11 مئی 2014 ؛ ڈاکٹر طاہرالقادری کا خطاب

میں ایسے شخص کو قائد تسلیم نہیں کر سکتا نا ہی پاکستان کا حکمران نا اپنی قوم کا رہبر جس کے پاس کسی اور ملک کی شہریت بھی ہو اور جس نے ایسی ملکہ سے وفاداری کا حلف اٹھایا ہو جس نے سلمان رشدی جیسے بدبخت کو سر کا خطاب دے کر عزت دی ہو۔
 

الف نظامی

لائبریرین
میں ایسے شخص کو قائد تسلیم نہیں کر سکتا نا ہی پاکستان کا حکمران نا اپنی قوم کا رہبر جس کے پاس کسی اور ملک کی شہریت بھی ہو
پاکستان کا سولہ ملکوں سے دہری شہریت کا معاہدہ ہے۔ ریکارڈ درست رکھیں۔
رہی بات قائد تسلیم نہ کرنے کی تو بخوشی نہ تسلیم کریں۔
جہاں تک رشدی کو سر کا خطاب دینے کی بات ہے تو وہ ملکہ برطانیہ کا فعل ہے؛
ڈاکٹر طاہر القادری کا عمل تو یہ ہے کہ جس کی آپ کے ممدوح سیاست دانوں کے عمل میں کہیں مثال نہیں ملتی۔
 

arifkarim

معطل
میں ایسے شخص کو قائد تسلیم نہیں کر سکتا نا ہی پاکستان کا حکمران نا اپنی قوم کا رہبر جس کے پاس کسی اور ملک کی شہریت بھی ہو اور جس نے ایسی ملکہ سے وفاداری کا حلف اٹھایا ہو جس نے سلمان رشدی جیسے بدبخت کو سر کا خطاب دے کر عزت دی ہو۔
ہاہاہا۔ تو صرف ایک پاکستانی شہریت رکھنے والے ہمارے نام نہاد سیاسی "لیڈران" نے کونسے بڑے تیر چلا لئے یہاں۔ :D
 

arifkarim

معطل
درست ہے۔ طاہر القادری نے موجودہ نظام میں الیکشن لڑنے کا ارادہ بھی نہیں کیا۔ ان کے نزدیک موجود نظام میں 100 الیکشن بھی تبدیلی نہیں لا سکتے۔
مجھے نہیں معلوم یہ قادری صاحب کس قسم کی انقلابی تبدیلی پاکستان میں چاہ رہے ہیں۔ اگر صرف الیکشن کے منصفانہ نظام کا سوال ہے تو یہاں تک متفق ہوں۔ اگر پاکستان کو ایرانی اسلامی انقلاب کے مطابق ڈھالنا مقصود ہے تو پھر بہتر ہے وہ پاکستانی شہریت بھی ختم کر دیں۔ :D
 

الف نظامی

لائبریرین
مجھے نہیں معلوم یہ قادری صاحب کس قسم کی انقلابی تبدیلی پاکستان میں چاہ رہے ہیں۔ اگر صرف الیکشن کے منصفانہ نظام کا سوال ہے تو یہاں تک متفق ہوں۔ اگر پاکستان کو ایرانی اسلامی انقلاب کے مطابق ڈھالنا مقصود ہے تو پھر بہتر ہے وہ پاکستانی شہریت بھی ختم کر دیں۔ :D
تاریخ کے جھروکے سے چند اوراق
آپ کو یاد ہے الیکشن سے پہلے طاہرالقادری سپریم کورٹ کیوں گئے تھے؟
نظام کو مسترد کرنے سے تبدیلی آئے گی ؛ طاہر القادری 1997ء کی تقریر
انتخابی اصلاحات ؛ بیداری شعور ؛ لانگ مارچ
عام انتخابات 2013ءکی دھاندلی
فری اینڈ فئیر الیکشن نیٹ ورک کی تحقیقات (دھاندلی کی انتہا)
اسلام آباد ڈیکلریشن کا متن
فافن نے شفاف انتخابات کے لیے 11 سفارشات پیش کردیں
ایک پڑھے لکھے آدمی کے پاس کیا ہے؟
انتخابات میں آرٹیکل 62 پر عملدر آمد کے لیے لاہور ہائیکورٹ میں درخواست دائر
سپریم کورٹ نے الیکشن کمیشن سے انتخابی اصلاحات پر عملدرآمدی رپورٹ طلب کر لی
الیکشن کا التواء نہیں ، انتخابی اصلاحات چاہتے ہیں!
سینٹر فار دی انوسٹی گیٹو رپورٹنگ ان پاکستان کی حالیہ رپورٹ
پانی پہلے پیو پھر فلٹر کرو یا" پانی پہلے فلٹر کرو ، پھر پیو"
پاکستان میں حقیقی تبدیلی — کیوں اور کیسے؟
بَسْطَۃً فِی الْعِلْمِ وَ الْجِسْمِ ؛ قیادت اور علم
انتخابات کے لیے ووٹر اور امیدوار کی شرائطِ اہلیت کا مسئلہ
بیداری شعور : ضرورت اور اہمیت
 
پاکستان کا سولہ ملکوں سے دہری شہریت کا معاہدہ ہے۔ ریکارڈ درست رکھیں۔
رہی بات قائد تسلیم نہ کرنے کی تو بخوشی نہ تسلیم کریں۔
جہاں تک رشدی کو سر کا خطاب دینے کی بات ہے تو وہ ملکہ برطانیہ کا فعل ہے؛
ڈاکٹر طاہر القادری کا عمل تو یہ ہے کہ جس کی آپ کے ممدوح سیاست دانوں کے عمل میں کہیں مثال نہیں ملتی۔
لیکن پاکستان کا آئین دوہری شہریت والے کو حکمران بننے کی اجازت نہیں دیتا۔
رشدی کو سر کا خطاب دینے کا مکرہ فعل کرنے والی سے وفاداری کا حلف اٹھانا بھی مکرہ فعل ہے۔ ایسا کرنے والا قائد یا رہبر کہلانے کا حقدار نہیں۔
میں تو ایسی ملکہ پر تین حرف بھیجنا بہتر سمجھتا ہوں وفاداری کا حلف اٹھانا تو دور کی بات ہے۔ حالانکہ میں تو ایک عام آدمی ہوں۔ شیخ الاسلام ہونے کا دعوی کرنا تو بہت بڑی بات ہے۔
میں کسی بھی سیاستدان سے اندھی عقیدت نہیں رکھتا۔ نا کسی بھی سیاستدان کے ہر فعل کو جائز اور اچھا سمجھتا ہوں۔
 

الف نظامی

لائبریرین
مجھے قادری صاحب کے اصل عزائم کے بارہ میں تحفظات ہیں۔ انکا پاکستانی اقلیتوں کے بارہ میں ماضی کا ریکارڈ کچھ خاص خوش آئین نہیں ہے۔ اسکا ایک اثبوت خود ڈینش ٹی وی نے مہیا کیا ہے:
Blasphemy Law کے حوالے سے آپ نے کہا کہ میں نے اس Blasphemy Law کو عدالت میں Establish کیا تھا مگر وہ اس کا Substantive حصہ تھا۔ قانون کے دو طریقے ہوتے ہیں: ایک محض انبیاء کی گستاخی کی سزا کیا ہے؟ بس سزا کے Quantum پر میں نے دلائل دے کر Establish کیا تھا۔ جو قانون کا Procedural طریقہ ہے کہ یہ قانون نافذ کیسے ہو گا، اس سے مجھے اختلاف رہا ہے، اول دن سے آج تک۔ باہر کے ممالک میں میں نے جب بھی بات کی ہے تو صراحتا کہا ہے کہ میں اس کی سزائے موت کے حق میں ہوں۔ چونکہ یہ سزائے موت Blasphemy پر بائبل نے دی ہے، یہودیوں کے ہاں بھی تھی اور Gospel (انجیل) میں بھی ہے اور قرآن میں بھی ہے ۔ میں نے وہاں چیلنج کر کے کہا ہے کہ جو سزا اللہ نے تورات میں بھی رکھی، انجیل میں بھی رکھی، قرآن میں بھی رکھی، میں اس کی مخالفت کیسے کر سکتا ہوں؟

اس حوالے سے میں اس قانون میں ٹھوس اصلاحات (Procedural Reforms) کا قائل ہوں کہ اس کی اصلاحات اس انداز کے ساتھ ہونی چاہئیں کہ Black Mailing نہ ہو، کسی کو Target نہ کرے اور کمزوروں کے خلاف اسے ناجائز Tools کے طور پر استعمال نہ کیا جائے۔ اس کی FIR درج ہونے کا طریقہ، اس کی شہادتوں کا طریقہ، اس کا پورا ٹرائل، اس کی سزا اور دیگر بہت سے Parameters ہیں جو اصلاحات مانگتے ہیں تاکہ ہر قسم کے غلط استعمال کا امکان ختم ہو جائے۔
 
میں ڈاکٹر صاحب کو رشدی کا ہمنوا نا کہ رہا ہوں نا سمجھتا ہوں۔ لیکن رشدی کو عزت دینے والی کی وفاداری کا حلف اٹھانے والا قائد یا رہنمائی کا منصب اختیار نہیں کر سکتا۔ یہ ایک مذہبی قائد کو زیب نہیں دیتا۔
 

الف نظامی

لائبریرین
لائیں اپنے نواز شریف کے عمل سے کوئی ایسی مثال؟
۔
لئیق احمد
 
لائیں اپنے نواز شریف کے عمل سے کوئی ایسی مثال؟
۔
لئیق احمد
میں نواز شریف کا ترجمان نہیں۔
 

arifkarim

معطل
اس سے مجھے اختلاف رہا ہے، اول دن سے آج تک۔ باہر کے ممالک میں میں نے جب بھی بات کی ہے تو صراحتا کہا ہے کہ میں اس کی سزائے موت کے حق میں ہوں۔ چونکہ یہ سزائے موت Blasphemy پر بائبل نے دی ہے، یہودیوں کے ہاں بھی تھی اور Gospel (انجیل) میں بھی ہے اور قرآن میں بھی ہے ۔ میں نے وہاں چیلنج کر کے کہا ہے کہ جو سزا اللہ نے تورات میں بھی رکھی، انجیل میں بھی رکھی، قرآن میں بھی رکھی، میں اس کی مخالفت کیسے کر سکتا ہوں؟ [/URL]

اس حوالے سے میں اس قانون میں ٹھوس اصلاحات (Procedural Reforms) کا قائل ہوں کہ اس کی اصلاحات اس انداز کے ساتھ ہونی چاہئیں کہ Black Mailing نہ ہو، کسی کو Target نہ کرے اور کمزوروں کے خلاف اسے ناجائز Tools کے طور پر استعمال نہ کیا جائے۔ اس کی FIR درج ہونے کا طریقہ، اس کی شہادتوں کا طریقہ، اس کا پورا ٹرائل، اس کی سزا اور دیگر بہت سے Parameters ہیں جو اصلاحات مانگتے ہیں تاکہ ہر قسم کے غلط استعمال کا امکان ختم ہو جائے۔

یعنی آپ بھی اس ہزار وں سال پرانے الہامی حکم کو آج کے جدید دور میں نافظ کرنے کے قائل ہیں؟ مغرب کو تو اس قانون کے نفاذ پر اعتراض ہے نہ کہ کس منصفانہ انداز میں اسکو نافذ کیا جائے۔ یہ اسلئے کہ مغربی سیکولر قوانین کی بنیاد کسی خاص مذہب پر نہیں ہے۔ گو کہ وہاں پرانے وقتوں میں عیسائی چر چ کی مداخلت پر توحین مذہب جیسے قوانین نافذ کئے گئے تھے لیکن انکا عملی اطلاق صدیوں میں نہیں کیا گیا۔ جیسے برطانیہ میں اس قانون کی وجہ سے آخری پھانسی سنہ 1697 میں دی گئی:
http://en.wikipedia.org/wiki/Thomas_Aikenhead

اور دیگر مغربی ممالک میں بھی اگر کچھ سال قبل تک توہین مذہب پر سزائیں دی گئیں تو وہ سزائے موت نہیں تھی۔ سزائے موت صرف چنیدہ اسلامی ممالک میں دی جاتی ہے جیسے مصر، کویت، پاکستان، سعودی عرب اوریمن۔ یعنی وہ ممالک جہاں وہابی سلفی اسلام کا راج ہے۔ اور بہت سے دیگر اسلامی ممالک میں اتنی سخت سزا نہیں ہے۔
http://en.wikipedia.org/wiki/Blasphemy_law
 

الف نظامی

لائبریرین
اپنی قسم کے اکلوتے مزاح نگار کرنل شفیق الرحمٰن جنرل کے عہدے تک جا پہنچے لیکن ہم جیسوں کے دلوں دماغوں میں بطور کرنل ہی پھنسے ہوئے ہیں کہ ہماری ’’وفاداری‘‘ انہیں کسی بھی قیمت پر پرموٹ کرنے کیلئے آمادہ نہیں۔ کرنل شفیق الرحمٰن کا ہی ایک بچہ کردار سائیکلوں کی دکان پر جا کر مستری سے کہتا ہے کہ ’’میرے سائیکل کی ٹیوب پر پنکچر لگا دیجئے۔‘‘ مستری ٹائر میں سے ٹیوب نکال کر دیکھتا ہے کہ پوری ٹیوب پنکچروں سے بھری پڑی ہے تو مسکرا کر اپنے نوعمر گاہک سے کہتا ہے ’’ننھے میاں پنکچر کی تو کہیں کوئی گنجائش ہی نہیں، آپ کہیں تو اس ٹیوب پر اک پوری نئی ٹیوب چڑھا دوں‘‘۔
سچ پوچھیں تو اپنے پیارے اسلامی جمہوریہ کا حال بھی ننھے میاں کی اس ٹیوب جیسا ہی ہے جس پر مزید پنکچروں کی قطعاً کوئی گنجائش نہیں، البتہ ٹیوب پر نئی ٹیوب ضرور چڑھائی جا سکتی ہے مثلاً
پرانے الیکشن کمیشن پر نیا الیکشن کمیشن چڑھایا جائے
پرانے نگرانوں پر نئے نگران چڑھائے جائیں
پرانے سیاستدانوں پر نئے سیاستدان چڑھائے جائیں
پرانے صوبوں پر نئے صوبے چڑھائے جائیں
پرانی انتظامیہ پر نئی انتظامیہ چڑھائی جائے
پرانے نظام پر نیا نظام چڑھایا جائے
پرانے پاکستان پر نیا پاکستان چڑھایا جائے، آئین پر نیا آئین چڑھایا جائے
مجھے یہ ساری باتیں گیارہ مئی کو عمران خان اور طاہر القاداری کی باتیں سن کر یاد آئیں۔ حقیقت یہ ہے کہ طاہرالقادری کی باتیں سن کر زیادہ باتیں یاد آئیں کیونکہ طاہرالقادری کی تقریر کے پیچھے زبردست ہوم ورک تھا۔ وہ ایک چلتی پھرتی آوارہ قسم کی عوامی تقریر نہیں، انتہائی سوچا سمجھا نپا تلا مدلل ’’پیکیج‘‘ تھا جسے آئین کی ہلکی آنچ پر چڑھا کر تیار کیا گیا تھا۔ میں نے ڈاکٹر طاہرالقادری کے بہت سے لیکچر، تقریریں، خطبے وغیرہ سنے اور ان کی بیشمار تحریریں پڑھیں لیکن گیارہ مئی کی اس تقریر کے دوران وہ پہلی بار ایک سٹیسمین، ایک مدبر کے طور پر ابھر کر سامنے آئے۔ یہ تقریر ملکی مسائل و تضادات کی نشاندہی اور پھر ان کے منطقی حل کا شہکار تھی اور میں ڈاکٹر صاحب کی اس بات سے بھی سو فیصد متفق ہوں کہ نظام کے اندر رہتے ہوئے اس لعنتی اور ابلیسی نظام سے عوام کی جان چھڑانا عملاً ناممکن ہے۔ سچ یہ کہ مدتوں یہی بات میرے کالموں کا مرکزی خیال رہی۔ مجھے یقین ہے کہ جن لوگوں کو یہ تقریر پوری طرح سمجھ آئی ہوگی وہ گیارہ اور بارہ مئی کی درمیانی رات سکھ سکون سے سو نہیں سکے ہوں گے لیکن سوال یہ ہے کہ کیا عوام میں اتنا دم خم موجود ہے کہ وہ اتنا بڑا چیلنج قبول کرسکیں؟ صوبوں کی تعداد سے لیکر سیاسی آمریت سے نجات و بلدیاتی نظام تک یہ بھی زہریلی ترین حقیقتیں ہیں کہ ملکی سیاسی اشرافیہ کی بھاری اکثریت قرضہ خوروں اور ٹیکس چوروں پر مشتمل ہے اور انہی عطاروں کے لونڈوں سے لی جانے والی دوائوں سے علاج ممکن ہی نہیں۔
اس تقریر سے پہلے میرا خیال تھا کہ صرف افواج اور عدلیہ مل کر اس ملک کو پٹڑی پر چڑھا سکتے ہیں۔ یہ تقریر شاید بہتر نسخہ تجویز کررہی ہے لیکن نو من تیل کیسے پورا ہوگا کہ رادھا رقص کا آغاز کرسکے، بلی نہیں ان خون خوار جنگلی بلوں کے گلے میں گھنٹی کون باندھے گا؟ کیا عمران خان، ڈاکٹر طاہرالقادری اور معصوم سراج الحق مل کر بھی یہ کام کرسکیں گے؟ کیا مل بھی سکیں گے؟
یہاں ضمناً عرض کرتا چلوں کہ پچھلے دنوں دو تین بار ڈاکٹر صاحب کی طرف سے ٹیلی فونک رابطے کی کوشش ہوئی لیکن اتفاق ایسا کہ میں ہر بار ڈرائیونگ میں مبتلا تھا سو بات نہ ہوسکی جس کا مجھے ملال ہے لیکن میں اپنے کالم کے ذریعہ ڈاکٹر صاحب کو اس تاریخی تقریر پرمبارک باد پیش کرتا ہوں۔
بارہ مئی کو اپنے کالم میں برادر محترم بابر اعوان نے اپنے کالم کے دوران شاعر کا حوالہ دیئے بغیر ایک بہت ہی خوبصورت مصرعہ کا حوالہ دیا ہے۔
’’جو زباں بولے گی پتھر کی بنا دی جائے گی‘‘
یہ میری اس غزل کے مطلع کا مصرعہ ہے جو میں نے جنرل ضیا کے دور میں لکھی اور میرے شعری مجموعہ ’’پچھلے پہر کا چاند‘‘ میں شامل ہے۔ اس غزل کے چند شعر ڈاکٹر صاحب کی نذر
ہر محلے میں صف ماتم بچھا دی جائے گی
جو زباں بولے گی پتھر کی بنا دی جائے گی

اتنی دوری سے خداوں کو نظر کیا آئے گا
یہ زمیں اب آسمانوں تک اٹھا دی جائے گی

کاٹ دی جائیں گی شاخیں ہر تناور پیڑ کی
فصل تازہ اچھے بیجوں کی جلا دی جائے گی

بن دوا مر کے شفا پائیں گے صدیوں کے مریض
تندرستوں کو زبردستی دو ا دی جائے گی

خون پی لے گی مرا اک دن بلوغت کی بلا
مجھ کو میری ہوش مندی کی سزا دی جائے گی

میرا دکھ دیکھئے کہ یہ غزل باسی ہونے کے باوجود تازہ ہے۔
 
Top