’خواتین کا عالمی دن‘

میں پچھلے ایک گھنٹے سے
بس اسٹاپ کھڑی ہوئی تھی
اور میری نظریں
آتے جاتے ہوئے ہر مرد پر
آتی جاتی ہوئی ہر گاڑی پر ٹِک جاتی تھیں
میں اس انتظار میں تھی

دیکھو۔۔۔۔ کب کوئی آنکھ اشارہ کرے!
سُنوں۔۔۔۔۔ کب کسی گاڑی کا ہارن بجے!
اورمیں سوچ رہی تھی
اگرمیں آج بھی خالی ہاتھ گھر لوٹی تو
مرے بچوں کو کل کی طرح
آج بھی بھوکا سونا ہوگا!
بس اس خیال کہ آتے ہی میری جان فنا ہونے لگی
اور اب
آتے ہوئے مردوں کو
اور جاتی ہوئی گاڑیوں کو
دیکھنے میں شدت آگئی تھی

گُذرے ہوئے پانچ سال کے ہر دن نے
مرے وجود پر اُنگلیوں کے اتنے نشان چھوڑتے تھے
جس نے
میرا حُلیہ ہی بگاڑ کے رکھ دیا تھا
اب مُجھے بھرے پیٹ والوں سے زیادہ

خالی پیٹ والے بھوکوں کو ڈھونڈنا پڑتا تھا
وہ بھوکے
جنھیں بھوک کی شدت میں باسی دال بھی
مُرغی کا مزہ دیتی ہے!

ابھی انھی خیالوں میں گُم تھی کہ مرے قریب
ایک موٹربائیک آکے رُکی
اُس شخص پر نگاہ پڑتے ہی میں نے سوچا

’چلو آج کے دن کے لئیے تو کوئی بھوکا مِلا‘

یہ بھوک بھی کتنی عجیب ہوتی ہے نا!
ایک بھوکے کی بھوک
کتنے بھوکوں کا پیٹ بھرنے کا سبب بنتی ہے!

بھوک کے اسی فلسفے کو سوچتے ہوئے
میرے ہونٹوں پر اک تلخ مُسکراہٹ اُبھرآئی

دو گھنٹے بعد میں جب اُس شخص کے گھر سے اُٹھی
حسبِ معُاہدہ اُس نے
میرے ہاتھوں پر کُچھ روپے رکھ دیئے

ارے یہ کیا؟
اس میں تو ایک سوکا نوٹ زیادہ ہے!
مرے اس سوال پر
اُس شُخص نے مُسکراتے ہوئے کہا
ہاں یہ سو کا نوٹ میں نے ہی زیادہ رکھا ہے
’آج خواتین کا دن ہے‘

تو بس ان پیسوں سے میری طرف سے دودھ پی لینا!

اور میں سوچ رہی تھی

اب یہ ’خواتین کا دن‘ بھلا کیا بَلا ہے؟

میری مُٹھی کی گرفت توبس یہ سوچ کر
اُس زائد ملنے والے سو کے نوٹ پر سخت ہوگئی تھی

کہ یہ ’خواتین کا دن ‘ بھی کتنا اچھا ہے جس نے

میرے بچوں کے کل دوپہر کے کھانے کا بھی
انتظام کردیاہے!

’ندیم جاوید عُثمانی‘
 

شمشاد

لائبریرین
دل کو چُھو لینے والی شاعری ہے اور معاشرے کا ناسور بھی۔

بہت شکریہ شریک محفل کرنے کا۔
 
Top