ہاؤؤؤؤؤؤؤ ۔۔۔۔ از ۔۔۔۔ عبد اللہ محمد

محمداحمد

لائبریرین
سرپٹ دوڑتے ہوئے اُس نے ایک دفعہ پھر سے مُڑ کر دیکھا جیسے پوچھ رہا ہو میرا قصور کیا ہے؟ اس کی ملتجیانہ نظریں بار بار سوال کر رہی تھیں، ایک دفعہ میرا قصور تو بتا دو؟ اس کا سانس پھولتا جا رہا تھا، ٹانگیں پسینے سے شرابور اور بھاری ہوتی جارہی تھیں قریب تھا وہ گر جاتا لیکن اپنی جانب بڑھتے ہوئے ہجوم کو دیکھ کر ایک دفعہ پھر سے ہمت جمع کر کے دوڑنا شروع کردیا۔

ہر چوک کے بعد بھیڑ میں اضافہ ہوتا چلا جا رہا تھا۔ بھیڑ میں شامل ہر ایک اپنا راگ الاپ رہا اور ہر ایک کا سُر دوسرے سے الگ تھا۔ سارے شور و غوغا میں کچھ بھی سمجھنا سمجھانا ممکن نہ تھا۔ اب کوئی مدعا نہ تھا بس ایک ہی جنوں تھا کہ پہلے شکار کون کرتا ہے۔ اس اعزاز کے لئے ہر کوئی سر توڑ کوششوں میں مصروف تھا۔

بھاگتے بھاگتے وہ گاؤں کے آخری کونے پر پہنچ گیا۔ چھپڑ اور اس کے بعد کھیت اسے زندگی کی لائف بوٹ محسوس ہوئے۔ زندہ بچ جانے کی موہوم سی اُمید نے اس کے بدن کا ساتھ چھوڑتی ٹانگوں میں پھر سے توانائی بھر دی۔ اُس نے ایک بار پھر کرمُڑ دیکھا جیسے اُس شخص کو ڈھونڈ رہا ہو جس نے یہ معاملہ شروع کیا تھا۔ کیونکہ اب ہر ایک کی آنکھیں ایک ہی بات کہہ رہی تھی وہ یہ کہ انہیں نہیں معلوم وجہ کیا ہے۔

ہجوم اور اس کا درمیانی فاصلہ کم ہو تا جارہا تھا۔ اتنے میں ایک آواز آئی آخر اس نے کِیا کیا ہے؟ سب نے ایک دوسرے کی طرف دیکھا ۔ آنکھوں ہی آنکھوں میں پوچھا گیا ، ہوا کیا ہے؟ ساری زبانیں گنگ تھیں۔ کسی کو جواب معلوم نہیں تھا کہ اچانک ایک اور آواز گونجی 'دیکھو! دوڑنے نہ پائے، جلدی کرو ، اگر کھیتوں میں داخل ہو گیا تو ملنا مشکل ہے'۔ یہ سنتے ہی سب دوبارہ اس کی طرف لپکے۔ اسی دوران وہ چھپٹر کے فاصلے کو پاٹ چُکا تھا۔ کھیت اور اس کے درمیان چند قدموں کا ہی فاصلہ رہ گیاتھا۔ منزل کو عین سامنے پا کر اُس نے ایک بار پھر ہجوم کی طرف نظر دوڑائی۔ یہ گویافاتحانہ نظر تھی۔ کسی ماہر گھڑ سوار کی سی نظر جو وہ عین رسی کو توڑتے سمے ساتھی گھڑ سواروں پر ڈالتا ہے۔ اُس نے گردن واپس مُوڑی ہی تھی کہ یوں محسوس ہوا جیسے اس کے پیٹ میں گرم سُلاخ اتار دی گئی ہو۔ گولی کی آواز سن کر قریبی درختوں پر بیٹھے کوے کائیں کائیں کرتے اُڑنے لگے۔ وہ یکدم لڑکھڑا گیا لیکن پھر سنبھل کر دوڑنے کی کوشش کرنے لگا اتنے میں ایک اور سلاخ اس کے بدن میں سوراخ کرتے گزر گئی۔ اب کی بار وہ گرا تو پھر نہ اٹھ سکا۔

ہجوم رُک گیا۔ سب نے ستائشی نظروں سے گولی باز کی جانب دیکھا۔ ایک طرف سےپھر وہی آواز آئی لیکن اس نے کیا، کیا تھا۔ اب کی بار مجمع کو توڑتا ایک شخص سامنے آیا اور کہنے لگا، جب مسجد سے اذان شروع ہوتی تھی تو عین اُسی لمحے یہ بھونکنا شروع کر دیتا تھا ، بے ادبی کرتا تھا اور عجیب عجیب آوازیں نکالنے لگتے تھا جیسے ۔۔۔ وہ ابھی بتانے ہی لگا تھا کہ کتے نے آواز نکالی ہاؤؤؤؤؤؤؤ!!! جیسے اُسکی بات سُن لی ہو اور جواب دیا ہو۔ لیکن اس کی آواز پوری طرح نہ نکل سکی اور اس کے گلے میں ہی دب گئی ۔ شائد یہی اس کا سوال اور یہی جواب تھا ۔ "ہاؤ"

ربط
 

ابو ہاشم

محفلین
مجمع کو توڑتا ایک شخص سامنے آیا اور کہنے لگا، جب مسجد سے اذان شروع ہوتی تھی تو عین اُسی لمحے یہ بھونکنا شروع کر دیتا تھا ، بے ادبی کرتا تھا اور عجیب عجیب آوازیں نکالنے لگتے تھا جیسے ۔۔۔ وہ ابھی بتانے ہی لگا تھا کہ کتے نے آواز نکالی ہاؤؤؤؤؤؤؤ!!! جیسے اُسکی بات سُن لی ہو اور جواب دیا ہو۔ لیکن اس کی آواز پوری طرح نہ نکل سکی اور اس کے گلے میں ہی دب گئی ۔ شائد یہی اس کا سوال اور یہی جواب تھا ۔ "ہاؤ"
اختتام سمجھ نہیں آیا
 

ظہیراحمدظہیر

لائبریرین
بہت ہی پر اثر تحریر ! اچھا انتخاب ہے احمد بھائی !
نجانے کیوں یہ افسانچہ پڑھ کر Of Mice and Men کا اختتام یاد آگیا حالانکہ ایسی کوئی گہری مماثلت نہیں ۔ لیکن وہی اداس سا تاثر ہے دونوں کا ۔
 

محمداحمد

لائبریرین
اختتام سمجھ نہیں آیا

عموماً افسانوں میں انجام ایسا ہی رکھا جاتا ہے کہ قاری پڑھ کر بھونچکا رہ جائے۔

اس افسانے میں ہجوم کی نفسیات بیان کی گئی ہے کہ ہجوم اگر کسی بات پر مشتعل ہو جائے تو پھر اُسے کسی دلیل، کسی منطق کی ضرورت نہیں رہتی۔ اکثر لوگوں کو تو اصل بات کا علم تک نہیں ہوتا لیکن وہ پھر بھی سنگ زنی میں آگے آگے ہوتے ہیں۔

اس قصے میں بات بہت معمولی سی تھی۔ لیکن اس کو اتنا زیادہ طول دیا گیا کہ معصوم جانور کو جان کے لالے پڑ گئے۔ آخری پیرا ہجوم کی نفسیات کے بارے میں ہی ہے۔ کتے کی بے بسی یہ تھی کہ وہ غریب اپنے حق میں کچھ صفائی بھی پیش نہیں کر سکتا تھا ۔ اُس کی آخری ہاؤ ؤؤؤ ایک سوال تھی کہ میں تو جانور ہوں، تم لوگوں کو کیا ہو گیا ہے۔ اور یہی اُس کے لئے جوا ب تھا کہ تمہارا واسطہ ایسے لوگوں سے ہے کہ جن کے پاس تمہارے سوال کا جواب سوائے موت کے کچھ نہیں ہے۔
 
ہجوم کی نفسیات کے حوالے سے ایک خوبصورت افسانہ!

غالباً یہ اپنے بھلکڑ بھیا کی تحریر ہے۔


انتہائی خوبصورت،عمدہ گرفت، کمال کلائمکس، لاجواب!

اگر تو وارث بھائی نے دل سے الفاظ لکھے ہیں تو ادارہ اس تحریر کی ذمہ داری اٹھانے کو تیار ہے- وغیرہ وغیرہ
 
اگر تو وارث بھائی نے دل سے الفاظ لکھے ہیں تو ادارہ اس تحریر کی ذمہ داری اٹھانے کو تیار ہے- وغیرہ وغیرہ
وارث بھائی کے دل سے لکھنے کی گواہی میں دیتا ہوں کہ ان کو آج تک کسی تخلیق کی جھوٹی تعریف کرتے نہیں دیکھا۔ بلکہ کمنٹ اور اس نوعیت کا کمنٹ بھی تب ہی کرتے ہیں، جب کوئی تخلیق بہت پسند آتی ہے۔ :)
 
تو پھر بندہ ببانگ دہل کہتا ہے کہ یہ تحریر میری ہے-
وغیرہ وغیرہ

وارث بھائی کے دل سے لکھنے کی گواہی میں دیتا ہوں کہ ان کو آج تک کسی تخلیق کی جھوٹی تعریف کرتے نہیں دیکھا۔ بلکہ کمنٹ اور اس نوعیت کا کمنٹ بھی تب ہی کرتے ہیں، جب کوئی تخلیق بہت پسند آتی ہے۔ :)
 

محمد وارث

لائبریرین
وارث بھائی کے دل سے لکھنے کی گواہی میں دیتا ہوں کہ ان کو آج تک کسی تخلیق کی جھوٹی تعریف کرتے نہیں دیکھا۔ بلکہ کمنٹ اور اس نوعیت کا کمنٹ بھی تب ہی کرتے ہیں، جب کوئی تخلیق بہت پسند آتی ہے۔ :)
میری دوڑ صرف "لاجواب" تک ہوتی ہے، لیکن اس افسانچے نے مسحور کر کے رکھ دیا۔ :)
 
Top