یہ کتابیں چوری کیوں نہیں ہوتیں ؟

IMG_1548.jpg


IMG_1547.jpg

میرے ذہن میں آنے والا پہلا خیال یہ تھا کہ یہ کتابیں چوری ہو جانی ہیں۔ یہ سن دو ہزار پانچ کی بات ہے، میرے لینگوئج اسکول کے راستے پر ایک دن ایک لکڑی کی الماری رکھی ہوئی تھی اور اس میں پانچ سات کتب پڑی ہوئی تھیں۔
الماری پر چسپاں ایک کاغذ پر لکھا تھا کہ “آپ اپنی مرضی کی کتاب لے جا سکتے ہیں اور پڑھ کر دوبارہ ادھر ہی رکھ دیں۔ اگر آپ کے پاس کوئی کتاب اضافی ہے تو وہ بھی آپ ادھر رکھ سکتے ہیں۔”
میں نے دیکھتے ہی کہا یہاں چند روز بعد ایک کتاب نہیں رہنی۔ میرے ساتھ سانولی رنگت والی لاطینی امریکا کی اسٹوڈنٹ پریسیلا بھی اسکول جا رہی تھی۔ اس نے بھی میری ہاں میں ہاں ملا دی، شاید ہم دونوں کا تعلق ایک جیسے ہی معاشرے سے تھا، جہاں لوگ لائبریری کی کتب میں سے صفحات تک پھاڑ کر گھر لے جاتے ہیں۔
پاکستان میں ہم دوستوں کے درمیان یہ فقرہ مشہور تھا کہ “جو شخص کسی کو کوئی کتاب مستعار دیتا ہے تو وہ بیوقوف ہے اور جو واپس کر دیتا ہے وہ اس سے بڑا بیوقوف ہے۔”
پھر وقت کے ساتھ ساتھ میرا خیال بالکل غلط ثابت ہوا۔ دیکھتے ہی دیکھتے یہاں چار کتابوں کی تعداد چھ ہوئی، چھ سے بارہ، بارہ سے چوبیس اور ایک دن یہ الماری مکمل بھر چکی تھی۔
چند روز پہلے کئی برس بعد میرا دوبارہ اسی پرانے راستے سے گزر ہوا تو وہ لکڑی کی الماری لوہے کے فریم میں تبدیل ہو چکی تھی اور وہاں کھڑا ایک لڑکا اپنے لیے کوئی کتاب ڈھونڈ رہا تھا۔

IMG_1558.jpg


IMG_1738.jpg

یہ دیکھ کر میرے دل میں پھر ایک مرتبہ شدید خواہش پیدا ہوئی کہ ایسا پاکستان میں کیوں نہیں ہو سکتا۔ وہاں ہم لوگ ایسے ہی رویے کا مظاہرہ کیوں نہیں کر سکتے؟
جس مقام پر یہ الماری رکھی ہوئی ہے، اس کے ساتھ ہی جاگنگ ٹریک ہے۔ لوگ واک کرتے ہوئے تھک جاتے ہیں تو کوئی کتاب اسی الماری سے اٹھاتے ہیں اور تھوڑی دیر کے لیے پڑھنا شروع کر دیتے ہیں۔
بون میں اس وقت ایسی ہی پندرہ الماریاں قائم ہو چکی ہیں اور ہر کوئی ان سے بلامعاوضہ کتب لے سکتا ہے۔ اب تو جرمنی بھر میں یہ روایت زور پکڑتی جا رہی ہے۔ موبائل فون کے انقلاب کے بعد بے کار ہونے والے ٹیلی فون بوتھز کو بھی نجی تنظیموں کی مدد سے ایسی کتب الماریوں میں تبدیل کر دیا گیا ہے۔
میں نے چند برس پہلے یہ قصہ اپنے علاقے کے مشہور پنجابی شاعر سلطان کھاروی صاحب اور اپنے استاد امتیاز منصور صاحب کو سنایا۔ وہ بھی اس بات پر حیران ہوئے۔
پاکستان میں کھاروی صاحب جب بھی مجھ سے ملتے ہیں تو یہ سوال ضرور پوچھتے ہیں کہ وہاں ابھی تک وہ کتابوں والی الماری ہے؟ اور میں ہاں میں سر ہلا دیتا ہوں۔
امتیاز احمد
 

الف نظامی

لائبریرین
ایسا پاکستان میں بھی ہے۔
ہمارے علاقے میں ایک شخص نے دکان میں لائبریری قائم کی ہے اور اس لائبریری میں سب کتب اہلِ علاقہ نے فراہم کی ہیں۔
 

یاز

محفلین
واقعی حیران کن ہے۔
پاکستان میں ردی کا تازہ ترین ریٹ 25 روپے کلو تک کا ہے۔ اس حساب سے بھی کافی پیسے نکل آنے تھے اس الماری سے۔
 

محمداحمد

لائبریرین
ویسے چوری چکاری سے قطع نظر ۔

میرا خیال تو یہ ہے کہ کتابیں پڑھنے کا ذوق ہی کہیں کھو گیا ہے پاکستانیوں کا۔

اور اب سوشل میڈیا کے آ جانے کے بعد تو لوگوں کے پاس بالکل وقت بچتا ہی نہیں کتابوں کے لئے۔
 

محمداحمد

لائبریرین
سنجیدہ موضوع پر اب تک دو مزاحیہ تبصرے اور ایک مایوس تبصرہ کیا محفل کا مجموعی مزاج ہے؟

ایک اُمید افزا تبصرہ بھی ہے۔
ایسا پاکستان میں بھی ہے۔
ہمارے علاقے میں ایک شخص نے دکان میں لائبریری قائم کی ہے اور اس لائبریری میں سب کتب اہلِ علاقہ نے فراہم کی ہیں۔

اور یہ کہ زمینی حقائق سے آنکھیں بند کر لینا بھی کوئی اچھی بات نہیں ہے۔

اور ایک زمینی حقیقت یہ بھی ہے کہ یاز بھائی سےا ور @سیدعمران بھائی سے زیادہ دیر سنجیدہ نہیں رہا جاتا۔ :)
 

محمداحمد

لائبریرین
الف نظامی بھیا کیوں رنجیدہ ہوتے ہیں ،
ایسی خبروں سے دل و دماغ بوجھل اور غمناک ہو جاتا ہے تو طبیعت کو تر و تازہ کرنے کے لیے مزاح کا تڑکا ضروری ہے ۔

تڑکا؟ :eek:

آپ کی پوسٹس کی شماریات نکالی جائیں تو صرف تڑکا ہی نظر آئے گا دال کا کہیں ذکر تک نہ ہوگا۔ :)
 

سید عمران

محفلین

زیک

مسافر
میں تو یہ سوچ رہا ہوں کہ کہیں کی کوئی بھی اچھی بات ہو تو پاکستانی ہمیشہ پاکستان کے رونے روئے گا
 

محمداحمد

لائبریرین
کیونکہ انہیں ہمہ وقت احساس کمتری رہتا ہے
اللہ حاسدوں کے حسد سے بچائے ، پاکستانی بھی کسی سے کم نہیں ہیں۔
ایسا پاکستان میں بھی ہے۔
ہمارے علاقے میں ایک شخص نے دکان میں لائبریری قائم کی ہے اور اس لائبریری میں سب کتب اہلِ علاقہ نے فراہم کی ہیں۔
 
Top