یومِ آزادی ۔۔۔ اغیار کی مشابہت

اعجاز

محفلین
کہنے کو تو کہا جاتا ہے کہ سعودی عرب اور اسلام ایک ہی ہے حالانکہ یہاں رہنے والے بھی بخوبی جانتے ہیں کہ ایسا نہیں ہے (پھر بھی دیگر ممالک کے مقابلے میں یہاں بدرجہا بہتر ہے)۔

یہ‌کہیں‌نہیں‌کہا جاتا کے سعودی حکومت اسلامی حکومت ہے جہاں‌ سکول میں‌ لڑکیاں‌ جل کر ہلاک ہوجاتی ہیں‌ لیکن پولس ان کو بچانہیں‌سکتی کیونکہ نا محرم ہیں‌۔ اگر آپ ہسٹری پڑھیں‌تو آپ کو معلوم ہوگا کے اموی حکمرانوں‌کے آخری زمانے کے بعد سے اسلامی دنیا بدلتی چلی گئ ہے۔

پاکستان سے محبت
پاکستان سے محبت کا صرف اور صرف مطلب اسلام کے قلعے سے محبت ہے اور یہ چیز نبی کریم ص کے سنت سے ثابت ہے کے آپ نے مدینہ کی حفاظت کے لیے غزوات میں‌ حصہ لیا۔ پاکستان میں‌ اگر ابھی تک اسلام معاشرہ میں‌رچ بس نا سکا تو اسکی صرف اور صرف وجہ یہ ہے کے ہمارے علماء کرام چھوٹی چھوٹی باتوں‌ پر لڑنے اور مرنے کی تیاریاں‌ کرتے رہے ہیں‌ ۔

بدعت صرف ایسی چیز کو کہتے جس کو کرنا مزہبی اہمیت کی حامل سمجھی جائے چنانچہ اگر کوئ کہتا ہے کے بسنت منانا ثواب کا کام ہے تو یہ بدعت ہے اس کے علاوہ یہ شرعی خلاف ورزی میں‌ نہیں‌ آسکتی۔ ہاں‌ کسی کی دھاتی تار سے کسی کا نقصان یقیناً ہر طرح‌کی خلاف ورزی ہے۔

جیسے کے آپ ایک بالکل نئ چیز متعارف کروارہے ہیں‌ یعنی کے اسلامی لحاظ سے تہواروں‌ کو ممنوع قرار دینا۔ یہ ایک بدعت ہے ۔
یاد رکھیے گا غصہ حرام ہے۔

اعجاز
 

اعجاز

محفلین
بازوق جی!‌
میں عموماً دیر سے محفل میں‌آتا ہوں‌ اور زیادہ حصہ بھی نہیں‌ لے سکتا وقت کی کمی کی وجہ سے جبکہ آپ مجھے کافی عادی معلوم ہوتے اپنی باتوں‌ کو زبردستی منوانے کے لیے چنانچہ پہلے سے معزرت اگر جواب نا دے سکوں‌ وقت پر۔

آج سے کچھ عرصہ پہلے میں‌ بھی آپ کی طرح‌سوچتا تھا ۔ پھر میں‌ نے اپنی بحثوں‌ پر حقیقت میں‌ سوچنا بھی شروع کر دیا ، ساتھ میں یونیورسٹی میں‌ ان دنوں‌ اسلامی تاریخ‌ پڑھنے کا موقعہ ملا تو کافی فرق آیا ہے ۔ :) آپ بھی یہ طریقہ استعمال کریں‌ انشااللہ افاقہ ہوگا :D
 

شاکرالقادری

لائبریرین
جناب باذوق
سلام مسنون
آپ مجھے کچے دھاگےسے باندھ کر یہاں کھینچ تو لائے لیکن یہاں میرے سوالات کا جواب ندارد گویا مجھے آپ نے پہلے تو اردو پیجز سے بہانے کے ساتھ رخصت کیا اور اب وہاں سے یہاں اب یہاں سے کہاں لے جانے کا ارادہ ہے
یہاں کی بحث کا ایک سرسری جائز لیا ہے کچھ اپنی رائے کا اظہار اس دھاگے کے تفصیلی مطالعہ کے بعد کروں گا وہ بھی اس صورت میں کہ آپ میری انگلی پکڑ کر مجھے کہیں اور نہ لے گئے۔
انشاء اللہ۔

میرا خیال ہے کہ میں اپنے اس خط کو یہاں چسپاں کر ہی دوں تاکہ دطسرے احباب بھی استفادہ کر سکیں
ملاحظہ ہو اگلا پیغام
 

شاکرالقادری

لائبریرین
مرسلہ: منگل اگست 15, 2006 10:12 pm عنوان :: Re: اسلام اور تصورِ وطن
موضوع کی تفصیل: وطن پرستی ۔۔۔ بُت پرستی کے مترادف ۔۔۔؟

--------------------------------------------------------------------------------

باذوق نے لکھا ہے ۔ ۔ ۔: <Select> <Expand>
بسم اللہ الرحمٰن الرحیم


سید مودودی (رحمہ اللہ) کی معروف کتاب
مسئلہ قومیت
سے کچھ مفید اقتباسات ۔

================


فرمانِ باری تعالیٰ ہے :
الْاَرْضَ لِلّهِ ( ترجمہ : زمین اللہ کی ہے ! )
(سورہ : الاعراف ۔ آیت : ١٢٨)

اللہ تعالیٰ نے نوعِ انسانی کو زمین پر اپنی خلافت سے سرفراز کیا ہے۔ اور یہ قطعی کوئی ضروری نہیں ہے کہ انسان ایک خطّہ کا بندہ بن کر رہ جائے۔ یہ وسیع زمین انسان کے لئے بالکل کھلی ہوئی ہے۔ ایک جگہ اس کے لئے تنگ ہو تو دوسری جگہ چلا جائے، جہاں جائے گا اللہ تعالیٰ کی نعمتوں کو موجود پائے گا !
ترجمہ : ۔۔۔۔۔۔ کیا اللہ کی زمین وسیع اور کشادہ نہ تھی کہ تم اس میں ہجرت کر کے چلے جاتے۔۔۔۔۔۔
(سورہ : النساء ٤ ۔ آیت : ٩٧)
ترجمہ : ۔۔۔۔۔۔ جو کوئی اللہ کی راہ میں ہجرت کرے گا وہ زمین میں وافر جگہ اور کشائش پائے گا۔۔۔۔۔۔
(سورہ : النساء ٤ ۔ آیت : ١٠٠)
آپ پورے قرآن کو دیکھ جائیے۔ اس میں ایک لفظ بھی آپ کو وطنیت یا نسلیت کی تائید میں نہیں ملے گا۔
قرآن کی دعوت کا خطاب تو پوری نوعِ انسانی سے ہے۔ تمام روئے زمین کی انسانی مخلوق کو وہ خیر و صلاح کی طرف بلاتا ہے۔
اس میں نہ کسی قوم کی تخصیص ہے اور نہ کسی سرزمین کی۔
اس نے اگر کسی زمین کے ساتھ خاص تعلق پیدا کیا ہے تو وہ صرف ''مکّہ'' کی زمین ہے۔ لیکن اس کے متعلق بھی صاف کہہ دیا کہ:
سَوَآءَ نِ الْعاکِفُ فِیْہِ وَ الْبَادِ ٭ (سورہ : الحج ٢٢ ۔ آیت : ٢٥)
(معانی / مفہوم : ۔۔۔۔۔۔ مکّہ کے اصلی باشندے اور باہر والے مسلمان برابر ہیں ۔۔۔۔۔۔ )

وطنیت اور نسلیت کی جتنی تعریفیں کی گئی ہیں ان کے لئے کوئی عقلی بنیاد نہیں ہے۔
یہ صرف مادّی تفریقیں ہیں جن کا ہر دائرہ ، زاویہٴ نظر کی ہر وسعت پر ٹوٹ جاتا ہے۔
علم و عرفان کی روشنی جس قدر پھیلتی ہے، بصیرت کی رسائی جس قدر بڑھتی ہے، قلب میں جتنی جتنی وسعت پیدا ہوتی جاتی ہے ، یہ حِسّی اور مادّی پردے اٹھتے چلے جاتے ہیں اور بالآخر 'وطنیت' اور 'نسلیت' کو '' آفاقیت'' کے لئے جگہ خالی کرنا پڑتی ہے۔
اور یہ بالکل وہی بات ہے جو اسلام کہتا ہے۔

اسلام نے انسان اور انسان کے درمیان کسی مادّی اور حِسّی فرق کو تسلیم نہیں کیا ہے۔وہ کہتا ہے کہ سب انسان ایک ہی اصل سے ہیں۔
ترجمہ : اللہ نے تم کو ایک ہی جان سے پیدا کیا۔ پھر اس سے اس کا جوڑ پیدا کیا، اور ان دونوں سے بہت سے مردوں اور عورتوں کو [دنیا میں] پھیلا دیا ۔۔۔۔۔۔
( سورہ : النساء ٤ ۔ آیت : ١)
اس کے بعد نسل اور خاندان کے اختلاف کی بھی یہ حقیقت بتا دی کہ:
ترجمہ : اے لوگو! ہم نے تم کو ایک مرد اور ایک عورت سے پیدا کیا اور تم کو گروہ اور قبائل بنا دیا تاکہ تم آپس میں پہچانے جاؤ۔ مگر درحقیقت معزز تو تم میں وہی ہے جو زیادہ پرہیزگار ہے۔
( سورہ : الحجرٰت ٤٩ ۔ آیت : ١٣)
یعنی یہ قوم اور قبائل کا اختلاف محض تعارف کے لئے ہے۔
آپس کے حسد، ایک دوسرے پر تفاخر، ایک دوسرے سے جھگڑنے کے لئے نہیں ہے۔ اس اختلاف میں انسانی اصل کی وحدت کو بھول نہ جانا۔ تم میں اگر کوئی حقیقی تفریق ہے تو وہ اخلاق و اعمال کی، نیکی اور بدی کی بنا پر ہے !

اللہ اور اس کے رسول (صلی اللہ علیہ وسلم) نے جاہلیت کی اُن تمام محدود مادّی ، حِسّی اور وہمی بنیادوں کو جن پر دنیا کی مختلف قومیتوں کی عمارتیں قائم کی گئی تھیں، ڈھا دیا۔
وطن، رنگ، نسل، زبان، معیشت اور سیاست کی غیر عقلی تفریقوں کو، جن کے سبب انسان نے اپنی جہالت اور نادانی کی وجہ سے 'انسانیت' کو تقسیم کر رکھا تھا، مٹا دیا۔
اور انسانیت کے مادّے میں تمام انسانوں کو برابر اور ایک دوسرے کا ہم مرتبہ قرار دے دیا!

اسلام نے خالص عقلی بنیادوں پر ایک نئی قومیّت تعمیر کی۔ اس قومیّت کی بنا بھی امتیاز پر تھی، مگر مادّی اور غرضی امتیاز پر نہیں بلکہ روحانی اور جوہری امتیاز پر!
اس نے انسان کے سامنے ایک فطری صداقت پیش کی جس کا نام ''اسلام'' ہے !!

اسلام نے خدا کی بندگی اور اطاعت ، نفس کی پاکیزگی اور طہارت، عمل کی نیکی اور پرہیزگاری کی طرف ساری نوعِ بشری کو دعوت دی۔ پھر کہہ دیا کہ جو اس دعوت کو قبول کر لے وہ ایک 'جماعت' سے ہے۔ اور جو اس کو ردّ کرے وہ دوسری 'جماعت' سے ہے۔
ایک جماعت 'ایمان اور اسلام' کی ہے اور اس کے سب افراد ایک 'امّت' ہیں۔
وَکَذٰلِکَ جَعَلْنٰکُمْ اُمَّۃً وَّ سَطاً ۔ ( سورہ : البقرہ ٢ ۔ آیت : ١٤٣)
اور دوسری جماعت 'کفر اور گمراہی' کی ہے اور اس کے متبعین اپنے اختلافات کے باوجود ایک گروہ ہیں۔
وَللٰہُ لاَ یَھْدِیْ الْقَوْمَ الْکٰفِرِیْنَ ۔ ( سورہ : البقرہ ٢ ۔ آیت : ٢٦٤)
وطن کا اختلاف بھی ان دو جماعتوں کے درمیان وجہٴ امتیاز نہیں ہے۔ کیوں کہ یہاں امتیاز 'حق اور باطل' کی بنیاد پر ہے اور ظاہر ہے حق اور باطل کا کوئی وطن نہیں ہوتا۔
اسلام کہتا ہے کہ اگر تمھارے دین اور تمھارے وطن میں دشمنی ہو جائے تو دین کی خاطر وطن کو چھوڑ کر نکل جاؤ۔ جو شخص دین کی محبت پر وطن کی محبت کو قربان کر کے ہجرت نہ کرے وہ منافق ہے۔ اس سے تمھارا کوئی تعلق نہیں۔
ترجمہ : ۔۔۔۔۔۔ پس جب تک یہ اسلام کی خاطر وطن نہ چھوڑیں، اِن میں سے کسی کو حقیقی دوست نہ بناؤ۔
(سورہ : النساء ٤ ۔ آیت ٨٩)
اسی طرح اسلام اور کفر کے اختلاف سے خون کے قریب ترین رشتے بھی کٹ جاتے ہیں۔ ماں، باپ ، بھائی، بیٹے صرف اِس لئے جدا ہو جاتے ہیں کہ وہ اسلام کے مخالف ہیں۔ ہم نسل قوم کو اس لئے چھوڑ دیا جاتا ہے کہ وہ خدا سے دشمنی رکھتی ہے۔ وطن کو اس لئے خیرباد کہا جاتا ہے کہ وہاں اسلام اور کفر میں عداوت ہے۔

گویا اسلام دنیا کی ہر چیز پر مقدّم ہے۔
ہر چیز اسلام پر قربان کی جا سکتی ہے ۔۔۔۔۔۔ مگر ۔۔۔۔۔۔ اسلام کو کسی چیز پر قربان نہیں کیا جا سکتا !!


السلام علیکم
باذوق بھائی نے مولانا مودودی کی کتاب سے خاصے مفید اقتباسات درج فرمائے
لیکن اس بات کا کیا کیا جائے کہ جب ہندوستان کی سرزمین امت مسلمہ پر تنگ ہوئی اور اسلام کے نام پر مسلمانونوں کے لیئے ایک نئے ملک کا وجود عمل میں آیا اور اسلام کے لیئے لوگوں نے اپنی مادر وطن کوخیرباد کہنا شروع کیا تو ایسے میں بھی کچھ ذمہ دار لوگ اسی وطنیت اور قومیت پرستی کا راگ الاپ رہے تھے جس کا تذکرہ باذوق بھائی نے کیا ہے ایسے لوگوں سے نالاں ہو کر علامہ اقبال رح کو کہنا پڑا تھا
سرود بر سر منبر کہ ملت از وطن است
ز ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ است چہ بوالعجبی

باقی رہا پاکستان کی آزادی کا جشن منانے کا تعلق تو اسے ضرور منانا چاہیئے کیونکہ اس روز مسلمانوں نے اسلام کی خاطر قائم ہونے والی ایک آزاد سرزمیں کی طرف اسلام کے نام پر ہجرت کی تھی اور ہجرت کا دن تو یادگار ہوتا ہی ہے مسلمانوں کے کیلنڈر کا آغاز بھی تو ہجرت ہی سے ہوا اور اسی لیئے اس کو ہجری کہا جاتا ہے جس سے اس عظیم ہجرت کی یاد تازہ ہوتی ہے جو اسلام کی خطر مسلمانوں نے مکہ سے مدینہ کی جانب کی تھی
اور ہجرت کے بعد صحابہ کرام اور خود نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی اپنے وطن کو یاد کرنے کی بہت سی مثالیں ملتی ہیں لیکن ان کا تعلق موضوع سے نہیں ہے
ہم پاکستان کی آزادی کا دن مناتے ہیں اور خوش ہوتے ہیں نہ کہ ترک وطن اور ہجرت پر مغموم ہوتے ہیں اور نہ ہی سابقہ وطن کو یاد کر کے نئے وطن میں آمد پر پشیمانی کا اظہار کرتے ہیں۔
جو لوگ کل آزادی کے خلاف تھے اور ہجرت کی مخالفت کرتے تھے آج اگر وہ پاکستان کے قیام اور آزاد وطن کی جانب ہجرت کی خوشی منانے پر برا مناتے ہیں تو مناتے رہیں ہمیں ایسے لوگوں سے کیا؟
ہم تو یہ خوشی منانے میں حق بہ جانب ہیں
_________________
گ۔۔۔۔۔زاری زن۔۔۔۔دگی ل۔۔ھ۔۔۔۔و ول۔۔ع۔۔ب م۔۔۔ی۔۔ں
ب۔۔ہ۔ت اف۔۔۔س۔۔۔وس ھے ن۔۔۔ادم ب۔۔ہ۔۔ت ھوں
www.alqalam.orgfree.com
جشن آزادی مبارک
 

باذوق

محفلین
احادیث سے ثابت ۔۔۔

اعجاز نے کہا:
بازوق جی!‌۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
>> آپ نے مدینہ کی حفاظت کے لیے غزوات میں‌ حصہ لیا۔
میں پہلے ہی کہہ چکا ہوں کہ اپنے موقف کو ثابت کرنے کے لیے احادیث کی ہر قسم کی تاویل کی جا سکتی ہے۔
اس معاملے میں صرف اتنا سوچ لینا کافی ہے کہ رسول (صلی اللہ علیہ وسلم) کی دعوت لوگوں کو کسی خاص علاقے کی جانب بلانے کی تھی یا اسلام کی جانب؟
اور دوسری بات ۔۔۔ احادیث سے مکہ و مدینہ کی فضیلت ثابت ہے کہ دجال ساری دنیا میں گھومے گا لیکن مکہ و مدینہ میں داخل نہ ہو پائے گا۔
بےشک اپنے وطن کی محبت میں ہم کہہ سکتے ہیں کہ پاکستان اسلامی قلعہ ہے ۔۔۔ لیکن ایسا تو ہر اسلامی ملک کا باشندہ کہتا ہے۔ اور کہنے پر بھلا کون کس کو روک سکتا ہے؟ لیکن اتنا تو ضرور کہا جا سکتا ہے کہ کوئی بھی ملک کتنا بھی بڑا اسلامی قلعہ کیوں نہ بن جائے مگر پھر بھی فضیلت میں مکہ اور مدینہ کے برابر نہیں آ سکتا۔

>> میں عموماً دیر سے محفل میں‌آتا ہوں‌ اور زیادہ حصہ بھی نہیں‌ لے سکتا ۔۔۔ چنانچہ پہلے سے معزرت اگر جواب نا دے سکوں‌ وقت پر۔
برادرِ عزیز ۔۔۔ میں بھی بہت معذرت کے ساتھ آپ سے عرض کروں گا کہ یہ سب نہ تو میں آپ کے لیے لکھ رہا ہوں اور نہ آپ سے یا کسی دوسرے سے میں جواب در جواب کا طلبگار ہوں۔
یہ محض ایک نقطہٴ نظر کی پیش کشی ہے جس سے ہر کسی کو اختلاف یا اتفاق کا حق حاصل ہے۔

>> ساتھ میں یونیورسٹی میں‌ ان دنوں‌ اسلامی تاریخ‌ پڑھنے کا موقعہ ملا تو کافی فرق آیا ہے
میں بہت ادب کے ساتھ عرض کروں گا کہ دین کی اساس قرآن اور حدیث ہے ، تاریخ نہیں۔ اگر بارِ خاطر نہ ہو تو میں آپ کو مشورہ دینے کی جراءت کروں گا کہ اسلامی تاریخ سے قبل آپ قرآنی تفاسیر اور مستند احادیث کا تفصیلی مطالعہ کریں ۔۔۔ کافی دھند چھٹ جائے گی ، انشاءاللہ۔

>> آپ ایک بالکل نئ چیز متعارف کروارہے ہیں‌ یعنی کے اسلامی لحاظ سے تہواروں‌ کو ممنوع قرار دینا۔ یہ ایک بدعت ہے ۔
اسی لیے میں نے اوپر کہا ہے کہ احادیث کا مطالعہ کیا کریں ورنہ اتنی بڑی بات آپ یوں ہی رسان سے ادا نہ کر جاتے۔
ابوداؤد ، صحاح ستہ کی کتابوں میں شمار ہوتی ہے۔ اس میں ایک حدیث تشریح کے ساتھ یوں ہے ؛
جب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وسلم) مدینہ تشریف لائے تو اہلِ مدینہ دو ایسے دن مناتے تھے جن میں مختلف کھیل کھیلتے تھے۔ یہ دیکھ کر رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وسلم) نے فرمایا؛
اللہ تعالیٰ نے تمہیں ان دو دنوں کے بدلے دو ایسے دن دئے ہیں جو ان سے بہتر ہیں ، وہ ہیں عید الاضحیٰ و عیدالفطر۔
سنن ابي داود ، كتاب الصلاة ، باب صلاة العيدين ، حدیث نمبر ١١٣٦

اور خلیفہٴ دوم حضرت عمر فاروق (رضی اللہ تعالیٰ عنہ) کا فرمانِ مبارک ہے ؛
اللہ کے دشمنوں کی عیدوں اور تہواروں سے بچو۔
السنن الکبریٰ للبیھقی ؛ ٩ / ٢٣٨

اب اس کے بعد بھی اگر آپ کے پاس کچھ کہنے کی گنجائش ہے تو وہ آپ کا اپنا ذاتی معاملہ ہے۔
 

باذوق

محفلین
عجیب بات ۔۔۔ ؟؟

دوست نے کہا:
وہ تو ہمارے اندر کی کمیاں‌کجیاں ہیں۔ مجھے ایک اور خیال آیا ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
>> اگر مسلمانوں کی دو عیدیں ہی ہیں تو اس کا مطلب ہوا باقی تمام ثقافتی تہوار ممنوع ہوگئے جب اسلام آیا۔ ہر علاقے کے کچھ مخصوص تہوار ہیں۔ تو تمام ختم؟؟؟ عجیب بات ہے ناں۔
واقعی عجیب بات ہے کہ ہم کہلانے کو تو مسلمان کہلاتے ہیں لیکن حقیقی اسلامی روح کو ہی نہیں سمجھتے۔ (یا سمجھنا نہیں چاہتے)۔

دین کی بنیاد تسلیم و رضا پر ہے۔
تسلیم کہتے ہیں اللہ و رسول (ص) کی باتوں کی تصدیق ، ان کے بیان کردہ اوامر پر عمل اور نواہی سے اجتناب اور شریعت و سیرتِ رسول(ص) کی اتباع۔
تسلیم و رضا کے اس قاعدہ کو جان لینے کے بعد مسلمان پر چند چیزیں لازم آتی ہیں ؛
- رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وسلم) کی لائی ہوئی شریعت کی تصدیق ، اس پر اطمینان و اعتماد اور اس کی تعمیل۔ اسی میں آپ (ص) کے وہ اوامر بھی ہیں جن میں آپ (ص) نے کفار کی مشابہت سے منع فرمایا ہے۔

کفار کے تہواروں کے تعلق سے رسول (ص) کا جو فرمانِ مبارک ہے وہ مکمل حوالے کے ساتھ اوپر کی پوسٹ میں درج کیا جا چکا ہے۔
اس کے بعد بھی اگر کسی کو ذہنی کشمکش کا شکار ہونا پڑے تو ایسی صورت میں قرآن کریم کی جانب رجوع ہونا چاہئے جہاں اللہ فرماتے ہیں ؛
اور جو شخص ہدایت کے واضح ہو جانے کے بعد بھی رسول کی نافرمانی کرے گا اور مومنوں کی راہ چھوڑ کر اور راہ اختیار کرے گا تو جس طرف اس نے رخ کیا ہم اسی طرف اس کو پھیر دیں گے ، پھر اس کو جہنم میں داخل کریں گے جو بہت بری جگہ ہے۔
(سورہ ؛ النساء ، آیت ؛ ١١٥ )

دوست بھائی ۔۔۔ عاجزانہ درخواست ہے کہ برا مت مانئے ، کیونکہ میں نے یہ تمام باتیں آپ کی طرف بالخصوص اشارہ کر کے نہیں لکھی ہیں بلکہ عمومی طور پر امتِ مسلمہ کو مخاطب کیا ہے جس میں مَیں خود بھی شامل ہوں کہ خطائیں تو مجھ سے بھی سرزد ہوتی رہتی ہیں۔
 

زیک

مسافر
حضرات آپ اپنے مسلک کو بیان کرتے ہوئے یہ خیال ضرور رکھیں کہ دوسرے مسلمان کا مسلک اس سے مختلف ہو سکتا ہے اور یہ شاید خدا ہی جانتا ہے کہ کون درست ہے۔ ورنہ یہ تمام بحثیں فرقہ‌واریت بڑھانے سے زیادہ کچھ نہ کریں گی۔ شکریہ۔
 

سارا

محفلین
السلام علیکم ورحمۃ اللہ۔۔۔

باذوق بھائی۔۔۔آپ بہت اچھے طریقے سے اپنی بات سمجھا رہے ہیں (یعنی قرآن اور حدیث سے) جزاک اللہ خیر
میں آپ کے کہے سے اتفاق کرتی ہوں۔۔آپ اتنے اچھے طریقے سے اپنی بات سمجھا رہے ہیں کہ مجھے کسی سوال کی ضرورت ہی نہیں پڑھ رہی۔۔۔
 

سارا

محفلین
زکریا نے کہا:
حضرات آپ اپنے مسلک کو بیان کرتے ہوئے یہ خیال ضرور رکھیں کہ دوسرے مسلمان کا مسلک اس سے مختلف ہو سکتا ہے اور یہ شاید خدا ہی جانتا ہے کہ کون درست ہے۔ ورنہ یہ تمام بحثیں فرقہ‌واریت بڑھانے سے زیادہ کچھ نہ کریں گی۔ شکریہ۔

بھائی مجھے نہیں لگتا کہ یہاں کسی مسلک کی کوئی بات ہو رہی ہے۔۔۔باذوق بھائی نے ایک بات سامنے رکھی ہے اور جسے اختلاف ہے اسے حدیث سے مثال دے کر سمجھا رہے ہیں۔۔۔
 

نبیل

تکنیکی معاون
سارا بہن، کوئی (میرے جیسا) معمولی عقل کا آدمی بھی اس تھریڈ پر نظر ڈال کر بتا سکتا ہے کہ یہ کوئی علمی مذہبی گفتگو نہیں ہے، یہ محض ایک مناظرہ ہے اور باذوق اس فن کے ماہر ہیں۔ یہاں سمجھانے یا تبلیغ وغیرہ کا کوئی کام نہیں ہو رہا، محض دوسرے کو زچ کیا جا رہا ہے۔ میں ایسے موضوعات میں شریک ہونے کو تضیع‌‌ اوقات ‌سمجھتا‌‌ ہوں اور باقی دوستوں کے لیے بھی میرا مشورہ ہے کہ لاحاصل مباحث میں الجھنے سے گریز کریں۔
 

سارا

محفلین
نبیل نے کہا:
سارا بہن، کوئی (میرے جیسا) معمولی عقل کا آدمی بھی اس تھریڈ پر نظر ڈال کر بتا سکتا ہے کہ یہ کوئی علمی مذہبی گفتگو نہیں ہے، یہ محض ایک مناظرہ ہے اور باذوق اس فن کے ماہر ہیں۔ یہاں سمجھانے یا تبلیغ وغیرہ کا کوئی کام نہیں ہو رہا، محض دوسرے کو زچ کیا جا رہا ہے۔ میں ایسے موضوعات میں شریک ہونے کو تضیع‌‌ اوقات ‌سمجھتا‌‌ ہوں اور باقی دوستوں کے لیے بھی میرا مشورہ ہے کہ لاحاصل مباحث میں الجھنے سے گریز کریں۔

بھائی ہر کسی کا اپنا دیکھنے کا انداز ہوتا ہے۔۔مجھے تو یہی لگا ہے کہ انہوں نے ایک مسلئے کی طرف ہماری توجہ دلائی ہے۔۔آج کل جو ‘جشنِ آزادی‘ کے نام پر ہو رہا ہے (جھنڈے لگانا‘ لائٹنگ ‘پٹاخے‘ ملے نغمے‘ گانے‘ اور اسی طرح کی اور فضول خرچی) اس کی ہمارے مذہب میں کوئی گنجائش نہیں ہے انہی پیسوں کو اگر ملک کے ہی کسی کام میں لگا دیا جائے(سڑکیں بنانا‘ صفائی کروانا) تو وہ زیادہ بہتر ہے۔۔۔
 

حسن نظامی

لائبریرین
سلام مسنون
ارے باذوق انکل آپ یہاں بھی ماشاء اللہ دل خوش ہو گیا آپ کو یہاں دیکھ کر زبردست :)
کیا میں بھی کچھ کہوں یا خاموش رہوں کچھ کہا تو کہیں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
آہو جی
 

باذوق

محفلین
مایوسی ۔۔۔۔۔

نبیل نے کہا:
سارا بہن، کوئی (میرے جیسا) معمولی عقل کا آدمی بھی اس تھریڈ پر نظر ڈال کر بتا سکتا ہے کہ یہ کوئی علمی مذہبی گفتگو نہیں ہے، یہ محض ایک مناظرہ ہے اور باذوق اس فن کے ماہر ہیں۔ یہاں سمجھانے یا تبلیغ وغیرہ کا کوئی کام نہیں ہو رہا، محض دوسرے کو زچ کیا جا رہا ہے۔ میں ایسے موضوعات میں شریک ہونے کو تضیع‌‌ اوقات ‌سمجھتا‌‌ ہوں اور باقی دوستوں کے لیے بھی میرا مشورہ ہے کہ لاحاصل مباحث میں الجھنے سے گریز کریں۔
نبیل ،
آپ کی غیرجانبداری کے متعلق میں اچھے خیالات رکھتا ہوں لیکن آپ کے اِس پیغام نے مجھے کافی مایوس کیا ہے۔
خاص طور سے اس بات نے کہ ۔۔۔ میں دوسروں کو زچ کیے جانے کے فن میں ماہر ہوں ۔۔۔ میرا دل توڑ دیا ہے۔
حالانکہ میں نے اس موضوع کو ابھی آگے بڑھانے کا ارادہ کیا تھا کہ ابھی یہ مکمل نہیں ہے اور اس کے لیے بھائی قیصرانی کی حوصلہ افزائی نے بھی تحریک دلائی تھی۔
آپ اور زکریا انتظامی سطح کے ارکان ہیں ، اگر آپ لوگوں کو یہ چیز ناپسند ہے تو مجھے بھی بات کو آگے بڑھانے سے کوئی دلچسپی نہیں رہے گی۔ ( حالانکہ ابھی کسی پچھلی پوسٹ میں آپ نے ہی لکھا تھا کہ یہ ایک نظریہ ہے جس سے اتفاق یا اختلاف کیا جا سکتا ہے)
رہی بات دوسروں کو زچ کرنے کی ۔۔۔ کچھ ارکان نے سخت لہجہ اپنایا جس کے جواب میں کیا آپ نے میری تحریر دیکھی ؟ کیا میں نے قرآن و حدیث کے حوالے سے بات کی ہے یا ذاتی طنز و طعن کے نشتر لگائے ہیں؟
اگر سمجھانے یا تبلیغ کرنے کے لیے صرف نظریے کی مفصل پیش کشی ہی کافی ہے تو گذارش ہے کہ براہ مہربانی سوالات نہ اُٹھائے جائیں۔ اور اگر کسی نے سوال کیا یا اپنا نقطہءنظر پیش کیا اور جواباََ آپ کی ہدایات کے مطابق میں خاموش رہوں تو پھر دوسروں سے بھی گذارش کریں کہ وہ پھر مجھ پر الزام نہ دھریں کہ میرے پاس کوئی جواب نہیں ہے۔
۔۔۔۔۔۔
اب آخری بات :
اِس دھاگے میں میری تمام تحریریں دیکھیں اور ان کا تقابل دوسروں کی تحریروں سے کریں
اور پھر فیصلہ کریں کہ قرآن و حدیث کی " تبلیغ " کون کر رہا ہے اور کون معاشرے کے جذبات کی عکاسی کر رہا ہے؟
 

باذوق

محفلین
دو باتیں ۔۔۔

شاکرالقادری نے کہا:
جناب باذوق سلام مسنون ۔۔۔۔۔۔۔۔
>> پاکستان کی آزادی کا جشن منانے کا تعلق تو اسے ضرور منانا چاہیئے کیونکہ اس روز مسلمانوں نے اسلام کی خاطر قائم ہونے والی ایک آزاد سرزمیں کی طرف اسلام کے نام پر ہجرت کی تھی اور ہجرت کا دن تو یادگار ہوتا ہی ہے ۔۔۔۔
بےشک ہجرت کا دن یادگار تھا۔ رسولِ عربی (ص) کا بھی اور برصغیر کے مسلمانوں کا بھی۔
لیکن سوال یہ ہے کہ ہر سال آنے والے کسی دن کو " یادگار " قرار دیا جا سکتا ہے؟ اس کی تائید میں قرآن یا حدیث کی کوئی دلیل ہے؟
قرآن اور حدیث کی تعلیمات کے مطابق ، ''عید الفطر'' ، ''عید الاضحیٰ'' اور ''عید المومنین (جمعہ)'' کے سوا ہرسال میں ایک بار آنے والا کوئی بھی دن / رات ایسا نہیں ہے جس کو شرعی طور سے مبارک یا منحوس ثابت کیا جا سکے۔ ( واضح رہے کہ ''شبِ قدر'' کا معاملہ علحدہ ہے کیونکہ یہ رات رمضان کے آخری دہے کی طاق راتوں میں پوشیدہ ہے اور جس کا علم اللہ تعالیٰ کے سوا کسی کو نہیں ہے۔)
ہر سال میں ایک بار آنے والے کسی بھی دن کو اسلامی شریعت کی رو سے مبارک و مسعود مان کر خوشی منانے کا جواز اگر ثابت کیا جائے تو سب سے پہلے اُس دن کا ذکر کیا جانا چاہئے جس دن ہمارے پیارے رسول ، ہمارے مکرم رسول ، ہمارے محسن رسول ، حکیم الامت ، اعلیٰ حضرت ، ابوالاعلیٰ ، سید الانبیاء ، امامِ اعظم حضرت محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم اِس فانی دنیا میں تشریف لائے تھے!
اسلامی تاریخ گواہ ہے کہ اسلام کا بہترین دور وہ ہے جسے ''خیر القرون'' کہا جاتا ہے۔ اور جو خلفائے راشدین (رضی اللہ تعالیٰ عنہم)، صحابہ اکرام (رضی اللہ تعالیٰ عنہم) اور تابعین (رحمۃ اللہ علیہم) کا سنہرا دور تھا۔ آج کی تاریخ تک محدثین ، ائمہ اکرام اور علمائے دین نے اِس بات پر اتفاق ہی نہیں کیا ہے کہ ''خیر القرون'' میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا یومِ پیدائش کبھی کسی سال ، ''مبارک و مسعود دن'' کے طور پر منایا گیا ہو۔

درحقیقت یہ birthday ، یومِ آزادی، anniversary وغیرہ سب concepts غیر مسلموں سے مستعار لئے گئے ہیں۔
اور اس سلسلے میں ہمارے پیارے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا واضح فرمان ہے کہ ایک مسلمان کو زندگی کے ہر معاملے میں کفار کی مشابہت سے بچنا چاہئے۔
ایک گذارش اور۔ ہماری وہ عظیم سیاسی، مذہبی اور سماجی شخصیات، وہ رہبرانِ ملت، جنہوں نے کافی قربانیوں کے بعد ہمارے لئے یہ ملک حاصل کیا۔۔۔ کیا ہم پر ان کا حق صرف اتنا بنتا ہے کہ ہم سال میں کسی ایک مخصوص دن ان کو خراجِ عقیدت پیش کریں اور باقی تمام سال ان کو بھلائے رکھیں؟؟ اس ملک کی آزادی کی خوشی میں ہم سال میں صرف ایک دن اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں سجدہٴ شکر بجا لائیں اور سال کے باقی تمام دن اپنی معمول کی زندگی میں مصروف رہیں؟ کبھی میری طرح آپ بھی اس پر غورکر کے دیکھئے!!

>> اور ہجرت کے بعد صحابہ کرام اور خود نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی اپنے وطن کو یاد کرنے کی بہت سی مثالیں ملتی ہیں ۔۔۔
وطن کو یاد کرنا ایک علحدہ معاملہ ہے اور کسی دن کو مخصوص کر کے جشن منانا ایک الگ مسئلہ ہے۔
اگر احادیث یا تاریخِ اسلام میں کوئی ایسی روایت ملتی ہو کہ خیرالقرون میں اصحابِ خیر میں سے کسی نے ہجرت کے دن یا فتح مکہ کے دن کی یاد میں کسی سال خوشی کا جشن منایا ہو تو اس روایت کو حوالے کے ساتھ یہاں پیش فرمائیں ۔ ہم سب کے علم میں اضافہ ہوگا ، جزاک اللہ۔
 

قیصرانی

لائبریرین
ہجرت کے حوالے سے باذوق بھائی کی بات درست ہے۔ کیونکہ اگر اس ہجرت کے دن کی اہمیت ہوتی، تو ہم اس دن کو منا رہے ہوتے، جبکہ ہمیں سالٍ ہجرت سے اسلامی سال شروع کرنے کی بات ملتی ہے، نہ کہ یومٍ ہجرت سے

دوسرا نبیل بھائی، میری ایک درخواست ہے۔ آپ بڑے اور تجربہ کار ہیں۔ میں اپنی بات دوبارہ دوہراتا ہوں

اگر باذوق بھائی کے کوئی ایسے پیغامات جو کہ دل آزاری اور دل شکنی کا باعث بنے ہوں، چاہے وہ کسی بھی فورم پر ہوں، ہمیں اس کا ایک لنک دے دیں۔ اتنی سمجھداری تو ہمارے اندر ہے کہ ہم خود بات کو جانچ لیں

یہ بات میں پھر دوہرا رہا ہوں، کیونکہ کسی کی بات کا صرف مضحکہ اڑانے یا اس کو سرے سے رد کردینے سے تو یہی ظاہر ہوگا کہ اس محفل پر کسی کو آزادی اظہار کی اجازت نہیں ہے، جو کہ ظاہر ہے کہ ناقابلٍ قبول سی بات ہے اور ایک منفی پہلو سامنے لاتی ہے جبکہ لنکس سے سارا معاملہ واضح‌ ہو جائے گا
 

سارا

محفلین
قیصرانی نے کہا:
ہجرت کے حوالے سے باذوق بھائی کی بات درست ہے۔ کیونکہ اگر اس ہجرت کے دن کی اہمیت ہوتی، تو ہم اس دن کو منا رہے ہوتے، جبکہ ہمیں سالٍ ہجرت سے اسلامی سال شروع کرنے کی بات ملتی ہے، نہ کہ یومٍ ہجرت سے

دوسرا نبیل بھائی، میری ایک درخواست ہے۔ آپ بڑے اور تجربہ کار ہیں۔ میں اپنی بات دوبارہ دوہراتا ہوں

اگر باذوق بھائی کے کوئی ایسے پیغامات جو کہ دل آزاری اور دل شکنی کا باعث بنے ہوں، چاہے وہ کسی بھی فورم پر ہوں، ہمیں اس کا ایک لنک دے دیں۔ اتنی سمجھداری تو ہمارے اندر ہے کہ ہم خود بات کو جانچ لیں

یہ بات میں پھر دوہرا رہا ہوں، کیونکہ کسی کی بات کا صرف مضحکہ اڑانے یا اس کو سرے سے رد کردینے سے تو یہی ظاہر ہوگا کہ اس محفل پر کسی کو آزادی اظہار کی اجازت نہیں ہے، جو کہ ظاہر ہے کہ ناقابلٍ قبول سی بات ہے اور ایک منفی پہلو سامنے لاتی ہے جبکہ لنکس سے سارا معاملہ واضح‌ ہو جائے گا

آپ نے بہت اچھی بات کی ہے اگر کہ کوئی ممبر کچھ غلط بات کرے یا کسی ممبر کی دل آزاری کرے تو پھر بے شک اس سے سخت الفاظ میں بات کی جا سکتی ہے اور اسے منع کیا جا سکتا ہے لیکن اگر کوئی کسی بات کی طرف توجہ دلا کر قرآن اور حدیث سے اپنی بات ثابت کر رہا ہو تو میرے خیال میں اسے اتنا احتیار تو ملنا چاہیے۔۔۔اس کی بات سے متفق ہونا یا نا ہونا یہ تو اگلے پر منصر ہے۔۔البتہ جن کو اتفاق نہ ہو وہ اپنی ذاتی رائے کی بجائے اگر قرآن اور حدیث سے اپنی بات کریں تو ان کی بھی بات پر توجہ دی جا سکتی ہے۔۔۔
 

سارا

محفلین
دو باتیں ۔۔۔

باذوق نے کہا:
شاکرالقادری نے کہا:
جناب باذوق سلام مسنون ۔۔۔۔۔۔۔۔
>> پاکستان کی آزادی کا جشن منانے کا تعلق تو اسے ضرور منانا چاہیئے کیونکہ اس روز مسلمانوں نے اسلام کی خاطر قائم ہونے والی ایک آزاد سرزمیں کی طرف اسلام کے نام پر ہجرت کی تھی اور ہجرت کا دن تو یادگار ہوتا ہی ہے ۔۔۔۔
بےشک ہجرت کا دن یادگار تھا۔ رسولِ عربی (ص) کا بھی اور برصغیر کے مسلمانوں کا بھی۔
لیکن سوال یہ ہے کہ ہر سال آنے والے کسی دن کو " یادگار " قرار دیا جا سکتا ہے؟ اس کی تائید میں قرآن یا حدیث کی کوئی دلیل ہے؟
قرآن اور حدیث کی تعلیمات کے مطابق ، ''عید الفطر'' ، ''عید الاضحیٰ'' اور ''عید المومنین (جمعہ)'' کے سوا ہرسال میں ایک بار آنے والا کوئی بھی دن / رات ایسا نہیں ہے جس کو شرعی طور سے مبارک یا منحوس ثابت کیا جا سکے۔ ( واضح رہے کہ ''شبِ قدر'' کا معاملہ علحدہ ہے کیونکہ یہ رات رمضان کے آخری دہے کی طاق راتوں میں پوشیدہ ہے اور جس کا علم اللہ تعالیٰ کے سوا کسی کو نہیں ہے۔)
ہر سال میں ایک بار آنے والے کسی بھی دن کو اسلامی شریعت کی رو سے مبارک و مسعود مان کر خوشی منانے کا جواز اگر ثابت کیا جائے تو سب سے پہلے اُس دن کا ذکر کیا جانا چاہئے جس دن ہمارے پیارے رسول ، ہمارے مکرم رسول ، ہمارے محسن رسول ، حکیم الامت ، اعلیٰ حضرت ، ابوالاعلیٰ ، سید الانبیاء ، امامِ اعظم حضرت محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم اِس فانی دنیا میں تشریف لائے تھے!
اسلامی تاریخ گواہ ہے کہ اسلام کا بہترین دور وہ ہے جسے ''خیر القرون'' کہا جاتا ہے۔ اور جو خلفائے راشدین (رضی اللہ تعالیٰ عنہم)، صحابہ اکرام (رضی اللہ تعالیٰ عنہم) اور تابعین (رحمۃ اللہ علیہم) کا سنہرا دور تھا۔ آج کی تاریخ تک محدثین ، ائمہ اکرام اور علمائے دین نے اِس بات پر اتفاق ہی نہیں کیا ہے کہ ''خیر القرون'' میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا یومِ پیدائش کبھی کسی سال ، ''مبارک و مسعود دن'' کے طور پر منایا گیا ہو۔

درحقیقت یہ birthday ، یومِ آزادی، anniversary وغیرہ سب concepts غیر مسلموں سے مستعار لئے گئے ہیں۔
اور اس سلسلے میں ہمارے پیارے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا واضح فرمان ہے کہ ایک مسلمان کو زندگی کے ہر معاملے میں کفار کی مشابہت سے بچنا چاہئے۔
ایک گذارش اور۔ ہماری وہ عظیم سیاسی، مذہبی اور سماجی شخصیات، وہ رہبرانِ ملت، جنہوں نے کافی قربانیوں کے بعد ہمارے لئے یہ ملک حاصل کیا۔۔۔ کیا ہم پر ان کا حق صرف اتنا بنتا ہے کہ ہم سال میں کسی ایک مخصوص دن ان کو خراجِ عقیدت پیش کریں اور باقی تمام سال ان کو بھلائے رکھیں؟؟ اس ملک کی آزادی کی خوشی میں ہم سال میں صرف ایک دن اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں سجدہٴ شکر بجا لائیں اور سال کے باقی تمام دن اپنی معمول کی زندگی میں مصروف رہیں؟ کبھی میری طرح آپ بھی اس پر غورکر کے دیکھئے!!

>> اور ہجرت کے بعد صحابہ کرام اور خود نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی اپنے وطن کو یاد کرنے کی بہت سی مثالیں ملتی ہیں ۔۔۔
وطن کو یاد کرنا ایک علحدہ معاملہ ہے اور کسی دن کو مخصوص کر کے جشن منانا ایک الگ مسئلہ ہے۔
اگر احادیث یا تاریخِ اسلام میں کوئی ایسی روایت ملتی ہو کہ خیرالقرون میں اصحابِ خیر میں سے کسی نے ہجرت کے دن یا فتح مکہ کے دن کی یاد میں کسی سال خوشی کا جشن منایا ہو تو اس روایت کو حوالے کے ساتھ یہاں پیش فرمائیں ۔ ہم سب کے علم میں اضافہ ہوگا ، جزاک اللہ۔

باذوق بھائی۔۔آپ کے سمجھانے کا انداز بہت اچھا ہے۔۔(کاش میں بھی اپنی بات اتنے اچھے طریقے سے سمجھانے کی صلاحیت رکھتی)
آپ میرے لیے دعا کریں کہ اللہ میرے علم میں اضافہ کرئے (آمین)
جزاک اللہ خیر۔۔۔
 

دوست

محفلین
یار بات صرف اتنی ہے اگر اس نفسا نفسی کے دور میں کوئی دو گھڑی خوشی حاصل کرلیتا ہے کسی چیز کو حدود میں رہ کر منانے سے تو میرا خیال ہے اس میں کوئی برائی نہیں۔
بے شک اسلام کی عیدیں اور عید المومنین کی بہت اہمیت ہے بلکہ یہی ہیں۔
لیکن معذرت کے ساتھ میرے آدھے سے زیادہ دوستوں کی عیدیں سو کر گزرتی ہیں۔ اور جمعہ تو بس نماز کا ہوتا ہے اور کیا۔ اگر چھٹی ہو بھی جمعے کو تو لوگ سو کر گزاریں گے۔ سو صاحب کہاں کی عید اور کیسی عید۔
سو صاحب اگر کوئی یہ دن ون منا بھی لیتے ہیں تو میرے خیال میں کوئی حرج نہیں۔ بس دن کوئی قاعدے کا ہو۔ یہ ویلنٹائن جیسی خرافات نہ ہوں۔ اور اس سے مہمیز ملے نہ کہ ایک دن ابا جان کا دن منایا اور سارا سال بّنے۔
خیر بحث برائے بحث کا انجام یہ ہے کہ نہ میں نے آپ کی بات ماننی ہے اور نہ آپ نے میری۔ چونکہ میں فطرتًا کچھ منافق سا ہوں کچھ ادھر کچھ اُدھر۔
سو لکم دینکم ولی دین کے مصداق آپ اپنے دین پر ہم اپنے دین پر۔
اللہ معاف کرے۔ اور صحیح عمل کی توفیق دے۔
 

قیصرانی

لائبریرین
دوست نے کہا:
یار بات صرف اتنی ہے اگر اس نفسا نفسی کے دور میں کوئی دو گھڑی خوشی حاصل کرلیتا ہے کسی چیز کو حدود میں رہ کر منانے سے تو میرا خیال ہے اس میں کوئی برائی نہیں۔
بے شک اسلام کی عیدیں اور عید المومنین کی بہت اہمیت ہے بلکہ یہی ہیں۔
لیکن معذرت کے ساتھ میرے آدھے سے زیادہ دوستوں کی عیدیں سو کر گزرتی ہیں۔ اور جمعہ تو بس نماز کا ہوتا ہے اور کیا۔ اگر چھٹی ہو بھی جمعے کو تو لوگ سو کر گزاریں گے۔ سو صاحب کہاں کی عید اور کیسی عید۔
سو صاحب اگر کوئی یہ دن ون منا بھی لیتے ہیں تو میرے خیال میں کوئی حرج نہیں۔ بس دن کوئی قاعدے کا ہو۔ یہ ویلنٹائن جیسی خرافات نہ ہوں۔ اور اس سے مہمیز ملے نہ کہ ایک دن ابا جان کا دن منایا اور سارا سال بّنے۔
خیر بحث برائے بحث کا انجام یہ ہے کہ نہ میں نے آپ کی بات ماننی ہے اور نہ آپ نے میری۔ چونکہ میں فطرتًا کچھ منافق سا ہوں کچھ ادھر کچھ اُدھر۔
سو لکم دینکم ولی دین کے مصداق آپ اپنے دین پر ہم اپنے دین پر۔
اللہ معاف کرے۔ اور صحیح عمل کی توفیق دے۔
دوست بھائی، یہی بات میں کہ رہا ہوں کہ اسے مذہبی درجہ مت دیں۔ جو تہوار منانا چاہیں منائیں، لیکن لازمی دوسروں کے لیے نہ بنایا جائے۔ اپنی ذات کی حد تک تو سب کو اجازت ہوتی ہے
 
Top