یہ آخری صدی ہے کتابوں سے عشق کی

سحر کائنات

محفلین
یہ آخری صدی ہے کتابوں سے عشق کی


مطالعہ کا شوق مجھے چند دن قبل اوکاڑہ شہر کے بیچوں بیچ واقع ضیا شہید لائبریری لے گیا۔شہر کی اس مشہور ترین لائبریری کے تذکرے زبان زدِ عام تھے مگر یہاں جانے کا یہ پہلا تجربہ تھا۔

لائبریری کے احاطے میں داخل ہوتے ہی محسوس ہوا جیسے ہر طرف ایک عجیب سی اداسی اور یاس کے ڈیرے ہوں۔جیسے کسی عظیم الشان سلطنت کے زوا ل کے بعد اس کی سلطنت لٹے ہوئے جلال کی داستان سنا رہی ہو ۔ لائبریری کے اندر کتب کا ایک بیش بہا ذخیرہ موجود تھا مگر ہر سمت وہی یاس۔ایسی خاموشی جس پر سناٹا نوحہ خواں ہو۔

وہاں سے باہر نکلتے ہی سڑک کے دوسری جانب نظر ڈالی تو وہاں انسانوں کا سمندر رنگ و نور کی مستیوں میں ڈوبا نظر آیا۔ کیا دل گیر نظارہ تھا ! ایک طرف لائبریری جو ویرانی اور کتابوں سے ہماری دوری کا منہ بولتا ثبوت تھی تو دوسری سمت مادیت پرستی سے بھرپور زندگی جہاں رونقیں ماند نہیں پڑنے دی جاتیں۔

گلزار کی یہ خوب صورت نظم کتابوں سے ہماری دوری اور اس کے اثرات کی بھرپور عکاسی کر رہی ہے۔

کتابیں جھانکتی ہیں بند الماری کے شیشوں سے
بڑی حسرت سے تکتی ہیں
مہینوں اب ملاقاتیں نہیں ہوتیں
جو شامیں ان کی صحبت میں کٹا کرتی تھیں' اب اکثر
گزر جاتی ہیں کمپیوٹر کے پردوں پر
بڑی بے چین رہتی ہیں کتابیں
انہیں اب نیند میں چلنے کی عادت ہو گئی ہے
بڑی حسرت سے تکتی ہیں
جو قدریں وہ سناتی تھیں
کہ جن کے سیل کبھی مرتے نہیں تھے
وہ قدریں اب نظر آتی نہیں گھر میں
جو رشتے وہ سناتی تھیں
وہ سارے ادھڑے ادھڑے ہیں
کوئی صفحہ پلٹتا ہوں تو اک سسکی نکلتی ہے
کئی لفظوں کے معنی گر پڑے ہیں
بنا پتوں کے سوکھے ٹنڈ لگتے ہیں وہ سب الفاظ
جن پر اب کوئی معنی نہیں اگتے
بہت سی اصطلاحیں ہیں
جو مٹی کے سکوروں کی طرح بکھری پڑی ہیں
گلاسوں نے انہیں متروک کر ڈالا
زباں پر ذائقہ آتا تھا جو صفحے پلٹنے کا
اب انگلی کلک کرنے سے بس اک
جھپکی گزرتی ہے
بہت کچھ تہہ بہ تہہ کھلتا چلا جاتا ہے پردے پر
کتابوں سے جو ذاتی رابطہ تھا کٹ گیا ہے
کبھی سینے پہ رکھ کے لیٹ جاتے تھے
کبھی گودی میں لیتے تھے
کبھی گھٹنوں کو اپنے رحل کی صورت بنا کر
نیم سجدے میں پڑھا کرتے تھے چھوتے تھے جبیں سے
وہ سارا علم تو ملتا رہے گا آئندہ بھی
مگر وہ جو کتابوں میں ملا کرتے تھے سوکھے پھول اور
مہکے ہوئے رقعے
کتابیں مانگنے گرنے اٹھانے کے بہانے رشتے بنتے تھے
ان کا کیا ہوگا
وہ شاید اب نہیں ہوں گے!

افسوس! بہت سی ان روایات کی طرح جنہیں ہم فراموش کر چکے ہیں ہم نے کتب کو بھی بھلا دیا ہے ۔کتاب کو انسان کی بہترین رفیق ہونے کا شرف حاصل ہے لیکن خاک کے اس پتلے نے ترقی کے نام پر اس رفاقت کو قربان کر دیا ہے۔آج ہماری سیر گاہیں آباد ہیں،سینما ،رقص و سرود کی تمام محفلیں دن رات سجی رہتی ہیں لیکن کتب بینی یا مطالعہ کی روایت ماند پڑتی نظر آ رہی ہے۔

میرے خیال میں اس کی دو وجوہات ہیں ۔

ایک تو موجودہ دور میں انٹرنیٹ کے استعمال نے کتابوں کی اہمیت کو کم کر دیا ہے ۔آج کا نوجوان گوگل پر کتاب تلاش کرتا ہے اور دنیا بھر کی لائبریری سے بیک وقت رابطے میں رہ سکتا ہے۔اس بظاہر ترقی یافتہ دور نے کتب بینی اور مطالعہ جیسی عادات کو کسی حد تک ختم ہی کر دیا ہے۔ دوسرا گھروں میں کتب لانے ،پڑھنے اور تحفے میں دینے کا رواج نہیں رہا۔گزشتہ صدی کے لوگ اس وقت وہ آخری نسل ہیں جنہوں نے کتابوں سے محبت کا دور بھی دیکھا ہے اور موجودہ دور کے بگاڑ کا بھی سا مناکیا ہے۔

کتب بینی کے فوائد کو کسی طور نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔بلاشبہ مطالعہ کی عادت سے تخلیقی صلاحیتیں ابھرتی ہیں۔مثبت رویے جنم لیتے ہیں۔ فیصلہ کرنے کی قوت پیدا ہوتی ہے۔کتاب رنج و الم میں غم خوار اور سچی ساتھی بن جاتی ہے۔ احساسِ ذمہ داری ،مروت،اخلاق،کردار کی بہترین تشکیل یہ تمام خوبیاں کتابوں کی رفاقت سے ہی جنم لیتی ہیں۔

آج کی نوجوان نسل سے ہمیں ڈھیروں شکایات ہیں۔یہ نوجوان احساس سے عاری ہیں،بزگوں کی صحبت انہیں گراں گزرتی ہے،وغیرہ وغیرہ میری رائے میں یہ نسل مظلوم نسل ہے کیوں کہ ہم نے جو ورثہ بزرگوں سے پایا وہ شاید ہم اس دور کے نوجوان کو دے ہی نہیں پائے۔کتابوں کی ہی مثال لیجیے آج ہم (ہم سے مراد والدین) اپنے بچوں کے سامنے وہ مثال نہیں بن رہے کیوں کہ ہم خود ماڈرن بننے کی دوڑ میں پڑ گئے ہیں ۔نہ ہم کتابیں پڑھتے ہیں ،نہ اپنے بچوں کو لائبریری کی عادت ڈالتے ہیں ۔اور شکوہ ان نوجوانوں سے کرتے ہیں۔

آج اگر ہم اس معاشرے کی بقا چاہتے ہیں تو نوجوان نسل کی خبر گیری کرنا ہو گی۔انھیں انٹرنیٹ کے طلسم سے نکال کے ایسی خوبیوں کا مالک بنانا ہو گا کہ وہ اس معاشرے کی بقا میں اپنا کردار ادا کر سکیں۔کتابوں سے سوتیلا پن چھوڑ کر انہیں اپنانا ہو گا۔بڑوں پر یہ ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ نئی نسل کے دلوں میں کتب بینی کا لگاؤ پیدا کریں۔کتابوں کو تحفے تحائف کی صورت میں لیا دیا جائے۔گھروں میں ایک چھوٹی سی لائبریری لازماً بنائیں جہاں مطالعہ کیا جا سکے۔اساتذہ اس ضمن میں کلیدی کردار ادا کر سکتے ہیں۔ کورس کی دوڑ کو چھوڑ کر کتابوں سے محبت پیدا کریں۔ غیر نصابی کتب پڑھنے پر طلبا کی حوصلہ افزائی کی جائے ۔ حکومت کے تعاون کے بغیر یہ ناممکن ہو گا۔ضلعی سطح پر لائبریریوں کی سر پرستی کی جانی چاہیے تاکہ ہماری نوجوان نسل ادب کی اس روایت کو وراثت سمجھ کر اپنائیے اور اس ورثہ کی حفاظت کرے۔کتب میلوں کا انعاد اس سلسلے میں بہترین ثابت ہو سکتا ہے۔

آئیے کتاب سے وعدہ کریں کہ ہم کتاب بینی سے کتاب بیزاری کے اس رجحان کی حوصلہ شکنی کریں گے اور حق دوستی ادا کریں گے ۔

سرورِ علم ہے کیفِ شراب سے بہتر
کوئی رفیق نہیں ہے کتاب سے بہتر
 

شہزاد وحید

محفلین
یہ آخری صدی ہے کتابوں سے عشق کی


مطالعہ کا شوق مجھے چند دن قبل اوکاڑہ شہر کے بیچوں بیچ واقع ضیا شہید لائبریری لے گیا۔شہر کی اس مشہور ترین لائبریری کے تذکرے زبان زدِ عام تھے مگر یہاں جانے کا یہ پہلا تجربہ تھا۔

لائبریری کے احاطے میں داخل ہوتے ہی محسوس ہوا جیسے ہر طرف ایک عجیب سی اداسی اور یاس کے ڈیرے ہوں۔جیسے کسی عظیم الشان سلطنت کے زوا ل کے بعد اس کی سلطنت لٹے ہوئے جلال کی داستان سنا رہی ہو ۔ لائبریری کے اندر کتب کا ایک بیش بہا ذخیرہ موجود تھا مگر ہر سمت وہی یاس۔ایسی خاموشی جس پر سناٹا نوحہ خواں ہو۔

وہاں سے باہر نکلتے ہی سڑک کے دوسری جانب نظر ڈالی تو وہاں انسانوں کا سمندر رنگ و نور کی مستیوں میں ڈوبا نظر آیا۔ کیا دل گیر نظارہ تھا ! ایک طرف لائبریری جو ویرانی اور کتابوں سے ہماری دوری کا منہ بولتا ثبوت تھی تو دوسری سمت مادیت پرستی سے بھرپور زندگی جہاں رونقیں ماند نہیں پڑنے دی جاتیں۔

گلزار کی یہ خوب صورت نظم کتابوں سے ہماری دوری اور اس کے اثرات کی بھرپور عکاسی کر رہی ہے۔

کتابیں جھانکتی ہیں بند الماری کے شیشوں سے
بڑی حسرت سے تکتی ہیں
مہینوں اب ملاقاتیں نہیں ہوتیں
جو شامیں ان کی صحبت میں کٹا کرتی تھیں' اب اکثر
گزر جاتی ہیں کمپیوٹر کے پردوں پر
بڑی بے چین رہتی ہیں کتابیں
انہیں اب نیند میں چلنے کی عادت ہو گئی ہے
بڑی حسرت سے تکتی ہیں
جو قدریں وہ سناتی تھیں
کہ جن کے سیل کبھی مرتے نہیں تھے
وہ قدریں اب نظر آتی نہیں گھر میں
جو رشتے وہ سناتی تھیں
وہ سارے ادھڑے ادھڑے ہیں
کوئی صفحہ پلٹتا ہوں تو اک سسکی نکلتی ہے
کئی لفظوں کے معنی گر پڑے ہیں
بنا پتوں کے سوکھے ٹنڈ لگتے ہیں وہ سب الفاظ
جن پر اب کوئی معنی نہیں اگتے
بہت سی اصطلاحیں ہیں
جو مٹی کے سکوروں کی طرح بکھری پڑی ہیں
گلاسوں نے انہیں متروک کر ڈالا
زباں پر ذائقہ آتا تھا جو صفحے پلٹنے کا
اب انگلی کلک کرنے سے بس اک
جھپکی گزرتی ہے
بہت کچھ تہہ بہ تہہ کھلتا چلا جاتا ہے پردے پر
کتابوں سے جو ذاتی رابطہ تھا کٹ گیا ہے
کبھی سینے پہ رکھ کے لیٹ جاتے تھے
کبھی گودی میں لیتے تھے
کبھی گھٹنوں کو اپنے رحل کی صورت بنا کر
نیم سجدے میں پڑھا کرتے تھے چھوتے تھے جبیں سے
وہ سارا علم تو ملتا رہے گا آئندہ بھی
مگر وہ جو کتابوں میں ملا کرتے تھے سوکھے پھول اور
مہکے ہوئے رقعے
کتابیں مانگنے گرنے اٹھانے کے بہانے رشتے بنتے تھے
ان کا کیا ہوگا
وہ شاید اب نہیں ہوں گے!

افسوس! بہت سی ان روایات کی طرح جنہیں ہم فراموش کر چکے ہیں ہم نے کتب کو بھی بھلا دیا ہے ۔کتاب کو انسان کی بہترین رفیق ہونے کا شرف حاصل ہے لیکن خاک کے اس پتلے نے ترقی کے نام پر اس رفاقت کو قربان کر دیا ہے۔آج ہماری سیر گاہیں آباد ہیں،سینما ،رقص و سرود کی تمام محفلیں دن رات سجی رہتی ہیں لیکن کتب بینی یا مطالعہ کی روایت ماند پڑتی نظر آ رہی ہے۔

میرے خیال میں اس کی دو وجوہات ہیں ۔

ایک تو موجودہ دور میں انٹرنیٹ کے استعمال نے کتابوں کی اہمیت کو کم کر دیا ہے ۔آج کا نوجوان گوگل پر کتاب تلاش کرتا ہے اور دنیا بھر کی لائبریری سے بیک وقت رابطے میں رہ سکتا ہے۔اس بظاہر ترقی یافتہ دور نے کتب بینی اور مطالعہ جیسی عادات کو کسی حد تک ختم ہی کر دیا ہے۔ دوسرا گھروں میں کتب لانے ،پڑھنے اور تحفے میں دینے کا رواج نہیں رہا۔گزشتہ صدی کے لوگ اس وقت وہ آخری نسل ہیں جنہوں نے کتابوں سے محبت کا دور بھی دیکھا ہے اور موجودہ دور کے بگاڑ کا بھی سا مناکیا ہے۔

کتب بینی کے فوائد کو کسی طور نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔بلاشبہ مطالعہ کی عادت سے تخلیقی صلاحیتیں ابھرتی ہیں۔مثبت رویے جنم لیتے ہیں۔ فیصلہ کرنے کی قوت پیدا ہوتی ہے۔کتاب رنج و الم میں غم خوار اور سچی ساتھی بن جاتی ہے۔ احساسِ ذمہ داری ،مروت،اخلاق،کردار کی بہترین تشکیل یہ تمام خوبیاں کتابوں کی رفاقت سے ہی جنم لیتی ہیں۔

آج کی نوجوان نسل سے ہمیں ڈھیروں شکایات ہیں۔یہ نوجوان احساس سے عاری ہیں،بزگوں کی صحبت انہیں گراں گزرتی ہے،وغیرہ وغیرہ میری رائے میں یہ نسل مظلوم نسل ہے کیوں کہ ہم نے جو ورثہ بزرگوں سے پایا وہ شاید ہم اس دور کے نوجوان کو دے ہی نہیں پائے۔کتابوں کی ہی مثال لیجیے آج ہم (ہم سے مراد والدین) اپنے بچوں کے سامنے وہ مثال نہیں بن رہے کیوں کہ ہم خود ماڈرن بننے کی دوڑ میں پڑ گئے ہیں ۔نہ ہم کتابیں پڑھتے ہیں ،نہ اپنے بچوں کو لائبریری کی عادت ڈالتے ہیں ۔اور شکوہ ان نوجوانوں سے کرتے ہیں۔

آج اگر ہم اس معاشرے کی بقا چاہتے ہیں تو نوجوان نسل کی خبر گیری کرنا ہو گی۔انھیں انٹرنیٹ کے طلسم سے نکال کے ایسی خوبیوں کا مالک بنانا ہو گا کہ وہ اس معاشرے کی بقا میں اپنا کردار ادا کر سکیں۔کتابوں سے سوتیلا پن چھوڑ کر انہیں اپنانا ہو گا۔بڑوں پر یہ ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ نئی نسل کے دلوں میں کتب بینی کا لگاؤ پیدا کریں۔کتابوں کو تحفے تحائف کی صورت میں لیا دیا جائے۔گھروں میں ایک چھوٹی سی لائبریری لازماً بنائیں جہاں مطالعہ کیا جا سکے۔اساتذہ اس ضمن میں کلیدی کردار ادا کر سکتے ہیں۔ کورس کی دوڑ کو چھوڑ کر کتابوں سے محبت پیدا کریں۔ غیر نصابی کتب پڑھنے پر طلبا کی حوصلہ افزائی کی جائے ۔ حکومت کے تعاون کے بغیر یہ ناممکن ہو گا۔ضلعی سطح پر لائبریریوں کی سر پرستی کی جانی چاہیے تاکہ ہماری نوجوان نسل ادب کی اس روایت کو وراثت سمجھ کر اپنائیے اور اس ورثہ کی حفاظت کرے۔کتب میلوں کا انعاد اس سلسلے میں بہترین ثابت ہو سکتا ہے۔

آئیے کتاب سے وعدہ کریں کہ ہم کتاب بینی سے کتاب بیزاری کے اس رجحان کی حوصلہ شکنی کریں گے اور حق دوستی ادا کریں گے ۔

سرورِ علم ہے کیفِ شراب سے بہتر
کوئی رفیق نہیں ہے کتاب سے بہتر
کم و بیش ہر شہر کے کتب خانوں کا یہی حال ہے۔ یہاں گوجرانوالہ میں بھی میونسپلٹی کی دو لائبریریز ہی بچی ہیں جہاں اب جنات کے ہی ڈیرے ہیں۔ کے ایل آئی یعنی کراچی لاہور اسلام آباد کی الیٹ کلاس میں ابھی بھی بطور فیشن انگریزی ادب کے چرچے رہتے ہیں۔
 

سیما علی

لائبریرین
حکومت کے تعاون کے بغیر یہ ناممکن ہو گا۔ضلعی سطح پر لائبریریوں کی سر پرستی کی جانی چاہیے تاکہ ہماری نوجوان نسل ادب کی اس روایت کو وراثت سمجھ کر اپنائیے اور اس ورثہ کی حفاظت کرے۔کتب میلوں کا انعاد اس سلسلے میں بہترین ثابت ہو سکتا ہے۔
کتاب انسانی سوچوں کو گہرائی اور آگہی عطا کرتی ہے ۔کتاب انسان کے اندر خوداعتمادی پیدا کرتی ہے یونانی ڈرامہ نگار پوری ہیڈس نے لکھا ’’جو نوجوان مطالعہ سے گریز کرے وہ ماضی سے بے خبر اور مستقبل کیلئے مردہ ہوتا ہے۔‘‘
تاریخ شاہد ہے کہ جن قوموں نے کتاب سے دوستی رکھی وہ زندگی کے ہر میدان میں ترقی اور عروج کی منازل طے کرتی گئیں۔ جیسے ہی کتاب و علم سے ناطہ ٹوٹا پستی اور ذلت نے گھیر لیا۔
علامہ محمد اقبال رحمۃ اللہ علیہ نے کچھ اس طرح فرماتے ہیں ۔

تجھے آباء سے اپنے نسبت ہو نہیں سکتی
تو گفتار وہ کردار، توثابت وہ سیارہ

گنوا دی ہم نے جو اسلاف سے میراث پائی تھی
ثریا سے زمین پر آسمان نے ہم کو دے مارا

وہ علم کے موتی اور کتابیں اپنے آباء کی
جو یورپ میں دیکھیں تو دل ہوتا ہے سہ پارہ
امریکہ، جاپان، چین، لندن، پیرس، کینیڈا، آسٹریلیا، اٹلی اور فرانس ایسے ممالک ہیں جہاں سب سے زیادہ کتابیں فروخت ہوتی ہیں۔ دنیا میں اٹھائیس سے زیادہ ممالک ہیں جہاں کتابیں زیادہ فروخت ہوتی ہیں۔ ان ممالک میں ایک بھی اسلامی ملک نہیں۔ علم و ادب سے دوری نے مسلمانوں سے وقار اور تاج و تخت چھین لیے۔۔۔۔۔حکومت کی بات کریں تو انتہائی افسوسناک صورتحال سامنے آتی ہے۔ پاکستان میں کتاب سے دوستی رکھنے والوں کو خبطی، پاگل یا کتابی کیڑا جیسے القابات سے نوازا جاتا ہے۔ ۔۔۔پاکستان میں لائبریریاں نہ ہونے کے برابر ہیں۔ لائبریریوں کی کمی بھی کتب بینی سے دوری کا ایک سبب ہے۔ لائبریوں کے قیام اور فروغ کیلئے حکومتی سطح پر فوری اور سنجیدہ اقدامات کرنے کی ضرورت ہے۔پر کون کرے ۔۔حکومتی اور نجی سطح پر فوری اور سنجیدہ اقدامات کرنے کی ضرورت ہے۔ اس قوم کو پستی اور ذلت سے نکالنے کا واحد راستہ علم سے محبت میں ہے۔ آج اس قوم کو کتاب سے مضبوط اور سچی دوستی کرنے کی ضرورت ہے۔
منقول
 

محمد وارث

لائبریرین
مضمون صرف پاکستان کے تناظر میں ہے دیگر ممالک کی صورتحال مختلف ہے۔
نہ صرف یہ بلکہ عنوان میں موجود مصرع(جو کہ پاکستان میں ضرب المثل بن چکا ہے) ایک ایسے شاعر کا ہے جو کاغذی کتابیں شائع کرتے اور بیچتے ہیں، سو اس مصرع کو بھی ان کے کار و بار کے تناظر میں دیکھنا چاہیئے وگرنہ کتابیں تو اب پہلے سے بھی بہتر حالت میں ہیں!
 
Top