23 فروری ۔۔۔عالمی یوم چیچنیا

ربیع م

محفلین
عالمی یوم چیچنیا
تعارف:
23 فروری 1944
کو جوزف اسٹالن نے چیچنیا اور انگشتیا کی پوری آبادی کو جلاوطن کرنے اور وسط ایشیا کو ہجرت کرنے کا حکم صادر کر دیا ۔ پانچ لاکھ کی آبادی کا آدھے سے زیادہ حصہ منتقلی کے دوران ہی سوویتی افواج کی جانب سے کیے گئے قتل عام کا شکار ہو گیا ۔ اس قتل عام سے جوباقی بچ نکلے وہ یا تو فاقہ کشی یا سائبیریا اور وسط ایشیا کی کڑاکے دار سردی کا شکار ہو کر فوت ہو گئے۔
چند ہی دنوں کے اندر آبائی سرزمین سے پوری آبادی کا صفایا کر دیا گیا ۔ انگشتیا اور چیچنیا کے تما م آبادیا تی علاقوں کو راتوں رات خالی کروا دیا گیا ۔ چیچنیا کو نہ صرف صفحہ ہستی سے مٹا دیا گیا بلکہ قرطاس پر بھی کوئی نشانی باقی نہیں چھوڑی گئی ۔ پورے ساٹھ 60 سال بعد آخر کار سن 2004 میں یورپی پارلیمان میں اس بہیمانہ حرکت کو نسل کشی قرار دیا گیا ۔
تاریخ انسانی کا یہ ایک سیاہ ترین اور ناقابل فراموش دن ہے۔ لیکن افسوس کہ بہت کم لوگ اس المناک سانحہ سے واقف ہیں ۔ چنانچہ اس دل سوز واقعہ کی یاد تازہ کرنے نیز عوام کو اس سے آگاہ کرنے کی غرض سے ہر سال یہ دن یعنی 23 فروری ، یوم چیچنیا کے طور پر سارے عالم میں منایا جاتاہے۔
عالمی یوم چیچنیا کے انعقاد کامقصد :
1. چیچن عوام کی تباہی وبربادی اورنسل کشی کو انسانی تباہی گردانتے ہوئے اس کی تاریخی اہمیت کا اعتراف کرنا ۔
2. اسٹالن کی جانب سے جلاوطنی کا شکار تمام متاثرین کا احترام کرنا۔
3. چیچن نسل کشی کو انسانی اہمیت کا معاملہ قرار دیتے ہوئے عوام کو آگاہ کرنا اور عوامی بیداری مہمات کا انعقاد کرنا ۔
4. اس حقیقت کا تیقن کہ چیچن نسل کشی کے دوران ہوئے ظلم وبربریت ، نسل کشی ، مذہبی تعصب جیسے ہولناک جرائم کبھی بھلائے جاسکتے ہیں اور نا ہی یورپ یا دنیا کے دیگر ممالک میں اعاد ہ کیا جاسکتا ہے۔
5. اسی نوعیت کے دیگر معاملات سے درپیش عصری تباہکاریوں کی عکاسی کرنا ۔
6. مذہبی تعصب ، نسلی عصبیت ، نسل کشی ، ظلم وبربریت کےخلاف متواتر ذمہ داریوں کاتیقن کرنا ۔
7. عدل وانصاف ، تحفظ ، وقار اور قیام امن سے متعلق اصولوں اور آرزؤں کی حمایت کرنا ۔
تاریخ :
23 فروری سن 1944 کو سوویت یونین نے پوری چیچن اور انگشتیائی عوام کی فوری جلاوطنی کا عمل شروع کیا تاکہ انھیں وسط ایشیا ء کے سبزہ زار ڈھلوانوں میں بسایا جاسکے ۔ ان عوام کوقتل عام ، کڑاکے کی سردی ، قحط سالی اور بھوک مری کا شکار ہونا پڑا ۔ یہ عمل عصر یورپ میں کی جانب سے یہودیوں پر مسلط کردہ خونیں حل سے کسی لحاظ سے بھی کم نہیں تھا ۔ قرین قیاس ہے کہ آدھے سے زیادہ آبادی موت کا شکا ر ہو گئی اور نیست و نابود ہونے والوں کا تناسب اس سے بھی کہیں زیادہ تھا ۔
جنوری 1944 کے اوائل میں NKVD کی کئی ہزار ٹولیاں چھوٹے سے کوہستانی جمہوریہ میں اکٹھا ہوتی گئیں اور شہریوں کو اطراف واکناف کے علاقوں میں ہر سمت ہانکنا شروع کردیا ۔ یوم فوج احمر (Red Army Day) یعنی 23 فروری ہر قریہ ، دیہات اور گاؤں سے لوگوں کو مقامی سوویت عمارت میں طلب کیا گیا ۔ کسی کے خواب و خیال میں بھی نہیں تھا ان پر کون سی آفت آنے والی ہے ۔ لوگ خوشی بخوشی جوق در جوق اس دعوت پر لبیک کہتے ہوئے آتے گئے۔ بجائے اس کے کہ یوم فوج احمر کا انعقاد عمل میں آتا ، سوویت یونین کے صدر کا حکم نامہ پڑھ کر سنا یا گیا کہ بغاوت اور دشمن جرمنی کے ساتھ ساز باز کے جرم میں چیچنیا اور انگشتیا کے باشندوں کو فوری ملک بدر کیا جاتا ہے۔
چیچن عوام کا جنہوں نے مارکو کی قرارداد کے آگے سر تسلیم خم کرنے سے صاف انکا ر کردیا تھا ، نازیوں کے ساتھ ساز باز کرنے یاان کے ساتھ اشتراک کا کوئی ثبوت موجود نہیں تھا جسے بہانا بنا کر اسٹالن نے ملک بدر کرنے کا حکم صادر کیا تھا ۔ حقیقت تو یہ ہے کہ جرمن افواج نے چیچنیا کی سرزمین پر اپنے قدم رکھے ہی نہیں کیوں کہ سرحد کے کافی دور ہی انھیں روک دیا گیا تھا ۔ علاوہ ازیں دوسری عالمی جنگ کے دوران چیچن افواج نے تمام کلیدی معاملات میں اپنے امتیازی کردار کی نہ صرف چھاپ چھوڑی بلکہ سوویت فوج میں اپنے اعدادوشمار کے تناسب کے لحاظ سے سوویتی افواج کے بمقابلہ زیادہ تمغات اور اعزازات بھی حاصل کئے ۔ تاہم ان سپاہیوں کو بھی بخشا نہیں گیا اور اپنی اکائیوں سے خارج کرتے ہوئے براہ راست وسط ایشیاء کے مہاجرین خیموں کو روانہ کیا گیا ۔
ہر گاؤں اور قریہ چیچن مردوں ،عورتوں بچوں اور بوڑھوں کو بندوق کی نوک پر فوجی ٹرکوں پر لاد کر روانہ کیا گیا ۔ مہاجرین کو ان ٹرکوں کے ذریعہ قریب ترین ریلوے اسٹیشن پر چھوڑا جاتا ، پھرسازوسامان اور جانوروں کیلئے مختص ڈبوں میں ٹھونس دیا جاتا جو غذا اور مناسب لباس سے بھی عاری ہوتے ۔ دور دراز کے پہاڑی علاقوں میں بسے دیہاتیوں کو پہاڑوں سے تیزی سے اترنے پر مجبور کیا جاتا ، مدافعت کرنے یا پیچھے رہ جانے والوں کو گولی مار دی جاتی ۔ حاملہ خواتین ، بچے اور بوڑھے ان زیادتیوں کی تاب نہ لاکر فوت ہو گئے ۔ پہاڑی دیہات قبیق میں 700 عورتوں ،بچوں اور بوڑھوں کا زندہ جلایا جانا اس بربریت کی ایک زندہ مثال ہے ۔ تاہم اس نوعیت کے قتل عام جمہوریہ کے تمام علاقوں میں واقع ہوئے ۔ حتیٰ کہ پہاڑی دیہات ہفتوں بلکہ مہینوں اس آگ میں جلتے رہے۔
منظم و منصوبہ بند ظلم و بربریت کے ذریعہ محض چند ہی دنوں میں ساری کی ساری آبادی کا اپنی آبائی سرزمینوں سے صفایا کر دیا گیا ۔
چیچنیا اور انگشتیا کو راتوں رات ویران کردیا گیا۔ نقشہ نویسوں سے کہاگیا وہ دنیا کے تمام نقشہ قاموس حتیٰ کہ تمام دستاویزوں سے چیچنیا اور انگشتیا کا نام ونشاں مٹا دیں ۔
29 فروری 1944 کو NKVD سراغ رساں پولیس کے حاکم اعلیٰ لاؤ رئیٹائی بیریا (LARETII BERIA) نے ان واقعات کی روداد پیش کرتے ہوئے لکھا ہے ۔۔۔"چیچنیا اور انگیشیائی عوام کی ترتیب نو کی روداد پیش خدمت ہے ۔ ترتیب نو کا عمل اونچے پہاڑی آبادیاتی مراکز سے مستثنیٰ تمام بڑے اضلاع سے 23 فروری سے ہی شروع ہو گیا۔ بشمول 91250 انگیشیائی باشندوں کے کل 478479 افراد کو ان علاقوں سے ملک بدر کردیا گیا ۔ انھیں خصوصی ریلوے کاروں میں بھرتی کر دیا گیا ۔کل 180 خصوصی ریلوں کو بھرتی کیا گیا جن میں سے 159 کو نشیائندہ نئی جگہوں پر پہنچا دیا گیا ہے"۔
تقریبا 5 لاکھ چیچن اور انگیشیائی عوا م کیلئے منجمد ٹنڈرا علاقہ سے گذرنا ایک انتہائی صبر آزما وتلخ ترین سفر کا آغاز تھا جو کسی بھی سیاہ مہم جوئی سے کم نہیں تھا ۔ مردوں ، عورتوں اور بوڑھوں سے لدے مہر بند ٹرکوں میں ضروریات سے فارغ ہونے کیلئے کوئی بیت الخلاء تھا اور نہ صفائی کا کوئی انتظام ۔ کڑاکے کی سردی سے گذرتے یہ ٹرک برف خانوں سے کچھ کم نہیں تھے ۔ نتیجتا ٹائیفائیڈ اور کالمرا جیسی وبائی و متعدی بیماریاں پھوٹ پڑیں ۔ ہزاروں لوگ ان بیماریوں کا شکار ہوتے ہوئے لقمہ اجل بن گئے۔ چوں کہ دروغ گوئی کاشکار ان معصوموں پر الزامات تھے کہ انھوں نے اپنے ہی ملک سے غداری کرتے ہوئے دشمن کے ساتھ سازباز کی ہے راستوں سے گذرتے ہوئے ان کو مقامی عوام کی دشنام طرازی ، الزام تراشیوں ، تہمتوں اور اہانت آمیز سلوک کا سامنا کرنا پڑا۔
ممتاز ابغازی اتالیق متری گولیاء نے ایک لب سڑک ریلوے اسٹیشن کا منظر ان الفاظ میں کھینچا ہے "۔۔۔ایک ناقابل یقین منظر ، ایک لمبی گاڑی ۔۔۔لوگوں سے لبالب ،لگتا ہے ان کا تعلق کوہ قاف سے ہے ،بچے ،بوڑھے ، جوان عورت ، مرد تمام کو کہیں مشرق کی سمت بھیجا گیا۔۔۔"انتہائی مغموم اور اندو گیں یہ تھے چیچنیا اور انگیشیائی عوام جواپنی مرضی یاخوشی سے سفر نہیں کر رہے تھے بلکہ انھیں جلاوطن کیا گیا تھا ۔انھوں نے "اپنی ہی سرزمیں "کےخلاف انتہائی سنگین جرم کا ارتکاب کیا تھا ۔"
ٹرکوں کی وقفہ وقفہ سے تلاشی لی جاتی ۔ لاشوں کو نکال کر ریلوے لائن کے کناروں پر بڑی ہی بے دردی سے پھینک دیا جاتا ۔
اپنے عزیز واقارب کی اس درگت سے مایوس عوام لاشوں کو چھپا دیتے یا ان کا بھیس بدل دیتے تاکہ اختتام سفر پر اسلامی روایات کے تحت ان کی تجہیز وتکفین کی جاسکے ۔ ہفتوں کے سفر کے بعد یہ چیچن اور انگیشیائی باشندے موجودہ قزاغستان ، کرغستان اور ازبکستان کے دور دراز علاقوں میں منتشر ہوگئے ۔ ہزاروں بلکہ لاکھوں مہاجرین کو غذا یا سائبان کے بغیر ان کی اپنی حالت پر چھوڑدیا گیا ۔
تقریبا دو دہائیوں کے بعد مارکو اسٹیٹ یونیورسٹی کا ایک نامور مؤرخ یوں رقم طراز ہوا۔
"۔۔۔چیچن اور انگیشیائی باشندوں کو اولین دو تا تین برسوں کے دوران انتہائی ہیبت ناک و ناقابل تلافی نقصان کا سامنا کرنا پڑا جب ان کے ہزاروں ساتھی فاقہ کشی اور خطرناک بیماریوں کا شکار ہوگئے اور وسط ایشیائی سبزہ زار ڈھلوان ان کی قبر بن گئے۔"
بربریت کا یہ سلسلہ آنے والے برسوں بعد بھی چلتا رہا ۔ ہزاروں لوگ فاقہ کشی اور نمونیا کا شکار ہوگئے۔یہ ان چیچن عوام کی ہنگامہ خیز تاریخ کا وہ سیاہ ترین باب ہے جنہوں نے انیسویں صدی میں قوی روسی فوج کے ساتھ ایک طویل ترین جنگ کاسامنا کیا تھا اور پہلے ہی نقل مکانی کا اعلیٰ پیمانے پر شکار ہو چکے تھے۔
مہاجرین کے قیام کا انتظام نوآبادیاتی علاقوں میں کیا گیا جہاں ان کے ساتھ مجرموں کا سا سلوک کیا جاتا ۔ ہلکی سزا کے نام پر انہیں قیدوبند کی صعوبتوں اور کڑی محنت و مشقت سے گزرنا پڑتا ۔ باوجود ایں کہ مختلف الرائے روسی ادیب ، الیگزینڈر رسولز نٹسزن ۔دی گلاگ ارچبالوگو" چیچن عوام کاجذبہ استحکام وثابت قدمی میں یوں رقم طراز ہے۔
صرف ایک ملک ایسا ہے جس نے کبھی خود سپردگی نہیں کی اور نہ ہی ذہنی و نفسیاتی طور پر خود سپردگی کی عادات یا آداب اپنائے ۔
یہاں انفرادی خودداری و اولوالعزمی ہی دیکھنے کو نہیں ملتی بلکہ سارے کا سارا ملک ہی اس روش پر گامزن رہا ہے ۔۔۔ اور یہ چیچنیا میں خصوصیت کے ساتھ یہاں کہوں گا کہ مخصوص سکونت پذیر عوام میں صر ف چیچن ہی ایسی قوم ہے جس کا جذبہ استحکام کبھی متزلزل نہیں ہو پایا ۔
دھوکہ دہی کے ذریعے انہیں اپنے وطن سے محروم کردیا گیا ، ان کا گھر بار ان سے چھن گیا ، لیکن ان کے ماتھے پر کبھی شکن تک نہیں آئی ۔ انھوں نے کبھی کسی کی جی حضوری نہیں کی نہ ہی اپنے آقاؤں کی خوشنودی حاصل کرنے کیلئے کبھی کسی چاپلوسی کا سہارا لیا ۔ ان کا رویہ ہمیشہ ہی سخت اور معاندانہ ہی رہا ۔۔۔ ان کی غیر معمولی خوبی یہ تھی کہ ان سے ہر کوئی خائف اور متاثر تھا ۔ انھیں اپنے ہی انداز سے زندگی گزارنے سے کوئی نہیں روک پایا ۔ ایک ایسی طاقتور سلطنت جس نے تیس برسوں تک حکمرانی کی اپنے قوانین ، نظریات اور سوچ کو ان پر تھوپ نہیں پائی"۔
1953 میں اسٹالن کی موت کے بعد بھی برسوں چیچن عوام کے حالات انتہائی ناگفتہ بہ رہے ۔بعد ازاں چیچن عوام اپنے مادر وطن کو واپس آنے کی اجازت طلب کرتے ہوئے ماسکو کوباضابطہ طور پر کئی ایک عرض داشتیں پیش کیں ، تاہم چند ایک خاندانوں نے واپس آنا شروع کر دیا تھا ۔ 1956 میں پارٹی کے بیسویں اجلاس اعلیٰ روسی قائد نکیتا کورشچیف نے چیچن عوام اور دیگر جلاوطن اقوام پر ہوئی زیادتیوں کا برملا اعتراف کیاتھا۔ اس وقت تک افسران اعلیٰ کی جانب سے سخت تدراک کے باوجود چیچن عوام اپنی سرزمین کی جانب پیش قدمی کر چکی تھی ۔ ان میں سے اکثریت اپنے مرحوم رشتہ داروں کی ہڈیاں بھی ساتھ لائے تھے تاکہ انھیں اپنےآبائی قبرستانوں میں دفنایا جاسکے ۔
لیکن بدقسمتی سے انھیں 1944 سے پہلے والی زندگی دوبارہ میسر نہیں ہو پائی ۔جلاوطنی کی بھوت کا خوفناک سایہ ان کا پیچھا کرتا ہی رہا ۔ تلخ ترین یادیں ، غربت ، ضعف صحت ، افواہوں کے ذریعہ ان کے خلاف پھیلائی گئی بد ظنی ان کا مقدر بن چکی تھی ۔ ان کے اپنے مکان بھی روسی اور داغستانی مہاجرین کے حوالے کر دئیے گئے تھے جن سے انھیں رقم ادا کر کے خریدنا پڑا۔ صرف چند لوگوں میں ہی یہ استطاعت تھی۔
جلاوطنی چیچن عوام کے محض انفرادی تباہی کا باعث ہی نہیں رہی بلکہ پوری چیچن قوم اور ملک کیلئے ایک عظیم سانحہ تھی ۔ کئی پہاڑی آلس (AVLs) انتہائی ویران اور آبادیاتی لحاظ سے ناقابل قیام بن چکے تھے ۔ نتیجتا اکثر چیچن عوام کو اولین تجربہ کے تحت ناقابل تنسیخ پہاڑی راستوں ، ڈھلوانوں اور میدانوں پر زندگی گزارنے پر مجبور ہونا پڑا ۔ علاوہ ازیں بزرگوں کی کثیر اموات نے چیچن تہذیب وتمدن کو ناقابل تلافی نقصان پہنچاتے ہوئے اسے صدیوں پیچھے لوٹا دیاہے ۔
چیچن عوام کی جلاوطنی متواتر صبر آزما تجربات ،کٹھن آزمائشوں ظلم وزبردستی ، بربریت ، ضرر رسانی وعقوبت نے تاریخ انسانی پر وہ گہرے گھاؤ چھوڑے ہیں جنہیں مندمل ہونے میں صدیان بیت جائیں گی ۔ ان زخموں کی چبھن اور کسک کو چیچن عوام آج بھی اپنے دلوں میں محسوس کرتے ہیں۔
عالمی یوم چیچنیا

ماخذ:
www.worldchechnyaday.org
 
مدیر کی آخری تدوین:
شیرازہ ہوا ملت مرحوم کا ابتر
اب تو ہی بتا، تیرا مسلمان کدھر جائے!

اس راز کو اب فاش کر اے روح محمد (ﷺ)
آیات الہی کا نگہبان کدھر جائے!
 
صرف ایک ملک ایسا ہے جس نے کبھی خود سپردگی نہیں کی اور نہ ہی ذہنی و نفسیاتی طور پر خود سپردگی کی عادات یا آداب اپنائے ۔
یہاں انفرادی خودداری و اولوالعزمی ہی دیکھنے کو نہیں ملتی بلکہ سارے کا سارا ملک ہی اس روش پر گامزن رہا ہے ۔۔۔ اور یہ چیچنیا میں خصوصیت کے ساتھ یہاں کہوں گا کہ مخصوص سکونت پذیر عوام میں صر ف چیچن ہی ایسی قوم ہے جس کا جذبہ استحکام کبھی متزلزل نہیں ہو پایا ۔
دھوکہ دہی کے ذریعے انہیں اپنے وطن سے محروم کردیا گیا ، ان کا گھر بار ان سے چھن گیا ، لیکن ان کے ماتھے پر کبھی شکن تک نہیں آئی ۔ انھوں نے کبھی کسی کی جی حضوری نہیں کی نہ ہی اپنے آقاؤں کی خوشنودی حاصل کرنے کیلئے کبھی کسی چاپلوسی کا سہارا لیا ۔ ان کا رویہ ہمیشہ ہی سخت اور معاندانہ ہی رہا ۔۔۔ ان کی غیر معمولی خوبی یہ تھی کہ ان سے ہر کوئی خائف اور متاثر تھا ۔ انھیں اپنے ہی انداز سے زندگی گزارنے سے کوئی نہیں روک پایا ۔ ایک ایسی طاقتور سلطنت جس نے تیس برسوں تک حکمرانی کی اپنے قوانین ، نظریات اور سوچ کو ان پر تھوپ نہیں پائی"۔
چیچن نہایت جرات، غیرتمند اور حوصلے والی قوم ہے۔
 
Top