’کہہ دو کہ آپریشن کا ردعمل ہے‘۔ عبدالحئی کاکڑ

الف نظامی

لائبریرین
یہاں میرا یہ لکھنے کا مقصد یہ ہے کہ جہاں ایک طرف خود کش حملوں اور جہاد کے بارے میں علمائے کرام کی واضح رائے نہ ہونے کی وجہ سے اسلام کے امیج کو ٹھیس پہنچی ہے اور علمائے اسلام کو اس سلسلہ میں اپنا واضح موقف اپنانا چاہیے
وہیں اس کے ساتھ ہی اہل سنت کو جہاد میں شریک نہ کرنے (اس کی وجہ یہاں درج ہے) اور جہادی تنظیموں پر چیک اینڈ بیلنس نہ رکھنے کی وجہ سے اہل سنت نے یہ خمیازہ بھگتا کہ بحائے ہندوستان امریکہ روس فتح کرنے کے مسلح گروہوں نے اہل سنت کو فتح کرنا شروع کردیا۔

مزید یہ کہ قیام پاکستان سے لیکر آج تک کسی دھشت گرد حملوں میں اہل سنت ملوث نہیں اور نہ ہوں گے۔ سب کو معلوم ہے کہ ان میں کون ملوث ہے لیکن نام نہیں‌ لیتے۔
آخر میں آپ ہی کی بات ذرا اضافہ کے ساتھ:
اللہ پاک ہم سب کو اسلام کی حقیقی روح کے مطابق عمل اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور آپ کے پاک آل و اصحاب کی سچی اتباع نصیب کریں اور فرقہ وارانہ رد وکد سے ہمیں نجات دلائیں۔ آمین۔
 
یہاں میرا یہ لکھنے کا مقصد یہ ہے کہ جہاں ایک طرف خود کش حملوں اور جہاد کے بارے میں علمائے کرام کی واضح رائے نہ ہونے کی وجہ سے اسلام کے امیج کو ٹھیس پہنچی ہے اور علمائے اسلام کو اس سلسلہ میں اپنا واضح موقف اپنانا چاہیے
میں آپ کی بات سے متفق ہوں ویسے اس سلسلے میں ایک عمومی موقف یہ ہے کہ پاکستان میں جتنے خودکش حمے ہورہے ہیں وہ ناجائز ہیں اس بات سے شاید کوئی بھی انکار نہیں کرسکتا
وہیں اس کے ساتھ ہی اہل سنت کو جہاد میں شریک نہ کرنے (اس کی وجہ یہاں درج ہے) اور جہادی تنظیموں پر چیک اینڈ بیلنس نہ رکھنے کی وجہ سے اہل سنت نے یہ خمیازہ بھگتا کہ بحائے ہندوستان امریکہ روس فتح کرنے کے مسلح گروہوں نے اہل سنت کو فتح کرنا شروع کردیا
دیکھیے اس کی وجہ ماضی میں کچھ بھی ہو لیکن آج پوری دنیا میں جو مختلف افراد جہاد کر رہے ہیں انہوں نے یہ جہاد نہ کسی کی اجازت سے شروع کیا اور نہ ہی وہ کوئی ایسی رجسٹرڈ تنظیمیں تھیں جن کا چیک و بیلنس رکھا جاتا اگر کوئی جماعت ایسی بات کرے کہ اس کو جہاد سے روکا گیا یا نکالا گیا تو کافی مضحکہ خیز بات ہو گی۔ یہاں فروعی معاملات سے تو کوئی دستبردار ہونے کے لیے تیار نہیں اور چھوٹی چھوٹی باتوں پر حکومت کا ناطقہ بند کر دینے کی دھمکیاں صرف جہادی جماعتیں نہیں دیتیں بلکہ ایسی شدت پسندی کئی فرقہ وانہ جماعتوں میں موجود ہے ، کراچی میں کھلے عام اسلحے کی نمائیش اور استعمال صرف جہادی تنظیمیں نہیں کرتیں بلکہ ان میں سیاسی اور ایسی مذہبی جماعتیں بھی شامل ہیں جن کا جہادد میں کوئی کردار نہیں لیکن دیگر معاملات میں وہ آگے آگے ہیں ۔اس کی تفصیل میں اگر میں چلا گیا تو شاید بیچ میں تلخیاں آجائیں ۔ اس بات کو آپ رہنے دیں ۔
مولانا نورانی کا جو انٹر ویو آپ نےشئیر کیا تو اچھا کیا تاہم معذرت کے ساتھ اس میں کچھ تاریخی غلطیاں موجود ہیں‌
اولا تو یہ کہ علمائے دیوبند کا انگریزوں کے خلاف جہاد ثابت ہے اور اس کی ایک مثال شاملی کی جنگ ایک مثال ہے جس میں اکابرین دیوبند نے حصہ لیا تھا

جہاد افغانستان کے حوالے سے عرض ہے کہ روس کے انخلا سے پہلے حکومت پاکستان کی طرف سے افغانستان میں سات جماعیتں ایسی تھیں جن کو باضابطہ طور پر امداد دی جاتی تھی اور یہ تسلیم شدہ جماعتیں کہلاتی تھیں ان میں 4 جماعیتں بنیاد پرست تھیں اور تین اعتدال پرست سید احمد گیلانی اور مولانا نبی محمدی اور صبغت اللہ مجددی تینوں اعتدال پرست تھے اور ان کو باقاعدہ حکومت سے امداد ملتی تھی چنانچہ شاہ نورانی صاحب کا یہ کہنا درست نہ تھا کہ
ضیاء الحق صاحب سے ہماری کچھ کھٹ پٹ رہتی تھی ، تو جن جماعتوں کی کھٹ پٹ نہیں تھی ان کو مدد ملتی تھی اور ان ہی کو کیمپوں میں جانے کی اجازت تھی
۔ اور ایک بات مزید کہ یہ امداد جو ملتی تھی وہ ان کی کارکردگی کی بنا پر ملتی تھی اس لیے ہاں ان حضرات کا حکومتی امداد میں حصہ کم تھا چنانچہ نبی کو 13 سے 15 فیصد گیلانی کو 10 سے 11 فیصد اور مجددی کی 3 سے 5 فیصد شرح تھی تاہم یہ تو پرانی بات ہو گئی اب حال کیا ہے اس بارے میں سوچنے کی ضرورت ہے۔اور کچھ عملا کرنے کی بھی۔
 

مہوش علی

لائبریرین
ڈان کی یہ رپورٹ میرے کسی سابقہ مراسلہ میں موجود ہے ایک بار پھر حاضر خدمت جس میں‌افغان طالبان کے رہنما پاکستانی طالبان سے تعلق سے انکاری ہیں۔ اس کے بعد شاید صرف یہی بات باقی رہ جاتی ہے کہ وہ اظہار لا تعلقی کے لیے جنگ کے پہلے صفحے پر اشتہار دے دیں‌(یہ رپورٹ 2008 کے شروع کی ہے اور تازہ رپورٹس اس کا اثبات کرتی ہیں

۔ آپکا آرگومنٹ ہے کہ 2008 میں ملا عمر کے ترجمان ڈان اخبار میں یہ بیان دے رہے ہیں۔
۔ جبکہ محسود کی سرگرمیاں اس سے کہیں پہلے سے جاری ہیں۔
۔کاش کہ 2008 کا یہ بیان بھی سچا ہوتا تو افغانی طالبان کے اس بیان کو کہا جا سکتا تھا "نو سو چوہے کھا کر بلی حج کو چلی"۔ مگر یہ بیان ایسا بوگس بیان اور ایسا بڑا جھوٹ ہے جسے نگلنے کے لیے انسان کو اپنی آنکھیں، کان و دل دماغ سب کچھ بند کرنا پڑے گا۔
دیکھتے ہیں اس بیان پر ایک اور نظر، اور اس دفعہ آنکھیں، دل و دماغ کھول کر اسے پڑھیں
peshawar, Jan 28: The Taliban In Afghanistan Have Distanced Themselves From Pakistani Militants Led By Baitullah Mehsud, Saying They Don’t Support Any Militant Activity In Pakistan.

“we Do Not Support Any Militant Activity And Operation In Pakistan,” Taliban Spokesman Zabihullah Mujahid Told Dawn On Telephone From An Undisclosed Location On Monday.

The Spokesman Denied Media Reports That The Taliban Had Expelled Baitullah Mehsud, The Head Of The Tehrik-i-taliban Pakistan.

“baitullah Is A Pakistani And We As The Afghan Taliban Have Nothing To Do With His Appointment Or His Expulsion. We Did Not Appoint Him And We Have Not Expelled Him,” He Said.

A Spokesman For Baitullah Mehsud Has Already Denied The Expulsion Report In A Hong Kong Magazine And Said That The Militant Leader Continued To Be The Amir Of Tehrik-taliban Pakistan.

“he Has Not Been Expelled And He Continues To Be The Amir Of Pakistani Taliban,” Baitullah’s Spokesman Maulavi Omar Said.

The Asia Times Online In A Report Last Week Claimed That The Taliban Supreme Leader Mullah Mohammad Omar Had Removed Baitullah From The Leadership Of The Taliban Movement For Fighting In Pakistan At The Expense Of ‘jihad’ In Afghanistan.

“we Have No Concern With Anybody Joining Or Leaving The Taliban Movement In Pakistan. Ours Is An Afghan Movement And We As A Matter Of Policy Do Not Support Militant Activity In Pakistan,” The Taliban Spokesman Said.

“had He Been An Afghan We Would Have Expelled Him The Same Way We Expelled Mansoor Dadullah For Disobeying The Orders Of Mullah Omar. But Baitullah Is A Pakistani Talib And Whatever He Does Is His Decision. We Have Nothing To Do With It,” Mr Mujahid Maintained.

“we Have Nothing To Do With Anybody’s Appointment Or Expulsion In The Pakistani Taliban Movement,” He Insisted.

Baitullah, Who Has Been Accused Of Plotting The Assassination Of Ms Benazir Bhutto, Told Al Jazeera In An Interview That He Had Taken Baya’h (oath Of Allegiance) To Mullah Muhammad Omar And Obeyed His Orders.

But The Taliban Spokesman Said The Oath Of Allegiance Did Not Mean That Pakistani Militants Were Under Direct Operational Control Of Mullah Omar.

“there Are Mujahideen In Iraq Who Have Taken Baya’h To Mullah Omar And There Are Mujahideen In Saudi Arabia Who Have Taken Baya’h To Him. So Taking Baya’h Does Not Mean That Mullah Omar Has Direct Operational Control Over Them,” The Spokesman Said​
.
اگر افغانی طالبان واقعی محسود کے خلاف ہوتی اور اسے دہشتگرد، قاتل و خود کش حملوں کا مجرم سمجھ رہی ہوتی اور سمجھتی کہ محسود افغانی طالبان کو بدنام کر رہا ہے، تو اس سے کہیں زیادہ کھل کر اس سے اپنی براۃ ثابت کرتی اور بار بار کرتی اور کسی ایک انگریزی اخبار میں ایک آدھا ٹوٹا پھوٹا بیان دینے کی بجائے اردو اخبارات میں کھل کر اپنی براۃ کا اظہار کرتی۔

یہ قتل محسود کے کہنے پر نہیں بلکہ تحریک طالبان پاکستان کے علاقائی امیر عمر خالد نے کیا تھا
2۔ تحقیقاتی کمیٹی افغان طالبان نے نہیں بلکہ بیت اللہ محسود نے قائم کی تھی
ان اخباری رپورٹوں کو میں کیسے نگل جاوں کہ مستقل افغانی طالبان کی طرف سے وفود آتے رہے اور مختلف پاکستانی طالبانی دھڑوں کو محسود کے تحت جمع ہونے کی ہدایات دیتے رہے؟
3۔ ہاں‌ پاکستانی طالبان کے ترجمان مولوی عمر نے کہا تھا
تاہم یہ جو ترجمان مولوی عمر ہیں ان کی سچائی کی کیفیت یہ ہے کہ یہ ہر جرم کو پاکستانی طالبان کے کھاتے میں ڈالنے کے ماہر پہں جیسا کہ واہ کینٹ کا دھماکہ جس کی بابت غیر ملکی اخبار کا بھی یہی کہنا تھا کہ یہ کام بیت اللہ محسود یا پاکستانی طالبان کا نہیں‌ لہذا حقیقت یہ ہے کہ اس بات کا تعلق افغان طالبان سے ہر گز نہیں
ملاحظہ کیجے
http://www.bbc.co.uk/urdu/pakistan/story/2008/07/080720_mohmand_baitullah.shtml
یہ دعوی تو ایک مذاق ہے مگر حیف کہ پروپیگنڈہ سے جھوٹ کو سچ اور سچ کو جھوٹ بنا دینا اور معصوم انسانوں کو گمراہ کر دینا چنداں مشکل ثابت نہیں ہوتا۔ محسود کے ترجمان ملا عمر کے متعلق یہ غیر ملکی اخبار کونسا ہے اور اسکے یہ دعوی کرنے کے ذرائع کیا ہیں؟
کیا محسود نے آگے بڑھ کر اس بات کی تکذیب کی؟ یہ اکلوتا سوال کافی ہے۔
اور یہ تمام خود کش حملہ آور انہی مدارس میں پیدا ہو رہے ہیں۔ یہ لوگ ان مدارسی جہادیوں کے ہاتھ لگتے ہی اس لیے ہیں کہ کبھی کسی نے کھل کر ان جہادیوں کے خلاف بات نہیں کی۔ اور لوگ تو یہی دیکھتے ہیں کہ جب غازی برادران کھل کر حکومت کو خود کش حملوں کی دھمکیاں دے رہے تھے تو تمام لوگ غازی برادران کو ہیرو بنا رہے تھے۔ تو اب اسکے خلاف رونا کیسا؟
اور بی بی سی کی جو رپورت آپ نے پیش کی ہے اس میں تو کوئی ایسی بات نہیں جس سے افغانی طالبان کی محسودی طالبان سے براۃ ظاہر ہو رہی ہو، بلکہ یہ تو الٹی بات ثابت کر رہی ہے اور انکے آپس کے روابط کو ظاہر کر رہی ہے۔

ابن حسن برادر کی بی بی سی کی پیشکردہ خبر سے اقتباس:

رفعت اللہ اورکزئی
بی بی سی اردو ڈاٹ کام، پشاور
t.gif

t.gif



تحریک طالبان پاکستان کے سربراہ بیت اللہ محسود نے مہمند ایجنسی میں طالبان کے دوگروپوں میں تصادم میں ایک گروہ کے چند افراد کی ہلاکت کے واقعہ کا سختی سے نوٹس لیتے ہوئے مقامی طالبان کے امیر عمر خالد سے وضاحت طلب کی ہے۔
تحریک کے مرکزی ترجمان مولوی عمر نے بی بی سی کو فون پر بتایا کہ بیت اللہ محسود نے اس واقعہ کی تحقیقات کے لئے ایک وفد بھیج دیا ہے جو مہمند ایجنسی میں سنیچر کو ہونے والی ہلاکتوں کی تفتیش کرے گا۔
انہوں نے کہا کہ افغانستان میں طالبان کے سربراہ ملا عمر نے بھی اس واقعہ کا سختی سے نوٹس لیا ہے۔ دونوں گروہوں کے مابین اختلافات ختم کرانے کے لئے افغان طالبان کا بھی ایک وفد کام کر رہا ہے جو مہمند ایجنسی میں پہلے سے ہی موجود تھا کہ یہ واقعہ پیش آیا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
افغانی طالبان کے محسود سے روابط چھپی ڈھکی بات نہیں اور اسی زمانے میں اخبارات میں متعدد رپورٹیں شائع ہوئی تھیں جس میں افغانی طالبانی وفود کی پاکستان آمد اور تمام پاکستانی طالبانی گروہوں کو منظم ہو کر محسود کے تحت جمع ہونے کی ہدایات دی گئیں تھیں [اور اوپر رپورٹ میں جو کہا کہ یہ افغانی طالبانی وفد پہلے سے ہی مہمند ایجنسی میں موجود تھا، وہ اسی سلسلے میں وہاں آیا ہوا تھا]۔
//////////////////////////////////
از ابن حسن:
ہر مسجد ہر امام باڑے اور ہر فرقے کے ہر عالم کے قتل کا حساب ہر شدت پسند سے لیا جائے میرے خیال میں یہ معاملہ ہم لوگوں کو کم از کم فرقہ وارانہ صورت میں نہیں‌اٹھا نا چاہیے بلکہ ہر مظلوم مقتول کا خون اور اس کی جان یکساں اہمیت رکھتی ہے اور اس مملکت خدادا کے حکمرانوں کی ذمہ داری ہے کہ اپنے ہر شہری کی جان و مال کا تحفظ کرے۔

برادر، جب میں نے قادیانی سٹوڈنٹز کے ساتھ غیر قانونی برتاو پر احتجاج کیا تو آپ نے مجھ پر غیر ضروری الزام عائد کیا تھا۔
آپ سے استدعا ہے جو کچھ آپ نے یہاں پر لکھا ہے اس پر عملی طور پر عمل کیجئے۔ اللہ تعالی ہم سب کو نیک راہ پر چلنے کی توفیق عطا فرمائے۔ امین۔
والسلام۔
 

طالوت

محفلین
دیوبندی بریلوی ٹائپ بات کے محرک طالوت ہیں جنہوں نے قادری پادری اصطلاح یہاں استعمال کی۔ شاید انہیں یہاں فرقہ واریت پھیلانے کے مشن پر کسی نے بھیجا ہو۔
ویسے کہنے کو تو کافی کچھ ہے لیکن بحیثیت کمزور انسان کے خود پر الزام کی سب سے زیادہ فکر ہے باوجود اس کے اس کہیں زیادہ اہم باتیں کی گئی ہیں جن پر بات کی جائے ۔۔۔۔
بھائی میرے میں تو ہوں باغی !!! اسلام کے نام پر بننے والے تمام مسالک ، تمام کے تمام ، وہ بھی جنھیں قرار دادیں پاس کروا کر کافر قرار دلوایا گیا اور وہ بھی جن کے ایک فرد کے قتل کو ایک حج کا ثواب بتایا گیا (ممکن ہے یہ افواہ ہو کہ تحریری ثبوت نہیں دیکھ سکا آج تک) ، وہ بھی جو خود کو پاکستان کے قیام کی وجہ سمجھتے ہیں اور وہ بھی جو اس کی مخالفت زورو شور سے کیا کرتے تھے اور آج بھی عملاََ مخالفت میں ہی جٹے ہوئے ہیں ۔۔۔ وہ بھی جو رہتے تو پاکستان میں ہیں مگر ہمدردیاں ایران سے رکھتے ہیں ، وہ بھی جنھوں عرب دولت کے بے و قوفانہ استعمال سے اس ملک میں کلاشنکوف اور ہیرون کلچر عام کیا ، وہ بھی جن کے حجرے ہی ان کی جنت و دوذخ ہیں وہ بھی جو جشن ولادت کے نام پر ہر سال اربوں روپیہ اس قوم کا دھوئیں میں اڑا دیتے یا نالیوں میں بہا دیتے ہیں ، وہ بھی سالانہ اجتماعوں کا اہتمام اپنی عددی قوت کو ظاہر کرنے میں کرتے ہیں ، وہ بھی جن کا اسلام ربوبیت سے اگے بڑھ ہی نہ سکا ، وہ بھی جن کو کسی مسیحا کا انتظار ہے ، وہ بھی جن کا مسیح آ کر گزر چکا ہے ، وہ وہ وہ وہ وہ !!!!!
ان سب سے مجھے کوئی لینا دینا نہیں اللہ کی کتاب موجود میرا اس پر ایمان قائم ، الحمدللہ !! جو کوئی اچھی بات کرے گا اس کی توصیف کروں گا جو برا کرے گا ببانگ دہل اجتجاج کروں گا ۔۔۔
لحاظہ آپکا یہ الزام کہ مجھے کسی نے بھیجا ہے یا میں خود آیا ہوں کہ یہاں تفرقہ پھیلاوں تو یہ آپ کی نظر کا حسن کرشمہ ہے ورنہ مجھے اس سے کوئی دلچسپی نہیں ۔۔۔ سب اپنے اپنے مسلک کو ڈیفینڈ کر رہے ہو جسٹی فائے کر رہے ہو ، کیا کبھی ایک امت کی کوشش بھی کریں گے ہم ؟؟
اگر ہم چیزوں کو جسٹی فائے کرنے کی بجائے کلیری فائے کرنے پر طاقت صرف کریں تو شاید یہ فرقہ واریت کی گندی ہوا سے نجات ملے ،،، ورنہ جو ھالات ہیں وہ آپ مجھ سے بہتر جانتے ہیں ۔۔۔۔
بات کیا تھی اور کہا نکل گئی ،،، تو بھائی میرے یہ اصطلاح تو ایجاد ہو گئی اور پہلی دفعہ ہم نے کوئی چیز ایجاد کی سو یہ تو چلے گی ہاں آپکی گزارش پر اس میں اضافہ کرنے کی ضرور کوشش کروں گا تاکہ آپ کو شکایت نہ رہے ۔۔۔ ویسے یہ تو بڑی مناسب سی ہے ورنہ ہمارے شہروں دیہاتوں میں جس قسم کی اصطلاحیں ایک دوسرے کے بارے میں اشتہاروں کی صورت میں نظر آتی ہیں ان پر بھی غور کیجیے گا تو یقیننا آپکو میری یہ ایجاد قدرے بے معنیٰ ہی نطر آئے گی ۔۔۔۔۔۔ :)
اگر کسی کے دل کو میری اس تحریر سے ٹھیس پہنچی ہو تو معزرت بالکل نہیں کروں گا کہ بحیثیت مسلم جو میں صحیح سمجھتا ہوں وہ کہہ دیتا ہوں ، تاہم میں یقین سے کہہ سکتا ہوں کہ جس طرح ہمارے بڑے بڑے "علماء" بازاری لہجہ استمعال کرتے ہیں میں نے وہ نہیں کیا اگر یقین نہ ہو تو اپنے اپنے مسلک کی وہ تقریریں ضرور سنیں جو دوسرے مسالک کی مخالفت میں کی گئی ہیں ۔۔۔
اللہ ہم سب کا حامی و ناصر ہو
وسلام
 

طالوت

محفلین
۔اگر افغانی طالبان واقعی محسود کے خلاف ہوتی اور اسے دہشتگرد، قاتل و خود کش حملوں کا مجرم سمجھ رہی ہوتی اور سمجھتی کہ محسود افغانی طالبان کو بدنام کر رہا ہے، تو اس سے کہیں زیادہ کھل کر اس سے اپنی براۃ ثابت کرتی اور بار بار کرتی اور کسی ایک انگریزی اخبار میں ایک آدھا ٹوٹا پھوٹا بیان دینے کی بجائے اردو اخبارات میں کھل کر اپنی براۃ کا اظہار کرتی۔
والسلام۔
بہنا اس سے پہلے آپ پاکستان کے اردو اخبارات کی جس طرح سے گوشمالی کر چکی ہیں اس کے بعد آپ کا یہ مطالبہ کچھ غیر ضروری سا لگتا ہے
اور میں ویسے بھی عرض کر چکا ہوں کہ افغانی طالبان کا میڈیا سے رابطہ انتہائی کم ہے اور ان کے لیئے ایک پاکستان ہی نہیں رہ گیا کہ وہ اسی کے اعلان کرتے پھریں ۔۔ خرابی ہمارے اندر ہے ہمی کو ٹھیک کرنا ہو گی ۔۔۔ دوسروں اور صرف دوسروں پر الزام دھر کر اپنئ جان چھرانا ہمارا وطیرہ بن چکا ہے۔۔۔
وسلام
 
۔ آپکا آرگومنٹ ہے کہ 2008 میں ملا عمر کے ترجمان ڈان اخبار میں یہ بیان دے رہے ہیں۔
۔ جبکہ محسود کی سرگرمیاں اس سے کہیں پہلے سے جاری ہیں۔
بیت اللہ محسود کی سرگرمیاں یقنا ا س سے قبل جاری تھیں تاہم اکتوبر 2007 سے پہلے پہلے قبائلی علاقوں میں نہ صرف بیت اللہ بلکہ کئی اور افراد سرگر م عمل تھے تاہم تحرک طالبان پاکستان کا وجود نہ تھا ،بطور خاص میرا جو دعوہ ہے وہ یہ کہ تحریک پاکستان طالبان اور افغان طالبان الگ الگ دو تنظیمیں ہیں‌ اور ان کے آپس میں عسکری روابط نہیں ہیں۔آئیے اسی پر بات کرتے ہیں اور یہ بات اس لیے بھی اہم ہے کہ تحریک پاکستان طالبان ہی اس وقت نمائندہ تنظیم ہے۔
اکتوبر 2007 میں قبائلی علاقے مہمند ایجنسی میں خفیہ طور پرسرگرم مقامی طالبان کے تقریباً چھ مختلف گروپوں نے متحد ہو کر ’تحریک طالبان‘ ‘ نامی ایک نئی تنظیم تشکیل دینے کا باقاعدہ اعلان کیا۔اس تنظیم کو تنظیم کو ’تحریکِ طالبان مہمند ایجنسی‘ کا نام دیکر عمر خالد کو امیر جبکہ مولانا گل محمد کو نائب امیر مقرر کردیا گیا۔ اس کے بعد دسمبر 2007 میں طالبان کے مختلف گروپوں کے تقریباً بیس نمائندوں کا ایک اجلاس منعقد ہوا جس میں ’ تحریک طالبان پاکستان‘ کے نام سے ایک نئی تنظیم کا قیام عمل میں لایا گیا۔جس کے امیر بیت اللہ محسود اوو ترجمان مولوی عمر نامی شخص کو چنا گیا اور جو بیان آپ نے ڈان میں ملاحظہ کیا وہ جنوری 2008 کا ہے چنانچہ یہ بات ذہن میں رکھیں کہ افغان طالبان نے تحریک طالبان پاکستان کے قیام کے بہت جلد اس تنظیم سے لا تعلقی کا اعلان کیا۔اس تنظیم کے قیام سے قبل افغان طالبان اور مقامی قبائلی رہنماوں یعنی بیت اللہ محسود وغیرہ میں یقینا نظریاتی ہم رہی ہو جبھی اس تنظیم کا نام تحریک طالبان پاکستان رکھا گیا ۔اس کے باوجود یہ کہنا کہ اس تنظیم کے ساتھ افغان طالبان کے روابط ہیں یہ حقائق کے خلاف بات ہے کیوں کہ دونوں طرف سے اس سلسلے میں تردیدی بیان آچکا ہے۔
اگر افغانی طالبان واقعی محسود کے خلاف ہوتی اور اسے دہشتگرد، قاتل و خود کش حملوں کا مجرم سمجھ رہی ہوتی اور سمجھتی کہ محسود افغانی طالبان کو بدنام کر رہا ہے، تو اس سے کہیں زیادہ کھل کر اس سے اپنی براۃ ثابت کرتی اور بار بار کرتی اور کسی ایک انگریزی اخبار میں ایک آدھا ٹوٹا پھوٹا بیان دینے کی بجائے اردو اخبارات میں کھل کر اپنی براۃ کا اظہار کرتی۔

عمومی طور پر آپ کی تحاریر جذاتیت کا شاہکار اور حقائق اور حوالہ جات سے محروم ہوتی ہیں ۔یہ پوسٹ بھی اس کی ایک بدترین مثال ہے اس کے علاوہ آپ کی ڈیمانڈز بھی کافی جلدی جلدی تبدیل ہوتی رہتی ہیں اپنی پہلی پوسٹ پر نظر ڈالئیے
لوگ کہتے ہیں کہ افغانی طالبان محسود کی حمایت نہیں کرتی۔۔۔۔۔ تو یہ بس جھوٹی باتیں ہیں اور نہیں ہیں ان لوگوں کے پاس کوئی ثبوت سوائے بار بار حامد میر جیسے لوگوں کے ذریعے اس پروپیگنڈہ کے دہرانے کے ۔۔۔۔۔۔۔۔ اور دہرا دہرا کر باطل کو حق بنا دینے کے
یہاں آپ کہ رہی تھیں کہ ماسوئے حامد میر کے اور کوئی ثبوت نہیں کہ افغان طالبان نے پاکستانی طالبان سے براءت ظاہر کی ہو اور اب جب آپ کو افغان طالبان کا بیان دکھا دیا گیا تو اب آپ یہ کہ رہی ہیں
اگر افغانی طالبان واقعی محسود کے خلاف ہوتی اور اسے دہشتگرد، قاتل و خود کش حملوں کا مجرم سمجھ رہی ہوتی اور سمجھتی کہ محسود افغانی طالبان کو بدنام کر رہا ہے، تو اس سے کہیں زیادہ کھل کر اس سے اپنی براۃ ثابت کرتی اور بار بار کرتی اور کسی ایک انگریزی اخبار میں ایک آدھا ٹوٹا پھوٹا بیان دینے کی بجائے اردو اخبارات میں کھل کر اپنی براۃ کا اظہار کرتی۔
پہلے تو یہ سمجھ لیجئے کوئی پریس کانفرنس اٍفغان طالبان کسی فائیو اسٹار ہوٹل منعقد کرتے نہیں ہیں نا ہی یہ کوئی جائداد سے محرورمی کے اشتہار کی طرح ہے نہ ہی کسی بڑی پروڈکٹ کے اشتہاری کمپین کی طرح ہے کہ ایک ہفتے تک پہلے صفحے پر بڑے بڑے اشتہار آئیں تاہم آپ کی اطلاع کے لیے عرض ہے کہ ایسا ہی ایک اور بیان جنگ میں بھی چھپ چکا ہے پڑھیئے
کراچی (امین اللہ فطرت…نمائندہ خصوصی) طالبان اسلامی تحریک افغانستان کے مرکزی ترجمان کمانڈر محموداللہ حق یار نے پاکستان کی طالبان تحریک کے سربراہ بیت اللہ محسود کو ان کے عہدے سے ہٹائے جانے کی اطلاعات کو بے بنیاد اور گمراہ کن قرار دیا ہے اور کہا ہے کہ طالبان اسلامی تحریک پاکستان ایک خودمختار تحریک ہے اور بیت اللہ محسود اس کے سربراہ ہیں۔ اس تحریک میں ہماری جانب سے ڈکٹیشن اور فیصلے مسلط نہیں کئے جاتے۔ یہ بات انہوں نے نامعلوم مقام سے سیٹ لائٹ فون پر ”جنگ“ کو گفتگو کے دوران بتائی۔ انہوں نے کہا کہ تحریک طالبان کے سربرا ہ ملا محمد عمر کی جانب سے بیت اللہ محسود کو ہٹائے جانے کی اطلاعات ایک منظم منصوبہ بندی کا حصہ ہیں تاکہ غلط پروپیگنڈا کرکے تحریک طالبان پاکستان کو نقصان پہنچایا جائے، یہ سب کچھ میڈیا کی ایک مخصوص لابی اپنے مذموم عزائم کو پورا کرنے کیلئے کررہی ہے۔ ماضی کی طرح اب بھی ان کی یہ ڈس انفارمیشن اور منفی پروپیگنڈاکامیاب نہیں ہوسکے گا۔ اس لئے کہ تحریک طالبان پاکستان اسی طرح مضبوط اور منظم ہے جس طرح افغانستان میں طالبان کی تحریک تمام مظالم، ڈس انفارمیشن اور غلط پروپیگنڈے کے باوجود نہ صر ف فعال اور منظم ہے بلکہ افغانستان میں اس کے اثر و رسوخ اور عوامی پذیرائی کا دائرہ وسیع ہوتا جارہا ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ ملا محمد عمر نے بیت اللہ محسود کو کئی مرتبہ تجویز دی ہے کہ وہ پاکستانی فوج سے لڑنے کی بجائے بات چیت کے ذریعے مسئلہ کو حل کریں تو یہ تحریک کے لئے فائدہ مند ہوگا، تاہم ہمارے مشورے تجویز کی حد تک ہیں ان پر عملدرآمد کرنا یا نہ کرنا ان کے اپنے دائرہ اختیار میں آتا ہے، ہم ان پر اپنے فیصلے مسلط نہیں کرتے اور نہ ہی ان کو ڈکٹیشن دیتے ہیں تاہم ہماری ہمدردیاں اور حمایت مکمل طور پر ان کے ساتھ ہے۔ ایک سوال پر طالبان تحریک کے ترجمان نے کہا کہ افغانستان میں نیٹو میں شامل دو تین ممالک نے طالبان کو مذاکرات کی پیش کش کی ہے، ہم اس کو مسترد کرتے ہیں، تاہم جب تک وہ اپنی فوجیں افغانستان سے واپس نہیں بلالیتے بات چیت کا کوئی فائدہ نہیں ہوگا، جو ممالک مذاکرات چاہتے ہیں وہ امریکا کی حمایت ترک کرکے اپنی فوجوں کو واپس بلالیں، یہ ممکن ہی نہیں کہ وہ افغانستان میں موجود رہیں اور ہم ان سے مکالمہ کریں
۔
http://search.jang.com.pk/search_details.asp?nid=251030
یعنی یہ کہ افغان طالبان سے اگر پاکستانی طالبان کا کوئی تعلق ہے تو صرف اتنا کہ دونوں‌جماعتیں امریکی مخالف میں متفق ہیں یہ تعلق نظریاتی ہے نہ کہ افغان طالبان عسکری طور پر پاکستانی طالبان سے کوئی تعلق رکھتے ہیں جیسا کہ ترجمان نے ڈان میں کہا کہ
there Are Mujahideen In Iraq Who Have Taken Baya’h To Mullah Omar And There Are Mujahideen In Saudi Arabia Who Have Taken Baya’h To Him. So Taking Baya’h Does Not Mean That Mullah Omar Has Direct Operational Control Over Them,” The Spokesman Said
اور اس یہ بات بھی ثابت ہو جاتی ہے کہ بیت اللہ محسود اب پاکستانی فوج سے جو جھڑپیں کر رہا ہے اس کو افغان طالبان بھی پسند نہیں کر رہے۔اور یہ بھی المیہ ہے کہ بیت اللہ جو کہ امریکا کا مخالف تھا بعد ازاں پاکستانی فوج سے آمادہ جنگ ہو گیا۔
ان اخباری رپورٹوں کو میں کیسے نگل جاوں کہ مستقل افغانی طالبان کی طرف سے وفود آتے رہے اور مختلف پاکستانی طالبانی دھڑوں کو محسود کے تحت جمع ہونے کی ہدایات دیتے رہے؟

یہ اخباری رپورٹس اگر آُ پ شیئر کر سکیں تو ان پر بھی بات کی جاسکتی ہے۔

یہ دعوی تو ایک مذاق ہے مگر حیف کہ پروپیگنڈہ سے جھوٹ کو سچ اور سچ کو جھوٹ بنا دینا اور معصوم انسانوں کو گمراہ کر دینا چنداں مشکل ثابت نہیں ہوتا۔ محسود کے ترجمان ملا عمر کے متعلق یہ غیر ملکی اخبار کونسا ہے اور اسکے یہ دعوی کرنے کے ذرائع کیا ہیں؟
کیا محسود نے آگے بڑھ کر اس بات کی تکذیب کی؟ یہ اکلوتا سوال کافی ہے۔
مولوی عمر جو تحریک طالبان پاکستان کے ترجمان ہیں ان کے خودکش حملوں کے بارے میں دعوے عموما غلط ہو تے ہیں اور آپ مجھ سے پوچھ رہی ہیں کہ وہ غیر ملکی اخبار کون سا ہے جو یہ کہتا ہے کہ یہ حملہ پاکستانی طالبان کا نہیں اور جس سے مولوی عمر کا بیان غلط ثابت ہو جاتا ہے ؟ محترمہ مجھے آُ پ سے شکایت بے جا نہیں کہ آپ جذبات کی ایک ایسی اندھی ٹرین یک طرفہ چلاتی ہیں جہاں حقائق ، دلائل اور حوالوں کا کوئی گزر نہیں ہوتا اگر آپ تھوڑی زحمت کرتیں اور میری پہلی پوسٹ جس کے جواب میں آپ اس تھریڈ پر تشریف لائیں ہیں‌ پوری پڑھ لیتیں تو یہ سوال نہیں کرتیں لیجئے پھر پڑھ لیجئے
Thursday's Attack At Wah Is A Portend Of What Lies In Store For The Country. That Attack, Although Claimed By The Pakistan Taliban, Was Carried Out By Pakistani Criminal Gangs With Religious Orientations And Allied With The Takfiris
یہ رپورٹ ایشیا ٹائمز کی ہے اور لنک آپ سابقہ پوسٹ میں دیکھ سکتی ہیں ۔ اس رپورٹ کی تائید بی بی سی کے اس کالم سے بھی ہوتی ہے جس سے یہ تھریڈ شروع ہوئی تھی ذرا اس رپورٹ سے بھی کچھ اقتباسات دیکھیئے

یہاں پر ایک سوال یہ بھی ابھرتا ہے کہ جب کوئی کسی واقعے کی ذمہ داری قبول کرتا ہے تو کیا وہ قابل اعتبار ہوتا بھی ہے کہ نہیں؟ یہ سوال اس لیے بھی غور طلب ہے کہ گزشتہ کئی برس قبائلی علاقوں، صوبہ سرحد اور جنوبی و مشرقی افغانستان میں جاری شدت پسندی کے واقعات کو رپورٹ کرتے ہوئے میرا ایسی کئی مضحکہ خیز باتوں سے سامناہوا ہے جن سے میری نظروں میں ذمہ داری قبول کیے جانے کے عمل کو مشکوک بنادیا ہے۔ مثال کے طور پر۔۔۔۔۔

جب تین ستمبر کو اسلام آباد ہائی وے پر وزیراعظم یوسف رضا گیلانی کی گاڑی پر پُر اسرار فائرنگ ہوئی تو مجھے سکیورٹی فورسز کے ساتھ بر سرِ پیکار مسلح طالبان کے ایک معروف رہنماء نے فون کیا اور پوچھا کہ کیا نئی تازی ہے۔ میں نے وزیراعظم کی گاڑی پر فائرنگ کا واقعہ سنایا تو انہوں نے پہلے تو حیران ہوکر پوچھا ’اچھا یہ کب ہوا ہے۔۔۔؟‘ پھر تھوڑی دیر بعد ہنستے ہوئے کہنے لگے ’خبر چلا کر ہمارے ہی کھاتے میں ڈال دو اور کہہ دو کہ یہ باجوڑ اور سوات کے آپریشن کا ردعمل ہے‘۔


دوسری مثال تین جون دو ہزار چار کی ہے جب کراچی میں کور کمانڈر کے موٹر کیڈ پر حملہ ہوا۔ اس دن بی بی سی پشتو کے نامہ نگار نے جنوبی وزیرستان میں ایک معروف طالب کمانڈر کو وانا میں جاری حکومتی کارروائی کے سلسلے میں ان کا مؤقف جاننے کے لیے فون کیا۔ طالب کمانڈر نے حسب معمول حال و احوال کے بعد ملک کی صورتحال پوچھی۔ انہوں نے کور کمانڈر پر حملے کا واقعہ سنایا تو انہوں نے حیرت کا اظہار کرکے تفصیلات پوچھیں۔ بقول ہمارے نامہ نگار کے کسی اور موضوع پر انٹرویو جونہی شروع ہوا تو طالب کمانڈر نے کہا کہ ’آج کراچی میں کور کمانڈر پر ہونے والے حملے کی ذمہ داری ہم قبول کرتے ہیں اور یہ وانا میں جاری فوجی آپریشن کا ردعمل ہے‘۔


اس قسم کے اور بھی بہت سی مثالیں موجود ہیں۔ شاید اس کی بڑی وجہ یہی ہو کہ گزشتہ کئی سال کے دوران پاکستان میں ہونے والے دہشت گردی کے واقعات کے حوالے سے میڈیا اور لوگوں سے جان خلاصی کی خاطر درجنوں تحقیقاتی ٹیمیں تشکیل دینے کا اعلان تو کیا جاتا ہے لیکن اس سلسلے میں آج تک ایک بھی رپورٹ منظر عام پر نہیں لائی جاسکی ہے۔

جس سے مزید پیچیدگیاں پیدا ہوجاتی ہیں کیونکہ کسی بھی واقعہ کی بظاہر ذمہ داری تو تحریکِ طالبان قبول کرلیتی ہے جس میں سے کئی حملے انہوں نے کیے بھی ہونگے لیکن بعض اوقات پس پردہ سرگرم کچھ تنظیمیں، گروہ یا افراد کو بچ نکلنے کا موقع بھی مل جاتا ہے۔
بیت اللہ محسود اب کیوں اس طرح کے حملے یا ان کی ذمہ داری قبول کرتا ہے اس کا جوابآپ کو بی بی سی کی اس مذکورہ بالا رپورٹ میں مل سکتا ہے تاہم اس خراب صورت حال سے پہلے بیت اللہ محسود نے بھی ایسے حملوں کو رد کیا ہے میرا مشور آپ کو یہ ہے کہ نہ صرف بی بی سی کی یہ رپورٹ بلکہ جناب م م مغل صاحب نے جو دو کالم اسی تھریڈ میں دیے ہیں ان کو بھی بغور پڑھیئے ،چاہیں تو آنکھوں اور دماغ کے ساتھ دل بھی کشادہ کر لیجئے اور بغض معاویہ والی کیفیت سے باہر آجائے، کیونکہ آپ کی یہ پوسٹ حب علی کا تو پتہ نہیں دیتی البتہ بغض معاویہ کا شاہکار ضرور ہے۔


ور بی بی سی کی جو رپورت آپ نے پیش کی ہے اس میں تو کوئی ایسی بات نہیں جس سے افغانی طالبان کی محسودی طالبان سے براۃ ظاہر ہو رہی ہو، بلکہ یہ تو الٹی بات ثابت کر رہی ہے اور انکے آپس کے روابط کو ظاہر کر رہی ہے۔

اقتباس:
ابن حسن برادر کی بی بی سی کی پیشکردہ خبر سے اقتباس
:

آپ جو یہ کوٹ بی بی سی سے کر رہی ہیں یہ تو میں پہلے ہی اپنی پوسٹ میں نقل کر چکا ہوں لیکن آپ اس کو اپنی ڈسکوری قرار دے رہی ہیں؟ چلیں اسی طرح صحیح کچھ تو حوالے آپ کی پوسٹ میں دیکھنے کو ملے۔
مولوی عمر کا یہ بیان ناقابل قبول اس لیے ہے کہ جناب مولوی عمر اکثر متضاد بیانات دیتے ہیں حالانکہ افغان طالبان سے ان کا کچھ لینا دینا نہیں ہے پھر واہ کینٹ والا ان کا بیان غلط ثابت ہو چکا ہے چنانچہ جب تک ان کے اس بیان کی تائید میں افغان طالبان کا کوئی بیان سامنے نہیں آجاتا اس کو قبول کرنا مشکل ہے۔کیا آپ اس سلسلے میں کوئی افغان طالبان کا بیان پیش کر سکتی ہیں؟ اگر افغان طالبان اتنے ہی سرگرم عمل ہیں تو یقنا ان کی سرگرمیوں کے ثبوت محض مولوی عمر کے بیانات سے بڑھ کر ہونے چاہیں کوئی ایسی روپرٹس آپ کے پاس ہیں تو شیئر کیجئے۔

افغانی طالبان کے محسود سے روابط چھپی ڈھکی بات نہیں اور اسی زمانے میں اخبارات میں متعدد رپورٹیں شائع ہوئی تھیں جس میں افغانی طالبانی وفود کی پاکستان آمد اور تمام پاکستانی طالبانی گروہوں کو منظم ہو کر محسود کے تحت جمع ہونے کی ہدایات دی گئیں تھیں [اور اوپر رپورٹ میں جو کہا کہ یہ افغانی طالبانی وفد پہلے سے ہی مہمند ایجنسی میں موجود تھا، وہ اسی سلسلے میں وہاں آیا ہوا تھا]۔

حوالہ درکار ہے۔ محض آپ کی تقریر اس کو ثابت نہیں کر سکتی۔

برادر، جب میں نے قادیانی سٹوڈنٹز کے ساتھ غیر قانونی برتاو پر احتجاج کیا تو آپ نے مجھ پر غیر ضروری الزام عائد کیا تھا۔
آپ سے استدعا ہے جو کچھ آپ نے یہاں پر لکھا ہے اس پر عملی طور پر عمل کیجئے۔
والسلام۔
مہوش وہ غیر ضروری الزام کیا تھا۔میرے خیال میں اس سلسلے میں اپ پر میں نے کوئی ضروری یا غیر الزام عائد نہیں کیا کیا آپ وہ غیر ضروری الزام یہاں‌نقل کر سکتی ہیں؟
 
Top