’سوچنے والی مشینیں انسانی بقا کے لیے خطرہ‘

منقب سید

محفلین
141202155636_stephan_hawking__640x360_bbc_nocredit.jpg

پروفیسر سٹیون ہاکنگ گفتگو کے لیے جس ٹیکنالوجی کا استعمال کرتے ہیں وہ بھی مشینی و مصنوعی ذہانت کی بنیاد پر ہی تیار کی گئی ہے
برطانیہ کے معروف سائنس دان سٹیون ہاکنگ نے کہا ہے کہ سوچنے کی صلاحیت رکھنے والی مشینوں کی تیاری بقائے انسانی کے لیے خطرہ ثابت ہو سکتی ہے۔

انھوں نے آرٹیفیشل انٹیلی جنس یا ’مصنوعی ذہانت‘ کے بارے میں ایک سوال پر بی بی سی سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ’مکمل مصنوعی ذہانت نسلِ انسانی کے خاتمے کی دستک ثابت ہو سکتی ہے۔‘

اے ایل ایس نامی دماغی بیماری میں مبتلا ماہرِ طبیعیات پروفیسر سٹیون ہاکنگ گفتگو کے لیے جس ٹیکنالوجی کا استعمال کرتے ہیں وہ بھی آرٹیفیشل انٹیلیجنس یا مشینی و مصنوعی ذہانت کی بنیاد پر ہی تیار کی گئی ہے۔

سٹیون ہاکنگ بات چیت کے لیے امریکی کمپنی انٹیل کا بنایا ہوا نظام استعمال کرتے ہیں جس کی تخلیق میں برطانوی کمپنی سوئفٹ سے تعلق رکھنے والے مشینوں کے ماہرین بھی شامل تھے۔

پروفیسر ہاکنگ کا کہنا ہے کہ مصنوعی ذہانت اب تک جو شکل اختیار کر چکی ہے وہ اپنا لوہا منوا چکی ہے تاہم انھیں ڈر ہے یہ ترقی کسی ایسی تخلیق پر منتج نہ ہو جو ذہانت میں انسان کے ہم پلہ یا پھر اس سے برتر ہو۔

انھوں نے کہا ’یہ نظام اپنے طور پر کام شروع کر دے گا اور خود ہی اپنے ڈیزائن میں تیزی سے تبدیلیاں لائے گا۔‘

ان کا کہنا تھا کہ ’انسان جو اپنے سست حیاتیاتی ارتقا کی وجہ سے محدود ہے اس نظام کا مقابلہ نہیں کر سکے گا اور پیچھے رہ جائے گا۔‘

مصنوعی ذہانت اب تک جو شکل اختیار کر چکی ہے وہ اپنا لوہا منوا چکی ہے تاہم ڈر ہے یہ ترقی کسی ایسی تخلیق پر منتج نہ ہو جو ذہانت میں انسان کے ہم پلہ یا پھر اس سے برتر ہو۔
سٹیون ہاکنگ
پروفیسر ہاکنگ کی تنبیہ کے باوجود دیگر سائنس دان ’اے آئی‘ کے مستقبل کے بارے میں زیادہ پریشان نہیں ہیں۔

کلیوربوٹ نامی سافٹ ویئر کے خالق رولو کارپینٹر کے مطابق: ’مجھے یقین ہے کہ ہم ایک طویل عرصے تک اس ٹیکنالوجی کو کنٹرول کریں گے اور اس کی مدد سے دنیا کی بہت سے مشکلات کو حل کرنے کی صلاحیت کا اعتراف کر لیا جائے گا۔‘

کلیوربوٹ نامی اس سافٹ ویئر کی بناوٹ ایسی ہے جیسے عام انسان آپس میں بات کرتے ہیں۔

واضح رہے کہ کلیوربوٹ کا سافٹ ویئر ماضی کی گفتگو سے سیکھتا ہے اور ٹیورنگ ٹیسٹ کے دوران اس نے بہت زیادہ نمبر حاصل کیے ہیں۔

اس سافٹ ویئر کی خاصیت یہ ہے کہ یہ زیادہ تر لوگوں کو دھوکا دے سکتا ہے، جو یہ سمجھتے ہیں کہ وہ دوسرے انسانوں سے بات کر رہے ہیں۔

رولو کارپینٹر کے مطابق ہم مصنوعی ذہانت کو مکمل طور پر بنانے سے ابھی بہت دور ہیں تاہم مجھے یقین ہے کہ ایسا چند دہائیوں میں ممکن ہو سکے گا۔

ان کا کہنا ہے کہ اگر کوئی مشین اپنی ذہانت سے آگے نکل جائے گی تو کیا ہو گا، ہم اس بارے میں خاموش نہیں رہ سکتے تاہم ہم نہیں جانتے کہ ایسا کرنا مدد گار ہو گا یا نہیں۔

رولو کارپینٹر کا یہ بھی کہنا ہے کہ وہ شرط لگا سکتے ہیں کہ اے آئی ایک مفید طاقت ہو گی۔
بشکریہ بی بی سی لنک
 

سید عاطف علی

لائبریرین
میرے خیال میں تو آرٹیفشل انٹیلیجنس ہر حال میں نہ صرف اپنی تخلیق بلکہ ترویج وترقی میں بھی ہر سطح پر قدرتی ذہانت کی محتاج و مرہون ہے۔ سو خطرے کا سوال ہی نہیں۔اگر اس کےخطرے سے مراد اس کی ممکنہ پوٹینشل قوتوں سے ہے تو اس خطرے کی اصل بنیا د خود قدرتی ذہانت ہی ہے نہ کہ یہ آرٹیفشل انٹیلیجنس۔
 

arifkarim

معطل
میرے خیال میں تو آرٹیفشل انٹیلیجنس ہر حال میں نہ صرف اپنی تخلیق بلکہ ترویج وترقی میں بھی ہر سطح پر قدرتی ذہانت کی محتاج و مرہون ہے۔ سو خطرے کا سوال ہی نہیں۔اگر اس کےخطرے سے مراد اس کی ممکنہ پوٹینشل قوتوں سے ہے تو اس خطرے کی اصل بنیا د خود قدرتی ذہانت ہی ہے نہ کہ یہ آرٹیفشل انٹیلیجنس۔
انٹیلیجنس مصنوعی اسلئے ہوتی ہے کہ اسکی تخلیق انسان کرتا ہے نہ کہ قدرتی ارتقاء۔ زیک
 

سید عاطف علی

لائبریرین
انٹیلیجنس مصنوعی اسلئے ہوتی ہے کہ اسکی تخلیق انسان کرتا ہے نہ کہ قدرتی ارتقاء۔ زیک
جی ہاں یہ تو آپ نے بالکل درست کہا۔
لیکن اس سے انسان کی بقا کو خطرہ کیسے ہوگیا ؟ یہاں اسٹیون ہاکنگ کا استدلال غلط لگتا ہے۔
 

arifkarim

معطل
جی ہاں یہ تو آپ نے بالکل درست کہا۔
لیکن اس سے انسان کی بقا کو خطرہ کیسے ہوگیا ؟ یہاں اسٹیون ہاکنگ کا استدلال غلط لگتا ہے۔
شاید ہاکنگ کو یہ خوف طاری ہو گیا ہے کہ جیسے کیلکولیٹرز اور کمپیوٹرز کی آمد کے بعد انسانی حسابیات کی ضرورت باقی نہ رہی تھی، ویسے ہی مصنوعی ذہانت کی جدت کے بعد انسانی سائنسدانوں کی ضرورت باقی نہ رہے۔ :) دماغ لڑانے کیلئے انسان کی بجائے مشین کا استعمال کافی ہو۔ یعنی ہاکنگ کو اپنی کُرسی کی فکر لگ گئی ہے جیسے ہمارے یہاں حکمرانوں کو جب اپنی کُرسی خطرے میں نظر آتی ہے تو کہتے ہیں کہ جمہوریت خطرے میں ہے :)
 
Top