فاتح

لائبریرین
یونیورسٹیوں پر جنات کا قبضہ
از ڈاکٹر پرویز ہود بھائی

پچھلے ہفتے کومسیٹ انسٹی ٹیوٹ آف ٹیکنالوجی جو کہ پاکستان کی بڑی یونیورسٹیوں میں سے ایک ہے کے اسلام آباد کیمپس کے شعبہ ہومینیٹیز کے زیر اہتمام ایک ورکشاپ ’’ جنات اور کالا جادو‘‘ کے نام سے منعقدہوئی۔ مہمان سپیکر راجہ ضیاء الحق تھے جن کے متعلق بتایا گیا کہ وہ روحانی کارڈیالوجسٹ، کالی بلاؤں اور دوسرے عملیات کے ماہر ہیں۔ وہ اتنے مقبول ہیں کہ اخبار میں چھپی تصویر کے مطابق ہال طالب علموں سے کھچا کھچ بھرا ہوا تھا۔

راجہ صاحب نے ان دیکھی مخلوق کو تین اقسام میں تقسیم کیا:
  1. ایک جو اڑتی ہیں،
  2. دوسری وہ جو حالات کے مطابق اپنی شکل و صور ت تبدیل کرتی ہیں
  3. اور تیسری وہ جن کا مسکن تاریک جگہیں یا کوڑے کے ڈھیر ہوتی ہیں۔
انہوں نے جنات اور کالے جادو کے جواز میں ایک دلچسپ دلیل دی۔ انہوں نے کہا اگر ان کا وجود نہیں ہے تو پھر ہر سال ہالی ووڈ بھاری سرمائے سے ڈراؤنی فلمیں کیوں تیار کرتا ہے ؟

ذرا ٹھہریے کیا یہ دلیل آپ کو مجبورکرتی ہے کہ ہالی وڈ کی مقبول چڑیلیں ، بدروحیں اور عجیب الخلقت جانور، خیالی کی بجائے حقیقت میں وجود رکھتے ہیں۔ یقیناًاس طرح کے بچگانہ دعوے کو ہال میں موجود کوئی بھی آسانی سے چیلنج کر سکتا ہے۔ لیکن ایسے مواقع پر منتظمین کی کوشش ہوتی ہے کہ مبلغ کی تین گھنٹے کی تقریر میں کوئی خلل نہ پڑے اور وہ اپنی بات بغیر کسی مداخلت کے مکمل کرے۔

اب آگے کیا ہونا چاہیے؟ شاید کومسیٹ انسٹی ٹیوٹ آف ٹیکنالوجی ، جنات پر مشتمل ٹیلی کمیونیکیشن نیٹ ورک تشکیل دے سکتی ہے یا پھر ایسے جناتی میزائل تیار کر سکتی ہے جو راڈار میں نظر نہ آئیں۔ جنات پر مشتمل کیمسٹری کے ذریعے بہت سے کام کیے جا سکتے ہیں۔ جنرل ضیاء کے دور میں جنات سے بجلی پیدا کرنے کا مشورہ بھی دیا گیا تھا۔ یہ مشورہ پاکستان اٹامک انرجی کمیشن کے سینئر ڈائریکٹر نے دیا تھا کہ جنات کی مدد سے ایٹمی اور کوڑا کرکٹ سے ایندھن تیار کیا جا سکتا ہے۔

اس طرح کی ورکشاپ کا انعقاد کوئی نئی بات نہیں۔ سکولوں، کالجوں اور یونیورسٹیوں میں اس طرح کے روحانی سپیکرز بلائے جاتے ہیں۔ جو موجودہ سائنسی علم سے ماورا علم بیان کرتے ہیں۔ مثال کے طور پر انسٹی ٹیوٹ آف بزنس مینجمنٹ کراچی کی ایک میٹنگ کا موضوع تھا ’’ آدمی کے آخری لمحات‘‘۔ پوسٹر میں دکھایا گیا کہ ادھیڑ عمر کا شخص پرانی کشتی میں قبرستان سے گذرتا دکھایا گیا ہے ۔ حسب معمول ہال طالب علموں سے کھچا کھچ بھرا ہوا تھا(جیسا کہ مجھے بتایا گیا تھا)۔اس لیکچر میں مرنے کے بعد کی زندگی کوکچھ خاکوں کی مدد سے سمجھایا گیاتھا۔ اس اطلاع کا ذریعہ شاید وہ خفیہ ایس ایم ایس تھے جو سپیکر کو قبر کے اندر سے بھیجے گئے تھے۔

کوئی یہ سوچ سکتا ہے کہ پاکستان کی مہنگی ترین یونیورسٹی ایسی خرافات سے پاک ہو گی۔ لمز یعنی لاہور یونیورسٹی آف مینجمنٹ سائنسز ملک کی مہنگی ترین یونیورسٹی ہے اس کا سکول آف سائنس اینڈ انجینئرنگ امریکی ڈالرز کی مدد سے تعمیر کیا گیا ہے۔ جس کا مطلب ہے کہ یہاں کوئی سنجیدہ کام ہو گالیکن لمزکے کئی پروفیسر سائنسی سوچ کا مذاق اڑاتے ہیں۔

اتفاق سے اس سال کے شروع میں مجھے یہاں ہومینیٹیز کے ایک پروفیسر صاحب کا لیکچر سننے کا موقع ملا ۔ اس لیکچر کی خاص بات سائنس پر لعنت ملامت کرنا تھی۔انہوں نے یہ تسلیم کیا کہ وہ فزکس نہیں جانتے ۔ انہوں نے پیشہ ور ناقد کے طور پر سائنس کو تنقید کا نشانہ بنانا شروع کر دیا اور پھر دعویٰ کیا کہ 1923 میں فزکس کا نوبل پرائز جو رابرٹ میلیکان کو دیا گیا تھا وہ اس کا حقد ار نہیں تھا کیونکہ یہ انعام منظور نظر افراد کو دیا جاتا ہے۔

ابھی میں حیران پریشان یہ لیکچر سن رہا تھا کہ اتنے میں پروفیسر صاحب نے آئن سٹائن کی مشہور مساوات
E= mc2​
کو غلط ثابت کرنا شروع کیا تو میری پلکیں جھپکنا بند ہو گئیں اور ایسا لگا کہ دل کی دھڑکن رک گئی ہے۔ ایٹم بم پھٹے گا یا نیو کلیئر ری ایکٹر کتنی بجلی پیدا کرے گا تو کیا ہو گا؟یقیناًیہ کام جنات کا ہوگا۔ لیکن وہ ایسے دعوے کرنے میں اکیلے نہیں ہیں۔

لمز کے بیالوجی کے شعبہ صدر نے تمام فیکلٹی کو ایک ای میل بھیجی جس میں انہوں نے دعویٰ کیا کہ قرآنی آیات کی تلاوت کرنے یا سننے سے ’’ جینز اور میٹابولائیٹ‘‘ کو کنٹرول کیا جا سکتا ہے اور تجویز دی کہ ہسپتالوں میں آڈیو وژول کمرے بنائے جائیں تاکہ اس مرض کے مریضوں کا علاج کیا جا سکے۔

مغربی سائنس سے توجہ ہٹانے کے لیے پچھلے ماہ لمز نے پاکستان کے ایک اعلیٰ اور قابل ترین میتھ میٹیکل فزسسٹ کو اس کی مدت ملازمت پورے ہونے سے پہلے ہی فارغ کر دیا ۔خوش قسمتی سے اس کا کوئی نقصان نہیں ہوا کیونکہ اسے جلد ہی ہارورڈ، پریسٹن یا ایم آئی ٹی( جہاں سے اس نے پی ایچ ڈی کی تھی) میں جاب ملنے والی ہے۔

مافوق الفطرت اور سازشی نظریات کا آپس میں گہرا تعلق ہوتا ہے۔ اس لیے یہ بات حیران کن نہیں ہونی چاہیے کہ پاکستان کی سب سے بڑی پبلک یونیورسٹی کے وائس چانسلر نے ایک کتاب لکھی ہے جس میں وہ کہتے ہیں کہ نائن الیون کا واقعہ امریکہ نے خود کروایا تھا۔ اپنے اخبار ی انٹرویو میں انہوں نے بتایا کہ دنیا کا تمام معاشی نظام ، مانٹی کارلو میں مقیم یہودی کنٹرول کر رہے ہیں۔

آپ کو بہت جلد اس طرح کی مزید سازشی تھیوریاں سننے کا موقع ملے گا۔ کیونکہ مشہور زمانہ زید حامد، سعودی عرب کی جیل میں کئی سال کی قید اور ایک ہزار کوڑوں کی سزا سے بچ کر پاکستان واپس پہنچ گئے ہیں اور جلد ہی یہ شعلہ بیان مقرر پہلے کی طرح پاکستان کے تعلیمی اداروں کا دورہ کرتے نظر آئیں گے۔

ہمارے تعلیمی اداروں میں بغیر دلیل اور سائنس مخالف رویوں کی بھر مار ہے۔ہوسکتا ہے آپ کے لیے یہ سمجھنا مشکل ہو۔ نہیں بالکل نہیں۔ ایک لمحے کے لیے سوچیں ۔ سائنس کو غلط ثابت کرنا بہت آسان ہے ۔ سائنس کو رد کرنے کا مطلب ہے آپ بہت بڑی ذہنی مشقت اور مشکل کام سے بچ جاتے ہیں یعنی فزکس اور میتھ سے جان چھوٹ جاتی ہے۔ سائنس کو برا بھلا کہنا آسان ہے بہ نسبت اس کو سمجھنا۔

اس کے بہت سے فائدے ہیں ۔ ذہنی معذوری جیسے کہ ہسٹریا ، نیورو سرجن یا کلینکل سائیکالوجسٹ کے بغیر آپ جنات کی مدد سے اس کا علاج کر سکتے ہیں۔ ایک مقامی پیر بھی یہ علاج کر سکتا ہے۔ آپ کو میٹرولوجی سائنس پڑھنے کی بجائے جنات کے ذریعے ہوا کو کنٹرول کر سکتے ہیں اور زلزلوں کی تحقیق کرنے کی تو کوئی ضرورت نہیں کیونکہ یہ تو ہمارے غلط اعمال کا نتیجہ ہوتے ہیں۔

جہاں تک عام سے کھلونوں یا اوزار جیسے کہ کمپیوٹر اور سیل فون کا معاملہ ہے، تو یہ ہم اپنے سعودی بھائیوں کی طرح، ہمیشہ ایپل، سام سنگ اور نوکیا کے خریدیں گے۔ کوئی پیسے کی بھوکی زنگ زینگ زونگ کمپنی سیل فون چلانے کے لیے پاکستان میں اپنانیٹ ورک قائم کر لے گی۔ ٹیکنالوجی یا کوئی چیز ایجاد کرنے جیسا گندہ کام ہم نے چینیوں، امریکیوں اور یورپین کے لیے چھوڑ دیا ہے۔ ان کے جنات کو معلوم ہے کہ اپنا کام کیسے کرنا ہے۔

پاکستان کے تعلیمی اداروں کو روشن خیالی کا منبع ہونا چاہیے۔کھلے ذہن کے ساتھ نئی سوچ کو جگہ دینی چاہیے۔ نہیں تو یہ جانوروں کا باڑہ بن کر رہ جائیں گے۔ ذہنی طور پر سست اور نالائق پروفیسروں کی فوج کو ایسے طالب علموں کی ضرورت ہوتی ہے جو ان کی ہر بات پر سوال اٹھانے یا چیلنج کرنے کی بجائے اس پر سر تسلیم خم کریں ۔ وہ یہ جانتے ہیں کہ مافوق الفطرت اور خیالی واقعات سنا کر 20 سے 25 سال کے نوجوانوں کو موت کا خوف دلا کرڈرایا جا سکتا ہے۔

تعلیمی اداروں میں اس طرح کے لیکچرز کے انعقاد کا مطلب ہے کہ پاکستان کی ثقافتی اور سماجی دانش مندی کا زوال تیز تر ہورہا ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔​
ڈیلی ڈان، لاہور
حوالہ: http://niazamana.com/2015/10/pervez-hoodbhoy-on-universities/
 

فاتح

لائبریرین
محفل کےسائنسدان اس سلسلہ میں ہماری کیا مدد فرما سکتے ہیں؟ محمد سعد زیک
کالے پیلے جادو کے ماہرین فراڈیے جادوگر، جنات اور چڑیلوں کو قابو کرنے والے بابے شابے عملیات کا ڈھونگ رچا نے والے دھوکے باز عامل کامل بھی تو موجود ہیں۔۔۔ انہیں بھی آواز لگا لیں :laughing:
 

عثمان

محفلین
جب پاکستان کے معروف تعلیمی اداروں میں ایسے گنوار قابض ہیں تو پھر عام آدمی سے کیا شکایت ہوسکتی ہے۔ :)
تعلیم سے شعور تک۔۔ ابھی کافی سفر باقی ہے۔ :)
 

arifkarim

معطل
فاتح اگر پروفیسر ہود بھائی کا کالم درست ہے اور پاکستان کے اعلیٰ ترین تعلیمی اداروں میں سائنس کا یہی معیار ہے تو پھر یہاں سوال یہ بنتا ہے کہ اس قوم کو ایٹم بم تخلیق کر کے دینے والے کونسے جنات تھے؟؟؟
 

عثمان

محفلین
فاتح اگر پروفیسر ہود بھائی کا کالم درست ہے اور پاکستان کے اعلیٰ ترین تعلیمی اداروں میں سائنس کا یہی معیار ہے تو پھر یہاں سوال یہ بنتا ہے کہ اس قوم کو ایٹم بم تخلیق کر کے دینے والے کونسے جنات تھے؟؟؟
ایٹم بم کی ٹیکنالوجی پاکستان کی تخلیق کردہ نہیں ہے۔
 

عثمان

محفلین
ظاہر ہے تخلیق تو امریکی ہے البتہ اسکی امپلیمنٹیشن تو ہمارے سائنسدانوں نے ہی کی تھی۔
مینوفیکچرینگ ٹیکنالوجی بھی پاکستان کی تخلیق کردہ نہیں ہے۔ اس سلسلے میں تمام تر علم اور ٹیکنالوجی جائز یا ناجائز طریقوں سے درآمد شدہ ہے۔
 

فاتح

لائبریرین
ظاہر ہے تخلیق تو امریکی ہے البتہ اسکی امپلیمنٹیشن تو ہمارے سائنسدانوں نے ہی کی تھی۔
امریکی؟
اوتو ہان ایک جرمن سائنس دان تھا جس نے 1938 میں نیوکلیئر فژن کا نمونہ پیش کر کے اسے ثابت کیا تھا ۔
انریکو فرمی ایک اطالوی سائنس دان تھا جس نے دنیا کا پہلا نیوکلیئر چین ری ایکشن تخلیق کیا اور پہلا نیوکلیئر ری ایکٹر بنایا ۔ (بعد میں اسے امریکی شہریت مل گئی تھی :) )
ہاں! پہلا ایٹم بم امریکا نے ضرور بنایا لیکن اس کے پیچھے سیاسی وجوہات کا عمل دخل زیادہ تھا اور اس تباہ کن ہتھیار کو استعمال کر کے لاکھوں بے گناہوں کو قتل کرنے اور کئی نسلیں اپاہج کرنے کا اعزاز ضرور صرف اور صرف امریکا بہادر کے پاس ہے۔
علاوہ ازیں مین ہیٹن پراجیکٹ میں بم بنانے کے لیے امریکا کی تکنیکی مدد دیگر ممالک نے بھی کی تھی جن میں برطانیہ سر فہرست ہے۔
اس لیے نیوکلیئر ٹیکنالوجی یا نیوکلیئر بم کی ٹیکنالوجی کو صرف امریکی کہنا غلط ہے
 
آخری تدوین:

arifkarim

معطل
امریکی؟
اوتو ہان ایک جرمن سائنس دان تھا جس نے 1938 میں نیوکلیئر فژن کا نمونہ پیش کر کے اسے ثابت کیا تھا ۔
انریکو فرمی ایک اطالوی سائنس دان تھا جس نے دنیا کا پہلا نیوکلیئر چین ری ایکشن تخلیق کیا اور پہلا نیوکلیئر ری ایکٹر بنایا ۔ (بعد میں اسے امریکی شہریت مل گئی تھی :) )
ہاں! پہلا ایٹم بم امریکا نے ضرور بنایا لیکن اس کے پیچھے سیاسی وجوہات کا عمل دخل زیادہ تھا اور اس تباہ کن ہتھیار کو استعمال کر کے لاکھوں بے گناہوں کو قتل کرنے اور کئی نسلیں اپاہج کرنے کا اعزاز ضرور صرف اور صرف امریکا بہادر کے پاس ہے۔
علاوہ ازیں مین ہیٹن پراجیکٹ میں بم بنانے کے لیے امریکا کی تکنیکی مدد دیگر ممالک نے بھی کی تھی جن میں برطانیہ سر فہرست ہے۔
اس لیے نیوکلیئر ٹیکنالوجی یا نیوکلیئر بم کی ٹیکنالوجی کو صرف امریکی کہنا غلط ہے

Manhatten Project میں زیادہ تر کام امریکہ میں ہوا تھا گو کہ برطانیہ اور کنیڈا کی اسپورٹ شامل تھی۔
 

سید ذیشان

محفلین
میرے لئے اندازہ لگانا مشکل ہےکہ کیا یہ تحریر satire ہے یا پھر حقیقت؟

لیکن جنات اور چڑیلوں کی پاکستانیوں سے الفت دیکھ کر میں اس کو حقیقت تسلیم کرنے پر مجبور ہوں۔
 

arifkarim

معطل
لیکن جنات اور چڑیلوں کی پاکستانیوں سے الفت دیکھ کر میں اس کو حقیقت تسلیم کرنے پر مجبور ہوں۔
البتہ حیرت انگیز طور پر مشہور زمانہ ہیری پارٹر سیریز جو کہ از خود چڑیلوں اور جادوگروں کے قصوں کہانیوں پر مبنی ہےپہ روایتی یہودی سازش کا ٹھپہ لگوا کر بین کروانے کی کوشش کی گئی ۔ یہ شاید اسلئے کہ اس ناول میں دکھائے گئے بھوت پریت، چڑیلیں "ہمارے" دیسی بھوتوں سے خاصے مختلف واقع ہوئے تھے :)
 
آخری تدوین:

سید ذیشان

محفلین
البتہ حیرت انگیز طور پر مشہور زمانہ ہیری پارٹر سیریز جو کہ از خود چڑیلوں اور جادوگروں کے قصوں کہانیوں پر مبنی ہےپہ روایتی یہودی سازش کا ٹھپہ لگوا کر بین کروانے کی کوشش کی گئی ۔ یہ شاید اسلئے کہ اس ناول میں دکھائے گئے بھوت پریت، چڑیلیں "ہمارے" دیسی بھوتوں سے خاصے مختلف واقع ہوئے تھے :)

طلسم ہوشربا بھی شائد ان مذکورین کی سازش تھی :)
 

arifkarim

معطل
طلسم ہوشربا بھی شائد ان مذکورین کی سازش تھی :)
بھوت پریت، جنات وغیرہ کو بطور فکشن تو پڑھا جا سکتا ہے۔ البتہ سائنسی تعلیمی اداروں میں انکا کوئی کام نہیں۔ میرے خیال میں ہود بھائی کا یہ کالم لکھنے کا مقصد یہی ہے کہ اعلیٰ تعلیمی مراکز کو اس قسم کی لغویات اور خرافات سے پاک ہونا چاہئے۔جیسا کہ ہم یہاں Pedagogyمیں پڑھتے ہیں:
Teach how to think, not what to think
انتہائی افسوس کیساتھ یہ کہنا پڑتا ہے کہ ہمارے بہت سے اعلیٰ تعلیمی ادارے مختلف ’’تبلیغیوں‘‘ کی آماج گاہ بنے ہوئے ہیں۔ جہاں انہیں طالب علموں کو محض یہ سکھانا چاہئے کہ سوچتے کیسے ہیں، وہیں یہ سارا زور کیا سوچنا ہے (تبلیغ) پر ضائع کر دیتے ہیں۔
 
آخری تدوین:

arifkarim

معطل
انہوں نے کہا اگر ان کا وجود نہیں ہے تو پھر ہر سال ہالی ووڈ بھاری سرمائے سے ڈراؤنی فلمیں کیوں تیار کرتا ہے ؟
اگر کسی تک انکی پہنچ ہو تو اس سوال کا جواب نہایت آسان الفاظ میں دیا جا سکتا ہے: مزید سرمایہ کمانے کیلئے :)
 

x boy

محفلین
بات تو ٹھیک ہے پاکستان میں ایک بیماری جیلیس ہے ایک گھر والے دوسرے گھر والوں سے اونچ نیچ کے تحت جیلس ہیں
اور جیلس ہونا ابلیس کا کیریکٹرہے اور ابلس جنات میں سے ہے:):):)
 

سید ذیشان

محفلین
راجہ ضیاء الحق صاحب نے مذکورہ کالم کا جواب فیس بک پر دیا ہے۔ معلومات دینے کے نقطہ نظر سے شئر کر رہا ہوں۔میرا دونوں میں سے کسی کے خیالات سے بھی متفق ہونا ضروری نہیں۔
https://www.facebook.com/ziaulhaq.raja/posts/824283577689626?hc_location=ufi

اس امید پر کہ شائد ضیاءالحق صاحب نے اس کی تردید کی ہوکہ واقعی میں ایسی کوئی ورکشاپ نہیں ہوئی اور ڈاکٹر ہودبائی کو غلط اطلاع ملی، میں نے ان کی پوسٹ پڑھی۔
اب میرا شک یقین میں بدل گیا کہ ہودبائی صاحب نے کوئی satire piece نہیں لکھابلکہ وہی لکھا جو کہ وقوع پزیر ہوا۔ ضیاءالحق صاحب تو اگلی ورکشاپ پر لوگوں کو مدعو کئے جا رہے ہیں۔
 
Top