ضیاءالقمر

محفلین
بُود بد گو سادہ با خود ھمزبانش کردہ ایم
از وفا آزردنت خاطر نشانش کردہ ایم

غالب
ہماری برائی بیان کرنے والا (رقیب) بہت سادہ لوح واقع ہوا ہے۔
ہم نے اُسے اپنا ہمنوا بنا لیا ہے اور یہ بات اُس کے دلنشیں کر دی ہے (محبوب) تو
وفاؤں سے آزردہ ہو جاتا ہے

(رقیب ہماری برائیاں کرتا رہتا ہے لیکن وہ سادہ بھی ہے۔ہم نے یہ بات اس کے دل میں بٹھا دی ہے کہ محبوب وفا ناآشنا ہے ۔جو شخص اس سے وفا کرے وہ اُس سے بگڑتاہے۔چناچہ رقیب بھی بدظن ہو گیا ہے۔اب وہ نہ ہمیں برا کہے گا اور نہ محبوب سے محبت کرنے کی جرات کرے گا)
(مترجم و شارح :صوفی غلام مصطفیٰ تبسم)
 

محمد وارث

لائبریرین
نمی سوزَد ز آہِ بلبلاں خس خانۂ ہرگز
ولے از آہِ من ہر دم صد آتشخانہ می سوزد


طالب آملی

بلبلوں کی آہ و زاری و نالہ و فریاد سے کبھی کوئی تنکوں سے بنا آشیانہ بھی نہیں جلتا، جبکہ میری آہوں سے ہر وقت سو سو آتش خانے جل جاتے ہیں۔
 

ضیاءالقمر

محفلین
در حقیقت نالہء از مغز جاں روئیدہ است
کز براے عذر بے تابی زبانش کردہ ام

غالب
عاشق بےتاب ہوتا ہے،اپنے دلی جذبات کے اظہار کے لیے فریاد کرتا ہے اسے شاعر عذر بےتابی کا نام دیتا ہے کہتا ہے کہ میرے منہ میں زبان نہیں جو فریاد کرتی ہےیہ دراصل ایک نالہ ہے جو ہماری جان کی گہرائیوں (مغز جاں)سے ابھرتا ہے ہم نے اپنی بے تابیوں کو چھپانے کے بہانے اسے زبان بنا لیا ہے۔
(مترجم و شارح :صوفی غلام مصطفیٰ تبسم)
 

Hafiz Abbas Qadri

محفلین
ہمہ از آدمیم ما، لیکن
او گرامی تر است کُو داناست


(مسعود سعد سلمان)

ہم سب آدمی (سے) ہیں لیکن وہ زیادہ معتبر و معزز ہے جو دانا ہے۔
جسارت کی معذرت ، مگر 'سے ' کا لفظ بین القوسین اختیار کرنے کی شائد ضرورت نہیں ہے کیونکہ فارسی عبارت میں پہلےمصرعہ میں اس کا مرجع یا ترجمہ 'از 'مو جود ہے!
 

ضیاءالقمر

محفلین
دگر نگاہِ ترا مست ناز می خواہم
حسابِ فتنہ ز ایام باز می خواہم

غالب
ایک بار پھر تیری نگاہوں کو مست ناز دیکھنا چاہتا ہوں۔
تاکہ زمانے(ایام) سے اُس کے پیدا کیے ہوئے فتنوں کے بارے میں باز پرس کروں۔
(چاہتا ہوں کہ تو ایک بار پھر لطف و محبت کی نظر میری طرف کرے تا کہ تیری بے التفاتیوں کے باعث زمانے نے جو جور ستم ہم پر ڈھائے ہیں اُن کی تلافی ہو سکے)
(مترجم و شارح :صوفی غلام مصطفیٰ تبسم)
 

Hafiz Abbas Qadri

محفلین
بہ احتیاط بدستِ خضر، پیالہ بگیر
مبادا آبِ حیات دہد، بجائے شراب
(نامعلوم)
حضرت خضر کے ہاتھ سے پیالہ احتیاط سے تھام ، کہیں وہ تجھے شراب کی بجائے آبِ حیات نہ پلاد یں -
چونکہ یہاں خضر (نما) ساقی مراد ہیں لہٰذا حضرت خضر کا ذکر یا ان سے مراد نہ لینے میں زیادہ احتیاط ممکن ہوگی! نیز حیات کے بعد ایک دال اضافی ٹائپ ہو گیا ہے۔
 

Hafiz Abbas Qadri

محفلین
بیا تا کارِایں امّت بسازیم
قمارِ زندگی مردانہ بازیم
چناں نالیم اندر مسجدِ شہر
کہ دل در سینہء ملّا گدازیم
(اقبال)
ترجمہ وارث صاحب آپ ہی بتانے کی زحمت کیجئے گا - شکریہ
اس کے ترجمے کی ایک قابلِ اصلا ح کوشش حاضر ہے
آؤ تاکہ اس امت کا کام نکالیں
زندگی کی بازی مردانہ وار کھیلیں
مسجد میں (یعنی اس امت کے رسموں کی کی پابندی کرنے والے بے سوز افراد کے سامنے) اس طرح روئیں
کہ (بے سوزِ دروں) دینی راہنماؤں کا دل (موم کی طرح) پگھلا دیں
 

Hafiz Abbas Qadri

محفلین
حضور عرض کر چکا ہوں کہ فارسی میں درک بالکل بھی نہیں ہے، فارسی شعر کے ساتھ ترجمہ نہ ہو تو نا واقفیت کے مزے لوٹتا ہوں اور ترجمہ میسر آ جائے تو دو آتشہ ہو جاتی ہے۔

یہ قطعہ اقبال کی کتاب ارمغانِ حجاز میں ہے اور اس کا عنوان "بہ یارانِ طریق" ہے۔ ترجمہ


ہم مشربوں سے

آؤ تا کہ اس امت کے (بگڑے ہوئے) کام سنواریں، زندگی کی بازی مردانہ وار کھیلیں۔ شہر کی مسجد میں اس طرح نالہ و فریاد کریں کہ کے مُلّا کے سینے میں دل کو گداز کر دیں۔


واہ واہ واہ، سبحان اللہ سبحان اللہ۔ لا جواب کلام ہے اقبال کا۔
آخر تک متعلقہ تبصرہ جات پڑھے بغیر اپنی طرف سے ترجمہ لکھ مارنے کو میرے نووارد ہونے پر محمول کیجئے گا، تاہم لفظی ترجمہ کی بجائے کنایہ کا محمول بین القوسین دینا شاید میری طرف سے اضافی اظہار پسندیدگی ہے۔
 

Hafiz Abbas Qadri

محفلین
دگر نگاہِ ترا مست ناز می خواہم
حسابِ فتنہ ز ایام باز می خواہم

غالب
ایک بار پھر تیری نگاہوں کو مست ناز دیکھنا چاہتا ہوں۔
تاکہ زمانے(ایام) سے اُس کے پیدا کیے ہوئے فتنوں کے بارے میں باز پرس کروں۔
(چاہتا ہوں کہ تو ایک بار پھر لطف و محبت کی نظر میری طرف کرے تا کہ تیری بے التفاتیوں کے باعث زمانے نے جو جور ستم ہم پر ڈھائے ہیں اُن کی تلافی ہو سکے)
(مترجم و شارح :صوفی غلام مصطفیٰ تبسم)
ایک قابلِ معافی جسارت حاضر ہے:
ترجمہ: مجھےایک بار پھر اپنی نگاہِ ناز کا نشا نہ بناؤ ، تاکہ میں دنیا سے تمہارے جیسی آفتِ جا ں آزمائیشوں کا حساب طلب کرسکوں۔
 

ضیاءالقمر

محفلین
دوئی نہ ماندہ و من شکوہ سنج،اینت شگفت
میانہ تو و خویش امتیاز می خواہم

غالب
مجھ میں اور محبوب میں کوئی دوئی نہیں رہی،اورمیں پھر لبریز شکایت ہوں،
یہ عجیب بات ہے (کہ میں واصل ہونے پر بھی ) چاہتا ہوں کہ تیرے اور میرے درمیان امتیاز قائم رہے
(عاشق اپنی انفرادیت کو کھو دینا نہیں چاہتا)
(مترجم و شارح :صوفی غلام مصطفیٰ تبسم)
 

ضیاءالقمر

محفلین
تُرا نہ گفتم اگر جان و عمر،معذروم
کہ من وفاے تو با خویشتن یقیں دارم

غالب
اگر میں نے تمہیں جان اور زندگی نہ کہا تو اس بات میں معذور ہوں
کیونکہ میں تم سے وفا کی توقع رکھتا ہوں
(جان اور زندگی تو وفا نہیں کرتیں)
(مترجم و شارح :صوفی غلام مصطفیٰ تبسم)
 

Hafiz Abbas Qadri

محفلین
دوئی نہ ماندہ و من شکوہ سنج،اینت شگفت
میانہ تو و خویش امتیاز می خواہم

غالب
مجھ میں اور محبوب میں کوئی دوئی نہیں رہی،اورمیں پھر لبریز شکایت ہوں،
یہ عجیب بات ہے (کہ میں واصل ہونے پر بھی ) چاہتا ہوں کہ تیرے اور میرے درمیان امتیاز قائم رہے
(عاشق اپنی انفرادیت کو کھو دینا نہیں چاہتا)
(مترجم و شارح :صوفی غلام مصطفیٰ تبسم)

ضیاء بھائی! متن کے پہلے مصرعے میں 'میان' کا بطور اسم ظرف مکان معنیٰ تو 'مابین' ہو گا مگر آیا 'میانہ ' کا لفظ جو کہ اسم صفت ہے اس کا یہاں اندراج قدرے عسیر الفہم نہیں ہے؟ کہیں سہوِ قلم (ٹائپنگ)تو نہیں ہے؟
پسِ تحریر: ویسے بین القوسین توجیہ پڑھ کر لطف ہی آ گیا۔
 

ضیاءالقمر

محفلین
ضیاء بھائی! متن کے پہلے مصرعے میں 'میان' کا بطور اسم ظرف مکان معنیٰ تو 'مابین' ہو گا مگر آیا 'میانہ ' کا لفظ جو کہ اسم صفت ہے اس کا یہاں اندراج قدرے عسیر الفہم نہیں ہے؟ کہیں سہوِ قلم (ٹائپنگ)تو نہیں ہے؟
پسِ تحریر: ویسے بین القوسین توجیہ پڑھ کر لطف ہی آ گیا۔
حافظ جی: ایسا ہی لکھا تھا!
 
آخری تدوین:

Hafiz Abbas Qadri

محفلین
تُرا نہ گفتم اگر جان و عمر،معذروم
کہ من وفاے تو با خویشتن یقیں دارم

غالب
اگر میں نے تمہیں جان اور زندگی نہ کہا تو اس بات میں معذور ہوں
کیونکہ میں تم سے وفا کی توقع رکھتا ہوں
(جان اور زندگی تو وفا نہیں کرتیں)
(مترجم و شارح :صوفی غلام مصطفیٰ تبسم)
متحدہ روس کے صدر نے یوکرائن میں عوام سے کہا کہ میں آپ کا دوست ہوں‫ ؛ اس پر ایک مزدور نے کہا نہیں؛ آپ ہماوے بھائی ہو.؛ ( دوست تو آپ جیسا سلوک نہیں کرتے ہیں؛ )
 

ضیاءالقمر

محفلین
ہمیں بس است کہ میرم ز رشکِ خواہش غیر
ز عرضِ ناز ترا بے نیاز می خواہم

غالب
میں تجھے ناز کی خواہش سے بے نیاز چاہتا ہوں کہ کہیں اس سے رقیب کو
تری خواہش پیدا ہو اور یہ بات میرے لیے بڑی اذیت کا باعث ہے۔
(مترجم و شارح :صوفی غلام مصطفیٰ تبسم)
 

Hafiz Abbas Qadri

محفلین
ہمیں بس است کہ میرم ز رشکِ خواہش غیر
ز عرضِ ناز ترا بے نیاز می خواہم

غالب
میں تجھے ناز کی خواہش سے بے نیاز چاہتا ہوں کہ کہیں اس سے رقیب کو
تری خواہش پیدا ہو اور یہ بات میرے لیے بڑی اذیت کا باعث ہے۔
(مترجم و شارح :صوفی غلام مصطفیٰ تبسم)
پیشگی معذرت کے ساتھ:
غیر نے تمہاری خواہش کی ہے اور میرے لئے اسی کو بنیاد بنا کر مرجانا ہی کا فی ہے
اس سے میں تمہیں ناز دکھانے سے بے نیاز کرجاؤں گا۔
 

ضیاءالقمر

محفلین
اگر بہ طالعِ من سوخت خرمنم چہ عجب
عجب ز قسمتِ یک شہرِ خوشہ چیں دارم

غالب
اگر میرے (برے) نصیبے کے ہاتھوں میرا خرمن جل گیا ہے
تو عجیب بات نہیں، عجیب بات تو یہ ہے کہ ایک شہر میرے خرمن کا خوشہ چین ہے
(مترجم و شارح :صوفی غلام مصطفیٰ تبسم)​
 
Top