یہ عشق کب دلِ خانہ خراب سے چھُوٹا
بہشت میں بھی نہ میں اس عذاب سے چھُوٹا
دل اُس کے گیسوئے پُر پیچ و تاب سے چھُوٹا
بڑی بلا سے یہ نکلا عذاب سے چھُوٹا
نگاہِ مست نے سر شار کر دیا مجھ کو
شراب مجھ سے چھُٹی میں شراب سے چھُوٹا
وہ تانک جھانک کا اول سے تھا مجھے لپکا
کہ آج تک بھی نہ عہدِ شباب سے چھُوٹا...