اوپر دی گئی وڈیوز دیکھنے کی سکت نہیں۔۔۔ ۔۔۔
بہت شکریہ نالج فل شیئرنگ کے لیئے۔۔۔چار سال پہلے سقوط ڈھاکہ پر ایک تحریر لکھی تھی۔ شاید آپ لوگ پڑھنا پسند کریں۔
ہر سال 16 دسمبر کو سقوطِ ڈھاکہ کے موقع پر ہمارے اپنے ہی پاکستانی بہن بھائی نا سمجھی میں اپنی ہی فوج کو لعن طعن اور تشنیع کرنے لگ جاتے ہیں۔ یہ ضرور ایک تلخ حقیقت ہے کہ پاکستان کا مشرقی بازو الگ ہو گیا مگر یہ بھی سچ ہے کہ یہ شکست ہم کو سیاست کی میز پر ہوئی تھی۔ اگر سیاسی قیادت اس وقت اپنے مفادات کا نہ سوچتی تو شاید آج حالات کچھ اور ہوتے۔پاکستانی بری، بحری اور فضائی افواج ہمارا سرمایہِ افتخار ہیں اور ہم کو ان پر فخر ہے۔ خدارا بنا جانے اور تحقیق کیے اپنے شہداء کو گالی مت دیجیے، انھیں غدار مت کہیے
آج اس موقع پر مجھے سید ضمیر جعفری کے اشعار بہت شدت سے یاد آرہے ، جو کہ کچھ یوں ہیںنیازی نے ''اروڑا'' کو با چشمِ ترکیا پیش جب اپنا ریوالورتو اک پل میں صدیوں کا خوں ہو گیاسرِ پاک پرچم نگوں ہو گیا علَم، اپنا سر جس کی چھاؤں میں تھاوہ کانٹوں پہ ، مٹی پہ، پاؤں میں تھایہ جانباز لشکر نہ کھاتا شکستمگر تھا قیادت کا کردار پستعزائم تو بیدار سینوں میں تھےمگر سانپ آستینوں میں تھے
یہی تو ہمارے زہنوں میں بھرا جاتا۔۔۔یہ کیسے بھول سکتے کے بنگلہ دیش کے قائد مجیب الرحمن اور ہندو اکثریت ،پھر ہندوستان کی مداخلت۔۔بھٹو کا رول یہ سب سیاست ہی تو تھی جس میں فوج کے کچھ آستین کے سانپوں نے جلتی کا کام کیا لیکن اسکا مقصد یہ نہیں کہ سارا مدعا ہم فوج پہ ڈالیں۔۔نسلی تعصب کو ابھارنے والے کو کیوں بھول جاتے، پھر ہم کہاں آنکھوں سے دیکھا کہ پاک فوج نے ریپ کئیے؟ ہم تو روایات سنتے آئے ہیں تاریخوں کی۔۔ پھر اس وقت کی اندرا گاندھی کے الفاظ کیسے بھول سکتے جب اس نے کہا تھا کہ ہم نے آج مسلمانوں سے اپنی ہزار سالہ غلامی کا بدلہ لے لیا ہے اکھنڈ بھارت کے زعم میں مبتلا ہندو بنیاء کیلئے تو پاکستان کا قیام ایک بہت بڑا صدمہ تھا۔ کیا اس میں بھی فوج تھی ؟کونسی سیاسی قیادت؟ اس وقت فوج حکمران تھی۔ یحیی سے پہلے 11 سال بھی ایوب حکمران تھا۔ سو قصور جرنیلوں کا ہوا!
اور بنگلہ دیش میں قتل و غارت اور ریپ وغیرہ سیاسی قیادت نے نہیں بلکہ فوج نے کیا تھا۔