یکم مئی ، یوم ِ مزدور

ام اویس

محفلین
میں ایک مزدور ہوں۔
میں محنت کرتا ہوں ، اپنے ہاتھ کی کمائی کھاتا ہوں۔ جب دن بھر مشقت کرتے ہوئے میرے جسم سے پسینہ بہتا ہے تو شاید لوگوں کو اس سے بدبو آتی ہو لیکن مجھے بہت عزیز ہے۔ یہ میری محنت کا پسینہ ،حلال کمائی ہے۔ مجھے الله نے طاقت دی ، ہمت دی ، ہنر دیا جسے کام میں لا کر میں اس مالک کا شکر ادا کرتا ہوں۔ میں کسی کا حق نہیں مارتا، چوری نہیں کرتا، رشوت نہیں لیتا، دھوکا نہیں دیتا ، ناجائز منافع نہیں لیتا۔
میں دن بھر مٹی ، ریت ، سیمنٹ ، بجری ڈھو کر لوگوں کے گھر بناتا ہوں لیکن ان سے حسد نہیں کرتا ، ان کے خلاف دل میں برا خیال بھی نہیں لاتا ؛ بلکہ ان کے لیے دعا گو رہتا ہوں۔
اے الله ! یہ گھر سلامت رہیں جن میں میرے جسم کی مشقت بھی شامل ہے۔
میں بڑے بڑے گھروں میں رنگ و روغن کرتا ہوں لیکن ان کے بھاری قیمتی سامان کو نگاہ اٹھا کر نہیں دیکھتا۔
مجھے اپنی محنت ، مشقت اور اپنے کام سے محبت ہے۔ مجھے اپنے مزدور ہونے پر فخر ہے؛ البتہ کام کروانے والوں سے میری درخواست ہے میرا پسینہ خشک ہونے سے پہلے میری محنت کے مطابق میرا حق مجھے دے دیا کریں۔ شکریہ
نزہت وسیم
 

سید رافع

محفلین
میں ایک مزدور ہوں۔
میں محنت کرتا ہوں ، اپنے ہاتھ کی کمائی کھاتا ہوں۔ جب دن بھر مشقت کرتے ہوئے میرے جسم سے پسینہ بہتا ہے تو شاید لوگوں کو اس سے بدبو آتی ہو لیکن مجھے بہت عزیز ہے۔ یہ میری محنت کا پسینہ ،حلال کمائی ہے۔ مجھے الله نے طاقت دی ، ہمت دی ، ہنر دیا جسے کام میں لا کر میں اس مالک کا شکر ادا کرتا ہوں۔ میں کسی کا حق نہیں مارتا، چوری نہیں کرتا، رشوت نہیں لیتا، دھوکا نہیں دیتا ، ناجائز منافع نہیں لیتا۔
میں دن بھر مٹی ، ریت ، سیمنٹ ، بجری ڈھو کر لوگوں کے گھر بناتا ہوں لیکن ان سے حسد نہیں کرتا ، ان کے خلاف دل میں برا خیال بھی نہیں لاتا ؛ بلکہ ان کے لیے دعا گو رہتا ہوں۔
اے الله ! یہ گھر سلامت رہیں جن میں میرے جسم کی مشقت بھی شامل ہے۔
میں بڑے بڑے گھروں میں رنگ و روغن کرتا ہوں لیکن ان کے بھاری قیمتی سامان کو نگاہ اٹھا کر نہیں دیکھتا۔
مجھے اپنی محنت ، مشقت اور اپنے کام سے محبت ہے۔ مجھے اپنے مزدور ہونے پر فخر ہے؛ البتہ کام کروانے والوں سے میری درخواست ہے میرا پسینہ خشک ہونے سے پہلے میری محنت کے مطابق میرا حق مجھے دے دیا کریں۔ شکریہ
نزہت وسیم

تو قادر و عادل ہے مگر تیرے جہاں میں
ہیں تلخ بہت بندۂ مزدور کے اوقات
علامہ اقبال
 

سیما علی

لائبریرین
اے الله ! یہ گھر سلامت رہیں جن میں میرے جسم کی مشقت بھی شامل ہے۔
میں بڑے بڑے گھروں میں رنگ و روغن کرتا ہوں لیکن ان کے بھاری قیمتی سامان کو نگاہ اٹھا کر نہیں دیکھتا۔
مجھے اپنی محنت ، مشقت اور اپنے کام سے محبت ہے۔ مجھے اپنے مزدور ہونے پر فخر ہے؛ البتہ کام کروانے والوں سے میری درخواست ہے میرا پسینہ خشک ہونے سے پہلے میری محنت کے مطابق میرا حق مجھے دے دیا کریں۔
کر کر سارا دن مزدوری
ہوندی نئی جے روٹی پوری

ہن تے چینی وی نئی لبھدی
دیواں بال نوں کیویں چُوری

روٹی روٹی کُرلاندے نے
ویندے نئی کوئی مجبوری

شیطاناں نے تے انت مچائی
کتھے ہے اوہ طاقت نوری

عشق توں میں انکاری نئی جے
ہور وی نے کم بوہت ضروری

نسل آں بو تراب دی بزمی
کر نئی سکدا جی حضوری
 

سیما علی

لائبریرین
آج دنیا کے ترقی یافتہ ممالک لاکھ مزدوروں کے حقوق کی پاسداری کا دعوی کرتے پھریں۔لیکن اس سلسلہ میں جب ہم تاریخ کا مطالعہ کرتے ہیں تو بہت زمانہ پہلے یعنی تقریباً 1450سوسال قبل عرب کے ریگستانوں میں اسلام کے آخری پیغمبر حضرت محمد ﷺ نے ہم سمجھتے ہیں سب سے پہلے مزدوروں کے حق میں اس وقت آواز اٹھائی جب آ پ ﷺ نے کہاکہ مزدور کو اس کی مزدوری اسکے پسینہ سوکھنے (خشک)سے پہلے پہلے ادا کردو۔آپ ﷺ نے اپنے آخری خطاب میں بھی خصوصی طورپر سبھی کو اپنے ماتحت کام کرنے والے مزدوروں یا ملازموںکے حقوق ادا کرتے رہنے کی بار بار تلقین فرمائی اور ساتھ ہی مزدوروں یا غلاموں کے لیے بھی خوش خبری دی کہ جو مزدور اپنے رب کی اطاعت کے ساتھ ساتھ اپنے مالک کی بھی فرمانبرداری کریگا اسے جنّت میں دو مقامات سے نوازہ جائے گا۔
اردو شاعری کے آئینے میں " مزدور دوس" - Sada E Waqt
 
آخری تدوین:

زیک

مسافر
۔آپ ﷺ نے اپنے آخری خطاب میں بھی خصوصی طورپر سبھی کو اپنے ماتحت کام کرنے والے مزدوروں یا ملازموںکے حقوق ادا کرتے رہنے کی بار بار تلقین فرمائی اور ساتھ ہی مزدوروں یا غلاموں کے لیے بھی خوش خبری دی کہ جو مزدور اپنے رب کی اطاعت کے ساتھ ساتھ اپنے مالک کی بھی فرمانبرداری کریگا اسے جنّت میں دو مقامات سے نوازہ جائے گا۔
سرخ زدہ سے شدید اختلاف ہے
 
خادموں کا حق (Right of workers & servants)
اَرِقَّآئَکُمْ اَرِقَّائَکُمْ، اَطْعِمُوْهُمْ مِمَّا تَاْکُلُوْنَ، وَاکْسُوْهُمْ مِمَّا تَلْبَسُوْنَ.
’’اپنے غلاموں کا خیال رکھو، ہاں غلاموں کا خیال رکھو، انہیں وہی کھلاؤ جو خود کھاتے ہو، ایسا ہی پہناؤ جو خود پہنتے ہو۔‘‘
فتویٰ آن لائن
تاریخ اشاعت: 08 اگست 2020ء
۔

روزنامہ پاکستان، لاہور
تاریخ اشاعت:
۵ دسمبر ۲۰۰۸ء
مولانا زاہدالراشدی
  • اپنے غلام لونڈیوں کا خیال رکھو۔ جو تم کھاتے ہو انہیں بھی کھلاؤ، جو تم خود پہنتے ہو انہیں بھی پہناؤ، اگر ان سے کوئی ایسی غلطی ہو جائے جسے تم معاف نہیں کرنا چاہتے تو اللہ تعالیٰ کے ان بندوں کو بیچ دو لیکن انہیں عذاب نہ دو۔
احکام الٰہی اور حقوق انسانی کاجامع منشور

خطبہ حجة الوداع
ڈاکٹر(مفتی) محمد شمیم اختر قاسمی


دفعہ:۲۶

۱۔ اور ہاں غلام ،تمہارے غلام!(ان سے حسنِ سلوک کرو)

الف: جو تم کھاتے ہو اس میں سے ان کو بھی کھلاوٴ۔

ب: جو تم پہنتے ہو اس میں سے ان کو بھی پہناوٴ۔

ج: اگر وہ کوئی ایسی خطا کریں جسے تم دیکھو کہ معاف نہیں کرسکتے تو اللہ کے بندوانہیں فروخت کردو۔(مگر)

د: انہیں بھیانک سزا (عذاب) تو نہ دو۔

۲۔ اور ان کے بارے میں بھی تمہیں (حسن سلوک کی) وصیت کرتا ہوں ، جولونڈیاں (تمہارے زیر تصرف) ہیں،پس ان کو وہ کھلاوٴ اور پہناوٴ جو تم کھاتے پہنتے ہو۔

خطبۂ حجة الوداع، انسانی حقوق کا عالمی منشور۔ خلیل الرحمن ربانی

جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے تمام عمر غریب ، نادار اور امت کے اُن طبقات کا خصوصی خیال فرمایا جن کو معاشرے میں ناکارہ شئی سمجھا جاتا تھا۔ ان طبقات کے باقاعدہ حقوق بیان فرمائے اور ان کی خدمت کو خصوصی عبادات کا درجہ حاصل ہوا۔

خطبہ ٔ جحة الوداع کے موقع پر بھی آپ علیہ السلام نے اس طرح کے کئی ارشادات فرمائے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ میں تمہیں دو کمزوروں، دو ضعیفوں کے بارے میں بطور خاص وصیت کرتا ہوں کہ ان کے حقوق کا خیال کرنا کیونکہ وہ اپنا حق اپنے طور پر وصول کرنے کی سکت نہیں رکھتے۔ ایک یتیم اور دوسرا عورت۔ فرمایا کہ یہ دو کمزور ہیں، میں ان کے حقوق کے بارے میں تمہیں بطور خاص وصیت کرتا ہوں اور تیسرا طبقہ جس کے بارے میں فرمایا کہ میں تمہیں وصیت کرتا ہوں غلاموں کے بارے میں، ماتحتوں کے بارے میں۔ اس زمانے میں غلام ہوتے تھے، فرمایا کہ میں غلاموں کے بارے میں بطور خاص وصیت کرتا ہوں کہ وہ بھی تمہاری طرح انسان ہیں۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت کے وقت جو معاشرہ تھا، اس میں یہ تینوں طبقے فی الواقع مظلوم تھے اور یہ آج بھی مظلوم ہیں۔ یتیم اس زمانے میں بھی ایک مظلوم طبقہ تھا اور آج بھی ہے۔ یتیم اس حوالے سے بھی قابل رحم طبقہ ہے کہ وہ بڑوں کے رحم و کرم پر ہوتا ہے۔ اگر اس کا ولی دیانت دار ہے، ایمان دار ہے تو یتیم کی تعلیم و تربیت بھی ہوگی، اس کی جائیداد کی حفاظت بھی ہوگی اور اس کو وراثت کا حصہ بھی پورا ملے گا، لیکن اگر ولی کی نیت میں کھوٹ ہے تو سارے معاملات گڑبڑ ہو جائیں گے اور عام طور پر ایسا ہوتا ہے۔

 
وعن عبد الله بن عمر قال : قال رسول الله صلى الله عليه و سلم : " أعطوا الأجير أجره قبل أن يجف عرقه " . رواه ابن ماجه
(2/175)
اور حضرت عبداللہ بن عمر راوی ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا مزدور کو اس کی مزدوری اس کا پسینہ خشک ہونے سے پہلے دیدو یعنی جب مزدور اپنا کام پورا کر چکے تو اس کی مزدوری فورًا دیدو اس میں تاخیر نہ کرو (ابن ماجہ)
 
ابھی تک مزدوروں کے جن حقوق پر لکھنے پر توجہ دی گئی، ان میں سے ہر ایک کا تعلق ان حقوق سے ہے، جو مزدور کی ذات سے تعلق رکھتے ہیں۔ جہاں تک حقوق اﷲ کا تعلق ہے تو ان کے بارے میں فقہائیِ کرام نے فرمایا کہ جس طرح مزدوروں کو ان کی اجرت کا دینا لازم اور ضروری ہے بالکل اسی طرح مالکان پر یہ بھی لازم ہے کہ دورانِ کام فرائض و واجبات مثلاً نماز وغیرہ کا وقت آجائے، تو مزدوروں کو اس کی ادائی کے لیے ناصرف وقت دیا جائے بلکہ اِن کوانجام دینے کے لیے بہتر جگہ بھی فراہم کی جائے۔
اسی طرح رمضان المبارک میں ان سے اتنا ہی کام لیا جائے کہ وہ آسانی کے ساتھ روزے رکھ سکیں۔ کسی بھی شخص کے لیے یہ جائز نہیں ہے کہ وہ اپنے ملازمین کو ایسے حقوق اﷲ سے روکے، جن کی ادائی انفرادی طور پر ہر مسلمان کے لیے ضروری ہے اور اگر کسی نے ایسا کیا تو ملازمین پر اپنے مالک کی اطاعت لازم نہیں ہوگی، کیوں کہ حدیث مبارک کا مفہوم ہے کہ کسی کی اطاعت اسی وقت تک کی جاسکتی ہے، جب تک وہ شریعت کے مطابق ہو، وگرنہ اﷲ تعالیٰ کی نافرمانی پر کسی کی اطاعت نہیں کی جائے گی۔
 

ام اویس

محفلین
ام عبدالوھاب
سیما علی
مزدورں اور غلاموں کے حقوق کی بات کا حوالہ تو موجود ہے
البتہ
احادیث سے مندرجہ ذیل بات کا حوالہ درکار ہے کیونکہ خطبہ حجة الوداع میں ایسی کوئی بات موجود نہیں۔

ساتھ ہی مزدوروں یا غلاموں کے لیے بھی خوش خبری دی کہ جو مزدور اپنے رب کی اطاعت کے ساتھ ساتھ اپنے مالک کی بھی فرمانبرداری کریگا اسے جنّت میں دو مقامات سے نوازہ جائے گا۔
 

ام اویس

محفلین
احادیث کا معاملہ بہت سخت ہے۔۔۔ اور احادیث میں اپنی طرف سے کسی بہت اچھی بات کو بھی شامل کرنا ، احادیث گھڑنے کے زمرے میں آتا ہے۔ لوگ اسے معمولی سمجھتے ہیں ، حالانکہ اس پر جہنم میں ٹھکانے کی وعید ہے اور دوسری طرف کسی حدیث کا انکار کرنا بھی سخت گناہ کا موجب ہے۔

اسی لیے صحابہ کرام رضوان الله علیھم اجمعین اور ان کے بعد کبار علماء و صالحین اس معاملے میں بہت احتیاط کرتے تھے۔
آجکل تو بڑے بڑے رائٹر اپنی تحریر میں اس بات کا بالکل خیال نہیں رکھتے سنی سنائی باتوں کو بھی احادیث میں شامل کر دیتے ہیں۔
ہمیں ایسی باتیں شئیر کرنے میں احتیاط سے کام لینا چاہیے۔
یہ کسی پر کوئی تنقید نہیں بلکہ اپنے پیاروں کو بچانے کو کوشش ہے امید ہے میری اس بات کو کوئی ذاتی تنقید نہیں سمجھے گا۔
الله کریم ہمیں اس معاملے میں احتیاط کی توفیق دے اور اپنی پناہ میں رکھے۔
 

محمد وارث

لائبریرین
سرخ زدہ سے شدید اختلاف ہے
"غلامی" اسلام میں ایک مذہبی ٹرم نہیں ہے بلکہ جس وقت اسلام آیا اس وقت "غلامی" بحیثیت ایک سیکولر اور غیر مذہبی ادارہ ہر معاشرے میں رائج تھی بشمول عرب۔ اس لیے غلاموں کے ساتھ حسنِ سلوک کی تلقین تو کی گئی ہے لیکن "غلامی" کو ایک مذہبی ضرورت اسلام میں کہیں نہیں بنایا گیا۔ اُس وقت کی معاشرت کے مطابق مسلمان بھی غلام رکھتے تھے، اب غلامی دنیا سے ختم ہو چکی تو مسلمان بھی غلام نہیں بناتے اور ، نہ رکھتے ہیں۔ مختلف احادیث میں غلاموں کے ساتھ حسنِ سلوک کے جتنے بھی فرمودات ہیں ان سے اُس زمانے میں یا آج کل بھی مسلمانوں کے ہاں غلامی جائز نہیں ہوتی، لہذا میرے نزدیک اس سے اختلاف کی کوئی validوجہ بنتی نہیں ہے!
 

سید عمران

محفلین
"غلامی" اسلام میں ایک مذہبی ٹرم نہیں ہے بلکہ جس وقت اسلام آیا اس وقت "غلامی" بحیثیت ایک سیکولر اور غیر مذہبی ادارہ ہر معاشرے میں رائج تھی بشمول عرب۔ اس لیے غلاموں کے ساتھ حسنِ سلوک کی تلقین تو کی گئی ہے لیکن "غلامی" کو ایک مذہبی ضرورت اسلام میں کہیں نہیں بنایا گیا۔ اُس وقت کی معاشرت کے مطابق مسلمان بھی غلام رکھتے تھے، اب غلامی دنیا سے ختم ہو چکی تو مسلمان بھی غلام نہیں بناتے اور ، نہ رکھتے ہیں۔ مختلف احادیث میں غلاموں کے ساتھ حسنِ سلوک کے جتنے بھی فرمودات ہیں ان سے اُس زمانے میں یا آج کل بھی مسلمانوں کے ہاں غلامی جائز نہیں ہوتی، لہذا میرے نزدیک اس سے اختلاف کی کوئی validوجہ بنتی نہیں ہے!
یہی وجہ ہے کہ جس زمانہ میں غلاموں کو اپنی ملکیت سے نکالنا سوہانِ روح سمجھا جاتا تھا اللہ تعالیٰ نے کئی اسلامی احکامات کا ربط غلاموں کی آزادی سے جوڑا۔ یعنی اسلام نے انسانوں کو غلام بنانے سے زیادہ انہیں آزاد کرنے کو پسند کیا۔
 

زیک

مسافر
"غلامی" اسلام میں ایک مذہبی ٹرم نہیں ہے بلکہ جس وقت اسلام آیا اس وقت "غلامی" بحیثیت ایک سیکولر اور غیر مذہبی ادارہ ہر معاشرے میں رائج تھی بشمول عرب۔ اس لیے غلاموں کے ساتھ حسنِ سلوک کی تلقین تو کی گئی ہے لیکن "غلامی" کو ایک مذہبی ضرورت اسلام میں کہیں نہیں بنایا گیا۔ اُس وقت کی معاشرت کے مطابق مسلمان بھی غلام رکھتے تھے، اب غلامی دنیا سے ختم ہو چکی تو مسلمان بھی غلام نہیں بناتے اور ، نہ رکھتے ہیں۔ مختلف احادیث میں غلاموں کے ساتھ حسنِ سلوک کے جتنے بھی فرمودات ہیں ان سے اُس زمانے میں یا آج کل بھی مسلمانوں کے ہاں غلامی جائز نہیں ہوتی، لہذا میرے نزدیک اس سے اختلاف کی کوئی validوجہ بنتی نہیں ہے!
غلامی کے متعلق اسلام نے متعدد احکامات دیئے جو آزادی سے اسے ممتاز کرتے ہیں۔ یہ مان لینا بھی ضروری ہے کہ اسلام یا مسلمانوں نے غلامی ختم کرنے کے لئے کچھ نہیں کیا۔ جیسا کہ محفل پر پہلے بحث ہو چکی ہے اکثر مسلمان یہ بھی ماننے کو تیار نہیں ہیں کہ غلامی بری ہوتی ہے یا کہ غلامی مستقبل میں حرام ہے۔

مزدور کی مشقت اور غلام کا مفت زبردستی کا کام ایک ساتھ جوڑنا بھی کافی عجیب ایتھکس کی نشانی ہے۔
 
Top