’کہہ دو کہ آپریشن کا ردعمل ہے‘۔ عبدالحئی کاکڑ

جیا راؤ

محفلین
پاکستان کے دارالحکومت اسلام آباد میں واقع میریئٹ ہوٹل پر ہونے والے خودکش حملے کو اڑتالیس گھنٹے ہوچکے ہیں لیکن ماضی کے برعکس کسی نے ابھی تک اس کی ذمہ داری قبول نہیں کی ہے اور نہ ہی حکومت واضح طور پر کسی کی طرف انگلی اٹھا سکی ہے۔

وزیر اعظم یوسف رضاگیلانی نے اسے’ گوریلا وار‘ قرار دے کر محض قبائلی علاقوں میں غیر ملکی سرگرمیوں کی طرف اشارہ کیا ہے جبکہ مشیرِ داخلہ رحمٰن ملک نے بھی براہ راست کسی پر الزام لگانے سے اجتناب کیا اور کہا کہ اس سے قبل جتنے بھی خودکش حملے ہوئے ہیں ان کی کڑیاں قبائلی علاقوں سے جاکر ملتی ہیں۔

پاکستان میں ماضی میں ہونے والے کئی خودکش حملوں کی ذمہ داری تحریکِ طالبان پاکستان نے قبول کی ہے لیکن اس دفعہ وہ بھی خاموش ہیں۔ حکومت کی جانب سے براہ راست کسی کو ذمہ دار ٹھرانا اور کسی تنظیم یا گروہ کی جانب سے اس کی ذمہ داری قبول نہ کرنا اپنی جگہ اب ایک سوال بن گیا ہے۔

اس حملے میں امریکیوں سمیت چند غیر ملکی ہلاک ہوئے ہیں اور شاید یہ بھی ایک وجہ ہوسکتی ہے کہ حکومت اور اس میں مبینہ طور پر ملوث تنظیم یا گروہ اس حوالے سے ماضی کی طرح غیر ذمہ دارانہ بیان دینے سےگریز کررہے ہیں، کیونکہ دونوں اس وقت اس کے منفی نتائجسے خائف معلوم ہو رہے ہیں۔

میریئٹ ہوٹل پر خودکش حملے کی ذمہ داری قبول نہ کیے جانے سے پاکستانی اور بین الاقوامی میڈیا بھی پریشانی میں مبتلا ہو گیا ہے اور وہ خود کو دوسروں سے منفرد خبر دینے کی دوڑ میں حملے کی نوعیت، اس میں استعمال ہونے والے مواد، وقت اور ہدف کے انتخاب کو بنیاد بناکر ممکنہ ذمہ داران کی نشاندہی کے حوالے سے قیاس آرائیاں کر رہے ہیں۔

کوئی یہ خبر دے رہا کہ اس میں کالعدم شدت پسند تنظیم جیش محمد مبینہ طور پر ملوث ہوسکتی ہے تو کوئی یہ کہہ رہا ہے کہ اتنے بڑے پیمانے پر ہونے والی کارروائی القاعدہ جیسی تنظیم ہی کرسکتی ہے اور بعض مختلف کڑیاں ملاکر اس سے تحریکِ طالبان کے ساتھ جوڑنے کی کوشش کررہے ہیں۔ لیکن اس پورے منظر نامہ میں کسی کے پاس کوئی ٹھوس ثبوت موجود نہیں ہے۔

یہاں پر ایک سوال یہ بھی ابھرتا ہے کہ جب کوئی کسی واقعے کی ذمہ داری قبول کرتا ہے تو کیا وہ قابل اعتبار ہوتا بھی ہے کہ نہیں؟ یہ سوال اس لیے بھی غور طلب ہے کہ گزشتہ کئی برس قبائلی علاقوں، صوبہ سرحد اور جنوبی و مشرقی افغانستان میں جاری شدت پسندی کے واقعات کو رپورٹ کرتے ہوئے میرا ایسی کئی مضحکہ خیز باتوں سے سامناہوا ہے جن سے میری نظروں میں ذمہ داری قبول کیے جانے کے عمل کو مشکوک بنادیا ہے۔ مثال کے طور پر۔۔۔۔۔

جب تین ستمبر کو اسلام آباد ہائی وے پر وزیراعظم یوسف رضا گیلانی کی گاڑی پر پُر اسرار فائرنگ ہوئی تو مجھے سکیورٹی فورسز کے ساتھ بر سرِ پیکار مسلح طالبان کے ایک معروف رہنماء نے فون کیا اور پوچھا کہ کیا نئی تازی ہے۔ میں نے وزیراعظم کی گاڑی پر فائرنگ کا واقعہ سنایا تو انہوں نے پہلے تو حیران ہوکر پوچھا ’اچھا یہ کب ہوا ہے۔۔۔؟‘ پھر تھوڑی دیر بعد ہنستے ہوئے کہنے لگے ’خبر چلا کر ہمارے ہی کھاتے میں ڈال دو اور کہہ دو کہ یہ باجوڑ اور سوات کے آپریشن کا ردعمل ہے‘۔


دوسری مثال تین جون دو ہزار چار کی ہے جب کراچی میں کور کمانڈر کے موٹر کیڈ پر حملہ ہوا۔ اس دن بی بی سی پشتو کے نامہ نگار نے جنوبی وزیرستان میں ایک معروف طالب کمانڈر کو وانا میں جاری حکومتی کارروائی کے سلسلے میں ان کا مؤقف جاننے کے لیے فون کیا۔ طالب کمانڈر نے حسب معمول حال و احوال کے بعد ملک کی صورتحال پوچھی۔ انہوں نے کور کمانڈر پر حملے کا واقعہ سنایا تو انہوں نے حیرت کا اظہار کرکے تفصیلات پوچھیں۔ بقول ہمارے نامہ نگار کے کسی اور موضوع پر انٹرویو جونہی شروع ہوا تو طالب کمانڈر نے کہا کہ ’آج کراچی میں کور کمانڈر پر ہونے والے حملے کی ذمہ داری ہم قبول کرتے ہیں اور یہ وانا میں جاری فوجی آپریشن کا ردعمل ہے‘۔


اس قسم کے اور بھی بہت سی مثالیں موجود ہیں۔ شاید اس کی بڑی وجہ یہی ہو کہ گزشتہ کئی سال کے دوران پاکستان میں ہونے والے دہشت گردی کے واقعات کے حوالے سے میڈیا اور لوگوں سے جان خلاصی کی خاطر درجنوں تحقیقاتی ٹیمیں تشکیل دینے کا اعلان تو کیا جاتا ہے لیکن اس سلسلے میں آج تک ایک بھی رپورٹ منظر عام پر نہیں لائی جاسکی ہے۔

جس سے مزید پیچیدگیاں پیدا ہوجاتی ہیں کیونکہ کسی بھی واقعہ کی بظاہر ذمہ داری تو تحریکِ طالبان قبول کرلیتی ہے جس میں سے کئی حملے انہوں نے کیے بھی ہونگے لیکن بعض اوقات پس پردہ سرگرم کچھ تنظیمیں، گروہ یا افراد کو بچ نکلنے کا موقع بھی مل جاتا ہے۔

اگرچہ بعض اوقات مشیرِ داخلہ رحمٰن ملک واقعے کے بعد ابتدائی تفتیش کو بنیاد بنا کر کسی تنظیم یا گروہ کو مورد الزام ٹھرا بھی دیتے ہیں مگر ضمنی انتخابات کے التواء کے حوالے سے صوبہ سرحد کی حکومت کو مشورہ دینے کے قضیے، آئی ایس آئی کو وزارت داخلہ کے ماتحت کرنے اور پھر اس سے مُکرنے، سوات کے طالبان کے ساتھ امن معاہدے توڑنے کے اعلان اور پھر اس سے انکار کرنے جیسے معاملات کی وجہ سے اب زیادہ تر لوگ انکی باتوں کو سنجیدگی سے نہیں لیتے۔

اب بھی ہدف کے حوالے سے وزیراعظم یوسف رضا گیلانی اور مشیرِ داخلہ کے بیان میں واضح تضاد موجود ہے۔ وزیراعظم کا کہنا ہے کہ ہدف پارلیمنٹ یا وزیر اعظم ہاؤس تھا جبکہ رحمٰن ملک کا کہنا ہے کہ حملے کا ہدف میریٹ ہوٹل ہی تھا۔

مبصرین کے خیال میں حکومت کو میریئٹ ہوٹل پر ہونے والے خود کش حملے کی سنجیدگی سے تحقیقات کرنی چاہیئے اور اس کے ساتھ ساتھ ماضی میں ہونے والی تمام تحقیقاتی رپورٹوں کو یکجا کرکے ان کا بغور جائزہ لیکر ٹھوس نتائج اخذ کیے جانے چاہئییں۔ اور بعد میں اس سے پارلیمنٹ کے ذریعے عوام کے سامنے پیش کردیں تاکہ پوری قوم پر صورتحال واضح ہوجائے ۔

اس طریقے سے حکومت منتخب اراکین پارلیمنٹ اور عوام کو دہشت گردی کے خلاف جاری جنگ میں شریک کرنے کا احساس دلا کر ان سے بہتر طور پر مدد لے سکتی ہے۔

بی بی سی اردو
 

مغزل

محفلین
میں بھی آپ کی رائے سے متفق ہوں شمشاد بھائی۔
یہ پری پلان ڈرامہ تھا جس میں قادیانیوں اور آغا خانیوں
کو نئے سرے سے تقویت پہنچانا مقصود تھا۔ ہوٹل کا مالک
صدرالدین ہاشوانی کٹر عصبیت پسند آغا خانی ہے ، ہاشوانی
آغا خانی کو ہی کہتے ہیں۔
ایک سوال : کیا ہوٹل میں صرف ایک کلوز سرکٹ کیمرہ نصب تھا ؟؟
اگر ایسا ہے تو کیسی مضحکہ خیز بات ہے اور اگر نہیں ۔۔ تو باقی کیمروں
کی فوٹیج کہاں ہے ؟؟۔
 

شمشاد

لائبریرین
اللہ اپنا رحم کرے۔
اگر دیکھا جائے تو یہ وہی حالات پیدا کیئے جا رہے ہیں جو بنگلہ دیش بننے سے پہلے پاکستان کے حالات تھے۔
 

جیا راؤ

محفلین
ایک سوال : کیا ہوٹل میں صرف ایک کلوز سرکٹ کیمرہ نصب تھا ؟؟
اگر ایسا ہے تو کیسی مضحکہ خیز بات ہے اور اگر نہیں ۔۔ تو باقی کیمروں
کی فوٹیج کہاں ہے ؟؟۔

بم دھماکے کی تحقیق کرنے والی ٹیم نے بھی پیر کی صبح ہوٹل کا آخری مرتبہ جائزہ لیا اور بعض ملازمین سے سوالات کیے۔تاہم عمارت کی چوتھی منزل پر بعض کمروں میں درجہ حرارت زیادہ ہونے کے باعث کسی کو بھی عمارت کے اس حصے میں جانے سے منع کر دیا گیا ہے۔ :rolleyes:

۔پیپلزپارٹی کے بہت سے ارکان قومی اسمبلی اور انکے دوستوں کی شہادت کے مطابق امریکی سفارتخانے کے ایک بہت بڑے سفید ٹرک سے فولادی بکس اتارے گئے اور انہیں میریٹ ہوٹل کے اندر منتقل کر دیا گیا ، یہ واقعہ اسی رات پیش آیا تھا جب امریکی ایڈمرل مائیک میولن وزیر اعظم یوسف رضاگیلانی اور دیگر سے ملے تھے۔ ہوٹل کے دونوں مرکزی دروازے بند کردیئے گئے تھے اور امریکی میرینز کے علاوہ کسی کو ٹرک کے قریب جانے کی اجازت نہیں تھی ۔یہ فولادی بکس ان اسکینرز سے بھی نہیں گزارے گئے تھے جو کہ ہوٹل کی لابی کے داخلی راستے پر نصب تھے ، مبنیہ طور پر ان بکسوں کو ہوٹل کی چوتھی اور پانچویں منزل پر منتقل کر دیا گیا۔



کیا کہئیے گا۔۔۔۔ ؟؟ :rolleyes::rolleyes:
 

امکانات

محفلین
امریکہ اور فوج میں سرد جنگ سپلائی روکنے کے ردعمل سے کھل کر سامنے آگئی ہے یہ اگر چہ ردعمل وقتی ثابت ہوا مگر فوج کے صبر کے پیمانے کا لبریز ہونا واضح کر گیاہے امریکی فوج کا سامان ہمارے سیکورٹی اداروں کی لاعلمی میں لا یا جاتا ہے اس امریکی دھونس کے آگے حکومت خاموش ہے کہ امریکہ نے حکومت سازی کا آحسان کیا تھا اب لےدے کہ لوگوں کی نظریں ایک بار پھر فوج کی جانب اٹھ رہی ہیں‌ آج یا کل دیر ہو یا سویر ایک اور مارشل لاء ہمارامستقبل بننے والا ہے حکومت سفارتی سطح پر امریکی حملے روکنے میں نا کام ہوگئی ہے غالبا عسکریت پسندوں‌کو امید تھی کہ نئی حکومت حملے رکوائے گئ مگر وفاقی وزیر دفاع نے جس طرح مجبوری کا رونا رویا اس نے ہر پاکستانی کا دل چھلنی کر دیا یہ عسکریت پسندوں کی مایوسی کی انتہا ء تھی یہ کام جس کسی نے کیا اس کی انٹیلی جنس تیز ضرور ہے ایک رات پہلے امریکی فوجی بکسوں میں کیا بھر کر لائے تھے یہ جان لینا کسی جنگلی دیہاتی،ان پڑھ، جاہل اجڈ، گوار کا کام ہرگز نہیں،پاکستان میں اتنی تیز ترین انتیلی جنس جنگلیوں کی نہیں ہو سکتی اگرکوئی صاحب یہ سادہ سی بات نہ مانیں اوراس حملے کا الزام امریکہ مخالف قوتوں پر ڈالنے پر مصر دہیں تو اس مفروضے کی صورت میں یہ تسلیم کرنا پڑے گا کہ القاعدہ کی انٹیلی جنس امریکہ سے تیز ہے امریکہ نے جتنے میزائل حملے کیے ان میں سویلین کا نقصان ہی ہوا سو حملوں میں‌سے ایک دہست گر د مارا گیا یہ بھی ہوسکتا ہے اتنی بمباری سے وہ اتفاقا مارا گیا ہو مگر امریکی املاک پر پاکستان میں جتنے حملے ہوئےہیں یہ انتہائی مشکل ہدف ہر ہوئے جن کے بارے میں عام لوگوں کو ذرا بھی معلومات نہ تھیں کیا یہ کوئی تسلیم کریگا کہ القاعدہ کی انٹیلی جنس بہت مضبوط ہے ایسے ملک میں جہاں طالبان کا توسو میں ایک آدہ حامی نکل آئے گا مگراس قاعدے کلیے کا کوئی نہیں
 

خرم

محفلین
امریکی بکسوں میں خانہ خراب بھی بھر کر لاسکتے ہیں اور رمضان کی وجہ سے اس کی تلاشی لئے جانا شائد ایک ہنگامہ کا سبب بھی بن جاتا۔ اگر یہ کہا جارہا ہے کہ امریکی ان بکسوں میں کوئی انتہائی حساس دھماکہ خیز مواد بھر کر لائے تھے تو کیا ان کا مقصد پاکستان کی پارلیمنٹ کو اُڑانا تھا، ایوان صدر پر قبضہ کرنا تھا یا اسلام آباد پر قبضہ کرنا؟ کوئی ایک مفروضہ بھی تو ہو جو اس تمام کہانی کا پس و پیش منظر بیان کرے کہ بقول چند اصحاب کے انتہائی اہم فوجی نوعیت کا مواد ایک ہوٹل کے کمرے میں رکھا گیا۔ آخر کیوں؟؟؟؟
ہاشوانی کی تو زرداری سے پُرانی لگتی ہے اور آغاخانیوں کے خلاف غصہ کی سمجھ نہیں آئی کہ ہاشوانی کے ہوٹل تو پاکستان میں اس وقت سے ہیں جب ہم ابھی کاکے تھے (ایک وقت ایسا بھی تھا)۔
 

امکانات

محفلین
گو نہیں اچھی مگر
بات د ل کو لگتی ہے

کیا کہا جائے ۔ ؟؟

ہمارے حضرت مغل اعظم صاحب یہ کیسے ہوسکتا ہے کہ اچھی بھی نہ لگے اور دل کو بھی لگے یہ آپ کا دل ہے یا بجلی کا بل دل کو جو چیز اچھی نہیں لگتی تو اس کا کچھ بھی اچھا نہیں‌ لگتا پتہ نہیں یہ جن بزرگ شاعر کا کلام ہے وہ یہ حقیقت کیوں بھول گئے تھے معذرت اس شاعر کی روح سے اور آپ سے دونوں ہاتھ جوڑ کر معافی کہ کسی شاعر کے کلام پر جرح کرنے سے آپ کو بھی دکھ ہوا ہوگا کیو ں کہ وہ کوئی شاعر بھی تھے آخر آپ کی برادری کےتھے ( دانت نکال کر منہ پھاڑ کرمسکراتے ہوئے (
 

فاروقی

معطل
امریکی بکسوں میں خانہ خراب بھی بھر کر لاسکتے ہیں اور رمضان کی وجہ سے اس کی تلاشی لئے جانا شائد ایک ہنگامہ کا سبب بھی بن جاتا۔ اگر یہ کہا جارہا ہے کہ امریکی ان بکسوں میں کوئی انتہائی حساس دھماکہ خیز مواد بھر کر لائے تھے تو کیا ان کا مقصد پاکستان کی پارلیمنٹ کو اُڑانا تھا، ایوان صدر پر قبضہ کرنا تھا یا اسلام آباد پر قبضہ کرنا؟ کوئی ایک مفروضہ بھی تو ہو جو اس تمام کہانی کا پس و پیش منظر بیان کرے کہ بقول چند اصحاب کے انتہائی اہم فوجی نوعیت کا مواد ایک ہوٹل کے کمرے میں رکھا گیا۔ آخر کیوں؟؟؟؟

ہاشوانی کی تو زرداری سے پُرانی لگتی ہے اور آغاخانیوں کے خلاف غصہ کی سمجھ نہیں آئی کہ ہاشوانی کے ہوٹل تو پاکستان میں اس وقت سے ہیں جب ہم ابھی کاکے تھے (ایک وقت ایسا بھی تھا)۔

اب خانہ حراب کوئی ایسی خفیہ چیز بھی نہیں رہی کہ امریکی اسے چھپاتے پھریں.......جو امریکی رمضان میں قبا ئلیوں پہ بم مار کر انہیں مار سکتے ہیں ..........کیا وہ شراب چھپاتے پھریں گے.........:laugh:

کہتے ہیں ٹرک حملے میں گیس پائپ لائن پھٹی تھی جس سے آگ پھیلی .......کیا ایک گیس پائپ لائن پھٹنے سے اتنی تباہی......؟یا پھر گیس ہوٹل سے نکلتی تھی کہ پھٹنے سے اتنی تباہی پھیل گئی........:confused:
 

امکانات

محفلین
امریکی بکسوں میں خانہ خراب بھی بھر کر لاسکتے ہیں اور رمضان کی وجہ سے اس کی تلاشی لئے جانا شائد ایک ہنگامہ کا سبب بھی بن جاتا۔ اگر یہ کہا جارہا ہے کہ امریکی ان بکسوں میں کوئی انتہائی حساس دھماکہ خیز مواد بھر کر لائے تھے تو کیا ان کا مقصد پاکستان کی پارلیمنٹ کو اُڑانا تھا، ایوان صدر پر قبضہ کرنا تھا یا اسلام آباد پر قبضہ کرنا؟ کوئی ایک مفروضہ بھی تو ہو جو اس تمام کہانی کا پس و پیش منظر بیان کرے کہ بقول چند اصحاب کے انتہائی اہم فوجی نوعیت کا مواد ایک ہوٹل کے کمرے میں رکھا گیا۔ آخر کیوں؟؟؟؟
ہاشوانی کی تو زرداری سے پُرانی لگتی ہے اور آغاخانیوں کے خلاف غصہ کی سمجھ نہیں آئی کہ ہاشوانی کے ہوٹل تو پاکستان میں اس وقت سے ہیں جب ہم ابھی کاکے تھے (ایک وقت ایسا بھی تھا)۔

آپ کی خانہ خراب سے مراد غالبا شراب ہے بات معقول ہے مگر کیا پورا سال امریکی شراب لاتے رہتے ہیں‌ انہوں نے تو چیکنگ کبھی نہیں‌ کرائی ان کے ہر قسم کے سامان کو سفارتی کور میں لایا جاتاہے جسے سفارتی پروٹوکول حاصل ہوتاہے چاہے وہ سامان بعد میں افغانستان ہی‌کیوں‌نہ بھیج دیا جائےکیا امریکی پورا سا ل شراب لاتے ہیں اور پورا سال رمضان ہوتا ہے
 

شمشاد

لائبریرین
اور وہ گیس کی پائپ لائن آئی بھی ہوٹل کی پانچویں منزل سے تھی جبکہ باورچی خانہ کچھ تو تہ خانے میں ہے اور کچھ زمینی منزل پر۔
 

مغزل

محفلین
امریکی بکسوں میں خانہ خراب بھی بھر کر لاسکتے ہیں اور رمضان کی وجہ سے اس کی تلاشی لئے جانا شائد ایک ہنگامہ کا سبب بھی بن جاتا۔ اگر یہ کہا جارہا ہے کہ امریکی ان بکسوں میں کوئی انتہائی حساس دھماکہ خیز مواد بھر کر لائے تھے تو کیا ان کا مقصد پاکستان کی پارلیمنٹ کو اُڑانا تھا، ایوان صدر پر قبضہ کرنا تھا یا اسلام آباد پر قبضہ کرنا؟ کوئی ایک مفروضہ بھی تو ہو جو اس تمام کہانی کا پس و پیش منظر بیان کرے کہ بقول چند اصحاب کے انتہائی اہم فوجی نوعیت کا مواد ایک ہوٹل کے کمرے میں رکھا گیا۔ آخر کیوں؟؟؟؟
ہاشوانی کی تو زرداری سے پُرانی لگتی ہے اور آغاخانیوں کے خلاف غصہ کی سمجھ نہیں آئی کہ ہاشوانی کے ہوٹل تو پاکستان میں اس وقت سے ہیں جب ہم ابھی کاکے تھے (ایک وقت ایسا بھی تھا)۔


مجھے امید تھی کہ آپ (وگرنہ پوری یو ایس اے کاسہ لیس ٹیم میں سے کوئی ایک ) تشریف لائیں گے امریکہ کا حقِ نمک ادا کرنے ویسے اگر آپ یہ وضاحتیں میڈیا پر آکر دیں تو کم از کم ہم ایسے جہلا ء امریکہ شریف کے بارے میں منھ سے اناپ شناپ نہ نکالیں اور پوری پاکستانی قوم جو امریکہ نامی خناق میں مبتلا ہے ۔۔۔ بسترمرگ پر نہ پڑے۔۔۔ کبھی یہاں تشریف لائیے ۔۔ اور زمینی حقائق ملاحظہ کیجے ۔ممکن ہے آپ کو احساس ہوجائے کہ پوری پاکستانی جاہل قوم کیوں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ آپ کے ممدوح و مربی ملت امریکہ بہادر کو ذمہ دار خیال کرتی ہے ۔ باقی جو جناب خیال کیجئے۔
 

وجی

لائبریرین
بھائی بہت ساری باتیں ہیں جو کہیں جاسکتیں ہیں بہت سارے نقاد ہیں جن پر سوچا جاسکتا ہے
لیکن جو کچھ ہورہا ہے وہ پاکستان کے لئے اچھا نہیں ہے

ویسے شراب انکو اسی جگہ سے لانی تھی ؟؟ انکو تو ایک ائیر بیس ملی ہوئی ہے وہاں سے کس نے پوچھنا تھا وہاں سے کیوں نہیں لائے
جب کوئی زمین تیار کرنی ہوتی ہے تو اس میں اپنا بھی نقصان بھی کروانا پڑتا ہے
زمین تیار ہورہی ہے اب آگے آگے دیکھیں کیا ہوتا ہے
لیکن یہ بات کچھ سمندر پار اور جذباتی پاکستانی لوگوں کو سمجھ نہیں آئے گی
 

مغزل

محفلین
لے دے کے جذبات ہی رہ گئے ہیں جناب ۔۔ مگر وہ بھی کوسنے دینے کو۔
کوئی راہ نہیں سجھائی دیتی۔۔ کچھ دن قبل مجھے ایک ہندوستانی فلم
دیکھنے کا شرف حاصل ہوا موضوع یہی تھا ۔۔ فلم کا نام تو معلوم نہ
ہوسکا مگر ۔۔ کچھ یاداشت سے : کہ اس میں مرکزی کردار نصیرالدین
شاہ کا تھا جو دہشت گردوں کو پولیس کی حراست سے نکلوا کر بموں
سے اڑا دیتا ہے۔۔ ممکن ہے آئندہ ایسا یہاں ہو۔
اگر ایسا ممکن ہوا تو ۔۔۔۔۔۔۔ مزید برائی ۔۔۔۔۔۔ نہ ہوا تو مزید برائی
 

ساجداقبال

محفلین
اب یہ تو انتہائی بودی دلیل ہے کہ شراب لائی گئی، پہلے کیا میریٹ میں کم تھی؟ ہاشوانی کو کٹر آغاخانی وغیرہ قرار دینا زیادتی ہے، جو بھی ہے آجتک میں نہیں سنا کہ کوئی انکے ہوٹل کا ملازم ان سے متنفر ہو۔ متاثرین کی جاب سیکیورٹی کی یقین دہانی اور ہلاک شدگان کے بچوں کی کفالت انتہائی احسن اقدام ہیں، ایسے تو شاید ہماری اہل ایمان حکومت نے ایف آئی اے والے واقعے میں بھی نہ کیا ہو۔
 

محسن حجازی

محفلین
مجھے امید تھی کہ آپ (وگرنہ پوری یو ایس اے کاسہ لیس ٹیم میں سے کوئی ایک ) تشریف لائیں گے امریکہ کا حقِ نمک ادا کرنے ویسے اگر آپ یہ وضاحتیں میڈیا پر آکر دیں تو کم از کم ہم ایسے جہلا ء امریکہ شریف کے بارے میں منھ سے اناپ شناپ نہ نکالیں اور پوری پاکستانی قوم جو امریکہ نامی خناق میں مبتلا ہے ۔۔۔ بسترمرگ پر نہ پڑے۔۔۔ کبھی یہاں تشریف لائیے ۔۔ اور زمینی حقائق ملاحظہ کیجے ۔ممکن ہے آپ کو احساس ہوجائے کہ پوری پاکستانی جاہل قوم کیوں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ آپ کے ممدوح و مربی ملت امریکہ بہادر کو ذمہ دار خیال کرتی ہے ۔ باقی جو جناب خیال کیجئے۔

ویسے ہمارا معصوم سا سوال ہےکہ شراب ڈھونے کے مقدس عمل کو امریکی فوجی بقلم خود انجام دیتے ہیں؟ :eek: :eek:
کوئی قلی کوئی ساقی بھی تو ہوگا کہ نہیں؟ :confused:
 

مغزل

محفلین
ہاشوانی کو کٹر آغاخانی وغیرہ قرار دینا زیادتی ہے، جو بھی ہے آجتک میں نہیں سنا کہ کوئی انکے ہوٹل کا ملازم ان سے متنفر ہو۔ متاثرین کی جاب سیکیورٹی کی یقین دہانی اور ہلاک شدگان کے بچوں کی کفالت انتہائی احسن اقدام ہیں، ایسے تو شاید ہماری اہل ایمان حکومت نے ایف آئی اے والے واقعے میں بھی نہ کیا ہو۔

قبلہ کیا کیا جاسکتا ہے اگر آپ کے علم میں نہیں یہ بات کہ ہاشوانی دراصل آغاخانی (اسماعیلی) ہی ہے۔

جنگ 12 مئی 2008 خبر ملاحظہ کیجئے۔
کراچی (اسٹاف رپورٹر) اسماعیلیہ سپریم کونسل کے چیئرمین حضور مکھی اقبال صدر الدین وال جی نے کہا ہے کہ انسانیت کی خدمت سب سے بڑی عبادت ہے اور مکھی ہاشو تہرانی نے اس قول کو انسانیت کی خدمت کر کے سچ کر دکھایا۔ ان کی زندگی عبادت‘ ریاضت‘ روحانیت‘ محنت‘ ایمانداری اور انسان دوستی پر مبنی تھی۔ ان خیالات کا اظہار انہوں نے اتوار کو معروف تاجر صدر الدین ہاشوانی کے آبائی گھر واقع لاسی لی مارکیٹ کو پہلے اسماعیلیہ میوزیم میں تبدیل کرنے کے موقع پر تقریب سے خطاب کرتے ہوئے کیا۔ اس موقع پر معروف قانون دان فخر الدین جی ابراہیم‘ سابق گورنر سندھ کمال اظفر‘ سلطان الانہ توقیر چغتائی‘ اکبر کرمانی اور دیگر اہم شخصیات بھی موجود تھیں۔ قبل ازیں صدر الدین ہاشوانی کے تاریخی آبائی گھر کو میوزیم میں تبدیل کرنے کا افتتاح کیا۔ اقبال صدر الدین نے کہا کہ وہ قوم کبھی ترقی حاصل نہیں کر سکتی جو اپنی تہذیب سے آگاہ نہیں ہوتی۔ صدر الدین ہاشوانی کا تاریخی کام نوجوانوں کے لئے مشعل راہ ہو گا جو زندگی میں کامیابیاں حاصل کرنا چاہتے ہیں مکھی ہاشو ان کے لئے رول ماڈل ہوں گے مکھی ہاشو کی زندگی ڈسپلن سے عبارت تھی جس شخص کی زندگی میں ڈسپلن نہیں ہو گا وہ ترقی حاصل نہیں کر سکتا۔ انہوں نے کہا کہ مکھی ہاشو کی کامیاب زندگی کا راز یہ تھا کہ وہ دوسروں کے بارے میں سوچتے تھے۔ انہوں نے کہا کہ تاریخی عمارتیں قوموں کی ترقی کا سبب بنتی ہیں اور جو قومیں اپنے تاریخ کو یاد نہیں رکھتیں تو وہ قومیں اپنی شناخت کھو دیں گی۔ قبل ازیں صدر الدین ہاشوانی نے اپنے خاندان کے تاریخی پس منظر پر تفصیلی روشنی ڈالی، انہوں نے کہا کہ مکھی ہاشو میوزیم میں ہماری کئی نسلیں رہتی رہی ہیں، یہ گھر 1894 میں 6 ہزار روپے میں برتم لاس سے خریدا گیا تھا اور 1905 میں یہاں سلطان محمد شاہ تشریف لائے تھے امام نے مکھی ہاشو کو اسماعیلیہ سپریم کونسل کا پہلا صدر بنایا تھا ہمارے خاندان نے ایران سے ہجرت کی ان میں سے کچھ گوادر‘ پسنی‘ جیوانی میں ٹھہر گئے اور کچھ کراچی آگئے۔ مکھی ہاشو نے چھوٹے پیمانے پر کام شروع کیا ان کی ایمانداری کو دیکھتے ہوئے ایک ملٹی نیشنل کمپنی نے انہیں اپنا نمائندہ نامزد کردیا۔ انہوں نے کہا کہ مکھی ہاشو 95 برس کی عمر تک بلاتفریق انسانیت کی خدمت کرتے رہے انہیں امام آغا خان نے کراچی کے دورے کے موقع پر 1873ء میں مکھی بنایا اور وہ 1912 میں اس عہدے سے ریٹائر ہوئے وہ 1915ء میں اس گھر میں انتقال کر گئے۔ انتقال کرنے سے قبل انہوں نے سفید چادر منگوا کر منہ پر ڈالی اور کلمہ شہادت پڑھ کر جان دی انہوں نے کہا کہ ان کی محنت اور عبادت کا پھل پورا خاندان کھارہا ہے انہوں نے کہا کہ مکھی ہاشو کا زیادہ تر وقت عبادت اور ریاضت میں گزرتا تھا۔ بعد ازاں مکھی ہاشو میوزیم کا مہمانوں کو دورہ کرایا گیا جہاں نادر ونایاب تصاویر سمیت قرآن پاک کے قدیم اور نایاب نسخے، ہاتھ سے لکھے قرآن کریم کا نسخہ‘ پرانے زمانے کے برتن‘ لاسی جماعت کے رہنماؤں کی تصاویر، 1902 میں جیم خانہ کے 13 افراد کی تصاویر امام سلطان شاہ کی نادر تصویر سمیت استنبول اور شام کی تاریخی عمارتوں کی تصاویر شامل تھیں۔ جن کے ساتھ ان کی مکمل تاریخ بھی لکھی گئی تھی۔

اس ضمن میں میں کچھ نہیں‌کہوں کہ کن کی مدد ہورہی ہے ، کیا اعلان ہوا ہے ۔۔۔۔اور کس کی مدد کس مد میں کی جارہی ہے یا کی جائیگی، روٹی آپ بھی وہی کھاتے ہیں جو میں‌ کھاتا ہوں ۔۔ آپ خود سمجھ جائیں گے کہ یہ اعلان چہ معنی دارد ؟؟
رہی اہلِ ایمان حکومت کی بات ۔۔ تو مجھے پوری حکومتی مشینری میں‌سے کسی اہلِ‌ایمان کا نام بتا دیجئے ۔۔ ساری زندگی غلام رہوں گا۔ ساجد صاحب ۔۔ میں خوامخواہ رجائیت پسند نہیں ہوں ۔۔۔ حقائق پر نظر رکھنے کی کوشش کرتا ہوں۔۔ اور اللہ کے فضل سے تھوڑی بہت سمجھ بھی حاصل ہے ۔۔۔ آپ کے مراسلے کا انتظار ہے۔
 

مغزل

محفلین
(ہاشو گروپ کا) معدنیات اور جواہرتلاش کرنے کا ’’ زیور‘‘ نامی ادارہ گوادر کے ساحلوں پر تسلط کیلئے بستیاں بنارہا ہے۔
(مشرف کی پالیسی بھی پتہ چل جائے گی )
خبر ملاحظہ کیجئے
یہ خبر دیکھئے :
سونے اور قیمتی دھاتوں کی تلاش، ہاشوانی گروپ کا حکومت سندھ سے معاہدہ
کراچی( اسٹاف رپورٹر) سندھ کے تھر کے علاقے میں سونے اور دیگر قیمتی دھاتوں کے بڑے ذخائر کی موجودگی کا پتہ چلا ہے ، ان قیمتی دھاتوں میں چاندی، تانبا، ٹن اور زنک بھی شامل ہیں، یہ ذخائر ضلع نگرپارکر میں پائے جاتے ہیں۔ حکومت سندھ نے سونے اور دیگر قیمتی دھاتوں کی تلاش کیلئے پیر کو ہاشوانی گروپ کے ادارے زیور ( ZAVER) مائننگ کمپنی ( پرائیویٹ) لمیٹڈ کے ساتھ مفاہمت کی ایک یاد داشت ( ایم او یو) پر دستخط کیے۔ حکومت سندھ کی طرف سے ڈائریکٹر جنرل معدنی ترقی خالد مرزا اور زیور کی طرف سے وائس پریذیڈنٹ نصیر خان نے دستخط کیے، اس موقع پر سندھ کے وزیر معدنیات و معدنی ترقی عرفان اللہ خان مروت بھی موجود تھے۔
 

ساجداقبال

محفلین
(ہاشو گروپ کا) معدنیات اور جواہرتلاش کرنے کا ’’ زیور‘‘ نامی ادارہ گوادر کے ساحلوں پر تسلط کیلئے بستیاں بنارہا ہے۔
(مشرف کی پالیسی بھی پتہ چل جائے گی )
خبر ملاحظہ کیجئے
یہ خبر دیکھئے :
سونے اور قیمتی دھاتوں کی تلاش، ہاشوانی گروپ کا حکومت سندھ سے معاہدہ
کراچی( اسٹاف رپورٹر) سندھ کے تھر کے علاقے میں سونے اور دیگر قیمتی دھاتوں کے بڑے ذخائر کی موجودگی کا پتہ چلا ہے ، ان قیمتی دھاتوں میں چاندی، تانبا، ٹن اور زنک بھی شامل ہیں، یہ ذخائر ضلع نگرپارکر میں پائے جاتے ہیں۔ حکومت سندھ نے سونے اور دیگر قیمتی دھاتوں کی تلاش کیلئے پیر کو ہاشوانی گروپ کے ادارے زیور ( Zaver) مائننگ کمپنی ( پرائیویٹ) لمیٹڈ کے ساتھ مفاہمت کی ایک یاد داشت ( ایم او یو) پر دستخط کیے۔ حکومت سندھ کی طرف سے ڈائریکٹر جنرل معدنی ترقی خالد مرزا اور زیور کی طرف سے وائس پریذیڈنٹ نصیر خان نے دستخط کیے، اس موقع پر سندھ کے وزیر معدنیات و معدنی ترقی عرفان اللہ خان مروت بھی موجود تھے۔
بھائی جی میں نہیں کہہ رہا کہ ہاشو صاحب آغا خانی نہیں، ہونگے لیکن لفظ کٹر کچھ متعصب سا لفظ ہے، حالانکہ یہاں میریٹ اسلام آباد میں انکے ہر فرقے و مذہب کے ملازمین تھے، کبھی کسی نے نہیں کہا کہ مذہبی یا فرقے کے بنیاد پر ان سے زیادتی ہوئی ہے۔ میں آغا خانی عقائد سے حد درجہ اختلاف رکھتا ہوں لیکن میں انکی کاروباری صلاحیتوں کا معترف ہوں کیونکہ آغاخان یونیورسٹی، ہاسپٹل، میریٹ، پرل کانٹیننٹل، کلفٹن کے موتاز تک سب کاروباری و تعلیمی اداروں سے پاکستانیوں کو روزگار اور سہولیات مل رہی ہیں۔
رہی بات سندھ کے ذخائر کی تو میں بجائے غیرملکی کمپنیوں کو ایسے ٹھیکے سونپنے کے ہزار درجے بہتر سمجھتا ہوں کہ ملکی کمپنیوں کو ایسے ٹھیکے دئیے جائیں۔ گو یہ رپورٹ واضح ہونے میں ابھی کچھ وقت لگے گا لیکن کیا آپ نے ان رپورٹوں پر غور کیا جسمیں تھر کے کوئلے کے ذخائر کے ٹھیکے ہندوستانی امبانی گروپ کے حوالے کرنے کی خبریں ہیں؟
 
Top