Hafiz Abbas Qadri

محفلین
اگر بہ طالعِ من سوخت خرمنم چہ عجب
عجب ز قسمتِ یک شہرِ خوشہ چیں دارم

غالب
اگر میرے (برے) نصیبے کے ہاتھوں میرا خرمن جل گیا ہے
تو عجیب بات نہیں، عجیب بات تو یہ ہے کہ ایک شہر میرے خرمن کا خوشہ چین ہے
(مترجم و شارح :صوفی غلام مصطفیٰ تبسم)​
واقعی شہر بھر کا بالواسطہ نقصان تو بالکل ناقابل تلافی ہے. :roll:
 

حسان خان

لائبریرین
صفتِ عاشقِ صادق به درستی آن است
که گرش سر برود از سرِ پیمان نرود
(سعدی شیرازی)

عاشقِ صادق کی صفت یقیناً یہ ہے کہ خواہ اُس کا سر چلا جائے، وہ [اپنے] عہد و پیماں سے نہیں پھرتا۔
 
آخری تدوین:

Hafiz Abbas Qadri

محفلین
صفتِ عاشقِ صادق به درستی آن است
که گرش سر برعاشق
ز سرِ پیمان نرود
(سعدی شیرازی)
عاشقِ صادق کی صفت یقیناً یہ ہے کہ خواہ اُس کا سر چلا جائے، وہ اپنے عہد و پیماں سے نہیں پھرتا۔
گمان می دارم کہ بعد از رفتن سرش صداقت عشق ہیچ فائدہ نمی دہد!
حسان بھائی، پھر تو یہ صادق (عاشق) یہی کہہ سکے گا کہ " مرتو گئے ہیں مگرلطف بہت آیا ہے!":applause:
 

ضیاءالقمر

محفلین
نالہ تا گم نکند راہِ لب از ظلمتِ غم
جان چراغے است کہ بر راہگذر داشتہ ایم

غالب
ہم نے زندگی کو چراغ بنا کر راہگذر میں رکھ دیا ہے
غم کے اندھیرے میں ہماری فریاد دل سے لب تک آتے ہوئے راستہ نہ بھول جائے۔
(زندگی غم میں کھو گئی ہے لیکن نالہ و فریاد کرنے سے غم ہلکا ہو جاتا ہے۔
ڈر یہ ہے کہ کہیں فریاد کرنے کا موقع بھی نہ گم ہو جائے)
(مترجم و شارح :صوفی غلام مصطفیٰ تبسم)
 

حسان خان

لائبریرین
بر سینه سرم برنِه و بوسم دِه و بنواز
تا خلق بداند که به چشمِ تو، عزیزم
(فریدون تولّلی)

سینے پر میرا سر رکھو اور مجھے بوسہ دو اور [مجھ پر] نوازش کرو تاکہ مردُم جان لیں کہ میں تمہاری نظر میں عزیز ہوں۔
 
آخری تدوین:

حسان خان

لائبریرین
به فضلِ خویش مسلمان زیان مرا یا رب
بری مکن ز مسلمانی ار بری جانم
به حقِ اشهد ان لا اله الا الله
چنان بمیران کاین قول بر زبان رانم
(سوزنی سمرقندی)

اے رب، اپنے فضل سے مجھے بطورِ مسلمان زندگی عطا کر اور اگر تُو میری جان لے لے تو [مجھے] مسلمانی سے خالی و دُور مت کرنا؛ بہ حقِ اشہد ان لا الہ الا اللہ، مجھے یوں موت دینا کہ یہ قول [میری] زبان پر رہے۔
 
آخری تدوین:

حسان خان

لائبریرین
تا مصرعی بیابم و رنگین بسازمش،
از بینِ صد هزار غمِ دل گذشته‌ام.
(لایق شیرعلی)

ایک مصرع حاصل کرنے اور اُسے رنگین بنانے کے لیے میں صد ہزار غمِ دل کے درمیان سے گذرا ہوں۔
 

ضیاءالقمر

محفلین
در گریہ از بس نازکی رخ ماندہ بر خاکش نگر
واں سینہ سودن از تپش بر خاکِ نمناکش نگر

غالب
دیکھ کہ وہ (معشوق)اپنی نازکی کے باعث،گریہ و زاری سے
نڈھال ہو کر خاک پر منہ رکھے پڑا ہے۔اور محبت کی تڑپ اورسوز سے بیقرار ہو کر
اپنا سینہ خاک سے مل رہا ہےجو اُس کے آنسوؤں سےتر ہو رہی ہے
(مترجم و شارح :صوفی غلام مصطفیٰ تبسم)
 

ضیاءالقمر

محفلین
برقے کہ جانہا سوختے دل از جفا سردش ببیں
شوخے کہ خوں ھاربختے دست از حنا پاکش نگر
غالب
وہ برق (معشوق) جو کبھی عاشقوں کی جانوں کو جلا دیتی تھی،اُس کا دل اپنے محبوب کی جفا
سے سرد پڑ گیا ہے وہ شوخ جو اپنے چاہنے والوں کا خون بہایا کرتا تھا آج اُس کے ہاتھ حنا سے
عاری ہیں یہ رنگ حنا گویا حنا نہیں خون عشاق ہی ہوا کرتا تھا۔
ترجمہ و تشریح:صوفی غلام مصطفی تبسم
 

ضیاءالقمر

محفلین
آں کُو بخلوت با خدا ھرگز نکردے التجا
نالاں بہ پیش ھر کسے از جور افلاکش نگر
غالب
وہ جو کبھی تنہائی میں چھپ کے خدا سے بھی التجا نہیں کیا کرتا تھا اب اس کی یہ حالت ہے
کہ ہر ایک کے سامنے آسمان کے جور وستم کی شکایتیں کرتا پھرتا ہے۔
یعنی کبھی معشوق کی بے نیازی کا یہ عالم تھا کہ خدا کے آگے بھی نہیں جھکتا تھا ۔اب وہ اپنے
محبوب سے تنگ آ کر ہر ایک کے سامنے اپنے دکھڑے روتا پھرتا ہے۔
ترجمہ و تشریح:صوفی غلام مصطفی تبسم
 

ضیاءالقمر

محفلین
تا نام غم بردے زبان، می گفت دریا درمیاں
دریاے خوں اکنوں رواں از چشم سفا کش نگر
غالب
اگر زبان پر غم کا لفظ آتا تو وہ کہتا کہ سمندر درمیان میں ہے۔ اب اُس کی سفاک (خونخوار) آنکھوں سے خونیں اشکوں کا
ایک سمندر بہ رہا ہے
(یعنی کبھی غم اس کے پاس نہیں بھٹکتا تھا اب وہ خوہ غم میں غرق ہے)
ترجمہ و تشریح:صوفی غلام مصطفی تبسم
 

ضیاءالقمر

محفلین
آں سینہ کز چشم جہاں مانند جاں بودے نہاں
اینک بہ پیراہن عیاں از روزنِ چاکش نگر
غالب
اُس کے لطیف جسم کا وہ سینہ جو کبھی دنیا والوں کی نظروں سے یوں نہاں ہوتا تھا جیسے جان،
اب دیکھو یہ سینہ اُس کے
پھٹے ہوئے لباس کے چاک کے روزن سے صاف صاف دکھائی دے رہا ہے۔
ترجمہ و تشریح:صوفی غلام مصطفی تبسم
 

ضیاءالقمر

محفلین
بر مقدم صیدافگنی گوشے بر آوازش ببیں
در باز گشتِ توسنے چشمے بفتراکش نگر
غالب
لغت: مقدم صیدافگنی=صیدافگنی کے موقعے پر ۔آمد شکار پر
توسن= گھوڑا
فتراک= لوہے کا وہ حلقہ جو زین کا حصہ ہوتا ہے اور جس پر شکاری اپنے شکار کو باندھ کر لٹکا دیتے ہیں۔
دیکھ کہ اب صیدافگنی کے وقت ایک کان اُس کی آواز پر لگا ہوا ہے،گھوڑے کے مڑنے پر ایک آنکھ فتراک پر لگی ہوئی ہے
یعنی کبھی وہ دوسروں کو شکار کر کے انہیں فتراک میں باندھ لیا کرتا تھا اب اُس کا معشوق اُسے شکار کر رہا ہے
ترجمہ و تشریح:صوفی غلام مصطفی تبسم
 

ضیاءالقمر

محفلین
بر آستانِ دیگرے در شکر در بانش ببیں
در کوئے از خود کمترے در رشکِ خاشاکش نگر
غالب
دیکھ کہ اب وہ کسی دوسرے کے آستانے پہ کھڑا ،دربان کا شکر ادا کر رہا ہے اور اپنے سے ایک کم درجہ انسان کے کوچے میں
اس کوچے کی خاک راہ پر رشک کرتا نظر آتا ہے
ترجمہ و تشریح:صوفی غلام مصطفی تبسم
 

ضیاءالقمر

محفلین
تا گشتہ خود نفریں شنو،تلخ است بر لب خندہ اش
زھرے کہ پنیاں می خورد پیدا ز تریاکش نگر
غالب
لغت: نفریں=ضدآفریں۔طعن و تشنیع کرنا
تریاک= علاج زہر
(کبھی وہ اپنے عاشق کو کوسا کرتا تھا اور ہنسا کرتا تھا)
اب جبکہ خود اپنے محبوب سے طعن وتشنیع سنسنے لگا ہے اُس کے لبوں کی ہنسی بھی اُس کے لیے تلخ ہو کر رہ گئی ہے
اب جو زہر غم وہ اندر ہی اندر کھائے جا رہا ہےوہ زہر اس کے تریاک سے (یعنی تلخ ہنسی سے)ظاہر ہو رہی ہے
یعنی اُس کی مصنوعی اور تلخ ہنسی سے ظاہر ہے کہ اس کا دل سخت غم زدہ ہے
ترجمہ و تشریح:صوفی غلام مصطفی تبسم
 

ضیاءالقمر

محفلین
ھا خوبیِ چشم و دلش،ھا گرمیِ آب و گلش
چشم گہر بارش بہ بیں، آہِ شررناکش نگر
غالب
لغت: ھا= اینک۔یہ لو۔یہ دیکھو۔
دیکھو یہ اس کی چشم و دل کی رعنائی یہ اس آب و گل کی گرمی ۔اس کی آنکھیں موتی برسا رہی ہیں اور آہوں سے چنگاریاں ابھر رہی ہیں
ترجمہ و تشریح:صوفی غلام مصطفی تبسم
 

ضیاءالقمر

محفلین
خواند بامید اثر،اشعارِ غالب ھر سحر
از نکتہ چینی در گزر ،فرہنگ وا دراکش نگر
غالب
اب وہ اثر انگیزی کی امید پر ہر صبح غالب کے شعر پڑتا ہے اب اس بات پر نکتہ چینی نہ کر ، اُس کی عقل و دانش کو دیکھ ۔
کبھی وہ غالب کے شعر سننے کے لیے آمادہ نہیں تھا اور انہیں خاطر میں نہیں لاتا تھا اب وہ اپنے محبوب کے دل کو موہ لینے کے لیے غالب ہی کے اشعار پڑھتا ہے کہ محبوب کے دل پر ضرور اثر کریں گے
ترجمہ و تشریح:صوفی غلام مصطفی تبسم
 

حسان خان

لائبریرین
همانا، خوش‌تر است از تلخیِ راست
دُروغین مِهرِ شیرین‌تر ز قندم
(فریدون تولّلی)

بے شک، سچ کی تلخی سے میری قند سے زیادہ شیریں محبتِ دروغیں خوب تر ہے۔
× 'تلخیِ راست' کا ترجمہ 'سچی تلخی' بھی ہو سکتا ہے۔
 
خواند بامید اثر،اشعارِ غالب ھر سحر
از نکتہ چینی در گزر ،فرہنگ وا دراکش نگر
غالب
اب وہ اثر انگیزی کی امید پر ہر صبح غالب کے شعر پڑتا ہے اب اس بات پر نکتہ چینی نہ کر ، اُس کی عقل و دانش کو دیکھ ۔
کبھی وہ غالب کے شعر سننے کے لیے آمادہ نہیں تھا اور انہیں خاطر میں نہیں لاتا تھا اب وہ اپنے محبوب کے دل کو موہ لینے کے لیے غالب ہی کے اشعار پڑھتا ہے کہ محبوب کے دل پر ضرور اثر کریں گے
ترجمہ و تشریح:صوفی غلام مصطفی تبسم

ضیاء صاحب! ایک ہی غزل کے اشعار کو اگر آپ اسی فارسی شاعری کا ٹیگ دے کر اسی شاعری کی لڑی میں ان تمام اشعار کو یکجا کریں تو میرے خیال میں وہ زیادہ مناسب رہے گا۔:)
 

ضیاءالقمر

محفلین
ضیاء صاحب! ایک ہی غزل کے اشعار کو اگر آپ اسی فارسی شاعری کا ٹیگ دے کر اسی شاعری کی لڑی میں ان تمام اشعار کو یکجا کریں تو میرے خیال میں وہ زیادہ مناسب رہے گا۔:)
آغا جی، پتہ ہی نہیں چلا خوب صورت لگتے گئے لکھتا گیا ایک ایک شعرکرکےتولکھاہے آیندہ آپ کا(خیال )رکھوں گا !
 
Top