حسان خان

لائبریرین
فردوسِ دل اسیرِ خیالِ تو بودن است
عیدِ نگاه چشم به رویت گشودن است
(بیدل دهلوی)

تمہارے خیال کا اسیر ہونا دل کی جنّت ہے؛ تمہارے چہرے کی جانب چشم کھولنا نگاہ کی عید ہے۔
 

حسان خان

لائبریرین
گر بهشتم مُدّعا می‌بود، تقوا کم نبود
امتحانِ رحمتی دارم، گناهی می‌کنم
(بیدل دهلوی)

اگر بہشت میرا مقصود و آرزو ہوتا تو [میرا] تقوا کم نہ ہوتا؛ مجھے ذرا رحمت کا امتحان ہے، [اِس لیے] ذرا گناہ کرتا ہوں۔
 

حسان خان

لائبریرین
کشمیر کے وصف میں کہے گئے قصیدے میں عُرفی شیرازی کہتے ہیں:
هر سوخته‌جانی که به کشمیر درآید

گر مرغِ کباب است که با بال و پر آید
(عُرفی شیرازی)
جو سوختہ جاں بھی کشمیر میں داخل ہوتا ہے، اگر مُرغِ کباب بھی ہو تو با بال و پر ہو جاتا ہے۔
شہرِ استانبول کی توصیف میں عثمانی شاعر احمد ندیم کہتے ہیں:
بونو سَیر ائتمه‌دن گیتدی جهان‌دان نئیله‌ییم عُرفی
که کشمیریّه‌سین باری ائده‌یدی آتشه اِلقا
(احمد ندیم)

کیا کروں کہ اِس [شہر] کا نظارہ و سیر کیے بغیر عُرفی دنیا سے چلے گئے، [ورنہ] وہ اپنے [قصیدۂ] کشمیریہ کو ایک ہی بار (یا حتماً) آتش میں پھینک دیتے۔

Bunu seyr etmeden gitdi cihandan neyleyim Örfî
Ki Keşmîriyyesin bâri edeydi âteşe ilkâ
 

حسان خان

لائبریرین
سلجوقی دور کے شاعر ازرقی هِروی ایک مدحیہ قصیدے میں کہتے ہیں:
انفاسِ تو دل‌فریب و جان‌بخش
همچون نَفَسِ مسیحِ مریم
(ازرقی هِروی)

تمہارے انفاس مسیح ابنِ مریم کے نَفَس کی طرح دل فریب و جاں بخش ہیں۔
× نَفَس = سانس؛ اَنْفاس = سانسیں
 

حسان خان

لائبریرین
عارضین یاپقچ کۉزومدین ساچیلور هر لحظه یاش
اویله کیم پیدا بۉلور یولدوز، نهان بۉلغچ قویاش
(امیر علی‌شیر نوایی)
جب وہ اپنے رُخسار کو پوشیدہ کر لے، تو میری چشم سے ہر لحظہ اشک افشاں ہوتے ہیں؛ [ویسے ہی] جس طرح خورشید کے نہاں ہو جانے پر ستارہ ظاہر ہو جاتا ہے۔

Orazin yopqach ko'zumdin sochilur har lahza yosh
Uylakim paydo bo'lur yulduz, nihon bo'lg'ach quyosh
تا رُخ نپوشی، کَی شود از دیده اشکِ ما روان؟
پنهان نگشته آفتاب، اختر نمی‌آید بُرون
(کمال خُجندی)

تا وقتیکہ تم اپنے چہرے کو پوشیدہ نہ کر لو، چشم سے ہمارے اشک کب رواں ہوں گے؟؛ [جب تک] خورشید پنہاں نہ ہوا ہو، ستارہ بیرون نہیں آتا۔
 

حسان خان

لائبریرین
ازرقی هِروی اپنے ایک مدحیہ قطعے میں کہتے ہیں:
چشمِ دلم خیره و در خواب بود
جودِ تواَش روشن و بیدار کرد
(ازرقی هِروی)

میرے دل کی چشم تیرہ و تاریک، اور خواب میں تھی؛ تمہارے جُود و کرم نے اُسے روشن و بیدار کر دیا۔
 

حسان خان

لائبریرین
سال‌ها باید که تا یک سنگِ اصلی ز آفتاب
لعل گردد در بدخشان یا عقیق اندر یمن
(سنایی غزنوی)

نورِ آفتاب سے [کسی] اصلی سنگ کو بدخشاں میں لعل یا یمن میں عقیق بننے کے لیے سالہا درکار ہیں۔
تشریح: قُدَماء کا باور تھا کہ نورِ افتاب میں سالوں تک رہنے سے سنگ قیمتی جواہر میں تبدیل ہو جاتے ہیں۔ نیز، بدخشاں کے لعل، اور یمن کے عقیق مشہور تھے۔ یہاں سنائی غزنوی کہہ رہے ہیں کہ کسی سنگ کو بدخشاں میں لعل، یا پھر یمن میں عقیق میں تبدیل ہو جانے کے لیے سالوں چاہیے ہوتے ہیں، تب جا کر ایسا ہوتا ہے۔
 

حسان خان

لائبریرین
از ملامت چه غم خورَد سعدی
مُرده از نیشتر مترسانش
(سعدی شیرازی)
سعدی ملامت کے سبب کیا غم کھائے؟ مُردہ کو نشتر سے مت ڈراؤ۔

× مصرعِ ثانی کا یہ مفہوم بھی ہو سکتا ہے:
وہ مر گیا ہے، اُسے نشتر سے مت ڈراؤ۔
 
آخری تدوین:

حسان خان

لائبریرین
خونِ شفق گواست که بر بسترِ جفا
هر شام‌گاه مادرِ ایّام فتنه‌زاست
(نظام هِروی)

خونِ شفق گواہ ہے کہ ہر شام بسترِ جفا پر مادرِ ایّام فتنہ جنتی ہے۔
 

حسان خان

لائبریرین
کس ندیده‌ست آدمی‌زاد از تو شیرین‌ترسُخن
شَکَّر از پِستانِ مادر خورده‌ای یا شِیر را؟
(سعدی شیرازی)
کسی شخص نے تم سے زیادہ شیریں تر سُخن کرنے والا آدم زاد نہیں دیکھا ہے؛ تم نے پِستانِ مادرِ سے شَکَر پی ہے یا شِیر پیا ہے؟
× شِیر = دودھ
 

حسان خان

لائبریرین
خاقانی شِروانی کا نام 'بدیل' تھا۔ وہ لکھتے ہیں:
بدل من آمدم اندر جهان سنایی را

بدین دلیل پدر نامِ من بدیل نهاد
(خاقانی شروانی)
میں دنیا میں سنائی [غزنوی] کے بدل کے طور پر آیا تھا؛ اِس باعث [میرے] پدر نے میرا نام 'بدیل' رکھا۔
× سنائی غزنوی = ایک مشہور فارسی گو شاعر کا نام
× بدیل = عِوض؛ جانشین
 
آخری تدوین:

حسان خان

لائبریرین
عبدالرحمٰن جامی اپنی ایک نعتیہ بیت میں فرماتے ہیں:
بحر است جانِ انورش، ساحل لبِ جان‌پرورش

باشد طُفیلِ گوهرش محصولِ کانِ کُن فکان
(عبدالرحمٰن جامی)
اُن کی جانِ انور بحر ہے، اُن کا لبِ جاں پرور ساحل ہے؛ [اور] 'کُن فکان' کی کان کا [کُل] حاصل و محصول اُن کے گوہر کے طُفیل ہے۔
 
آخری تدوین:

حسان خان

لائبریرین
تا در پسِ گریه هست خنده
تا در پَیِ شادی‌ست ماتم
بادا لبت از نشاط خندان
بادا دلت از سُرور خُرّم
(ازرقی هِروی)

جب تک گریے کے بعد خندہ اور شادمانی کے عقب میں ماتم موجود ہے، تمہارے لب نشاط سے [ہمیشہ] خنداں رہیں اور تمہارا دل سُرور سے [ہمیشہ] خُرّم رہے۔
 

محمد وارث

لائبریرین
بر فوتِ وقت ہم بفشاں یک دو قطرہ اشک
تا کے بہ فوتِ مطلبِ دنیا گریستن


صائب تبریزی

وقت (اور عمر) کے ضائع ہو جانے پر بھی ایک دو قطرے آنسو بہا، دنیا کی خواہشات اور آرزؤں کے ضائع ہونے اور پورا نہ ہونے پر رونا دھونا کب تک؟
 

حسان خان

لائبریرین
قرآن کے مطابق حضرتِ ابراہیم (ع) نے اولاً خورشید کو رب پکارا تھا، لیکن جب وہ غروب ہو گیا تھا تو اُنہوں نے اُس سے رُخ موڑ لیا تھا۔ عبدالرحمٰن جامی ایک نعتیہ بیت میں اُس واقعے کی جانب اشارہ کرتے ہوئے کہتے ہیں:
حاشا که از تو رُوی بِتابم خلیل‌وار

چون نیست آفتابِ تو را آفتِ اُفول
(عبدالرحمٰن جامی)
[اے رسول!] حاشا کہ میں [کبھی] خلیل کی مانند آپ سے چہرہ موڑ لوں! (یعنی میں ہرگز آپ سے چہرہ نہیں موڑوں گا)، کیونکہ آپ کے خورشید کو آفتِ غُروب نہیں ہے۔
 
آخری تدوین:

حسان خان

لائبریرین
بس کز خیالِ زُلفِ تو پیچم به خویشن
کوته شده‌ست رشتهٔ عمرم ز پیچ و تاب
(نظام هِروی)
تمہاری زُلف کے خیال سے میں اپنی ذات کے اندر اِتنا زیادہ پیچ و تاب کھاتا ہوں کہ اِس پیچ و تاب سے میرا رشتۂ عمر کوتاہ ہو گیا ہے۔
× رشتہ = دھاگا
 
آخری تدوین:

حسان خان

لائبریرین
امیر علی شیر نوائی اپنے فارسی قصیدے 'تُحفة الافکار' میں اپنے اُستاد و مرشد عبدالرحمٰن جامی کی مدح میں فرماتے ہیں:
حامیِ دینِ نبی جامی که جامِ فقر را

داشته بر کف لبالب از شرابِ کوثر است

(امیر علی‌شیر نوایی)
حامیِ دینِ نبی جامی، کہ جنہوں نے جامِ فقر کو دست میں تھاما ہوا ہے جو شرابِ کوثر سے لبالب ہے۔

ایک نُسخے میں بیت کا متن یہ نظر آیا ہے:
حامیِ شرعِ نبی جامی که جامِ شرع را

داشته بر کف لبالب از شرابِ کوثر است
(امیر علی‌شیر نوایی)
حامیِ شرعِ نبی جامی، کہ جنہوں نے جامِ شرع کو دست میں تھاما ہوا ہے جو شرابِ کوثر سے لبالب ہے۔
 
آخری تدوین:

حسان خان

لائبریرین
امیر علی شیر نوائی اپنے فارسی قصیدے 'تُحفة الافکار' میں اپنے اُستاد و مرشد عبدالرحمٰن جامی کی مدح میں فرماتے ہیں:
گُلشنِ طبعِ رفیعش روضه‌ای دان کز شرف

تُگمهٔ پیراهنِ هر گُل سِپِهرِ اخضر است
(امیر علی‌شیر نوایی)
اُن کی طبعِ بلند کے گُلشن کو ایک ایسا باغ جانو کہ شرف کے باعث جس کے ہر گُل کے پیرہن کا تُکمہ آسمانِ نیلگوں [کی مانند] ہے۔
× تُکمہ = بٹن
 
آخری تدوین:

حسان خان

لائبریرین
خاقانی شِروانی اپنے ایک قطعے کی ابتدائی دو ابیات میں کہتے ہیں:
چون زمان عهدِ سنایی درنوشت
آسمان چون من سُخن‌گُستر بِزاد
چون به غزنین ساحری شد زیرِ خاک
خاکِ شِروان ساحری دیگر بِزاد
(خاقانی شروانی)

جب زمانے نے سنائی [غزنوی] کے دور کو تہہ کر دیا تو آسمان نے مجھ جیسا سُخن گُستر متولّد کیا؛ جب غزنیں میں ایک ساحر زیرِ خاک چلا گیا تو خاکِ شِروان نے ایک ساحرِ دیگر متولّد کیا۔
× سنائی غزنوی = ایک مشہور فارسی گو شاعر کا نام
× سُخن گُستَر = سُخن پھیلانے والا
 

محمد وارث

لائبریرین
خندیدنِ دو کس بہم اینجا خوش است لیک
از ما مپرس لذتِ تنہا گریستن


خواجہ میر درد دہلوی

یہاں دو لوگوں‌ کا مل جل کر ہنسنا بہت خوب ہے لیکن تنہا رونے کی لذت، بس ہم سے کچھ مت پُوچھ۔
 
Top