برگد جیسے لوگوں کے نام

ظہیراحمدظہیر

لائبریرین
ایک بہت پرانی مسلسل سی غزل پیشِ خدمت ہے ۔

( برگد جیسے لوگوں کے نام)


کوئی بھی رُت ہو چمن چھوڑ کر نہیں جاتے
چلے بھی جائیں پرندے ، شجر نہیں جاتے

ہوا اُتار بھی ڈالے اگر قبائے بدن
بلند رکھتے ہیں بازو بکھر نہیں جاتے

گئی رتوں کے سبھی رنگ پہنے رہتے ہیں
شجر پہ رہتے ہیں موسم گذر نہیں جاتے

خمیر بنتے ہیں مٹی کا ٹوٹ کر بھی شجر
جنم دوبارہ سے لیتے ہیں ، مر نہیں جاتے

جو برگ و بار سے عاری ہوں ، سائے سے خالی
وہ کٹ کے جلتے ہیں سو بے ثمر نہیں جاتے

شجر تو ان کے بھی ناموں کو زندہ رکھتے ہیں
وہ بدنصیب جو گھر لوٹ کر نہیں جاتے


ظہیر احمد ۔۔۔۔۔۔۔۔ ۲۰۰۴​
 
ایک بہت پرانی مسلسل سی غزل پیشِ خدمت ہے ۔

( برگد جیسے لوگوں کے نام)


کوئی بھی رُت ہو چمن چھوڑ کر نہیں جاتے
چلے بھی جائیں پرندے ، شجر نہیں جاتے

ہوا اُتار بھی ڈالے اگر قبائے بدن
بلند رکھتے ہیں بازو بکھر نہیں جاتے

گئی رتوں کے سبھی رنگ پہنے رہتے ہیں
شجر پہ رہتے ہیں موسم گذر نہیں جاتے

خمیر بنتے ہیں مٹی کا ٹوٹ کر بھی شجر
جنم دوبارہ سے لیتے ہیں ، مر نہیں جاتے

جو برگ و بار سے عاری ہوں ، سائے سے خالی
وہ کٹ کے جلتے ہیں سو بے ثمر نہیں جاتے

شجر تو ان کے بھی ناموں کو زندہ رکھتے ہیں
وہ بدنصیب جو گھر لوٹ کر نہیں جاتے


ظہیر احمد ۔۔۔۔۔۔۔۔ ۲۰۰۴​
لاجواب۔
اور شجر سے محبت تو آپ نے اپنی شاعری میں خوب نبھائی ہے۔ :)
 

ظہیراحمدظہیر

لائبریرین
بہت شکریہ اعجاز بھائی ! آپ کی تائید سند ہے ۔
لاجواب۔
اور شجر سے محبت تو آپ نے اپنی شاعری میں خوب نبھائی ہے۔ :)
تابش بھائی شجر سے پیوستہ نہ رہ سکے لیکن شجرِ امید سے تو پیوستہ ہیں اور رہیں گے ۔ دعاؤں میں یاد رکھا کیجئے ۔

واہ واہ۔ عمدہ غزل ۔۔۔:)
بہت شکریہ بھائی ! بہت معذرت کہ مجھے آپ کے اسمِ گرامی سے تعارف نہیں ۔ اللہ آپ کو خوش رکھے!

خوبصورت غزل ہے ظہیر صاحب قبلہ، بہت داد قبول کیجیے۔
نوازش! آداب وارث بھائی ! آپ کی داد سرمایہ ہے ! اللہ آپ کو سلامتی میں رکھے! آمین ۔
 
Top