یہ کس شاعر کا کلام ہے۔

فلسفی

محفلین
بہت عرصے سے ایک شعر سنتا آرہا ہوں لیکن یہ معلوم نہیں کہ یہ کس کا کلام ہے اور آیا یہ کسی غزل کا حصہ ہے یا نہیں؟ گوگل پر سرچ کیا تو کچھ لوگوں نے اس کو شاعر مشرق سے منسوب کیا ہے۔ محفلین سے راہنمائی درکار ہے۔

فنا فی اللہ کی تہہ میں بقا کا راز مضمر ہے
جسے مرنا نہیں آتا اسے جینا نہیں آتا
 

سید عاطف علی

لائبریرین
گوگل پر سرچ کیا تو کچھ لوگوں نے اس کو شاعر مشرق سے منسوب کیا ہے۔ محفلین سے راہنمائی درکار ہے۔
یہ تو طے ہے کہ کم از کم شاعر مشرق کا نہیں ہے ۔
اس معاملے میں شاعر مشرق پر پہلے ہی بہت ستم ڈھایا جاچکا ہے بلکہ جارہا ہے۔
 

فاخر

محفلین
پتہ نہیں! ویسے اس کو میرے طرف منسوب کرسکتے ہیں! :ROFLMAO::ROFLMAO::ROFLMAO::LOL::LOL::LOL::LOL::LOL:
تفریح کے لیے معذرت !!!:in-love::in-love::in-love:
سچی بات تو یہ ہے کہ کئی لوگوں نے شاعر مشرق کے دور میں اسی لب و لہجہ اور فکر میں علامہ اقبال کی نقل کرتے تھے جو مرورِ زمانہ کی وجہ سے اصل شاعر کا نام تو منظر سے غائب ہوگیا اور لوگوں نے بسوئے رجحان ان جیسوں اشعار کو علامہ اقبال کی ہی تخلیق تصور کر بیٹھے اور اصل شاعر کے نام کی تحقیق کی زحمت مناسب نہیں سمجھی۔ ایک اسی طرح مشہور شعر’’خدا نے آج تک اس قوم کی حالت نہیں بدلی‘‘ کو علامہ اقبال کے نام سے منسوب کرکے تقریر و تحریر میں بڑھ چڑھ کر پیش کیا جاتا رہا تھا حتیٰ کہ ہمارے واعظین بھی برسر منبر اس شعر کو علامہ اقبالؔ سے منسوب کرکے خوب واہ واہی لوٹتے تھے ؛لیکن پھر بعد میں پتہ چلا کہ یہ شعر علامہ اقبال کا ہے ہی نہیں ! ۔ اس سلسلے میں مزید تحقیق و دقت کی ضرورت ہے ۔
 

سید عاطف علی

لائبریرین
خدا نے آج تک اس قوم کی حالت نہیں بدلی
تندی ء باد مخالف سے نہ گھبرا اے عقاب۔یہ تو چلتی ہے تجھے اونچا اڑانے کے لیے۔
یہ شعر بھی اسی قبیل کا ہے ۔
البتہ کچھ کلام تو ہر اعتبار سے انتہائی مفلوک الحال ہو کر بھی شاعر مشرق سے منسوب ہوتا ہے ۔
 

فرخ منظور

لائبریرین

فلسفی

محفلین
قبلہ یہ شعر میں نے پہلی بار پڑھا ہے اور سنا ہے۔ یقیناً علامہ اقبال کے متداول کلیات میں یہ شعر موجود نہیں اور خیال یہی ہے کہ یہ شعر علامہ اقبال کا نہیں ہو سکتا۔
شکریہ محترم ۔۔۔ تلاش جاری رکھتے ہیں شاید کہیں سے کوئی حوالہ مل جائے۔
 

اکمل زیدی

محفلین
صاحبوں ایک یہ کلام ملا ہے اسی طرح کا مصرعہ کے ساتھ دیکھیں شاید کچھ مدد ملے

نظر اس دور میں مجھ کو ترا جینا نہیں آتا
کہ صہبائے محبت کا تجھے پینا نہیں آتا
پکڑ کر عجز کا دامن ، پہنچ عرش معلّٰے پر
نگاہوں کو نظر اس بام کا زینا نہیں آتا
عدو صبحِ صفائے دل کی ہے ظلمت تعصّب کی
مقابل چشمِ نابینا کے آئینا نہیں آتا
یہیں بے نوُر ہے ، محشر میں تو کیا خاک دیکھے گا
کہ تجھ کو دیکھنا اے دیدئہ بینا نہیں آتا
یہ بہتر تھا کہ تو اے شیشۂ دل چوُر ہو جاتا
صفا رہنا تجھے مانندِ آئینا نہیں آتا
اکارت ہے ، بناوٹ سے ترا رونا نمازوں میں
کہ ہاتھ اس طرح وہ پوشیدہ گنجینا نہیں آتا
بنا آنکھوں کو جامِ اشک ، دل کو درد کی مینا
مزا جینے کا کچھ بے ساغر و مینا نہیں آتا
بجھا دینا ہی اچھا ہے چراغِ زندگانی کا
محبت میںجو مر مر کے تجھے جینا نہیں آتا
بنا اس راہ میں ذوقِ طلب کو ہم سفر اپنا
اکیلے لطفِ سیرِ وادیِ سینا نہیں آتا
تلاشِ خضر کب تک تشنۂ زہرِ محبت ہو
جسے مرنا نہیں آتا اسے جینا نہیں آتا
 

فلسفی

محفلین
صاحبوں ایک یہ کلام ملا ہے اسی طرح کا مصرعہ کے ساتھ دیکھیں شاید کچھ مدد ملے

نظر اس دور میں مجھ کو ترا جینا نہیں آتا
کہ صہبائے محبت کا تجھے پینا نہیں آتا
پکڑ کر عجز کا دامن ، پہنچ عرش معلّٰے پر
نگاہوں کو نظر اس بام کا زینا نہیں آتا
عدو صبحِ صفائے دل کی ہے ظلمت تعصّب کی
مقابل چشمِ نابینا کے آئینا نہیں آتا
یہیں بے نوُر ہے ، محشر میں تو کیا خاک دیکھے گا
کہ تجھ کو دیکھنا اے دیدئہ بینا نہیں آتا
یہ بہتر تھا کہ تو اے شیشۂ دل چوُر ہو جاتا
صفا رہنا تجھے مانندِ آئینا نہیں آتا
اکارت ہے ، بناوٹ سے ترا رونا نمازوں میں
کہ ہاتھ اس طرح وہ پوشیدہ گنجینا نہیں آتا
بنا آنکھوں کو جامِ اشک ، دل کو درد کی مینا
مزا جینے کا کچھ بے ساغر و مینا نہیں آتا
بجھا دینا ہی اچھا ہے چراغِ زندگانی کا
محبت میںجو مر مر کے تجھے جینا نہیں آتا
بنا اس راہ میں ذوقِ طلب کو ہم سفر اپنا
اکیلے لطفِ سیرِ وادیِ سینا نہیں آتا
تلاشِ خضر کب تک تشنۂ زہرِ محبت ہو
جسے مرنا نہیں آتا اسے جینا نہیں آتا
زیدی صاحب کمال کردیا۔ کہاں سے ڈھونڈ لائیں ہیں یہ۔
ویسے "کلیات باقیات شعر اقبال" میں (صفحہ نمبر 216) "ڈاکٹر صابر کلورُوی" نے اس کلام کو اقبال مرحوم سے ہی منسوب کیا ہے۔ اب ایک مصرعہ تو مل گیا یعنی "جسے مرنا نہیں آتا اس جینا نہیں آتا"۔ مذکورہ شعر کا پہلا مصرعہ یعنی "فنا فی اللہ کی تہہ میں بقا کا راز مضمر ہے" یہ کس کا ہے؟ :)
 

اکمل زیدی

محفلین
زیدی صاحب کمال کردیا۔ کہاں سے ڈھونڈ لائیں ہیں یہ۔
ویسے "کلیات باقیات شعر اقبال" میں (صفحہ نمبر 216) "ڈاکٹر صابر کلورُوی" نے اس کلام کو اقبال مرحوم سے ہی منسوب کیا ہے۔ اب ایک مصرعہ تو مل گیا یعنی "جسے مرنا نہیں آتا اس جینا نہیں آتا"۔ مذکورہ شعر کا پہلا مصرعہ یعنی "فنا فی اللہ کی تہہ میں بقا کا راز مضمر ہے" یہ کس کا ہے؟ :)
بس نکل پڑے براؤزگردی میں اور نظر پڑ گئی تو یہاں چسپاں کردیا۔۔۔باقی اسے بھی دیکھ لیتے ہیں۔ ۔ ۔ ۔
 
Top