُنار پر کوئی صلح کوئی جنگ نہ تھی۔
 
دوسرے مصرعے کا مفہوم واضح نہیں ہے، البتہ لفظی ترجمہ کررہا ہوں۔
ای دل مباش یک دم خالی ز عشق و مستی
وان گه برو که رستی از نیستی و هستی
(حافظ شیرازی)

اے دل ایک لمحہ بھی عشق و مستی سے خالی نہ رہ اور جب تو نیستی و ہستی سے نجات پاجائے تو چلا جا

ویسے یہ شعر قاضی سجاد حسین کے ترجمہ کردہ دیوانِ حافظ میں نہیں ملا۔
 
جهانِ فانی و باقی فدایِ شاهد و ساقی
که سلطانیِ عالم را طفیلِ عشق می‌بینم
(حافظ شیرازی)

فانی اور باقی عالم ، شاہد اور ساقی پر قربان ہے۔اس لیے کہ میں دنیا کی بادشاہت کو عشق کے طفیل دیکھ رہا ہوں۔

مترجم: قاضی سجاد حسین

انتخاب: عین احمد
 

محمد وارث

لائبریرین
صُوفی و گوشۂ محراب و نکو نامی و زرق
ما و میخانہ و دُردی کش و بدنامی چند


عبید زاکانی

صوفی ہے، گوشۂ محراب ہے، نیک نامی ہے، اور ریاکاری و مکر و فریب ہے، ہم ہیں، میخانہ ہے، دُرد کشی (مے کی تلچھٹ) ہے اور کئی کئی بدنامیاں ہیں۔
 

حسان خان

لائبریرین
به غیرِ قصهٔ عشقِ تو چیزِ دیگر نیست
ز اشکِ خامهٔ من گر کتاب می‌رُوید
(میر نجیب‌الله مایل هِروی)

اگر میرے خامے کے اشکوں سے [کوئی] کتاب اُگتی ہے تو اُس میں تمہارے عشق کے قصّے کے سوا [کوئی] چیزِ دیگر نہیں ہوتی۔
 

حسان خان

لائبریرین
محنتِ گیتی به تلخی کَی ربودی جانِ من
بوسه‌ای گر از لبِ عیسیٰ‌دمی می‌داشتم
(صدرالدین عینی)
اگر میرے پاس کسی [محبوبِ] عیسیٰ نَفَس کے لب کا کوئی بوسہ ہوتا تو کب دنیا کا رنج تلخی کے ساتھ کب میری جان ہتھیاتا؟
× مصرعِ ثانی کا یہ ترجمہ کرنا بھی ممکن ہے: اگر میرے پاس کسی عیسیٰ نَفَس لب کا کوئی بوسہ ہوتا۔۔۔۔
 
آخری تدوین:

حسان خان

لائبریرین
یادِ آذربایجان آذر به جانم می‌زند
من خلیلِ آذرستم لیکنم گلزار نیست
(میرزا محمود غنی‌زاده)

آذربائجان کی یاد میری جان میں آتش لگاتی ہے؛ میں خلیلِ آذر ہوں، لیکن میرا گلزار [موجود] نہیں ہے۔
× خلیل اللہ حضرتِ ابراہیم (ع) کے پدر کا نام 'آزر' تھا۔
 

محمد وارث

لائبریرین
رُباعی از شیخ ابو سعید ابوالخیرؒ

رفتم بہ کلیسیائے ترسا و یہود
دیدم ہمہ با یادِ تو در گفت و شنود
با یادِ وصالِ تو بہ بت خانہ شدم
تسبیحِ بتاں زمزمۂ ذکرِ تو بُود


میں‌ آتش پرستوں‌ اور یہودیوں‌ کی عبادت گاہوں میں گیا، دیکھا تو وہ سارے کے سارے تیری ہی یاد میں تیرا ہی ذکر کر رہے تھے۔ پھر تیرے وصال کی یاد میں (چلتا چلتا) میں بتخانے میں پہنچ گیا، وہاں بھی اُن بتوں‌ کی تسبیح، تیرے ذکر کے ترانے ہی تھے۔
 
Top