یہ کون سا دیوبند ہے!

باسم

محفلین
اس آیت سے تو نماز کے معاملے میں ریاست کی بھی ذمہ داری ثابت ہوتی ہے
[ayah]22:41[/ayah] الَّذِينَ إِن مَّكَّنَّاهُمْ فِي الْأَرْضِ أَقَامُوا الصَّلَاةَ وَآتَوُا الزَّكَاةَ وَأَمَرُوا بِالْمَعْرُوفِ وَنَهَوْا عَنِ الْمُنكَرِ وَلِلَّهِ عَاقِبَةُ الْأُمُورِ
ترجمہ: وہ لوگ کہ اگر ہم اُنکو قدرت دیں ملک میں تو وہ قائم رکھیں نماز اور دیں زکوٰۃ اور حکم کر دیں بھلے کام کا اور منع کریں برائی سے اور اللہ کے اختیار میں ہے آخر ہر کام کا۔
 

خرم

محفلین
اس میں حکم ہے عوام پر یا حاکم پر ان کی ذاتی حیثیت میں۔ ریاست کو کہیں بھی اس میں مکلف نہیں قرار دیا گیا۔ اس میں نماز اور زکوٰۃ قائم کرنے کا حکم ہے قائم کروانے کا نہیں۔ نیکی کے کاموں کی ترغیب دینا اور برائی سے روکنے کی تاکید بھی اسی آیت کے اگلے حصے میں‌آگئی۔ سو یہ آیت حکمرانوں کو اور عوام کو ایک "مثال" بننے کی تاکید کرتی ہے "مثال بنانے"‌کی نہیں۔
 

زیک

مسافر
میں نے اس تھریڈ کو "اسلامی" فورم میں منتقل کر دیا ہے۔ پلیز ایسے موضوعات دوسرے زمروں میں پوسٹ نہ کریں۔ شکریہ
 

باسم

محفلین
پھر ان احکامات کو اقتدار سے مشروط کرنے کی کیا حکمت ہوگی، مثال بن کر نماز کا قیام تو ملک حاصل ہونے سے پہلے بھی ضروری ہے تو اقتدار کے بعد کچھ اضافی ذمہ داری کا پتہ چل رہا ہے۔ اور نماز پر کسی ردعمل کے ثبوت کیلیے پہلے نماز کو جان بوچھ کر چھوڑنا ثابت کرنا ہوگا
اور زکوٰۃ ادا نہ کرنا ثابت ہے تو حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کا ریاست کی ذمہ داری کی وجہ سے ان کے خلاف جلاف جہاد کرنا بھی ثابت ہے پھر یہ انفرادی معاملہ کہاں رہا
اوپن برہان میں کسی فاضل مترجم نے نیکی کے حکم کی "ترغیب" اور برائی سے روکنے کی "تاکید" کا اضافی معنٰی شامل نہیں کیا
 

خرم

محفلین
بھیا زکوٰۃ کا حکم ہے کہ تمہارے امیروں سے لی جائے اور غریبوں‌کو دی جائے۔ سو اس میں ریاست کی ذمہ داری آگئی زکوٰۃ وصول کرنے کی جیسے کوئی بھی ٹیکس وصول کرنا ریاست کی ذمہ داری ہے۔ نماز کے معاملہ میں ریاست مکلف نہیں ہے اور نہ ایسا کہیں کوئی حکم یا ثبوت ہے۔ امر بالمعروف و نہی عن المنکر تو تمام امت پر لازم ہے۔ لیکن اس کا یہ مطلب نہیں کہ ہر کوئی ڈنڈا پکڑے اور شروع ہوجائے۔ حکومت کا کام ہے کہ نیکی کے کاموں کی ترویج کرے، تبلیغ کرے لیکن آخری فیصلہ بہرحال فرد کا اپنا ہے۔ جن جرائم کی تعزیر ہے وہ بیان ہوچکے۔ دین میں ان جرائم کے سوا کسی اور جرم پر حد نہیں۔ ہاں ریاست اپنے ماحول اور وقت کے حساب سے معاشرتی زندگی کے لئے قانون سازی کر سکتی ہے لیکن ان قوانین کو "قرآن" کا قانون نہیں کہا جاسکتا۔ ویسے بھی اگر اللہ کو لوگوں کو مار مار کر ہی نماز پڑھوانا تھی تو کراماَ کاتبین میں سے کسی ایک کی ڈیوٹی لگا دی جاتی کہ نماز نہ پڑھے تو اسے پھینٹی لگاؤ اور تمام عالم نمازی اور مؤمن بن جاتا۔ یہ منشاء نہیں۔ لیبلوکم ایکم احسن عملا کا مقصد ہے کہ افراد کی جانچ کرے کہ اپنی مرضی سے کون اچھے اعمال کرتا ہے۔ نہ کہ یہ کہ ایک گروہ مسلط کر دیا جائے جو انہیں مار پیٹ کر اچھا مسلمان بنائے۔
 

خرم

محفلین
میرے تئیں تو یہ کہا جارہا ہے کہ صاحبان اقتدار پر زیادہ ضروری ہے کہ وہ عملی نمونہ بن کر دکھائیں۔
 

طالوت

محفلین
معاشرتی معاملات میں تو بزور قوت ہو گا ۔ انفرادی معاملات میں نہیں ۔ جیسے زکوۃ معاشرتی معاملہ ہے مگر نماز روزہ انفرادی ۔ مگر یہ معاشرتی تب ہو جب نماز کے وقت کوئی کھیل کود کر اوروں کو بھی تقسیم کریں یا زکوۃ سے انکار کر کے مستحق افراد کے حق کو غصب کرے ۔
وسلام
 

مہوش علی

لائبریرین
آرٹیکل لکھنے والے صاحب کو دیوبند جانے کی ضرورت نہ تھی اور انہیں پاکستان میں ہی دیوبند کے حالات کے اوپر اچھا خاصا اہم مواد لکھنے کو مل سکتا تھا۔
دیوبند مکتبہ فکر میں مولانا فضل الرحمان جیسے لوگ بھی شامل ہیں جو کہ انتہا پسند نہیں، اور سپاہ صحابہ اور طالبان بھی شامل ہیں کہ انتہا پسند ہیں۔
مزید تقی عثمان صاحب اور رفع عثان حضرات بھ دیوبند س وابستہ ہیں اور یوسف لدھیانوی بھی اسی مکتب فکر س تعلق رکھت تھ۔

اور تبلیغی جماعت کا تعلق بھی دیوبند سے ہے اور یہ بھی سپاہ صحابہ کی طرح انتہا پسند نہیں۔
 

وقاص قائم

محفلین
ایک مستقل سازش ہے اسلام اور مسلمان کو بدنام کرنے کی اور ان سازشوں مسلمان خود دانستہ یا غیر دانستہ شامل ہیں۔
کیا آپکو نہیں لگتا آپ کی تحریر بھی اس سازش کی نمائندگی کرتی ہے۔( دانستہ یا غیر دانستہ)
 
میں نے دوست احباب کے تبصرے پڑھے کچھ دوست بغیر سوچے سمجھے بات کردیتے ہیں حالانکہ انہیں حقائق کا علم ہی نہیں ہوتا۔ بات امانت ہوتی ہے۔ حقیقی بات کا علم ہو تو کرنی چاہئے ورنہ خاموش رہنا چاہئے۔

اور میں جان بوجھ کر ایسے اختلافات میں‌نہیں پڑنا چاہتا کہ سوائے ضیاعِ‌ وقت کے کچھ ہاتھ نہیں آتا۔ اتنے وقت میں‌ تو بندہ کوئی ادبی یا علمی کام ہی کرلے۔
 

ساجد

محفلین
صاحب ، یہ ایک تحریر تھی جو صاحبِ تحریر کے چشم دید واقعات پر مشتمل ہے ۔ اس کو اسی نظر سے دیکھئیے اور یہ بھی سوچئیے کہ ہندوستان میں بعض مدارس میں ہندو بچے اور بچیاں بھی اپنی مرضی اور شوق سے قرآنی و اسلامی تعلیم حاصل کرتے ہیں اور حافظ بھی بنتے ہیں۔
میں جدہ میں خود ایک ایسے ہندوستانی ہندو سے مل چکا ہوں جس نے ایسے ہی مدرسے میں تعلیم پائی اور اسلام کے بارے میں اس کی رائے بے حد مثبت اور معلومات بہت سارے پیدائشی مسلمانوں سے زیادہ تھیں۔
یہ سب چیزیں ہمیں کچھ سوچنے پہ مجبور کرتی ہیں۔ ایسی باتوں کو سازش کا نام نہیں دیا جا سکتا۔
 

dxbgraphics

محفلین
بائیس اور تئیس مئی کے دو روز میں نے اترپردیش کے قصبے دیوبند میں گذارے۔ وہی دیوبند جس نے گذشتہ ڈیڑھ سو برس میں ہزاروں جید سنی علما پیدا کیے جن کے لاکھوں شاگرد برصغیر اور دنیا کے کونے کونے میں پھیلے ہوئے ہیں۔ آج بھی دارلعلوم دیوبند سے ہر سال چودہ سو کے لگ بھگ طلبا عالم بن کر نکل رہے ہیں۔

دیوبند، جس کی ایک لاکھ سے زائد آبادی میں مسلمانوں کا تناسب ساٹھ فیصد ہے، وہاں پہنچنے سے قبل میرا تصور یہ تھا کہ یہ بڑا خشک سا قصبہ ہوگا۔ جہاں علما کی آمریت ہوگی اور انکی زبان سے نکلا ایک ایک لفظ علاقے کی مسلم آبادی کے لیے حکمِ مطلق کا درجہ رکھتا ہوگا۔ جہاں موسیقی سے متعلق گفتگو تک حرام ہوگی۔ہندو اور مسلمان ایک دوسرے کو دور دور سے پرنام کرتے گذر جاتے ہوں گے۔ وہاں کسی کو جرات تک نہیں ہوگی کہ بغیر داڑھی کے یا ٹخنوں سے اونچی شلوار کے بغیر بلا سرزنش آباد رہ سکے۔ دیوبند میں مسلمان محلوں میں اذان کی آواز بلند ہوتے ہی دوکانوں کے شٹر گرجاتے ہوں گے اور سفید ٹوپی، کرتے پاجامے میں ملبوس باریش نوجوان چھڑی گھماتے ہوئے نظر رکھ رہے ہوں گے کہ کون مسجد کی جانب نہیں جا رہا۔

اسی لیےجب میں نے کچھ سفید پوش باریش نوجوانوں کو دارلعلوم کے قریب ایک حجام کی دوکان پر اطمینان سے اخبار پڑھتےدیکھا تو فلیش بیک مجھے اس ملبے کے ڈھیر کی جانب لے گیا جو کبھی حجام کی دکان ہوا کرتا تھا۔

جب میں نے ٹوپیاں فروخت کرنے والے ایک دوکاندار کے برابر ایک میوزک شاپ کو دیکھا جس میں بالی وڈ مصالحہ اور علمائے کرام کی تقاریر پر مبنی سی ڈیز اور کیسٹیں ساتھ ساتھ بک رہے تھے تو میرا دماغ اس منظر میں اٹک گیا جس میں سی ڈیز اور کیسٹوں کے ڈھیر پر پٹرول چھڑکا جا رہا ہے۔ جب میں نے بچیوں کو ٹیڑھی میڑھی گلیوں اور بازاروں سے گذرتے ہوئے سکول کی جانب رواں دیکھا تو دل نے پوچھا یہاں لڑکیوں کے سکولوں میں کسی کو بم فٹ کرنے کا خیال اب تک کیوں نہیں آیا۔

جب میں نے برقعہ پوش خواتین کو سائیکل رکشے میں جاتے دیکھا تو لاشعور نے پوچھا یہاں محرم کے بغیر خواتین بازار میں آخر کیسےگھوم پھر سکتی ہیں ؟؟ کیا کوئی انہیں دُرے مارنے والا نہیں۔
جب میں نے بینڈ باجے والی ایک بارات گذرتے دیکھی تو انتظار کرتا رہا کہ دیکھیں کچھ نوجوان بینڈ باجے والوں کو ان خرافات سے منع کرنے کے لیے کب آنکھیں لال کرتے ہیں۔

جب مجھے ایک سکول میں لنچ کی دعوت ملی اور میزبان نے کھانے کی میز پر تعارف کرواتے ہوئے کہا یہ ہیں مولانا فلاں فلاں۔ یہ ہیں قاری صاحب۔ یہ ہیں جگدیش بھائی اور انکے برابر ہیں مفتی فلاں فلاں اور وہ جو سامنے بیٹھے مسکرا رہے ہیں وہ ہیں ہم سب کے پیارے لال موہن جی ۔۔۔۔۔تو میں نے اپنے ہی بازو پر چٹکی لی کہ کیا میں دیوبند میں ہی ہوں۔۔۔۔۔

اب میں واپس دلی پہنچ چکا ہوں اور میرے سامنے ہندوستان اور پاکستان کا ایک بہت بڑا تفصیلی نقشہ پھیلا ہوا ہے۔میں پچھلے ایک گھنٹے سے اس نقشے میں وہ والا دیوبند تلاش کرنے کی کوشش کر رہا ہوں کہ جو طالبان، سپاہ صحابہ اور لشکرِ جھنگوی جیسی تنظیموں کا دیوبند ہے !!!!
بشکریہ بی بی سی اردو ڈاٹ کام
براہ کرم اس آرٹیکل کو متنازعہ نہ بنائیں بس نفس مضمون تک ہی رہیں۔

بھائی چاہے طالبان ہوں سپاہ صحابہ یا لشکر جھنگوی سب کا ایک بنیادی نقطہ نظر تو ہوتا۔ وہ بھی جاننا از حد ضروری ہے
 

رابطہ

محفلین
یہ سیاسی اسلام ہے۔ میں ایک جامعہ کو جانتا ہوں جہاں ڈنڈے کے زور پر نماز پڑھائی جاتی ہے! :)

یعنی اگراسلام پر عمل کروایا جائے تو یہ سیاست ہوتی ہے؟
اسلام میں دین ایک انفرادی نہیں اجتماعی عمل ہے۔
اور سیاست کو دین سے الگ نہیں کیا جاسکتا۔
اور ڈنڈے کا مرحلہ عمل در آمد کا پہلا مرحلہ نہیں۔
اور سزا کا تصور تو اللہ کے ہاں بھی ہے
 

رابطہ

محفلین
نماز کے وقت کرفیو کا نفاذ شریعت میں کہاں سے آگیا؟ :)
نماز پڑھنا تو فرد کی ذمہ داری ہے اور وہی جوابدہ ہے۔ ریاست پر نہ تو لازم ہے کہ وہ لوگوں کو نماز پڑھوائے اور نہ ہی اس سے اس کے متعلق سوال ہوگا کہ فلاں نے نماز نہیں پڑھی، تم نے اس کا سر کیوں نہ پھوڑا؟ :)

اگر گھر کے سربراہ سے اس کے گھر کے افراد کے متعلق سوال ہوگا تو لازمی بات ہے کہ ریاست سے بھی عوام کے بارے میں سوال ہوگا۔
 

رابطہ

محفلین
اس آیت سے تو نماز کے معاملے میں ریاست کی بھی ذمہ داری ثابت ہوتی ہے
[ayah]22:41[/ayah] الَّذِينَ إِن مَّكَّنَّاهُمْ فِي الْأَرْضِ أَقَامُوا الصَّلَاةَ وَآتَوُا الزَّكَاةَ وَأَمَرُوا بِالْمَعْرُوفِ وَنَهَوْا عَنِ الْمُنكَرِ وَلِلَّهِ عَاقِبَةُ الْأُمُورِ
ترجمہ: وہ لوگ کہ اگر ہم اُنکو قدرت دیں ملک میں تو وہ قائم رکھیں نماز اور دیں زکوٰۃ اور حکم کر دیں بھلے کام کا اور منع کریں برائی سے اور اللہ کے اختیار میں ہے آخر ہر کام کا۔
باسم صاحب حوالہ دینے کا بہت شکریہ جزاک اللہ!!
 
Top