Page 3

خاور بلال

محفلین
پچھلے دنوں انڈین فلم پیج تھری دیکھی، جس میں انڈیا کی ماڈرن کلاس کی اخلاقی تنزلی کی نشاندہی کی گئی ہے۔ اسی تناظر میں اگر پاکستان کی بات کی جائے تو یہاں کی ماڈرن کلاس (اکثریت) بھی ویسا ہی منظر پیش کررہی ہے۔

اس طبقے نے حیا کی چادر اتار پھینکی ہے۔ ان کی اپنی دنیا ہے، اپنے ہیروز ہیں اپنا ہی الگ رنگ ڈھنگ ہے۔ ان سے پوچھا جائے کہ پاکستان کا مطلب کیا تھا تو خلاء میں گھورنے لگیں گے، علامہ اقبال اور قائد اعظم کی بابت بات کی جائے تو ہکلانے لگیں گے۔ یہ ہوس کے بندے ہیں ان کی تاریخ پیسا ہے ان کے خواب پیٹ سے شروع ہوکر پیٹ پر ختم ہوتے ہیں ان کی آرزؤیں شراب، لڑکی اور نشے کے بغیر ادھوری ہیں۔ ‌یہ مغرب کی نقالی میں اپنی چال بھی بھول چکے ہیں۔ یہ پاکستان کو کھانے کا دستر خوان سمجھتے ہیں ان کیلئے مذہب بوجھ ہے اور یہ خود پاکستان پر بوجھ ہیں۔ سوال یہ ہے کہ پاکستان پر سے یہ بوجھ کب ہلکا ہوگا؟

آئیے اس موضوع پر بات کریں۔ کیونکہ بات تو کرنی پڑے گی۔
 

دوست

محفلین
جب تک ہم غیرت مند نہ بن جائیں۔
چونکہ فرمان ہے کہ جس طرح کی قوم ہو اس پر ویسے ہی حکمران مسلط کردئیے جاتے ہیں۔
وسلام
 

سیدہ شگفتہ

لائبریرین
السلام علیکم

انفرادی و اجتماعی انتہا پسندی شاید ایک اہم عنصر ہے ہمارے کئی مسائل کا۔ انتہا پسندی نہیں ہو سوچ میں اور عمل میں بھی۔
 

Muhammad Naeem

محفلین
حضرت محمد (صلی اللہ علیہ وسلم) نے ارشاد فرمایا عنقریب تم یہود و نصاریٰ کی اس طرح پیروی کرو گے جس طرح ایک تیر دوسرے تیر کے برا بر ہو جاتا ہے۔
اور یہی بات آج ہم پر صادق آرہی ہے۔ ہم نے اسلام کی تعلیمات سے ایسا منہ موڑا ہے کہ ذلت و پستی کی اتھاہ گہرائیوں میں جا گرے ہیں۔ آج ہم یہود و نصاریٰ اور مشرکین کی نقالی میں تو فخر محسوس کرتے ہیں لیکن اسلام کی شاہراہ پر چلنے کے عمل کو رجعت پسندی گردانتے ہیں۔
ہمارے افکار ، ہمارے خیالات، ہما را کلچر ، تہذیب و تمدن ، رسم و روایات الغرض آج کونسی ایسی چیز ہے جس میں ہم مغرب کی طرف نہیں دیکھتے۔
ستم بالائے ستم کہ مغرب کی سوچوں پر عمل کرنا "ضروری" قرار پا گیا ہے۔ دنیا کے ساتھ ساتھ چلنے کیلئے ضروری ہے۔ وگر نہ زمانے کی دوڑ میں پیچھے رہ جانے کا"سخت اندیشہ" ہے۔ بقول شخصے ہماری یہ کیفیت ہے کہ:
اوروں سے مانگتے پھرتے ہیں مٹی کے چراغ
اپنے خورشید پہ پھیلا دیئے سائے ہم نے۔
افکار و خیالات میں مغرب سے رہنمائی لینا ۔ ہمارا سب سے بڑا مسئلہ بن چکا ہے۔ افکار کی غلامی ، جسم کی غلامی سے زیادہ خطرناک ہوتی ہے۔
انسان جسمانی طور پر تو آزاد ہوجاتا ہے لیکن ذہنی طور پر ابھی اپنے آپ کو غلام سمجھتا ہے۔
 

فرخ منظور

لائبریرین
بھائی اقبال نے کہا تھا -
اٹھا نہ شیشہ گرانِ فرنگ کے احساں
سفالِ ہند سے مینا و جام پیدا کر

سفال سے مینا و جام پیدا تو ہو سکتے ہیں‌ لیکن ہماری قوم میں یہ صلاحیّت ہی نہیں ہے ہر کس قسم کی ٹیکنالوجی کے لیے تو آپ مغرب کی طرف دیکھتے ہیں - یہ فورم جس پر ہم تبادلہ خیال کر رہے ہیں‌ مغرب کی ہی دین ہے- اگر آپ مغرب کی طرف نہیں دیکھیں گے تو تیل ڈال کر چراغوں کی روشنی پر گزارہ کرنے کے سوا آپ کے سوا کوئی چارہ نہیں ہوگا -
 

Muhammad Naeem

محفلین
بھائی اقبال نے کہا تھا -
اٹھا نہ شیشہ گرانِ فرنگ کے احساں
سفالِ ہند سے مینا و جام پیدا کر

سفال سے مینا و جام پیدا تو ہو سکتے ہیں‌ لیکن ہماری قوم میں یہ صلاحیّت ہی نہیں ہے ہر کس قسم کی ٹیکنالوجی کے لیے تو آپ مغرب کی طرف دیکھتے ہیں - یہ فورم جس پر ہم تبادلہ خیال کر رہے ہیں‌ مغرب کی ہی دین ہے- اگر آپ مغرب کی طرف نہیں دیکھیں گے تو تیل ڈال کر چراغوں کی روشنی پر گزارہ کرنے کے سوا آپ کے سوا کوئی چارہ نہیں ہوگا -
برادر علم و ہنر کسی کی جاگیر نہیں ہوتے۔
اور ویسے بھی یہ تمام علم مسلمانوں کا ہی ہے جن پر اہل مغرب نے اپنی بنیادیں کھڑی کی ہیں۔ ہمیں کیوں اپنے سلاف کا علم لیتے ہوئے خفت و شرمندگی ہو۔
ایسی نصیحتیں بے فائدہ ہو چکی ہیں جن کا سر پیر ہی نہیں ہوتا۔
 

ساجد

محفلین
برادرم سخنور صاحب،
آپ کچھ بھی سمجھا لیں لیکن ہٹ دھرموں پر اقبال ہی کا یہ شعر صادق آتا ہے۔

پھول کی پتی سے کٹ سکتا ہے ہیرے کا جگر
مردِ ناداں پہ کلامِ نرم و نازک بے اثر

اس لئیے ان کو ان کے حال پہ ہی چھوڑ دیں تو بہتر ہے۔
 

Muhammad Naeem

محفلین
برادرم سخنور صاحب،
آپ کچھ بھی سمجھا لیں لیکن ہٹ دھرموں پر اقبال ہی کا یہ شعر صادق آتا ہے۔

پھول کی پتی سے کٹ سکتا ہے ہیرے کا جگر
مردِ ناداں پہ کلامِ نرم و نازک بے اثر

اس لئیے ان کو ان کے حال پہ ہی چھوڑ دیں تو بہتر ہے۔
جی بالکل !
ہمیں آپ روشن خیال مغرب کی پیروی کا سبق نہ پڑھائیں تو صحیح رہے گا۔
 
Top