داغ یہ عشق کب دلِ خانہ خراب سے چھُوٹا ۔ داغ دہلوی

فرخ منظور

لائبریرین
یہ عشق کب دلِ خانہ خراب سے چھُوٹا
بہشت میں بھی نہ میں اس عذاب سے چھُوٹا

دل اُس کے گیسوئے پُر پیچ و تاب سے چھُوٹا
بڑی بلا سے یہ نکلا عذاب سے چھُوٹا

نگاہِ مست نے سر شار کر دیا مجھ کو
شراب مجھ سے چھُٹی میں شراب سے چھُوٹا

وہ تانک جھانک کا اول سے تھا مجھے لپکا
کہ آج تک بھی نہ عہدِ شباب سے چھُوٹا

شمار میں نے کیا جب تری جفاؤں کا
عدو نہ ایک بھی میرے حساب سے چھُوٹا

مٹی جھلک نہ ذرا خونِ دل کی گریہ سے
یہ رنگ کب مری چشمِ پُر آب سے چھُوٹا

زہے نصیب وہ عاشق نصیب والا ہے
جو تیرے قہر سے تیرے عتاب سے چھُوٹا

عدو کی قبر پہ کیوں فاتحہ پڑھی تُم نے
غضب ہوا کہ وہ کافر عذاب سے چھوٹا

ہمیشہ ساتھ رہا ہے اس آب و آتش کا
کبھی نہ برق کا دامن سحاب سے چھُوٹا

مجھے ہو قسمتِ برگشتہ کی شکایت کیا
زمانہ کون سے دن انقلاب سے چھُوٹا

مجھے یہ ضد کہ نہ لکھوں گا اور کوئی خط
وہ دل میں شاد کہ فکرِ جواب سے چھُوٹا

اُنہوں نے غور سے دیکھا جو میرے دیواں کو
نہ کوئی شعر مرا انتخاب سے چھُوٹا

رہا نظارہ کسی چہرۂ کتابی کا
مطالعہ نہ مرا اس کتاب سے چھُوٹا

نہ کیوں ہو رشک مجھے ایسے ملنے والوں پر
نہ رنگِ گل سے نہ نشہ شراب سے چھُوٹا

ہمیں نے وصل میں مجبور پیش دستی کی
جب اُن کا ہاتھ نہ بندِ نقاب سے چھُوٹا

نصیب میں ہو جو چکر تو کوئی چھُٹتا ہے
یہ رات دن نہ مہ و آفتاب سے چھُوٹا

اگرچہ سینکڑوں بیڈھب سوال میں نے کیے
نہ مدعا مرے حاضر جواب سے چھُوٹا

کھُلی جب آنکھ نہ دیکھا جمال ِیوسف کو
مگر خیال ِزلیخا نہ خواب سے چھُوٹا

مرے حساب سے دن زندگی کے تھوڑے ہیں
حساب کر کے غمِ بے حساب سے چھُوٹا

یہ جی میں ہے کہ کروں سیرِ بت کدہ جا کر
خدا کا گھر دلِ ِخانہ خراب سے چھُوٹا

قرار دل کو نہ آیا تو مجھ کو موت آئی
چھُٹا وہ صبر سے میں اضطراب سے چھُوٹا

بیان اُن کے ہوں اوصاف داغؔ سے کیا کیا
کوئی نہ وصف شہِ بُوتراب سے چھُوٹا

(داغؔ دہلوی)
 

الف نظامی

لائبریرین
نگاہِ مست نے سر شار کر دیا مجھ کو
شراب مجھ سے چھُٹی میں شراب سے چھُوٹا

بیان اُن کے ہوں اوصاف داغؔ سے کیا کیا
کوئی نہ وصف شہِ بُوتراب سے چھُوٹا
 
Top