‘کلیاں اور شگوفے‘

سارا

محفلین
اینگری کلچر

ہماری ہاں وہ کلچر جس پر سب ایگری کرتے ہیں‘ایگری کلچر ہی ہے۔۔اس کے علاوہ سب اینگری کلچر ہے جیسے ہمارے ہاں کالج صرف اس لئے بنائے گئے ہیں کہ طلبہ کو جہالت کی تلاش میں مارا مارا نہ پھرنا پڑے۔۔ایسے ہی اینگری کلچر کی نمائش کے لیے فلمیں بنائی جاتی ہیں۔۔
ہمارے ہاں فلموں سے اس کا گھوڑا تک غصے میں ہوتا ہے‘ ہر کردار کو غصہ ہی آتا ہے۔۔یہاں تک کہ فلم دیکھنے کے بندے کو بھی یہی آتا ہے۔۔

(ڈاکٹر یونس بٹ کی تصنیف ‘قلابازیاں‘ سے اقتباس)
 

سارا

محفلین
مسعودی کی ایک حکایت

javediqbal26 نے کہا:
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ،

"مقدمہ ابن خلدون"
مسعودی کی ایک حکایت:
مسعودی پارسیوں کی تاریخ میں موبذان ہے۔جوبہرام بن بہرام کے زمانےمیں بانی مذہب تھا۔نقل کرتاہے۔ کہ موبذان الوکی زبان سے ایک کہانی سناکربادشاہ کواشاروں اشاروں میں ظلم وتعدی سے روکتاہے اوراسے اسکی بری عادتوں پرمتنبہ کرتاہے۔اوراسے خواب غفلت سے جگاتاہے۔واقعہ یہ ہے کہ ایک دن بادشاہ نے الوکی آوازسنی۔بولا۔موبذان!تم اس کی زبان سمجھتے ہو۔
موبذان: ہاں خوب سمجھتاہوں۔نرالومادین سے نکاح کرناچاہتاہے۔مادین کہتی ہے میں نکاح کے لئے تیارہوں بشرطیکہ تم مجھے بہرام کے زمانے کے بیس ویران گاؤں مہرمیں دو۔ نرکہتاہے مجھے یہ شرط منظورہے۔اگربہرام کی حکومت قائم رہی توبیس توبیس میں تجھے ایک ہزارویران گاؤں دے دوں گا۔(یہ خواب غفلت سے بیدارکرنے کابہترین و آسان طریقہ ہے)
یہ سن کربادشاہ چونک پڑتاہے اورموبذان کوتنہائی میں بلاکراس سے پوچھتاہے کہ اس سے تمہاراکیامقصدہے؟
موبذان عرض کرتاہے۔
عالیجاہ!ملک کی بقاشریعت کی پابندی اورحق تعالےکی اطاعت اوراس کے احکام بجالانے اورتبلیغ پرموقوف ہے۔اورشریعت کی بقابادشاہ پراوربادشاہ کی بقالوگوں پر،لوگوں کی بقامال پر،مال کی بقاآبادی پراورہرآبادی کی بقاانصاف پرہے۔انصاف ایک ترازوہے جواللہ نے اپنی مخلوق میں نصب فرمادی ہے۔اوراس کامنتظم بنادیاہے جوبادشاہ ہے۔عالیجاہ!آپ نے لوگوں سے اورانہیں آبادرکھنے والوں سے ان کی زمینیں چھین لیں حالانکہ انہی سے لگان وصول ہواکرتاتھااوراسی آمدنی سے خزانہ بھرارہتاتھا۔اورآپ نے یہ زمینیں ملازمین مقربین خاص،خدام واقارب واحباب کے نام کردیں انہوں نے زمینیں ویران چھوڑدیں۔اورویرانی کے خطرناک نتائج پرغورنہیں کیا۔اورنہ زمینوں کی اصلاحات پرتوجہ دی۔اوران سے شاہی تقرب کی وجہ سے لگان وصول کرنے میں بھی رواداری برتی گئی اورجن کسانوں کے پاس زمینیں رہ گئی تھیں لگان کی شرح بڑھاکران سے لگان وصول کیاگیا۔جوسراسرظلم تھااس ظلم سے زمینیں چھوڑچھاڑکرملک سے بھاگ کھڑے ہوئے اورایسے علاقوں میں جابسے جہاں انہوں نے بڑی بڑی دشواریوں کے بعدزمینیں حاصل کیں۔اس لئے آپ کے ملک کی آبادی کم ہوگئی زمینیں غیرمزروعہ پڑی رہ گئیں سرکاری آمدنی گھٹ گئی اورفوج ورعایاکے اخراجات میں کمی آنے کی وجہ سے رعایاالگ ہلاک ہوتی ۔یہ حال دیکھ کرملک کی طرف پڑوسی بادشاہوں نے للچائی ہوئی نگاہ ڈالی۔کیونکہ انہیں یقین تھاکہ اس ملک میں وہ موادہی نہیں جس پرملک کے ستون قائم ہواکرتے ہیں۔
بادشاہ موبذان کی نصیحتیں سن کراپنے ملک کی غوردپردلخت میں لگ جاتاہے اورخواص وخدام سے زمینیں چھین کرکاشت کاروں میں بانٹ دیتاہے اورسابق طریقہ بحال کردیتاہے۔کاشت کارزمینوں پرکاشت کرتے ہیں۔تمام علاقہ آبادہوکرلہلہااٹھتاہے۔ملک میں ارزانی ہوجاتی ہےمحصول کثرت سے وصول ہوجانے کی وجہ سے سرکاری خزانہ بھرجاتاہے۔فوجی طاقت مضبوط ہوجاتی ہے۔اوردشمنوں کی تمنائیں پامال ہوجاتی ہیں۔سرحدوں پرفوجیں تعنیات ہوجاتی ہیں۔اورسلطان اطمینان اوردل جمعی کے ساتھ اپنے کام سرانجام دینےاورمزے سے اس کے دن گذرنے لگتے ہیں۔ملک میں ایک قابل رشک انتظام قائم ہوجاتاہے۔آپ بھی اس حکایت کوسمجھ جائیے کہ ظلم سے آبادعلاقے ویران ہوجاتے ہیں۔اورویرانی کی تمام ذمہ داری حکومت پرعائد ہوتی ہے اوراس سے حکومت میں ابتری پھیلتے پھیلتے حکومت ہاتھوں سے نکل جاتی ہے۔


والسلام
جاویداقبال
وعلیکم السلام ورحمۃ اللہ وبرکاتہ۔۔

ماشااللہ۔۔بہت اچھا اقتباس ہے امید ہے آپ کی طرف سے مزید بھی اسطرح کی پوسٹس پڑھنے کو ملیں گی۔۔
 

سارہ خان

محفلین
مسعودی کی ایک حکایت

javediqbal26 نے کہا:
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ،

"مقدمہ ابن خلدون"
مسعودی کی ایک حکایت:
مسعودی پارسیوں کی تاریخ میں موبذان ہے۔جوبہرام بن بہرام کے زمانےمیں بانی مذہب تھا۔نقل کرتاہے۔ کہ موبذان الوکی زبان سے ایک کہانی سناکربادشاہ کواشاروں اشاروں میں ظلم وتعدی سے روکتاہے اوراسے اسکی بری عادتوں پرمتنبہ کرتاہے۔اوراسے خواب غفلت سے جگاتاہے۔واقعہ یہ ہے کہ ایک دن بادشاہ نے الوکی آوازسنی۔بولا۔موبذان!تم اس کی زبان سمجھتے ہو۔
موبذان: ہاں خوب سمجھتاہوں۔نرالومادین سے نکاح کرناچاہتاہے۔مادین کہتی ہے میں نکاح کے لئے تیارہوں بشرطیکہ تم مجھے بہرام کے زمانے کے بیس ویران گاؤں مہرمیں دو۔ نرکہتاہے مجھے یہ شرط منظورہے۔اگربہرام کی حکومت قائم رہی توبیس توبیس میں تجھے ایک ہزارویران گاؤں دے دوں گا۔(یہ خواب غفلت سے بیدارکرنے کابہترین و آسان طریقہ ہے)
یہ سن کربادشاہ چونک پڑتاہے اورموبذان کوتنہائی میں بلاکراس سے پوچھتاہے کہ اس سے تمہاراکیامقصدہے؟
موبذان عرض کرتاہے۔
عالیجاہ!ملک کی بقاشریعت کی پابندی اورحق تعالےکی اطاعت اوراس کے احکام بجالانے اورتبلیغ پرموقوف ہے۔اورشریعت کی بقابادشاہ پراوربادشاہ کی بقالوگوں پر،لوگوں کی بقامال پر،مال کی بقاآبادی پراورہرآبادی کی بقاانصاف پرہے۔انصاف ایک ترازوہے جواللہ نے اپنی مخلوق میں نصب فرمادی ہے۔اوراس کامنتظم بنادیاہے جوبادشاہ ہے۔عالیجاہ!آپ نے لوگوں سے اورانہیں آبادرکھنے والوں سے ان کی زمینیں چھین لیں حالانکہ انہی سے لگان وصول ہواکرتاتھااوراسی آمدنی سے خزانہ بھرارہتاتھا۔اورآپ نے یہ زمینیں ملازمین مقربین خاص،خدام واقارب واحباب کے نام کردیں انہوں نے زمینیں ویران چھوڑدیں۔اورویرانی کے خطرناک نتائج پرغورنہیں کیا۔اورنہ زمینوں کی اصلاحات پرتوجہ دی۔اوران سے شاہی تقرب کی وجہ سے لگان وصول کرنے میں بھی رواداری برتی گئی اورجن کسانوں کے پاس زمینیں رہ گئی تھیں لگان کی شرح بڑھاکران سے لگان وصول کیاگیا۔جوسراسرظلم تھااس ظلم سے زمینیں چھوڑچھاڑکرملک سے بھاگ کھڑے ہوئے اورایسے علاقوں میں جابسے جہاں انہوں نے بڑی بڑی دشواریوں کے بعدزمینیں حاصل کیں۔اس لئے آپ کے ملک کی آبادی کم ہوگئی زمینیں غیرمزروعہ پڑی رہ گئیں سرکاری آمدنی گھٹ گئی اورفوج ورعایاکے اخراجات میں کمی آنے کی وجہ سے رعایاالگ ہلاک ہوتی ۔یہ حال دیکھ کرملک کی طرف پڑوسی بادشاہوں نے للچائی ہوئی نگاہ ڈالی۔کیونکہ انہیں یقین تھاکہ اس ملک میں وہ موادہی نہیں جس پرملک کے ستون قائم ہواکرتے ہیں۔
بادشاہ موبذان کی نصیحتیں سن کراپنے ملک کی غوردپردلخت میں لگ جاتاہے اورخواص وخدام سے زمینیں چھین کرکاشت کاروں میں بانٹ دیتاہے اورسابق طریقہ بحال کردیتاہے۔کاشت کارزمینوں پرکاشت کرتے ہیں۔تمام علاقہ آبادہوکرلہلہااٹھتاہے۔ملک میں ارزانی ہوجاتی ہےمحصول کثرت سے وصول ہوجانے کی وجہ سے سرکاری خزانہ بھرجاتاہے۔فوجی طاقت مضبوط ہوجاتی ہے۔اوردشمنوں کی تمنائیں پامال ہوجاتی ہیں۔سرحدوں پرفوجیں تعنیات ہوجاتی ہیں۔اورسلطان اطمینان اوردل جمعی کے ساتھ اپنے کام سرانجام دینےاورمزے سے اس کے دن گذرنے لگتے ہیں۔ملک میں ایک قابل رشک انتظام قائم ہوجاتاہے۔آپ بھی اس حکایت کوسمجھ جائیے کہ ظلم سے آبادعلاقے ویران ہوجاتے ہیں۔اورویرانی کی تمام ذمہ داری حکومت پرعائد ہوتی ہے اوراس سے حکومت میں ابتری پھیلتے پھیلتے حکومت ہاتھوں سے نکل جاتی ہے۔


والسلام
جاویداقبال

:great:
 

سارہ خان

محفلین
انسان کو خالق نے اس طور پر بنایا ہے کہ اسکا وجود تو ایک ہے لیکن اسکی سائیکی ،سرشت،عقل،قلب جانے کیا کیا کچھ کئی رنگ کے ہیں۔وہ کسی کے ساتھ شیر ہے کسی کے ساتھ بکری،کسی کے ساتھ سانپ بن کر رہتا ہے تو کسی کے لیئے کینچوے سے بد تر ہے۔بدی اور نیکی روز ِ اول سے اسکے اندر دو پانیوں کی طرح رہتی ہیں،ساتھ ساتھ،ملی جُلی علیحدہ علیحدہ جیسے دل کے تیسرے خانے میں گندہ اور صاف خون ساتھ ساتھ چلتا ہے۔۔۔وہ ہمیشہ ڈھلتا ہے ،ہمیشہ بدلتا ہے،کہیں قیام نہیں،کہیں قرار نہیں۔۔۔وہ ایک زندگی میں ایک وجود میں ایک عمر میں لاتعداد روحیں ان گنت تجربات اور بے حساب نشو نما کا حامل ہوتا ہے،اس لیئے افراد مرتے ہیں انسان مسلسل رہتا ہے۔۔۔۔ہم اس تہہ در تہہ کو نہیں سمجھ سکتے،ہمیں انسان کی پرت کھولنے سے کچھ حاصل نہیں ہوگا۔۔۔وہ رزق حرام سے دیوانہ ہو کہ تضاد سے،عشق لاحاصل سے کہ تلاش بے سُود سے،ہم جسکی سرشت کو نہیں سمجھ سکتے اسکی دیوانگی کا بھید ہم پر کیا کھُلے گا۔

(راجہ گدھ۔۔۔بانو قدسیہ)
 

جاویداقبال

محفلین
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ،
بہت بہت شکریہ سارہ جی ، آپ کا اس پوسٹ کوپسندکرنے کابہت بہت شکریہ۔ انشاء اللہ تعالی میں اپنی سی سعی کرتارہوں گا۔
سارہ جی ، آپکی تحریربھی بہت خوب ہے۔
والسلام
جاویداقبال
 

شمشاد

لائبریرین
مجھے لگتا ہے اپنی ڈائیری بند کرنا پڑے گی اور اس کے سارے کے سارے ورق ادھر لانے پڑیں گے۔ تو عرض ہے :
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

پودے نے کہا میرا نام لاجونتی ہے، میں سب سے زیادہ شرمیلا (پودا) ہوں، مجھے چھوئی موئی بھی کہتے ہیں، جب بھی کوئی مرد مجھے ہاتھ لگاتا ہے میری پتیاں شرم سے سکڑ جاتی ہیں۔

عورت نے سن کر کسی کے ہاتھوں کا لمس محسوس کیا اور شرم سے سکڑ گئی۔

لاجونتی حیران رہ گئی۔
 

دوست

محفلین
شمشاد بھائی آپ فکر کیوں کرتے ہیں۔
آپ ادھر بھی پوسٹ کرتے رہیے نا۔ ہم ادھر ہی پڑھ لیا کریں گے۔ :p
 

شمشاد

لائبریرین
ادھر پڑھتے تو شاید ہوں لیکن لکھتا کوئی نہیں، تو پھر اِدھر ہی کیوں ناں لکھنا شروع کر دوں۔
 

شمشاد

لائبریرین
دنیا میں ہر قسم کے پھول ہیں اور ہر جگہ پھول دینے کا رواج ہے۔ یہ محبت، خوشی اور خیر سگالی کی علامت سمجھے جاتے ہیں۔ لیکن بعض ملکوں میں پھولوں سے کچھ اور معنی اور تصور بھی وابستہ ہیں۔ مثلاً کم و بیش سب جگہوں پر گلاب محبت، خلوص اور عقیدت کا بے پایاں اظہار کرتا ہے۔ برازیل میں نارنجی رنگ کے پھول کو تالاب یا قبر پر رکھنے کے لیے استعمال کیا جاتا ہے۔ میکسیکو میں پیلے پھول ماتمی تقریبات کے لیے ہوتے ہیں۔ جب کہ فرانس میں انہیں محبوبہ سے شکایت کے اظہار کے لیے پیش کیا جا سکتا ہے اور روس میں کسی خاتون کو پیلے پھول کا تحفہ پیش کیا جائے تو وہ برا مان جاتی ہے۔
 

شمشاد

لائبریرین
امریکہ کے سابق صدر جمی کارٹر کی ڈیموکریٹک پارٹی کا نشان گدھا تھا۔ بلکہ ہمیشہ سے رہا ہے۔ پارٹی پرچم پر بھی یہی بنا ہوا ہے۔ اس پرچم تلے پوری امریکن قوم ایران کے خلاف سیسہ پلائی ہوئی دیوار کی طرح کھڑی رہی۔ ہمارا مطلب ہے بے حس و حرکت، مغرب کو گدھے میں کوئی مضحکہ خیز بات نظر نہیں آتی۔ فرانسیسی مفکر اور انشائیہ نگار موفیتین تو اس جانور کے اوصاف حمیدہ کا اس قدر معترف اور معرف تھا کہ ایک جگہ لکھتا ہے کہ “ روئے زمین پر گدھے سے زیادہ پراعتماع، مستقل مزاج، گھمبیر، دنیا کو حقارت سے دیکھنے والا اور اپنے ہی دھیان اور دھن میں مگن رہنے والا اور کوئی ذی روح نہیں ملے گا۔“

ہم ایشیائی دراصل گدھے کو اس لیے ذلیل سمجھتے ہیں کہ اس میں کچھ انسانی خصوصیات پائی جاتی ہیں مثلاً یہ کہ اپنی سہار اور بساط سے زیادہ بوجھ اٹھاتا ہے اور جتنا زیادہ پٹتا اور بھوکوں مرتا ہے، اتنا ہی اپنے آقا کا مطیع و فرمانبردار اور شکر گزار ہوتا ہے۔

(مشتاق احمد یوسفی کی“ آبِ گُم“ سے اقتباس)
 

شمشاد

لائبریرین
پطرس بخاری کے کسی عزیز کا نکاح تھا۔ اس کے لیے مولوی درکار تھا۔ تلاش بسیار کے بعد ایک شخص ڈھونڈ کر لایا گیا۔ جو بہت دبلا پتلا تھا۔ پطرس صاحب دیکھ کر بہت خوش ہوئے اور بولے “ نکاح کے لیے دو چیزوں کی ضرورت ہوتی ہے۔ نکاح خواں کی اور چھوہارے کی۔ ماشاء اللہ ان میں دونوں صفات موجود ہیں۔“
 

شمشاد

لائبریرین
ہمارے ایک شاعر دوست جو زمانہ طالبعلمی میں ایک جماعت سے وابستہ تھے۔ ایک بار کسی خاتون کے ساتھ سینما ہال میں دیکھے گئے چنانچہ رپورٹ ہونے پر ان کی پیشی ہائی کمان کے سامنے ہوئی۔

“ ہمیں معلوم ہوا ہے کہ گزشتہ روز آپ ایک خاتون کے ساتھ فلم دیکھتے ہوئے پائے گئے۔“

ہمارے اس دوست نے اس کے جواب میں صفائی پیش کی اور کہا “ جناب، ہماری ایک عزیزہ دوسرے شہر سے آئی ہوئی تھیں۔ وہ فلم دیکھنا چاہتی تھیں، چنانچہ گھر والوں کی ہدایت پر میں انہیں فلم دکھانے چلا گیا۔“

یہ سن کر کہا گیا، “ یہ تو ٹھیک ہے مگر جماعت کا نظم بھی کوئی چیز ہے۔“

اس پر ہمارے دوست نے کہا “ نظم اپنی جگہ مگر غزل بھی آخر کوئی چیز ہے۔“

(عطا الحق قاسمی کی “ جرم ظریفی “ سے اقتباس)
 

شمشاد

لائبریرین
حفیظ صاحب اپنے بقول ساتویں جماعت سے بھاگے ہوئے تھے۔ انگریزی جتنی سیکھی تھی زندگی اور انگریز بیوی سے سیکھی تھی۔ انگریزی ناول بہت پڑھتے تھے۔ سفر میں بھی انگریزی کتابیں ساتھ رہتی تھیں۔ انگریزی روانی سے بول نہیں سکتے تھے البتہ انگریزی میں روانی سے لڑ سکتے تھے۔ ہماری انگریزی کی چار سطریں نہیں چلنے دیتے، انگریزی میں لکھ نہیں سکتے مگر انگریزی میں اصلاح دے سکتے تھے۔ ان کی اصلاح لفظوں کی جنگ ہوتی تھی۔ ان کے نزدیک ایک وقت میں ایک لفظ ایک ہی مفہوم ادا کر سکتا تھا۔ اگر نہیں کر رہا تو لفظ کو کاٹ کر کہیں گے “ میری جان کوئی اور لفظ لاؤ۔۔۔ لفظ موجود ہے بس چُھپا ہوا ہے۔ ڈھونڈھو، ڈھونڈھو، بات بنی نہیں، تم تھک گئے ہو۔“

(سید ضمیر جعفری کی ڈائری سے)
 

سارہ خان

محفلین
شمشاد نے کہا:
ہمارے ایک شاعر دوست جو زمانہ طالبعلمی میں ایک جماعت سے وابستہ تھے۔ ایک بار کسی خاتون کے ساتھ سینما ہال میں دیکھے گئے چنانچہ رپورٹ ہونے پر ان کی پیشی ہائی کمان کے سامنے ہوئی۔

“ ہمیں معلوم ہوا ہے کہ گزشتہ روز آپ ایک خاتون کے ساتھ فلم دیکھتے ہوئے پائے گئے۔“

ہمارے اس دوست نے اس کے جواب میں صفائی پیش کی اور کہا “ جناب، ہماری ایک عزیزہ دوسرے شہر سے آئی ہوئی تھیں۔ وہ فلم دیکھنا چاہتی تھیں، چنانچہ گھر والوں کی ہدایت پر میں انہیں فلم دکھانے چلا گیا۔“

یہ سن کر کہا گیا، “ یہ تو ٹھیک ہے مگر جماعت کا نظم بھی کوئی چیز ہے۔“

اس پر ہمارے دوست نے کہا “ نظم اپنی جگہ مگر غزل بھی آخر کوئی چیز ہے۔“

(عطا الحق قاسمی کی “ جرم ظریفی “ سے اقتباس)

lol۔۔۔۔۔۔بہت خوب شمشاد بھائی۔۔۔۔ :)
 

شمشاد

لائبریرین
سارہ خان نے کہا:
شمشاد نے کہا:
ہمارے ایک شاعر دوست جو زمانہ طالبعلمی میں ایک جماعت سے وابستہ تھے۔ ایک بار کسی خاتون کے ساتھ سینما ہال میں دیکھے گئے چنانچہ رپورٹ ہونے پر ان کی پیشی ہائی کمان کے سامنے ہوئی۔

“ ہمیں معلوم ہوا ہے کہ گزشتہ روز آپ ایک خاتون کے ساتھ فلم دیکھتے ہوئے پائے گئے۔“

ہمارے اس دوست نے اس کے جواب میں صفائی پیش کی اور کہا “ جناب، ہماری ایک عزیزہ دوسرے شہر سے آئی ہوئی تھیں۔ وہ فلم دیکھنا چاہتی تھیں، چنانچہ گھر والوں کی ہدایت پر میں انہیں فلم دکھانے چلا گیا۔“

یہ سن کر کہا گیا، “ یہ تو ٹھیک ہے مگر جماعت کا نظم بھی کوئی چیز ہے۔“

اس پر ہمارے دوست نے کہا “ نظم اپنی جگہ مگر غزل بھی آخر کوئی چیز ہے۔“

(عطا الحق قاسمی کی “ جرم ظریفی “ سے اقتباس)

lol۔۔۔۔۔۔بہت خوب شمشاد بھائی۔۔۔۔ :)

شکریہ سارہ جی۔
 

ماوراء

محفلین
سارہ خان نے کہا:
انسان کو خالق نے اس طور پر بنایا ہے کہ اسکا وجود تو ایک ہے لیکن اسکی سائیکی ،سرشت،عقل،قلب جانے کیا کیا کچھ کئی رنگ کے ہیں۔وہ کسی کے ساتھ شیر ہے کسی کے ساتھ بکری،کسی کے ساتھ سانپ بن کر رہتا ہے تو کسی کے لیئے کینچوے سے بد تر ہے۔بدی اور نیکی روز ِ اول سے اسکے اندر دو پانیوں کی طرح رہتی ہیں،ساتھ ساتھ،ملی جُلی علیحدہ علیحدہ جیسے دل کے تیسرے خانے میں گندہ اور صاف خون ساتھ ساتھ چلتا ہے۔۔۔وہ ہمیشہ ڈھلتا ہے ،ہمیشہ بدلتا ہے،کہیں قیام نہیں،کہیں قرار نہیں۔۔۔وہ ایک زندگی میں ایک وجود میں ایک عمر میں لاتعداد روحیں ان گنت تجربات اور بے حساب نشو نما کا حامل ہوتا ہے،اس لیئے افراد مرتے ہیں انسان مسلسل رہتا ہے۔۔۔۔ہم اس تہہ در تہہ کو نہیں سمجھ سکتے،ہمیں انسان کی پرت کھولنے سے کچھ حاصل نہیں ہوگا۔۔۔وہ رزق حرام سے دیوانہ ہو کہ تضاد سے،عشق لاحاصل سے کہ تلاش بے سُود سے،ہم جسکی سرشت کو نہیں سمجھ سکتے اسکی دیوانگی کا بھید ہم پر کیا کھُلے گا۔

(راجہ گدھ۔۔۔بانو قدسیہ)

بہت خوب۔
 

سارا

محفلین
سارہ خان نے کہا:
انسان کو خالق نے اس طور پر بنایا ہے کہ اسکا وجود تو ایک ہے لیکن اسکی سائیکی ،سرشت،عقل،قلب جانے کیا کیا کچھ کئی رنگ کے ہیں۔وہ کسی کے ساتھ شیر ہے کسی کے ساتھ بکری،کسی کے ساتھ سانپ بن کر رہتا ہے تو کسی کے لیئے کینچوے سے بد تر ہے۔بدی اور نیکی روز ِ اول سے اسکے اندر دو پانیوں کی طرح رہتی ہیں،ساتھ ساتھ،ملی جُلی علیحدہ علیحدہ جیسے دل کے تیسرے خانے میں گندہ اور صاف خون ساتھ ساتھ چلتا ہے۔۔۔وہ ہمیشہ ڈھلتا ہے ،ہمیشہ بدلتا ہے،کہیں قیام نہیں،کہیں قرار نہیں۔۔۔وہ ایک زندگی میں ایک وجود میں ایک عمر میں لاتعداد روحیں ان گنت تجربات اور بے حساب نشو نما کا حامل ہوتا ہے،اس لیئے افراد مرتے ہیں انسان مسلسل رہتا ہے۔۔۔۔ہم اس تہہ در تہہ کو نہیں سمجھ سکتے،ہمیں انسان کی پرت کھولنے سے کچھ حاصل نہیں ہوگا۔۔۔وہ رزق حرام سے دیوانہ ہو کہ تضاد سے،عشق لاحاصل سے کہ تلاش بے سُود سے،ہم جسکی سرشت کو نہیں سمجھ سکتے اسکی دیوانگی کا بھید ہم پر کیا کھُلے گا۔

(راجہ گدھ۔۔۔بانو قدسیہ)

بہت اچھا اقتباس ہے سارہ۔۔۔
 
Top