یوں ہو کہ رنگ تم کو، صدا سے سنائی دیں ۔۔ تازہ غزل اصلاح کے لیے۔۔

اساتذہ جناب @الف عین صاحب ،محمد اسامہ سرسری صاحب ، اور احباب کی خدمت ایک تازہ غزل حاضر ہے ....
آپ حضرات کی پر شفقت توجہ، اصلاح اور رہنمائی کا منتظر ہوں ۔ اس ناچیز کو ممنون ہونے کا موقع عنایات فرمایئں۔

بحر مضارع مثمن اخرب مکفوف محذوف
مفعول فاعلات مفاعیل فاعلن
یا پھر
مفعول فاعلاتن مفعول فاعلن
---------------------------------------------------
باد ِ صبا بھی چلتی، مدھم ملے تمہیں
پھولوں میں رولتی ہوئی، شبنم ملے تمہیں

جو باغ ِ انتظار میں دیکھے تُو صبح ِ دم
گرتی پلک سے میری شبنم ملے تمہیں

یوں ہو کہ رنگ تم کو، صدا سے سنائی دیں
آواز پھر نئی، ابھی اِس دم ملے تمہیں

قربانی ہم سے مانگی گئی، جسم و جان کی
مشکل سوال ایسے، ذرا کم ملے تمہیں

وَا در رکھے تھے تیرے آنے کے واسطے
سیدھا تھا دل کا راستہ، کیوں خم ملے تمہیں

تم سے کرے سلوک کوئی ہم سے مختلف
تشنہ لبی ہو، مژگاں پر نم ملے تمھیں

ناکام ہر دوا تھی مسیحا کی جب ترے
تب اس شعور ِ غمِ سے مرہم ملے تمہیں

دیوار پر لکھا تھا جب، راستہ ہے بند
منزل کی رَہ دکھاتے بس ہم ملے تمہیں

اب مجھ کو اپنی جان کا، دشمن نیا ملے
وہ دوست اک پرانا، ہمدم ملے تمہیں

یعقوُب کی سی آنکھیں، تری یاد میں ہوئیں
ان پتھروں سے بہتا زم زم ملے تمہیں

کرتے ہو اب کے عرق ِ ندامت سے تم وضو
توفیق دل سے توبہ کی ہر دم ملے تمہیں

واقف رہے ہو تم بھی مرے حال و قال سے
نامے ہمارے پیار کے سب نم ملے تمہیں

خاموش سر جھکائے تھے سب، تیرے سامنے
حیرت سے دیکھتے ہوئے، بس ہم ملے تمہیں

ہارا نہ خواب اپنا، میں نے کبھی کوئی
ارماں مرے ہمیشہ، پر دم ملے تمہیں

بانٹے ہیں رب نے رنج و خوشی، دیکھ بھال کر
کاشف یہ کیا وجہ ہے، کہ سب غم ملے تمہیں

سید کاشف
---------------------------------------------------------

شکریہ .
 

الف عین

لائبریرین
اتنی لمبی غزل!!! میں تو پڑھنے میں ہی ہانپ گیا!!
عزیزی مزمل شیخ بسمل ذرا بحر کے بارے میں رہنمائی کریں۔ رواں بحر تو ایک ہی ہے، مفعول؛ فاعلات مفاعیل فاعلات، اس میں مفعول فاعلاتن کی گنجائش ہے؟
 

سید عاطف علی

لائبریرین
اتنی لمبی غزل!!! میں تو پڑھنے میں ہی ہانپ گیا!!
عزیزی مزمل شیخ بسمل ذرا بحر کے بارے میں رہنمائی کریں۔ رواں بحر تو ایک ہی ہے، مفعول؛ فاعلات مفاعیل فاعلات، اس میں مفعول فاعلاتن کی گنجائش ہے؟
مجھے تو لگتا ہے کہ اس فاعلاتن کی اجازت یہ بحر نہیں دیتی۔
 
میرے خیال میں پہلے بھی عرض کی تھی کہ اس طرح اجازتیں بوقت مجبوری استعمال کی جاسکتی ہیں. اگر کوئی ایسا عذر نہ ہو اور مصرع تھوڑی تبدیلی سے ایک ہی وزن میں رہے تو یہی عمل زیادہ بہتر ہوتا ہے. شاعر کو اس طرف توجہ کی ضرورت ہے کہ ان اجازتوں کا بے محل استعمال روانی کو مجروح کرتا ہے.
البتہ قادر الکلام شعرا کو اس طرح کے تصرفات کرنے میں کوئی ممانعت بھی نہیں.
مفعول فاعلات مفاعیل فاعلن تسکین اوسط سے فاعلاتن مفعول بن جاتا ہے.
 

الف عین

لائبریرین
یہ تسکین اوسط مجھے کبھی تسکین نہیں دیتی!!
اگر مفعول فاعلات ہی کر دیا جائے تو بہتر ہے نا، آسانی سے ہو سکتی ہے۔ مثلاً
دیوار پر لکھا تھا جب، راستہ ہے بند
کو محض ’کہ‘ یا ’یہ‘ کے اضافے سے درست کیا جا سکتا ہے۔
 
استاد محترم جناب الف عین صاحب اور جناب مزمل شیخ بسمل صاحب.... غزل میں اب سوائے ایک مصرع کے تمام اب "مفعول فاعلات مفاعیل فاعلن" کے وزن پر ہیں ...
ایک شعر غزل سے نکال دیا ہے ..
جہاں تسکین اوسط کا سہارا مجھے لینا پڑا وہاں میں نے نشاندھی کر دی ہے .. کیوں کے شعر کی معنویت اور روانی دونوں متاثر ہو رہی تھیں ... اس جسارت کے لیے پیشگی معذرت قبول کریں ... اگر اس کے علاوہ کوئی حل دستیاب ہو تو میں مصرع بدل سکتا ہوں ... مرے ذہن میں تو کچھ اور مناسب الفاظ نہیں آ رہے اس وقت ....
---------------------------------------
باد ِ صبا بھی چلتی، مدھم ملے تمہیں
پھولوں میں رولتی ہوئی، شبنم ملے تمہیں

جو باغ ِ انتظار میں دیکھے تُو صبح ِ دم
اٹکی مری پلک پہ بھی شبنم ملے تمہیں

یوں ہو کہ رنگ تم کو، صدا سے سنائی دیں
آواز پھر نئی، ابھی اِس دم ملے تمہیں

قربانی ہم سے مانگی گئی، جسم و جان کی
مشکل سوال ایسے، ذرا کم ملے تمہیں

وا در کیئے تھے تیرے ہی آنے کا واسطے
سیدھا تھا دل کا راستہ، کیوں خم ملے تمہیں

تم سے کرے سلوک کوئی ہم سے مختلف

تشنہ لبی ہو، مژگاں پر نم ملے تمھیں (یہاں تسکین اوسط کا استعمال کیا ہے)

ناکام ہر دوا تھی مسیحا کی جب ترے
تب اس شعور ِ غمِ سے ہی مرہم ملے تمہیں

دیوار پر لکھا تھا کہ جب راستہ ہے بند
منزل کی رَہ دکھاتے بس ہم ملے تمہیں

اب مجھ کو اپنی جان کا، دشمن نیا ملے
دیرینہ دوست دل کا، وہ ہمدم ملے تمہیں

کرتے دِکھو ہو عرق ِ ندامت سے تم وضو
توفیق دل سے توبہ کی ہر دم ملے تمہیں

واقف رہے ہو تم تو مرے حال و قال سے
نامے ہمارے پیار کے سب نم ملے تمہیں

خاموش سر جھکائے تھے سب، تیرے سامنے
حیرت سے دیکھتے ہوئے، بس ہم ملے تمہیں

میں نے تجا ہو خواب ، نہ ایسا کبھی ہوا
ارماں مرے ہمیشہ ہی، پر دم ملے تمہیں

بانٹے ہیں رب نے رنج و خوشی، دیکھ بھال کر
کاشف یہ کیا وجہ ہے، کہ سب غم ملے تمہیں

---------------------------------------------------
شکریہ ۔۔۔
 

الف عین

لائبریرین
پہلے مصرع میں ہی تسکین اوسط ہے!!

باد ِ صبا بھی چلتی، مدھم ملے تمہیں
پھولوں میں رولتی ہوئی، شبنم ملے تمہیں
÷÷شعر دو لخت محسوس ہو رہا ہے۔ سادہ بحر میں یوں کہہ سکتے ہو
بادِ صبا اگر کبھی مدھم ملے۔۔۔

جو باغ ِ انتظار میں دیکھے تُو صبح ِ دم
اٹکی مری پلک پہ بھی شبنم ملے تمہیں
÷÷درست

یوں ہو کہ رنگ تم کو، صدا سے سنائی دیں
آواز پھر نئی، ابھی اِس دم ملے تمہیں
۔۔صدا سے‘ سے مراد ’صدا کی طرح‘ ہے۔ لیکن شعر سے واضح نہیں ہوتا۔ اس کے علاوہ ’ابھی اسی دم‘ میں ابھی کی ’ی‘ کا اسقاط روانی کو متاثر کر رہا ہے۔

قربانی ہم سے مانگی گئی، جسم و جان کی
مشکل سوال ایسے، ذرا کم ملے تمہیں
۔۔درست

وا در کیئے تھے تیرے ہی آنے کا واسطے
سیدھا تھا دل کا راستہ، کیوں خم ملے تمہیں
۔۔زیادہ روإ صورت۔
در وا رکھے تھے۔۔۔

تم سے کرے سلوک کوئی ہم سے مختلف
تشنہ لبی ہو، مژگاں پر نم ملے تمھیں (یہاں تسکین اوسط کا استعمال کیا ہے)
÷÷یہاں بھی تسکین سے نجات حاصل کی جا سکتی ہے، وہ یوں بھی کہ محاورہ آنکھ پر نم ہونا ہوتا ہے، پلکیں نہیں۔
پیاسے ہوں لب، اور آنکھ بھی پر نم۔۔۔
کیسا رہے گا؟؟

ناکام ہر دوا تھی مسیحا کی جب ترے
تب اس شعور ِ غمِ سے ہی مرہم ملے تمہیں
۔۔پہلے مصرع میں ’تھی‘ کی جگہ ’ہو‘ زیادہ معنی خیز ہو گا۔

دیوار پر لکھا تھا کہ جب راستہ ہے بند
منزل کی رَہ دکھاتے بس ہم ملے تمہیں
÷÷یہاں بھی تسکین اوسط ہے دوسرے مصرع میں۔
پہلے مصرع میں ’جب‘ کی نشست غلط جگہ ہے۔ یوں بہتر ہوتا کہ جب دیوار پر لکھا تھا
دیوار پر جو لکھا تھا ’یہ راستہ ہے بند‘
منزل کی رہ دکھاتے ہوئے ہم ملے تمہیں
ہو سکتا ہے

اب مجھ کو اپنی جان کا، دشمن نیا ملے
دیرینہ دوست دل کا، وہ ہمدم ملے تمہیں
÷÷ابلاغ نہیں ہوا۔ شعر کوئی خاص بھی نہیں، نکالا جا سکتا ہے

کرتے دِکھو ہو عرق ِ ندامت سے تم وضو
توفیق دل سے توبہ کی ہر دم ملے تمہیں
÷÷زبانِ میر کا استعمال تو ٹھیک ہے، لیکن اس میں روانی نہیں ہے۔ اگر ’جو کر رہے ہو‘ ہو تو رواں ہو جائے۔

واقف رہے ہو تم تو مرے حال و قال سے
نامے ہمارے پیار کے سب نم ملے تمہیں
÷÷درست

خاموش سر جھکائے تھے سب، تیرے سامنے
حیرت سے دیکھتے ہوئے، بس ہم ملے تمہیں
۔۔درست

میں نے تجا ہو خواب ، نہ ایسا کبھی ہوا
ارماں مرے ہمیشہ ہی، پر دم ملے تمہیں
۔۔پردم؟؟؟ بات سمجھ میں نہیں آ سکی

بانٹے ہیں رب نے رنج و خوشی، دیکھ بھال کر
کاشف یہ کیا وجہ ہے، کہ سب غم ملے تمہیں
÷÷وجہ کا تلفظ غلط بندھا ہے۔ اس کو ’سبب‘ کر دو تو درست ہو جائے۔
 
استادمحترم جناب الف عین صاحب تصحیح کےبعدغزل حاضرہے..
دواشعار
١. اب مجھ کو...
٢. میں نےتجا....
کوغزل سےنکال رہاہوں...
وہ اشعارجودرست پایے گیے ہیں انھیں تصحیح میں شامل نہیں کیاہے... باقی اشعار اب ایسےہیں...

بادِ صبا اگرکبھی مدھم ملےتمہیں
پھولوں میں رولتی ہوئی،شبنم ملے تمہیں

ہو یوں کہ رنگ بن کے صدا اب سنائی دیں
آواز پھر ابھی نئی، اِس دم ملے تمہیں

اس مصرع میں الفاظ کی نشست بدل دی ہے

در وا کیئےتھے تیرے ہی آنے کے واسطے
سیدھا تھا دل کا راستہ، کیوں خم ملے تمہیں

تم سےکرے سلوک کوئی ہم سے مختلف
پیاسے ہوں لب، اور آنکھ بھی پرنم ملے تمھیں
لفظ"اور"صرف'ر' تقطیع ہو رہا ہے استاد محترم ؟ کیا درست صورت ہے ؟

ناکام ہر دوا ہو مسیحا کی جب ترے
تب اس شعور ِ غمِ سے ہی مرہم ملے تمہیں

مجھےیہاں"یہ" کااستعمال کچھ مفید لگا. اب آپ کی جو رائے ہو -
دیوار پر لکھا تھا یہ جب ، 'راستہ ہے بند '
منزل کی رہ دکھاتے ہوئے ہم ملے تمہیں

جو کر رہے ہو عرقِ ندامت سے تم وضو
توفیق دل سےتوبہ کی ہر دم ملے تمہیں

بانٹے ہیں رب نے رنج و خوشی ، دیکھ بھال کر
کاشف یہ وجہ کیا ہے ،کہ سب غم ملے تمہیں
اس مصرع میں بھی الفاظ کی نشست بدل دی ہے

بہت بہت شکریہ ۔ نوازش۔
 

الف عین

لائبریرین
ہو یوں کہ رنگ بن کے صدا اب سنائی دیں
آواز پھر ابھی نئی، اِس دم ملے تمہیں
اب بھی روانی چاہتا ہے۔ ’اب‘کیوں؟
یوں ہو کہ رنگ بن کے صدا گفتگو کریں
میں بات بن سکتی ہے؟
ووسرا مصرع بھی ’اسی دم‘ استعمال کر کے رواں کیا جا سکتا ہے شاید
آواز اک نئی سی اسی دم ملے تمہیں
 
استاد محترم جناب الف عین صاحب
استاد محترم جناب محمد یعقوب آسی صاحب
استاد محترم محمد اسامہ سرسری صاحب
رہنمائی کی درخواست ہے۔
یہاں بہتر شکل کس شعر کی ہے۔
تم رک گئے تھے پڑھ کے جب ، 'راستہ ہے بند '
منزل کی رہ دکھاتے وہیں ہم ملے تمہیں
یا
دیوار پر لکھا تھا یہ جب ، 'راستہ ہے بند '
منزل کی رہ دکھاتے وہیں ہم ملے تمہیں
یا
دیوار پر یہ پڑھ کہ رکے 'راستہ ہے بند '
منزل کی رہ دکھاتے وہیں ہم ملے تمہیں

شکریہ
 
یوں ہو کہ رنگ تم کو، صدا سے سنائی دیں
آواز پھر نئی، ابھی اِس دم ملے تمہیں
۔۔صدا سے‘ سے مراد ’صدا کی طرح‘ ہے۔ لیکن شعر سے واضح نہیں ہوتا۔ اس کے علاوہ ’ابھی اسی دم‘ میں ابھی کی ’ی‘ کا اسقاط روانی کو متاثر کر رہا ہے۔

رنگ باتیں کریں اور باتوں سے خوشبو آئے
درد پھولوں کی طرح مہکیں اگر تو آئے
۔۔۔ بہت مشہور غزل ہے
 
تم سےکرے سلوک کوئی ہم سے مختلف
پیاسے ہوں لب، اور آنکھ بھی پرنم ملے تمھیں
لفظ"اور"صرف'ر' تقطیع ہو رہا ہے استاد محترم ؟ کیا درست صورت ہے ؟

اس شعر میں "ر" کا کو خیر مسئلہ نہیں ہے، پر دوسرے مصرعے کے لب اور آنکھ کس کی ہے؟ محب کی یا محبوب کی؟ سلوک اور ہم سے مختلف ۔۔ ؟؟
مجھے تو اس میں بددعا کا تاثر ملا ہے، کیا واقعی ایسا ہے؟
 
یہاں بہتر شکل کس شعر کی ہے۔
تم رک گئے تھے پڑھ کے جب ، 'راستہ ہے بند '
منزل کی رہ دکھاتے وہیں ہم ملے تمہیں
یا
دیوار پر لکھا تھا یہ جب ، 'راستہ ہے بند '
منزل کی رہ دکھاتے وہیں ہم ملے تمہیں
یا
دیوار پر یہ پڑھ کہ رکے 'راستہ ہے بند '
منزل کی رہ دکھاتے وہیں ہم ملے تمہیں

"راستہ ہے بند" یہ الفاظ یہاں شعریت کو نقصان پہنچا رہے ہیں۔ بہتر ہے کہ مصرع نیا کہہ لیجئے
 
Top