’گوانتاموبے قیدی اپیل کر سکتے ہیں‘

ش

شوکت کریم

مہمان
امریکی سپریم کورٹ کے جج نے کہا کہ آئین اور قوانین کو مشکل حالات میں قائم رکھنے کےلیے بنایا جاتا ہے۔

کیا کلجگ ہے اور ایک ہمارے ہاں بیچارہ ائین و قانون ہی موم کی ناک ہے۔ کہ جسے ایک میٹرک پاس فوجی جب چاہے اپنی مرضی سے جو چاہے جیسے چاہے بنا دے۔

’گوانتاموبے قیدی اپیل کر سکتے ہیں‘


گوانتاموبے میں اب بھی دو سو ستر لوگ قید ہیں
امریکی سپریم کورٹ نے حکم دیا ہے کہ گوانتاموبے میں مقید غیر ملکی اپنی حراست کوامریکی عدالتوں میں چیلنج کرنے کا حق رکھتے ہیں۔

امریکی سپریم کورٹ نے ایک اکثریتی فیصلے میں عدالت کے اس سابقہ فیصلے کو بدل دیا ہے جس میں گوانتاموبے قید خانے میں قید لوگوں کو امریکی عدالتوں میں اپنی حراست کو چیلنج کرنے کے حق کو تسلیم نہیں گیا تھا۔

ابھی تک یہ واضح نہیں ہے کہ گوانتاموبے کے قیدی اپنی حراست کو فوراً امریکی عدالتوں میں لے کر جا سکیں گے یا نہیں۔

اس وقت بھی دوسو ستر لوگ گوانتاموبے جیل میں قید ہیں۔ گوانتاموبے میں غیر ملکیوں پر القاعدہ اور طالبان سےتعلق کا الزام ہے ۔

امریکی سپریم کورٹ نے کہا گوانتاموبے کے قیدیوں کا بھی یہ حق ہے کہ ان کو غیر قانونی حراست میں نہ رکھا جائے۔

امریکی سپریم کورٹ کا فیصلہ بش انتظامیہ کے لیے سن دو ہزار چار سے گوانتاموبے جیل سے متعلق تیسرا بڑا عدالتی جھٹکا ہے۔ بی بی سی 12 جون 2008
 

arifkarim

معطل
گونتانامو بے میں قیدیوں پر کیے جانے والے مظالم کی ویڈیوز دیکھ کر تو نئے نازسٹس بھی رو پڑے تھے۔ ان قیدیوں کو بلا جواز، صرف امریکی عوام کو خوش کرنے کیلئے وہاں قید میں رکھا گیا ہے۔ ان کو فورا رہا کرکے امریکی حکومت پر مقدمہ کرنا چاہئے، انسانی حقوق کی خلاف ورزی کا۔
 

Fawad -

محفلین
Fawad – Digital Outreach Team – US State Department

ان قیدیوں کو بلا جواز، صرف امریکی عوام کو خوش کرنے کیلئے وہاں قید میں رکھا گیا ہے۔ ان کو فورا رہا کرکے امریکی حکومت پر مقدمہ کرنا چاہئے، انسانی حقوق کی خلاف ورزی کا۔


گوانتاناموبے کے "بے گناہ" قيديوں کی رہاہی کے حوالے سے اپنی رائے قائم کرنے سے پہلے تصوير کا دوسرا رخ بھی مدنظر رکھيں

اپريل 26 2008 ميں موصل کے مقام پر خودکش حملے ميں ملوث عبدالللہ سليم علی النجمی نامی شخص طالبان کے زير تربيت رہ چکا ہے جسے 3 سال تک گوانتاناموبے ميں قيد رکھنے کے بعد 2005 ميں اس کے آبائ ملک کويت ميں متعلقہ حکام کے حوالے کيا گيا تھا جہاں 2006 ميں اسے رہا کر ديا گيا۔ علی النجمی اپنے ايک اور ساتھی کے ہمراہ اپريل کے شروع ميں جعلی پاسپورٹ کے ذريعے عراق ميں داخل ہوا اور ايک خودکش حملے ميں 7 عراقی فوجی اہلکاروں کی موت کا سبب بنا۔ 3 نومبر 2005 کو جب علی النجمی کو گوانتاناموبے سے کويتی حکام کے حوالے کيا گيا تو کويت کی وزارت داخلہ پر يہ واضح کر ديا گيا تھا کہ اس کی کاروائيوں پر کڑی نظر رکھی جائے۔ ليکن مئ 2006 ميں کويت کی عدالت نےعلی النجمی کو رہا کر ديا۔

يہ محض ايک واقعہ نہيں ہے جس ميں گوانتاناموبے کے کسی قيدی نے رہاہی پانے کے بعد دہشت گردی کی کاروائ ميں حصہ ليا۔ مئ 2008 کی رپورٹ کے مطابق اب تک 37 ايسے کيس سامنے آئے ہيں جن ميں گوانتاناموبے سے رہاہی پانے والے قيديوں نے براہراست دہشت گردی کی کاروائيوں ميں حصہ ليا ہے۔

امريکی حکومت گوانتاناموبے ميں قيديوں کو غير معينہ مدت تک رکھنے کے حق ميں نہيں ہے ليکن فوجی ماہرين کے نزديک ان افراد کی فوری رہاہی يا ان کے آبائ ممالک ميں ان کی منتقلی ايک سيکورٹی رسک ہے جيسا کہ علی النجمی اور ايسے ہی 37 ديگر واقعات سے ثابت ہے۔

http://www.nytimes.com/2008/05/08/world/middleeast/08iraq.html?_r=1&ref=world&oref=slogin

اب تک 450 افراد کو گوانتاناموبے کی جيل سے رہا کيا جا چکا ہے جن ميں سے 30 افراد اس وقت بھی براہ راست دہشت گردی کی کاروائيوں ميں ملوث ہيں۔ 80 مزيد افراد رہاہی يا منتقلی کے مراحل ميں ہيں۔ اس وقت قريب 300 افراد گوانتاناموبے کی جيل ميں قيد ہیں۔

گوانتاناموبے سے رہاہی پانے کے بعد دہشت گردی ميں ملوث کچھ اہم نام

عبدالللہ محسود

محسود کو 2001 کے آخر ميں افغانستان کے جنوب سے گرفتار کر کے گوانتاناموبے لايا گيا تھا جہاں وہ مارچ 2004 تک قيد رہا۔ رہاہی پانے کے بعد اس نے پاکستان ميں جنوبی وزيرستان کے علاقے ميں محسود قبيلے ميں ايک عسکری گروہ کی قيادت سنبھال لی۔ رہاہی پانے کے بعد محسود برملا اس بات کا اظہار کرتا رہا کہ اس نے امريکی حکام کو دھوکے ميں رکھا کہ وہ افغانی نہيں بلکہ پاکستانی ہے۔ اکتوبر 2004 ميں محسود ہی کے ايما پر دو چينی انجينيرز کو اغوا کيا گيا۔ ان انجينيرز کی بازيابی کی کاروائ کے دوران 5 عسکريت پسند اور ايک چينی انجينير ہلاک ہوگئے ليکن محسود اس واقعے ميں محفوظ رہا۔ جولائ 2007 ميں محسود نے پوليس کے گھيرے ميں آنے کے بعد ايک دستی بم سے اپنی جان لے لی۔

http://www.nytimes.com/2007/07/25/w...r=2&adxnnl=1&oref=slogin&adxnnlx=&oref=slogin

http://www.dawn.com/2007/04/30/top1.htm

http://news.bbc.co.uk/2/hi/south_asia/3745962.stm

مولوی عبدل غفار

غفار کو 2002 کے شروع ميں گرفتار کيا گيا اور اسے 8 ماہ تک گوانتاناموبے ميں قيد رکھا گيا۔ رہاہی کے بعد غفار نے افغانستان واپس جا کر ارزگان اور ہلمند کے صوبوں ميں طالبان کی کمان سنبھال لی اور امريکہ اور نيٹو افواج کے خلاف بے شمار کاروائيوں ميں حصہ ليا۔ ستمبر 2004 ميں غفار اپنے دو ساتھيوں کے ہمراہ افغان سيکورٹی فورسز کے ساتھ ايک کاروائ ميں ہلاک ہو گيا۔

http://www.foxnews.com/story/0,2933,133581,00.html

محمد اسماعيل

اسماعيل کو 2004 ميں گوانتاناموبے سے رہا کيا گيا۔ اپنی رہاہی کے بعد ايک پريس کانفرنس ميں محمد اسماعيل نے گوانتاناموبے ميں اپنے ساتھ کيے جانے والے سلوک کے حوالے سے سوال کے جواب ميں کہا "امريکيوں نے مجھ سے بہت اچھا سلوک کيا اور مجھے انگريزی زبان کی تعليم بھی دی"۔ چار ماہ بعد مئ 2004 ميں محمد اسماعيل کو قندھار ميں اس وقت گرفتار کيا گيا جب وہ امريکی افواج کے خلاف حملے کی تياری کر رہا تھا۔

محمد يوسف يعقوب عرف ملا شہزادہ

محمد يوسف يعقوب نے جولائ 2003 ميں گوانتاناموبے سے رہاہی کے بعد جنوبی افغانستان ميں طالبان کی عسکری قيادت سنبھال لی۔ ملا شہزادہ کی زير نگرانی طالبان نے بہت سی چيک پوسٹوں پر قبضہ کر ليا۔ مئ 2004 ميں افغان مليشيا کی اطلاع پر امريکی فوج نے کاروائ کی جس کے نتيجے ميں ملا شہزادہ اپنے دو ساتھيوں سميت ہلاک ہو گيا۔

http://www.time.com/time/magazine/article/0,9171,1101040607-644147,00.html


جيسا کہ ميں نے پہلے کہا کہ امريکی حکومت گوانتاناموبے میں قيد افراد کے مستقبل کا فيصلہ جلد ازجلد کرنا چاہتی ہے ليکن اس حوالے سے درپيش قانونی پيچيدگيوں سے قطع نظر يہ حقيقت بھی امريکی حکومت کے فيصلے کی راہ ميں حائل ہے کہ اب تک رہا يا دوسرے ممالک کی حکومتوں کو منتقل کيے جانے والے افراد کی بڑی تعداد دوبارہ دہشت گردی کی کاروائيوں ميں ملوث پائے گئے ہيں۔


فواد – ڈيجيٹل آؤٹ ريچ ٹيم – يو ايس اسٹيٹ ڈيپارٹمينٹ
digitaloutreach@state.gov
http://usinfo.state.gov
 

گرو جی

محفلین
تو حضرت جو امریکی عراق پر قبضہ جمائے بیٹھے ہیں
اسرائیل فلسطیں پر ظلم کر رہا ہے۔ اور وہ بھی پوری دنیا دیکھ رہی ہے اس کے متعلق کیا ارشاد کرنا چاہیں‌گے فواد صاحب
یہ تو آپ نے ان لوگوں‌ کی معلومات دی ہیں‌جو کہ امریکی میڈیا پر شائع ہوئی ہیں‌کبھی آپ نے ان لوگوں کا نقطہ نظر جاننا چاہا۔
 

arifkarim

معطل
اب تک 450 افراد کو گوانتاناموبے کی جيل سے رہا کيا جا چکا ہے جن ميں سے 30 افراد اس وقت بھی براہ راست دہشت گردی کی کاروائيوں ميں ملوث ہيں۔ 80 مزيد افراد رہاہی يا منتقلی کے مراحل ميں ہيں۔ اس وقت قريب 300 افراد گوانتاناموبے کی جيل ميں قيد ہیں۔
Email]digitaloutreach@state.gov[/email]
http://usinfo.state.gov

ظاہر ہے جب ان جیلوں میں قیدیوں کو جانوروں سے بھی بد تر طورپر رکھا جائے گا تو انکے دلوں میں اصلاح کی بجائے الٹا مزید انتقام ہی جنم لے گا نا، جناب!
 

ساجداقبال

محفلین
محسود کو 2001 کے آخر ميں افغانستان کے جنوب سے گرفتار کر کے گوانتاناموبے لايا گيا تھا جہاں وہ مارچ 2004 تک قيد رہا۔ رہاہی پانے کے بعد اس نے پاکستان ميں جنوبی وزيرستان کے علاقے ميں محسود قبيلے ميں ايک عسکری گروہ کی قيادت سنبھال لی۔ رہاہی پانے کے بعد محسود برملا اس بات کا اظہار کرتا رہا کہ اس نے امريکی حکام کو دھوکے ميں رکھا کہ وہ افغانی نہيں بلکہ پاکستانی ہے۔
اسمیں‌ دھوکے والی کیا بات ہے وہ پاکستانی ہی تھا۔ عبداللہ محسود کا تعلق ہی جنوبی وزیرستان سے تھا۔
 
Top