”میر ی ذات ذرہ بے نشاں“

مغزل

محفلین
پر یہ تو کافی پرانی تحریر ہے لالہ آپ نے سب کو ٹیگ کر دیا کہیں پھر اسلام کی باتیں ہونا نا شروع ہو جائیں اور مجھے تو زیادہ پتا بھی نہیں اسلام کا پھر ڈانٹ پر جائے گی :rolleyes::rolleyes::rolleyes:

نہیں گڑیا ایسا نہیں ہوگا انشا اللہ ، فکر ناٹ۔۔ اصل میں ہمارے معاشرے میں ہر مزاج کے لوگ بستے ہیں۔۔ سو ایسا ہوجاتا ہے۔۔ حوصلہ مت ہارنا، شاباش۔۔ میں نے آپ کی اپیّا سے کہہ بھی دیا ہے وہ ضرور آئے گی ۔۔ ہمارا مقصد آپ کی ستائش ہے گڑیا، عام رویے میں ہمارے دوست اس بات کو نظر انداز کر کے اختلاف پر زیادہ زور دے جاتے ہیں وہ یہ نہیں سوچتے کہ لکھنے والا نو آموز ہے اور اسی طرح سیکھے گا، بہر حال میں ہوں ناں اپنی گڑیا کے ساتھ ۔۔ سو فکر ناٹ اب تو آپ کی اپیّا بھی ہیں ۔۔
 

ناعمہ عزیز

لائبریرین
نہیں گڑیا ایسا نہیں ہوگا انشا اللہ ، فکر ناٹ۔۔ اصل میں ہمارے معاشرے میں ہر مزاج کے لوگ بستے ہیں۔۔ سو ایسا ہوجاتا ہے۔۔ حوصلہ مت ہارنا، شاباش۔۔ میں نے آپ کی اپیّا سے کہہ بھی دیا ہے وہ ضرور آئے گی ۔۔ ہمارا مقصد آپ کی ستائش ہے گڑیا، عام رویے میں ہمارے دوست اس بات کو نظر انداز کر کے اختلاف پر زیادہ زور دے جاتے ہیں وہ یہ نہیں سوچتے کہ لکھنے والا نو آموز ہے اور اسی طرح سیکھے گا، بہر حال میں ہوں ناں اپنی گڑیا کے ساتھ ۔۔ سو فکر ناٹ اب تو آپ کی اپیّا بھی ہیں ۔۔
ہاؤ سویٹ آف یو لالہ :)
 

مقدس

لائبریرین
ناعمہ مجھے آپ کا لکھا ہوا پڑھنا مجھے بہت اچھا لگتا ہے۔۔ کیونکہ وہ مجھے سمجھ آجاتا ہے کہ آپ کیا کہنا چاہ رہی ہو
 

مغزل

محفلین
چلیں میں مانے لیتی ہوں لالہ آپ کی بات کہ ایسا ہی ہوگا :)
پراب میں یہی کوشش کیا کرتی ہوں کہ تحریر زیادہ جذباتی نا ہو :)
گڑیا ( ناعمہ عزیز ) ۔۔ چلو میں اپنا تجربہ اور مطالعہ بتاؤں ؟

کوئی بھی تحریر یا تخلیق ’’ جذبات ‘‘ کے بغیرنہیں ہوسکتی ۔۔ اگر ہم اردو عربی فارسی ہندی ادب کی بات کرتے ہیں تو ’’ رثا‘‘ (رونا، گریہ کرنا، دکھ پریشانی) کے تخلیقی شہ پارے ہی نظر آتے ہیں۔ یہ ’’جذبات اور جذباتیت ‘‘ ہی ہے۔۔اس سے کم سطح پر آتے ہیں تو پیار محبت ہجر فراق دوری قرب ، معاشرتی ناہمواریاں ۔۔ یہ سب ’’ جذبات اور جذباتیت‘‘ سے ہیں ۔۔ سو دھیان صرف تخلیق و تحریر پر دو۔۔ ہمارے بہت سے دوست کتابی حوالے سے ادب کو جانتے اور سمجھنا چاہتے ہیں ۔ ادب تذکیہ سے ہے ۔۔ سو دیگر باتوں کا زیادہ اثر نہ ہو۔۔ یہ باتیں تخلیق میں رکاوٹ ڈالتی ہیں۔ دنیا کا کوئی انسان ’’ جذبات ‘‘ کے بغیر انسان مکمل ہی نہیں ہوتا۔ یہ اور بات ہے کہ تخلیقی عمل میں ’’جذبات ‘‘ ہی ساتھ ہوتے ہیں ۔۔ مگر تحریر یا تخلیق پر گرفت رکھنے کے لیے ’’شعور‘‘ / ’’تربیت‘‘ اور ’’مطالعہ‘‘ کام آتا ہے اور بہتر سے بہتر لکھنے پر قدرت حاصل ہوتی ہے۔۔ امید ہے آپ اپنے بھیّا کی بات سمجھ گئیں ہوں گی ، کچھ پوچھنا ہو تو بسم اللہ ۔۔ سلامت رہیں ۔۔
 

ایم اے راجا

محفلین
گڑیا ۔۔ چلو میں اپنا تجربہ اور مطالعہ بتاؤں ؟

کوئی بھی تحریر یا تخلیق ’’ جذبات ‘‘ کے بغیرنہیں ہوسکتی ۔۔ اگر ہم اردو عربی فارسی ہندی ادب کی بات کرتے ہیں تو ’’ رثا‘‘ (رونا، گریہ کرنا، دکھ پریشانی) کے تخلیقی شہ پارے ہی نظر آتے ہیں۔ یہ ’’جذبات اور جذباتیت ‘‘ ہی ہے۔۔اس سے کم سطح پر آتے ہیں تو پیار محبت ہجر فراق دوری قرب ، معاشرتی ناہمواریاں ۔۔ یہ سب ’’ جذبات اور جذباتیت‘‘ سے ہیں ۔۔ سو دھیان صرف تخلیق و تحریر پر دو۔۔ ہمارے بہت سے دوست کتابی حوالے سے ادب کو جانتے اور سمجھنا چاہتے ہیں ۔ ادب تذکیہ سے ہے ۔۔ سو دیگر باتوں کا زیادہ اثر نہ ہو۔۔ یہ باتیں تخلیق میں رکاوٹ ڈالتی ہیں۔ دنیا کا کوئی انسان ’’ جذبات ‘‘ کے بغیر انسان مکمل ہی نہیں ہوتا۔ یہ اور بات ہے کہ تخلیقی عمل میں ’’جذبات ‘‘ ہی ساتھ ہوتے ہیں ۔۔ مگر تحریر یا تخلیق پر گرفت رکھنے کے لیے ’’شعور‘‘ / ’’تربیت‘‘ اور ’’مطالعہ‘‘ کام آتا ہے اور بہتر سے بہتر لکھنے پر قدرت حاصل ہوتی ہے۔۔ امید ہے آپ اپنے بھیّا کی بات سمجھ گئیں ہوں گی ، کچھ پوچھنا ہو تو بسم اللہ ۔۔ سلامت رہیں ۔۔
بہت خوب فرمایا حضرت واہ
 

ناعمہ عزیز

لائبریرین
گڑیا ( ناعمہ عزیز ) ۔۔ چلو میں اپنا تجربہ اور مطالعہ بتاؤں ؟

کوئی بھی تحریر یا تخلیق ’’ جذبات ‘‘ کے بغیرنہیں ہوسکتی ۔۔ اگر ہم اردو عربی فارسی ہندی ادب کی بات کرتے ہیں تو ’’ رثا‘‘ (رونا، گریہ کرنا، دکھ پریشانی) کے تخلیقی شہ پارے ہی نظر آتے ہیں۔ یہ ’’جذبات اور جذباتیت ‘‘ ہی ہے۔۔اس سے کم سطح پر آتے ہیں تو پیار محبت ہجر فراق دوری قرب ، معاشرتی ناہمواریاں ۔۔ یہ سب ’’ جذبات اور جذباتیت‘‘ سے ہیں ۔۔ سو دھیان صرف تخلیق و تحریر پر دو۔۔ ہمارے بہت سے دوست کتابی حوالے سے ادب کو جانتے اور سمجھنا چاہتے ہیں ۔ ادب تذکیہ سے ہے ۔۔ سو دیگر باتوں کا زیادہ اثر نہ ہو۔۔ یہ باتیں تخلیق میں رکاوٹ ڈالتی ہیں۔ دنیا کا کوئی انسان ’’ جذبات ‘‘ کے بغیر انسان مکمل ہی نہیں ہوتا۔ یہ اور بات ہے کہ تخلیقی عمل میں ’’جذبات ‘‘ ہی ساتھ ہوتے ہیں ۔۔ مگر تحریر یا تخلیق پر گرفت رکھنے کے لیے ’’شعور‘‘ / ’’تربیت‘‘ اور ’’مطالعہ‘‘ کام آتا ہے اور بہتر سے بہتر لکھنے پر قدرت حاصل ہوتی ہے۔۔ امید ہے آپ اپنے بھیّا کی بات سمجھ گئیں ہوں گی ، کچھ پوچھنا ہو تو بسم اللہ ۔۔ سلامت رہیں ۔۔


آہاں یہ ہوئی نا بات اب سمجھ آگئی ساری بات لالہ :)
میں بھی یہی سمجھتی ہوں لالہ کہ جذبات کے بنا انسان کس کام کا ہے رشتے ناتے دنیا داری اور سب کچھ ہم جذبات سے ہی تو محسوس کرتے ہیں اور لکھتے ہوئے فینٹسی کی بجائے ریئلٹی کو پریفر کیا جائے تو پڑھنے والے کو لگتا ہے کہ یہ سب اس کی آنکھوں کے سامنے ہو رہا ہے کیوں کہ جو میں نے اس تحریر میں لکھا ہے وہ اگر کوئی بھی لڑکی پڑھ لے تو یہی کہے گی جو میں نے لکھا ہے،۔۔
اور مجھے ضرورت پڑی تو میں آپ سے ضرور مدد لوں گی لالہ :) آپ سے نہیں پوچھنا تو کس سے پوچھنا ہے بھلا :)
خوش رہیں ۔
 

غ۔ن۔غ

محفلین
پياری بہن ناعمہ عزیز،
آپکا مضمون نظر نواز ہوا، ماشاءاللہ بہت روانی ہے آپکے قلم ميں اور اپنے جذبات اور احساسات کوالفاظ کا جامہ پہنانے کا
فن بھی بہت خوب آتا ہے آپکو۔ یہ تحریر آپکے حسّاس دل کی غمّاز ہے ۔
سب سے پہلے تو ميں آپکو اس مضمون پر بہت سی داد اور مبارکباد پيش کرتی ہوں اور آپکی کاميابيوں کے ليئے دعا گو ہوں کہ خدا آپکے قلم
کو اور طاقت اور روانی عطا فرمائے ۔ ۔ ۔ ۔آمین
آپ نے ايک ايسے عنوان پر قلم اٹھايا ہے جس پر بہت کچھ لکھا جا سکتا ہے اور بہت کچھ لکھا جا چکا ہے۔
بہاں بھی کئی ساتھيوں نے اس پر رائے کا اظہار کيا اورمختلف رائے آئی ہے اسليئے میرا اس سلسلے یہاں کچھ لکھنا سمندر میں ایک قطرے سے سوا نہیں لیکن آپکا مضمون پڑھ کر جو میری سوچ ہے وہ میں یہاں رقم کر رہی ہوں۔اگر میری رائے کسی کے خاطر پر گراں گزرے تو میں پیشگی معذرت خواہ ہوں۔
ان سب کی رائے اپنی جگہ مسلّم ہے،ميں ان سب سے قطع نظر يہاں صرف اپنے خيالات کا اظہار کروںگی۔
پياری بہن! کچھ لوگ عورت کے ساتھ يہ جو امتيازي سلوک روا جاتا ہے اسکےليئے صرف مرد حضرات
کو اسکا قصوروار ٹہراتے ہيں تو کچھ عورت کو ہی عورت کا دشمن سمجھتے ہيں۔
پہلی بات تو يہ ہے بہنا کہ ميں انفرادی طور کیسی ايک صنف کواس کے ليئے مورد الزام نہں ٹہراتی بلکہ اس کا ذمہ دار ہمارہ سارا
معاشرہ ہے ، ہماری خاندانی روايات ہيں ،ہمارےفرسودہ رسم و رواج ہيں جو نہ صرف ہمارے معاشرے کی خواتين
بلکہ مرد حضرات کی بھی پاؤں کی بيڑياں بنے ہوئے ہيں۔
کوئی بھی مرد يا عورت جو دل ميں عورت کے ساتھ کی جانے والی کسی بھی ذیادتی کو ظلم سمجھتے ہيں وہ
چاہتے ہوئے بھی معاشرے کے ان خود ساختہ قوانين سے ٹکر نہيں لے سکتے کہ آخر کو رہنا توانھوں نے بھی اسی
معاشرے ہی ميں ہےاور بغاوت کی صورت ميں ايک با عزت ذندگی گذارنے کے لیئےاس کے پاس اور کوئی
جائے پناہ نہیں ،(ميں عام انسانوں کی بات کر رہی ہوں ان کی نہيں جنہيں دوسرے معاشروں کا حصہ بننے
کے مواقع ميسّر ہوتے ہيں) ،لہذا اگر بيٹی اپنی پسند سے شادی کا مطالبہ کرتی ہے يا اپنا يہ حق
استعال میں لا کر کورٹ ميرج کا فيصلہ کرتے ہوئے کوئی قدم اٹھاتی ہے تو سب سے پہلے اسکی ماں
اسکے رستے کی ديوار اسی ليئے بنتی ہے کہ کل يہ معاشرہ جو مرد وخواتين پر مشتمل ہے نہ صرف اسکا جينا حرام
کر ديگا بلکہ اس کے تمام اہل خانہ سے عزت کے ساتھ سر اٹھا کر جينے کا حق چھين ليا جائےگا،حالانکہ ہمارا مذہب اسے يہ حق ديتا ہے۔
اسی طرح کے ديگر کئی معاملات ميں بھی کچھ ايسے ہی اسباب ہوتے ہیں جن
کا ذمہ دار کبھی مرد ٹہر جاتا ہے کبھی عورت ليکن اصل سبب وہی ہوتا ہے جس کی طرف ميں نے اشارہ کياہے۔
دوسري بات يہ ہے ہمارے مذہب ميں مرد کو خدا نے بہت مضبوط بنايا ہے اور اسے عورت کی مکمل کفالت کا
ذمہ دار ٹہرايا ہے ،جبکہ عورت کو صنف نازک ليکن اگر ديکھا جائے تو آج کل اس مضبوط سہارے نے
جس طرح ذندگی کا سارا بوجھ ايک کمزور و ناتواں عورت کے نازک کندھوں پہ لاد ديا ہے اس کا احوال سب
بخوبی جانتے ہيں اسليئے اگر ميں اس ناانصافی کی روداد يہاں رقم کروں گی تو يہ ايک الگ سا مضمون
بن حائےگا۔پھر انہی ذمہ داريوں کا بوجھ اٹھانے جب وہ گھر سے باہر کا رخ کرتی ہے تو نہ صرف مرد
بلکہ اردگرد کی خواتين کی رائے بھی اس کے بارے ميں مثبت نہيں ہوتی کيوں کہ وہ سارا دن گھر سے
باھر جو رہتی ہے تو آس پاس کے مردو زن کب اسے وہ مقام دینے کے لائق سمجھتے ہيں جو ان کی نظر ميں
اس عورت يا بہن بيٹی کا ہوتا ہے جو با پردہ گھر ميں رہتی ہے۔اسيئے ايسی عورت کے ليئے لوگوں کی سوچ
کے انداز ہی بدل جاتے ہيں ۔وہ جو اپنی بہو بيٹيوں کے ليئے سوچتے ہيں ان کی وہ سوچ حالات سے مجبور اس
عورت کے ليئے نہيں ہوتی، بقول کسی شاعر کے کہ

ہر شخص بنا ليتا ہے اخلاق کا معيار
خود اپنے ليئے اور،زمانے کے ليئے اور

رہی بات آذادی کی تو جتنی آذادی ہمارے مذہب نے عورت کو دی ہے اسی میں عورت کا اصل وقار اور عزت
پوشیدہ ہے اور جب جب اس حد سے نکلنے کی کوشش ہوئی انجام سوائے تباہی اور رسوائی کے اور کچھ نہ نکلا ، ہاں یہاں
یہ ہمارا المیہ ہے کہ عورت کو معاشرہ وہ آذادی اور وہ حق استعمال کرنے کا حق ہی نہیں دیتا جو مذہب اسے دے چکا ہے۔
اگر مذہب کی دی ہوئی آذادی عورت کو بنا کسی مخالفت کے دی جاتی تو آج ہمارے معاشرے میں مورد الزام ٹہرائی جانے
والی عورتوں کا اتنا جم غفیر نہ ہوتاکیونکہ حوصلہ، صبر اور برداشت سب میں یکساں نہیں ہوتا ۔

جن حالات اور نا انصافيوں کا ذمہ دار نہ کوئی فرد واحد ہو نہ کوئی ايک صنف بلکہ پورا معاشرہ ذمہ دار
تو اسکا گلہ کوئی کرے بھی تو کس سے کرے کہ يہاں تو آوے کا آوہ ہی بگڑا ہوا ہے پياری بہن
ہاں يہ ممکن ہے کہ معاشرے کا ہر فرد اپنی سوچ بدلے، آپ ہی اپنا محاسبہ کرے اس احساس کے ساتھ کہ
جوغليظ سوچ وہ دوسروں کی بہو بيٹی کے ليئے رکھتا ہے اگر ايسی ہی اسکے گھر کی خواتين کے ليئے کوئی
رکھتا ہو تو اسکا کيا ردعمل ہوگا تو ہمارہ معاشرہ کافی حد تک سدھر سکتا ہے۔
آخر میں ایک شعر معاشرے کےسب افراد کے لیئے

کبھی بھول کر کسی سے نہ کرو سلوک ايسا
کہ جو کوئی تم سے کرتا،تمھيں ناگوار ہوتا

(شاعر نامعلوم)

غزل ناز غزل
 

مغزل

محفلین
آہاں یہ ہوئی نا بات اب سمجھ آگئی ساری بات لالہ :)
میں بھی یہی سمجھتی ہوں لالہ کہ جذبات کے بنا انسان کس کام کا ہے رشتے ناتے دنیا داری اور سب کچھ ہم جذبات سے ہی تو محسوس کرتے ہیں اور لکھتے ہوئے فینٹسی کی بجائے ریئلٹی کو پریفر کیا جائے تو پڑھنے والے کو لگتا ہے کہ یہ سب اس کی آنکھوں کے سامنے ہو رہا ہے کیوں کہ جو میں نے اس تحریر میں لکھا ہے وہ اگر کوئی بھی لڑکی پڑھ لے تو یہی کہے گی جو میں نے لکھا ہے،۔۔
اور مجھے ضرورت پڑی تو میں آپ سے ضرور مدد لوں گی لالہ :) آپ سے نہیں پوچھنا تو کس سے پوچھنا ہے بھلا :)
خوش رہیں ۔
گڈ جیتی رہو میری پیاری سی بہنا ۔ ( ناعمہ عزیز)
بالکل ٹھیک کہا گڑیا ۔ تحریر کو ایسا ہی ہونا چاہیے کہ پڑھنے سننے والا بے اختیار کہہ اٹھے کہ یہ تو میری بات ہے یہ میرے دل کی آواز ہے،۔ ہاں بھئی جب تک آپ کے بھیّا زندہ ہیں تو حاضر ہیں اپنی پیاری سی بہنا کے لیے ۔۔ جو مجھ سے بن سکی میں مدد کرسکا کروں گا۔۔ لو اب تو آپ کی اپّیا نے انتہائی مفصل مضمون شامل کر دیا ہے جس کی ایک ایک سطر آپ کے سیکھنے میں معاون ثابت ہوسکتی ہے ۔۔میں نے آپ کی اپیّا سے باقائدہ درخواست کی تھی کہ ہماری گڑیا کا مراسلہ دیکھو اور شرافت سے رپلائی کرو ۔۔ ہاہاہاہاہاہا۔۔۔۔ ویسے میں آپ کی طرف سے بھی غزل ( غزل ناز غزل) کا شکر گزار ہوں کہ غزل چوں کہ اردو تحریر (ٹائپنگ) کی عادی نہیں پھر بھی کمال محبت اور عرق ریزی سے اتنا مفصّل مضمون لکھا ، یقین مانو ایسا لکھنے کی تو مجھ میں بھی ہمّت نہیں تھی۔۔ اب دیکھو ناں آپ کی اپّیا محفل میں نئی ہیں اور آپ تو محفل کے (بہت سے ) دوست احباب کے مزاج کا بھی جانتی ہیں کہ کیسے کیسے اختلافات لے آتے ہیں جن کا نہ سر ہوتا نہ پیر ۔۔ اور نئے لکھنے والوں کی بجائے حوصلہ افزائی کرنے کے حوصلہ شکنی ہوتی ہے۔۔ پھر بھی اتنا جامع طویل مراسلہ ۔۔ میں تو آپ کی طرف سے بھی غزل کو داد دیتا ہوں کہ جو میرے سامنے کی بات ہے کہ پورا ڈیڑھ گھنٹہ لگا یہ مراسلہ لکھنے میں۔۔ غزل تو اور بھی لکھنا چاہ رہی تھی میں نے منع کیا کہ ابتدا میں اتنے طویل مراسلے لکھنے سے اکتاہٹ نہ ہوجائے کہیں ۔۔ مگر نہیں مانی ۔۔ کہنے لگی کہ ہماری گڑیا نے جب اتنی ہمّت کی ہے تو میرا بھی فرض بنتا ہے کہ میں اپنی چھوٹی سی بہنا کی حوصلہ افزائی کروں جو اس کا حق ہے۔۔ مجھے تو خاموش ہونا ہی تھا ہاہہاہا۔۔۔ اب آپ کی اپیّا کے سامنے میری کیا مجال کہ میں چوں چراں کرسکوں ۔۔ ہی ہی ہی ۔۔
 

مغزل

محفلین
پياری بہن ناعمہ عزیز،
آپکا مضمون نظر نواز ہوا، ماشاءاللہ بہت روانی ہے آپکے قلم ميں اور اپنے جذبات اور احساسات کوالفاظ کا جامہ پہنانے کا فن بھی بہت خوب آتا ہے آپکو۔ یہ تحریر آپکے حسّاس دل کی غمّاز ہے ۔
سب سے پہلے تو ميں آپکو اس مضمون پر بہت سی داد اور مبارکباد پيش کرتی ہوں اور آپکی کاميابيوں کے ليئے دعا گو ہوں کہ خدا آپکے قلم کو اور طاقت اور روانی عطا فرمائے ۔ ۔ ۔ ۔آمین
آپ نے ايک ايسے عنوان پر قلم اٹھايا ہے جس پر بہت کچھ لکھا جا سکتا ہے اور بہت کچھ لکھا جا چکا ہے۔بہاں بھی کئی ساتھيوں نے اس پر رائے کا اظہار کيا اورمختلف رائے آئی ہے اسليئے میرا اس سلسلے یہاں کچھ لکھنا سمندر میں ایک قطرے سے سوا نہیں لیکن آپکا مضمون پڑھ کر جو میری سوچ ہے وہ میں یہاں رقم کر رہی ہوں۔اگر میری رائے کسی کے خاطر پر گراں گزرے تو میں پیشگی معذرت خواہ ہوں۔ ان سب کی رائے اپنی جگہ مسلّم ہے،ميں ان سب سے قطع نظر يہاں صرف اپنے خيالات کا اظہار کروںگی۔ پياری بہن! کچھ لوگ عورت کے ساتھ يہ جو امتيازي سلوک روا جاتا ہے اسکےليئے صرف مرد حضرات کو اسکا قصوروار ٹہراتے ہيں تو کچھ عورت کو ہی عورت کا دشمن سمجھتے ہيں۔ پہلی بات تو يہ ہے بہنا کہ ميں انفرادی طور کیسی ايک صنف کواس کے ليئے مورد الزام نہں ٹہراتی بلکہ اس کا ذمہ دار ہمارہ سارا معاشرہ ہے ، ہماری خاندانی روايات ہيں ،ہمارےفرسودہ رسم و رواج ہيں جو نہ صرف ہمارے معاشرے کی خواتين بلکہ مرد حضرات کی بھی پاؤں کی بيڑياں بنے ہوئے ہيں۔
کوئی بھی مرد يا عورت جو دل ميں عورت کے ساتھ کی جانے والی کسی بھی ذیادتی کو ظلم سمجھتے ہيں وہ چاہتے ہوئے بھی معاشرے کے ان خود ساختہ قوانين سے ٹکر نہيں لے سکتے کہ آخر کو رہنا توانھوں نے بھی اسی معاشرے ہی ميں ہےاور بغاوت کی صورت ميں ايک با عزت ذندگی گذارنے کے لیئےاس کے پاس اور کوئی جائے پناہ نہیں ،(ميں عام انسانوں کی بات کر رہی ہوں ان کی نہيں جنہيں دوسرے معاشروں کا حصہ بننے کے مواقع ميسّر ہوتے ہيں) ،لہذا اگر بيٹی اپنی پسند سے شادی کا مطالبہ کرتی ہے يا اپنا يہ حق استعال میں لا کر کورٹ ميرج کا فيصلہ کرتے ہوئے کوئی قدم اٹھاتی ہے تو سب سے پہلے اسکی ماں اسکے رستے کی ديوار اسی ليئے بنتی ہے کہ کل يہ معاشرہ جو مرد وخواتين پر مشتمل ہے نہ صرف اسکا جينا حرام کر ديگا بلکہ اس کے تمام اہل خانہ سے عزت کے ساتھ سر اٹھا کر جينے کا حق چھين ليا جائےگا،حالانکہ ہمارا مذہب اسے يہ حق ديتا ہے۔اسی طرح کے ديگر کئی معاملات ميں بھی کچھ ايسے ہی اسباب ہوتے ہیں جن کا ذمہ دار کبھی مرد ٹہر جاتا ہے کبھی عورت ليکن اصل سبب وہی ہوتا ہے جس کی طرف ميں نے اشارہ کياہے۔
دوسري بات يہ ہے ہمارے مذہب ميں مرد کو خدا نے بہت مضبوط بنايا ہے اور اسے عورت کی مکمل کفالت کا ذمہ دار ٹہرايا ہے ،جبکہ عورت کو صنف نازک ليکن اگر ديکھا جائے تو آج کل اس مضبوط سہارے نےجس طرح ذندگی کا سارا بوجھ ايک کمزور و ناتواں عورت کے نازک کندھوں پہ لاد ديا ہے اس کا احوال سببخوبی جانتے ہيں اسليئے اگر ميں اس ناانصافی کی روداد يہاں رقم کروں گی تو يہ ايک الگ سا مضمون بن حائےگا۔پھر انہی ذمہ داريوں کا بوجھ اٹھانے جب وہ گھر سے باہر کا رخ کرتی ہے تو نہ صرف مردبلکہ اردگرد کی خواتين کی رائے بھی اس کے بارے ميں مثبت نہيں ہوتی کيوں کہ وہ سارا دن گھر سے باھر جو رہتی ہے تو آس پاس کے مردو زن کب اسے وہ مقام دینے کے لائق سمجھتے ہيں جو ان کی نظر ميںاس عورت يا بہن بيٹی کا ہوتا ہے جو با پردہ گھر ميں رہتی ہے۔اسيئے ايسی عورت کے ليئے لوگوں کی سوچ کے انداز ہی بدل جاتے ہيں ۔وہ جو اپنی بہو بيٹيوں کے ليئے سوچتے ہيں ان کی وہ سوچ حالات سے مجبور اس عورت کے ليئے نہيں ہوتی، بقول کسی شاعر کے کہ

ہر شخص بنا ليتا ہے اخلاق کا معيار
خود اپنے ليئے اور،زمانے کے ليئے اور

رہی بات آذادی کی تو جتنی آذادی ہمارے مذہب نے عورت کو دی ہے اسی میں عورت کا اصل وقار اور عزت پوشیدہ ہے اور جب جب اس حد سے نکلنے کی کوشش ہوئی انجام سوائے تباہی اور رسوائی کے اور کچھ نہ نکلا ، ہاں یہاں یہ ہمارا المیہ ہے کہ عورت کو معاشرہ وہ آذادی اور وہ حق استعمال کرنے کا حق ہی نہیں دیتا جو مذہب اسے دے چکا ہے۔اگر مذہب کی دی ہوئی آذادی عورت کو بنا کسی مخالفت کے دی جاتی تو آج ہمارے معاشرے میں مورد الزام ٹہرائی جانے والی عورتوں کا اتنا جم غفیر نہ ہوتاکیونکہ حوصلہ، صبر اور برداشت سب میں یکساں نہیں ہوتا ۔جن حالات اور نا انصافيوں کا ذمہ دار نہ کوئی فرد واحد ہو نہ کوئی ايک صنف بلکہ پورا معاشرہ ذمہ دارتو اسکا گلہ کوئی کرے بھی تو کس سے کرے کہ يہاں تو آوے کا آوہ ہی بگڑا ہوا ہے پياری بہن ہاں يہ ممکن ہے کہ معاشرے کا ہر فرد اپنی سوچ بدلے، آپ ہی اپنا محاسبہ کرے اس احساس کے ساتھ کہ جوغليظ سوچ وہ دوسروں کی بہو بيٹی کے ليئے رکھتا ہے اگر ايسی ہی اسکے گھر کی خواتين کے ليئے کوئی رکھتا ہو تو اسکا کيا ردعمل ہوگا تو ہمارہ معاشرہ کافی حد تک سدھر سکتا ہے۔آخر میں ایک شعر معاشرے کےسب افراد کے لیئے

کبھی بھول کر کسی سے نہ کرو سلوک ايسا
کہ جو کوئی تم سے کرتا،تمھيں ناگوار ہوتا

(شاعر نامعلوم)

غزل ناز غزل

غزل ۔۔
سلامت شاد آباد کامران رہو، اللہ تمھیں ہر دکھ مصیبت ناگہانی آفات پریشانیوں بیماریوں سے محفوظ رکھے ۔۔آمین ثم آمین
تمھارا مراسلہ ہر چند کہ ہماری گڑیا رانی کے مضمون کی بابت ہے مگر جو طرزِ تحریر اللہ نے تمھیں عطا کیا ہے اس کا جواب نہیں، میرے پاس لفظ نہیں کہ میں تمھاری خون دل میں ڈوب کر لکھی ہوئی سطور کی مد میں کچھ کہہ سکوں ، دل سے دعا نکلتی ہے اور آنکھ میں آنسو مچلتے ہیں۔۔ تم نےجس مشکل میں یہ مراسلہ لکھا یہ میں جانتا ہوں۔۔ تمھاری عادت بالکل نہیں رہی اردو ٹائپنگ کی مگر تم نے ہمّت نہیں ہاری اور لکھتی رہیں ۔۔ لفظ اور روح کے دونوں حوالوں سے تمھارا مراسلہ نہ صرف قابلِ تحسین ہے بلکہ جس رقّت انگیز اور رواں نثر کا تمھیں ملکہ حاصل ہے اس پر آفرین کہے بغیر نہیں رہ سکتا ۔۔ آفرین صد آفرین۔۔ اللہ تمھاری اس قربانی کو قبول کرے آمین ۔بہت جیو بہت جیو بہت جیو ۔۔۔ آہستہ آہستہ ٹائپنگ کی عادت ہوجائے گی ناں تو خوب خو ب لکھنا ۔۔۔ تم نے میرا سیروں خون بڑھا دیا۔۔۔۔ ٹیولپس فور یو (تصویر یہاں ممنوع تو نہیں مگر لڑی کے مزاج سے مختلف ہے سو دل کی نگاہ سے قبول کرو)
 

ناعمہ عزیز

لائبریرین
پياری بہن ناعمہ عزیز،
آپکا مضمون نظر نواز ہوا، ماشاءاللہ بہت روانی ہے آپکے قلم ميں اور اپنے جذبات اور احساسات کوالفاظ کا جامہ پہنانے کا
فن بھی بہت خوب آتا ہے آپکو۔ یہ تحریر آپکے حسّاس دل کی غمّاز ہے ۔
سب سے پہلے تو ميں آپکو اس مضمون پر بہت سی داد اور مبارکباد پيش کرتی ہوں اور آپکی کاميابيوں کے ليئے دعا گو ہوں کہ خدا آپکے قلم
کو اور طاقت اور روانی عطا فرمائے ۔ ۔ ۔ ۔آمین
آپ نے ايک ايسے عنوان پر قلم اٹھايا ہے جس پر بہت کچھ لکھا جا سکتا ہے اور بہت کچھ لکھا جا چکا ہے۔
بہاں بھی کئی ساتھيوں نے اس پر رائے کا اظہار کيا اورمختلف رائے آئی ہے اسليئے میرا اس سلسلے یہاں کچھ لکھنا سمندر میں ایک قطرے سے سوا نہیں لیکن آپکا مضمون پڑھ کر جو میری سوچ ہے وہ میں یہاں رقم کر رہی ہوں۔اگر میری رائے کسی کے خاطر پر گراں گزرے تو میں پیشگی معذرت خواہ ہوں۔
ان سب کی رائے اپنی جگہ مسلّم ہے،ميں ان سب سے قطع نظر يہاں صرف اپنے خيالات کا اظہار کروںگی۔
پياری بہن! کچھ لوگ عورت کے ساتھ يہ جو امتيازي سلوک روا جاتا ہے اسکےليئے صرف مرد حضرات
کو اسکا قصوروار ٹہراتے ہيں تو کچھ عورت کو ہی عورت کا دشمن سمجھتے ہيں۔
پہلی بات تو يہ ہے بہنا کہ ميں انفرادی طور کیسی ايک صنف کواس کے ليئے مورد الزام نہں ٹہراتی بلکہ اس کا ذمہ دار ہمارہ سارا
معاشرہ ہے ، ہماری خاندانی روايات ہيں ،ہمارےفرسودہ رسم و رواج ہيں جو نہ صرف ہمارے معاشرے کی خواتين
بلکہ مرد حضرات کی بھی پاؤں کی بيڑياں بنے ہوئے ہيں۔
کوئی بھی مرد يا عورت جو دل ميں عورت کے ساتھ کی جانے والی کسی بھی ذیادتی کو ظلم سمجھتے ہيں وہ
چاہتے ہوئے بھی معاشرے کے ان خود ساختہ قوانين سے ٹکر نہيں لے سکتے کہ آخر کو رہنا توانھوں نے بھی اسی
معاشرے ہی ميں ہےاور بغاوت کی صورت ميں ايک با عزت ذندگی گذارنے کے لیئےاس کے پاس اور کوئی
جائے پناہ نہیں ،(ميں عام انسانوں کی بات کر رہی ہوں ان کی نہيں جنہيں دوسرے معاشروں کا حصہ بننے
کے مواقع ميسّر ہوتے ہيں) ،لہذا اگر بيٹی اپنی پسند سے شادی کا مطالبہ کرتی ہے يا اپنا يہ حق
استعال میں لا کر کورٹ ميرج کا فيصلہ کرتے ہوئے کوئی قدم اٹھاتی ہے تو سب سے پہلے اسکی ماں
اسکے رستے کی ديوار اسی ليئے بنتی ہے کہ کل يہ معاشرہ جو مرد وخواتين پر مشتمل ہے نہ صرف اسکا جينا حرام
کر ديگا بلکہ اس کے تمام اہل خانہ سے عزت کے ساتھ سر اٹھا کر جينے کا حق چھين ليا جائےگا،حالانکہ ہمارا مذہب اسے يہ حق ديتا ہے۔
اسی طرح کے ديگر کئی معاملات ميں بھی کچھ ايسے ہی اسباب ہوتے ہیں جن
کا ذمہ دار کبھی مرد ٹہر جاتا ہے کبھی عورت ليکن اصل سبب وہی ہوتا ہے جس کی طرف ميں نے اشارہ کياہے۔
دوسري بات يہ ہے ہمارے مذہب ميں مرد کو خدا نے بہت مضبوط بنايا ہے اور اسے عورت کی مکمل کفالت کا
ذمہ دار ٹہرايا ہے ،جبکہ عورت کو صنف نازک ليکن اگر ديکھا جائے تو آج کل اس مضبوط سہارے نے
جس طرح ذندگی کا سارا بوجھ ايک کمزور و ناتواں عورت کے نازک کندھوں پہ لاد ديا ہے اس کا احوال سب
بخوبی جانتے ہيں اسليئے اگر ميں اس ناانصافی کی روداد يہاں رقم کروں گی تو يہ ايک الگ سا مضمون
بن حائےگا۔پھر انہی ذمہ داريوں کا بوجھ اٹھانے جب وہ گھر سے باہر کا رخ کرتی ہے تو نہ صرف مرد
بلکہ اردگرد کی خواتين کی رائے بھی اس کے بارے ميں مثبت نہيں ہوتی کيوں کہ وہ سارا دن گھر سے
باھر جو رہتی ہے تو آس پاس کے مردو زن کب اسے وہ مقام دینے کے لائق سمجھتے ہيں جو ان کی نظر ميں
اس عورت يا بہن بيٹی کا ہوتا ہے جو با پردہ گھر ميں رہتی ہے۔اسيئے ايسی عورت کے ليئے لوگوں کی سوچ
کے انداز ہی بدل جاتے ہيں ۔وہ جو اپنی بہو بيٹيوں کے ليئے سوچتے ہيں ان کی وہ سوچ حالات سے مجبور اس
عورت کے ليئے نہيں ہوتی، بقول کسی شاعر کے کہ

ہر شخص بنا ليتا ہے اخلاق کا معيار
خود اپنے ليئے اور،زمانے کے ليئے اور

رہی بات آذادی کی تو جتنی آذادی ہمارے مذہب نے عورت کو دی ہے اسی میں عورت کا اصل وقار اور عزت
پوشیدہ ہے اور جب جب اس حد سے نکلنے کی کوشش ہوئی انجام سوائے تباہی اور رسوائی کے اور کچھ نہ نکلا ، ہاں یہاں
یہ ہمارا المیہ ہے کہ عورت کو معاشرہ وہ آذادی اور وہ حق استعمال کرنے کا حق ہی نہیں دیتا جو مذہب اسے دے چکا ہے۔
اگر مذہب کی دی ہوئی آذادی عورت کو بنا کسی مخالفت کے دی جاتی تو آج ہمارے معاشرے میں مورد الزام ٹہرائی جانے
والی عورتوں کا اتنا جم غفیر نہ ہوتاکیونکہ حوصلہ، صبر اور برداشت سب میں یکساں نہیں ہوتا ۔

جن حالات اور نا انصافيوں کا ذمہ دار نہ کوئی فرد واحد ہو نہ کوئی ايک صنف بلکہ پورا معاشرہ ذمہ دار
تو اسکا گلہ کوئی کرے بھی تو کس سے کرے کہ يہاں تو آوے کا آوہ ہی بگڑا ہوا ہے پياری بہن
ہاں يہ ممکن ہے کہ معاشرے کا ہر فرد اپنی سوچ بدلے، آپ ہی اپنا محاسبہ کرے اس احساس کے ساتھ کہ
جوغليظ سوچ وہ دوسروں کی بہو بيٹی کے ليئے رکھتا ہے اگر ايسی ہی اسکے گھر کی خواتين کے ليئے کوئی
رکھتا ہو تو اسکا کيا ردعمل ہوگا تو ہمارہ معاشرہ کافی حد تک سدھر سکتا ہے۔
آخر میں ایک شعر معاشرے کےسب افراد کے لیئے

کبھی بھول کر کسی سے نہ کرو سلوک ايسا
کہ جو کوئی تم سے کرتا،تمھيں ناگوار ہوتا

(شاعر نامعلوم)

غزل ناز غزل
جی اپیا آپ نے بالکل ٹھیک لکھا ہے ۔
یہ سارا پڑھ کے میں سوچ رہی تھی غزل اپیا کہ میں کن لفظوں میں آپ کو شکریہ کہوں گی اور یقین کریں واقع میرے پاس الفاظ نہیں ہیں کہ میں کی محبت کا شکریہ ادا کر پاؤں آپ نے اتنی توجہ سے پڑھ کے اور اتنی تفصیل سے لکھ کر میری تحریر کی کمی بھی دور کر دی ہے :) تھینک یو سو ویری مچ اپیا یو آر سو سویٹ :) یونہی ہنستی مسکراتی رہیں :)
 

ناعمہ عزیز

لائبریرین
گڈ جیتی رہو میری پیاری سی بہنا ۔ ( ناعمہ عزیز)
بالکل ٹھیک کہا گڑیا ۔ تحریر کو ایسا ہی ہونا چاہیے کہ پڑھنے سننے والا بے اختیار کہہ اٹھے کہ یہ تو میری بات ہے یہ میرے دل کی آواز ہے،۔ ہاں بھئی جب تک آپ کے بھیّا زندہ ہیں تو حاضر ہیں اپنی پیاری سی بہنا کے لیے ۔۔ جو مجھ سے بن سکی میں مدد کرسکا کروں گا۔۔ لو اب تو آپ کی اپّیا نے انتہائی مفصل مضمون شامل کر دیا ہے جس کی ایک ایک سطر آپ کے سیکھنے میں معاون ثابت ہوسکتی ہے ۔۔میں نے آپ کی اپیّا سے باقائدہ درخواست کی تھی کہ ہماری گڑیا کا مراسلہ دیکھو اور شرافت سے رپلائی کرو ۔۔ ہاہاہاہاہاہا۔۔۔ ۔ ویسے میں آپ کی طرف سے بھی غزل ( غزل ناز غزل) کا شکر گزار ہوں کہ غزل چوں کہ اردو تحریر (ٹائپنگ) کی عادی نہیں پھر بھی کمال محبت اور عرق ریزی سے اتنا مفصّل مضمون لکھا ، یقین مانو ایسا لکھنے کی تو مجھ میں بھی ہمّت نہیں تھی۔۔ اب دیکھو ناں آپ کی اپّیا محفل میں نئی ہیں اور آپ تو محفل کے (بہت سے ) دوست احباب کے مزاج کا بھی جانتی ہیں کہ کیسے کیسے اختلافات لے آتے ہیں جن کا نہ سر ہوتا نہ پیر ۔۔ اور نئے لکھنے والوں کی بجائے حوصلہ افزائی کرنے کے حوصلہ شکنی ہوتی ہے۔۔ پھر بھی اتنا جامع طویل مراسلہ ۔۔ میں تو آپ کی طرف سے بھی غزل کو داد دیتا ہوں کہ جو میرے سامنے کی بات ہے کہ پورا ڈیڑھ گھنٹہ لگا یہ مراسلہ لکھنے میں۔۔ غزل تو اور بھی لکھنا چاہ رہی تھی میں نے منع کیا کہ ابتدا میں اتنے طویل مراسلے لکھنے سے اکتاہٹ نہ ہوجائے کہیں ۔۔ مگر نہیں مانی ۔۔ کہنے لگی کہ ہماری گڑیا نے جب اتنی ہمّت کی ہے تو میرا بھی فرض بنتا ہے کہ میں اپنی چھوٹی سی بہنا کی حوصلہ افزائی کروں جو اس کا حق ہے۔۔ مجھے تو خاموش ہونا ہی تھا ہاہہاہا۔۔۔ اب آپ کی اپیّا کے سامنے میری کیا مجال کہ میں چوں چراں کرسکوں ۔۔ ہی ہی ہی ۔۔

تھینک یو ٹو لالہ :) اور میں واقع سمجھ سکتی ہوں ہوں پہلے پہل اردو لکھنا کتنا مشکل کام ہے اور جب غزل اپیا کو اردو لکھنے کی عادت ہو جائے گی تو میں اور غزل اپیا یاد کیا کریں گے کہ انہوں نے کیسے پہلے پہل مراسلے لکھے میں بھی آج تک یاد کرتی ہوں اور اکثر مسکراتی ہوں کہ میں وہ تختی پر ماؤس سے کلک کر کر کے اردو لکھا کرتی تھی:laugh:
ایک بار پھر دل کی گہرائیوں سے غزل اپیا اور آپ کی مشکور و ممنون ہوں لالہ :)
 
Top