Heritage of a Muslim queen

http://archives.dawn.com/weekly/dmag/archive/061224/dmag13.htm

دجلہ کے کنارے ایک خوبصورت محل کے باہر ایک ہجوم جمع تھا جو محل سے ملکہ کے باہر انے کا منتظر تھا۔ ملکہ بالکونی پر ائی اور بہت ہی باوقار انداز میں ہجوم سے مخاطب ہوئی " آج میں نےاپنے تمام کھاتوں کی کتابوں کو بند کردیا ہے جو نہر کی تعمیر سے متعلق ہیں۔ وہ تمام جنھوں نے مجھے ادائیگی کرنی ہے انہیں کوئی ادائیگی کی ضرورت نہیں ہے اور وہ لوگ جنھیں میں نے ادئیگی کرنی ہے ان کی ادائیگی اج ہی کردی جائے اور وہ بھی دوگنی مقدار میں" یہ کہنے کے بعد اس نے نے کھاتے دریا برد کرنے کا حکم دے دیا اور کہا "میرا اجر اللہ کے پاس ہے"
یہ ملکہ کوئی اور نہیں زبیدہ تھی، عباسی خلیفہ منصور کے بیٹے جعفر کی بیٹی، دنیا کے امیر ترین اور طاقتور خلیفہ ہارون الرشید (170-193ھ) کی بیوی اور کزن، جو کہ پانچواں عباسی خلیفہ تھا۔ زبیدہ نے ایک نہر کی تعمیر کا حکم دیا ، جو مکہ کو اور حاجیوں کو پانی پہنچاسکے- وہ نہر جو انجینرینگ اور تعمیر کا ایک کما ل تھی جب کہ جدید ٹیکنالوجی موجود نہ تھی، جو نہر زبیدہ کے نام سے جانی جاتی ہے۔ یہ نہر قریبا ایک ھزار سال تھا حجاج اور مکہ کو پانی کی فراہمی کاکام انجام دیتی رہی۔

جاری
 
ملکہ زبیدہ کو انسانیت کی خدمت کا جنون تھا۔ حجاج کے زیر استعمال 900 میل لمبی روڈ جو کہ کوفہ سے شروع ہوکر صحرا سے گزرتی ہوئی مکہ اور مدینہ تک اتی تھی -جو کہ اب بھی جنوبی کوفہ میں موجود ہے اوردرب زبیدہ کے نام سےمشہور ہے -کی حالت بہتر بنانےکے بعد نہر کی تعمیر ایک اور کارہائے نمایاں ہے جو ملکہ زبیدہ نے انجام دیا۔ اپنے انتقال (226 ھ) تک، اپنے شوہر کے انتقال کے قریبا 32 سال بعد تک، انسانیت کی خدمت ملکہ کی زندگی کا ایک بڑامقصد تھا۔

جاری
 
ان دنوں مکہ میں پانی کی بہت سخت کمی تھی۔ مکہ انےوالے حجاج کرام کی پانی کی ضروریات پورا کرنے کا تمام انحصارآب زم زم پر تھا۔ جبکہ منیٰ، مزدلفہ اور عرفات کے میدان میں پانی کی فراہمی کا کوئی ذریعہ نہ تھا- اس مشکل کو محسوس کرتے ہوئے، خلیفہ دوئم حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے 17 ہجری میں حج کرنے کے دوران کچھ ہنگامی اقدامات کیے تاکہ پانی کی فراہمی کا کچھ بندوبست ہوسکے۔ بعدمیں اصحاب رسول (صلی اللہ علیہ وسلم) حضرت عبداللہ بن امر اورحضرت امیر معاویہ رضوان اللہ عنہ نے بھی کچھ انتظامات کیے مگر یہ تمام اقدامات پانی کی بڑھتی ہوئی ضروریات کو پورا کرنےکا سبب نہ بن سکے۔حجاج کرام مسلسل پانی کی کمی کے مسئلے کا شکار رہے۔

جاری۔۔۔
 
خلیفہ ہارون الرشید کے دور میں ، حج کے دوران پانی کی اتنی قلت ہوتی تھی کہ ایک بالٹی پانی 20 درہم میں فروخت ہوتی تھی۔خلیفہ نے بھی کچھ اقدامات کیے پانی کی قلت دور کرنےکے لیے مگر حجاج کرام کی مشکل کچھ اسان نہ ہوسکی۔ 193 ہجری میں خلیفہ کے انتقال کے بعد زبیدہ نے حج کا سفر کیا۔ مکہ میں پانی کی قلت نے ملکہ کو سخت پریشان کردیا حتیٰ کہ اس نے فیصلہ کہ ایک کنال بنائی جائے تاکہ پانی کی کمی کا مسئلہ ہمیشہ کے لیے حل ہوجائے-

ملکہ نے دنیا بھر سے مایہ ناز انجنیرز و سروئیرز کو کنال کی تعمیر کے لیے طلب کیا۔ تمام علاقے کا جائزہ لینے کے بعد انھوں نے فیصلہ کیا کہ وادی حنین سے ایک کنال نکالی جائے جہاں پہاڑوں میں ایک پانی کا چشمہ موجود ہے جو کہ مقامی لوگ اپنی ضروریات اور زراعت کے لیے استعمال کرتے ہیں۔ یہ وہی وادی حنین ہے جہاں پیارے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے کفار سےایک لڑائی بھی لڑی تھی۔ یہ علاقہ پتھریلا ہے، زمین سخت اور خشک ہے اور موسم سخت گرم ہوتا ہے۔ اس علاقے میں کنال کا سطح زمین پر برقرار رہنا مشکل تھا۔ لہذا انجنیرز نے طے کیا کہ کنال زیر زمین ایک سرنگ کی صورت میں بنائی جاوے جبکہ کچھ فاصلے پر پانی کے نکالنے کے اڈے سطح زمین پر ہوں جہاں سے لوگ اپنی ضرورت کے لیے پانی نکال سکیں۔

ملکہ زبیدہ کے حکم کے مطابق، تمام وادی حنین کا علاقہ ایک بڑی رقم دے کر خرید لیا گیا جس میں پانی کا چشمہ بھی شامل تھا- پانی کو پہاڑوں کے درمیان سے نکال کر سرنگ سے لے انا ایک بہت بڑا کام تھا جس کے لیے بہت زیادہ افرادی قوت، رقم، اور پہاڑ کاٹنے کی مہارت کی ضرورت تھی۔ مگر ملکہ زبیدہ کے ارادے کو کچھ کمزور نہیں کرسکا۔

"پھاوڑے اور بیلچے کی ہر ضرب کے لیے، میں ایک درہم تک دینے کے لیے تیار ہوں" یہ کہتے ہوئے ملکہ نے کام شروع کرنے کا حکم دیا"

(ایک درہم تقریبا 3 گرام چاندی)
جاری۔۔۔
 
کچھ سالوں کے کام کے بعد، کنال آخر کار جبل رحمہ جو کہ عرفات میں ہے پہنچ گئی۔ اس کے بعد مزدلفہ اور پھر منی تک۔ وادی حنین کے چشمے سے اورکنال کے راستے میں جو بھی پانی کا ذریعہ ملا اس کو کنال میں شامل کرلیا گیا۔ کنال کے ذریعے پانی کی فراہمی نے حجاج کرام اور مقامی افراد کو بہت راحت پہنچائی۔
245ھ میں ایک زلزلہ کی وجہ سے کنال میں کٹاو اور دراڑ پڑگئیں مگر اس کی مرمت خلیفہ وقت کے حکم کے مطابق جلدی کردی گئی۔ بعد میں دوسرے حکمرانوں نے اس کنال میں مزید بہتری کے اقدامات کیے۔
گزرتے وقت کے ساتھ کنال کی مضبوطی پر اثرات پڑے اور اس کی حالت مرمت نہ ہونے کے باعث خراب ہوگئی۔نتیجہ میں کنال سے پانی کی فراہمی بند ہوگئی۔ کئی صدیاں گزرچکی تھی کنال کی تعمیر کے بعدا ور پانی کے دوسرے ذرائع بھی حاصل ہوچکے تھے لہذا کنال کی دیکھ بھال کی زیادہ ضرورت محسوس نہیں کی گئی۔
سعودی حکومت نے 1295 ہجری میں ایک کمیٹی کی تشکیل دی تاکہ کنال کی مرمت اور بحالی کا کام کیا جاسکتے۔ کمیٹی نے کنال میں پانی کی فراہمی کو یقینی بنایا۔ مگر بدقسمتی سے 1344 ھ میں وادی نعمان میں سیلاب کی وجہ سے کنال کو نقصان پہنچا اور تین ماہ تک کنال کے ذریعے پانی کی فراہمی بند رہی۔ ملک عبدالعزیز جنھوں نے 1344ھ میں حکومت سنبھالی ، کنال کی مرمت کروائی۔ 1400 ھ کے شروع میں کچھ وجوہات کی بنا پر کنال سے پانی کی فراہمی مکمل طور پر بند ہوگئی اور پھر بحالی نہ ہوسکی-

حالیہ دور میں سعودی حکمرانوں نے حجاج کو پانی کی فراہمی یقینی بنانے میں بہت دلچسپی دکھائی ہے۔ مکہ میں مزید پانی کی فراہمی کے ساتھ سعودی حکومت نے ایک ڈی سالینیشن پلانٹ لگایا ہے جو مکہ سے 100 کلومیڑ کے فاصلے پر ہے اور مکہ کے پانی کی ضروریات پوری کرتاہے۔ یہ پلانٹ چار سال میں بنا اور 21 جولائی 1988 میں مکمل ہوا۔ اس کے باوجود انھوں نے اس عظیم کنال کو بھلا نہین دیا۔
موجودہ حکمران کنگ عبداللہ (جو اس وقت کراون پرنس تھے) نے 2001 میں ہدایات جاری کیں کہ کنال کو بحال کیا جائے تاکہ مکہ کو مزید پانی فراہم کیا جائے اور اس کے ساتھ ایک مسلمان ملکہ کے ورثے کو بھی محفوظ کیا جاوے۔ وہ کنال جس نے مسلم امہ کو ایک ھزار سال تک پانی فراہم کیا۔
 
672f4b4d.jpg
 
بہت بہت شکریہ ہمت علی خان صاحب،

اور ترجمہ کی وہ وجہ بھی بتا دیں۔

بتاتا ہوں مگر شاید یہ اتنی دلچسپ نہ ہو

کچھ عرصہ پہلے کہیں ایک روایت پڑھی کہ کسی بزرگ کو خواب میں ملکہ زبیدہ کہ زیارت ہوئی۔ پوچھا کہ کیا معاملہ ہوا۔ ملکہ نے فرمایا خداوند کریم نے پوچھا میرے لیے کیا کیا؟ ملکہ نے جواب دیا کہ نہر تعمیر کی۔ارشاد ہوا کہ اس کے لیے رقم خرچ ہوئ جو میری دی ہوئی تھی لوگوں کا پسینہ بہا ۔ تو نے میرے لیے کیا کیا؟ ملکہ فرماتی ہیں کہ میں سٹپٹا گئی۔ میں نے تو کوئی محنت نہیں کی تھی۔ رحمت خداوندی جوش میں ائی۔ ارشاد ہوا ایک مرتبہ تو کھانا کھارہی تھی کہ اتنے میں آذان کی آواز ائی۔ تو نے لقمہ روک لیا۔ میرے لیے پکار کا احترام کیا۔ جا تیری نجات۔

اس روایت کی صحت پر جائے بغیر اگر پیغام پر نظر رکھیں تو مناسب ہوگا۔
 
Top