یومِ آزادیِ انسانیت
ڈاکٹر محمد حسین مُشاہدؔ رضوی
نا معلوم محسنوں کی یاد منانے کی رسم کب سے چلی ہے، یہ رسم قدیم بھی ہے اور عظیم بھی۔ ہر عصر میں مختلف بلاد وامصار میں محسنین کی یادیں منائی جاتی رہی ہیں۔ صرف انداز اور طریقۂ کار جدا رہے ہیں۔ ہمارے ملک میں قومی رہنماوں کی یاد منائی جاتی ہے۔ ان کا یومِ پیدایش اور موت کے دن کچھ وقت کے لیے سروقد خاموش کھڑے رہ کر ان کو خراجِ تحسین پیش کی جاتی ہے۔ جس روز ملک کو آزادی ملی اس کو بھی بڑے تزک وا حتشام سے منایا جاتا ہے ۔ تو کیا جس روز کسی مخصوص علاقے یا کسی مخصوص خطے کو نہیں بل کہ پوری انسانیت کو آزادی ملی وہ دن نہ منایا جائے ؟ عقل سوچے اور جواب دے ؟؟؟؟
یومِ آزادیِ انسانیت کیا ہے؟ ارے وہی جس روز نبیِ کریم محسنِ انسانیت صلی اللہ علیہ وسلم کی ولادتِ باسعادت ہوئی۔ اسی روز زمانۂ جاہلیت کے تمام بت ناپائدار کو لوگوں نے اپنے پیروں تلے روند ڈالا۔ آپ ﷺ کی آمد سے سسکتی بلکتی انسانیت کو راحت واطمینان نصیب ہوا۔ چہروں کا وقار بحال ہوا۔ نگاہوں کی حیا محفوظ ہوئی۔بے حیائیوں اور برائیوں کا خاتمہ ہوا۔ یومِ دلادتِ رسولِ کونین ﷺ ہی یومِ آزادیِ انسانیت ہے۔
اوپر ذکر کیا گیا کہ ملک کا یومِ آزادی منایاجاتاہے ۔ جی ہاں! کچھ ایسے بھی لوگ ہیں جو خالص مذہبی لبادے میں ہوتے ہیں وہ بھی ملک کی آزادی کا دن بڑے جوش و خروش سے مناتے ہیں ۔ منائیں کوئی قباحت نہیں ، ہم بھی ملک کی آزادی کا دن بڑے اہتمام سے مناتے ہیں قومی گیت گاتے ہیں، پرچم کی سلامی دیتے ہیں۔ لیکن حیرت ہے ان حضرات پر جو آزادی کاجلوس نکالتے ہیں ، جلسوں کاانعقاد کرتے ہیں، قومی پرچم کو سلامی دیتے ہیں ، قومی ترانے کے احترام میں کھڑے ہوتے ہیں ۔ مگر جب یومِ ولادتِ رسول ﷺ کی بات آتی ہے تو ان نکتہ چینوں کو یہ سب شرک و بدعت نظر آنے لگتا ہے۔ جشنِ ولادتِ طیبہ کے نام پر منعقد کیے گئے اجلاس اور جلوس کو یہ شرک و بدعت کہتے نہیں تھکتےاور مصطفیٰ جانِ رحمت ﷺ پر کھڑے ہوکر سلام پڑھنے اور سبز پرچم کو گھروں پر لہرانے کو بدعات وخرافات سے تعبیر کرتے ہیں۔ اس تضاد سے عقل حیران ہے۔ یقین انگشت بدنداں ہے۔ عشق و محبت فریادی ہیں۔ دنیاوی مفاد کے لیے ملک کی آزادی کاجشن اوراپنےقائدین و اکابر کا یومِ ولادت منانے ، اپنی اور اپنے بچّوں کی سالگرہ منانے اور اسلام دشمن یہودیوں اور نصرانیوں کی طرح موم بتیاں روشن کرنے اور کیک کاٹنے میں کوئی برائی اور قباحت محسوس نہیںہوتی۔ مگر واے افسوس!! یہ اچھا نہیں لگتا کہ آقاے کائنات ﷺ کے ذکر و اذکار ہوں۔ ان کے محامد و فضائل بیان کیے جائیں ۔ ان کی ولادتِ طیبہ کے دن کو یاد کیا جائے۔ کھڑے ہوکر سلام پڑھا جائے ۔ جلوسِ عقیدت نکالاجائے۔ سبزپرچم لہرایاجائے۔
یاد رکھیے جو قوم اپنے محسنوں کی یاد منانا چھوڑ دیتی ہے تباہی وبربادی ان کامقدر بننے لگتاہے۔ آج ہماری پریشانیوں ، کلفتوں اور مصیبتوں کاسبب یہی ہے کہ ہم نے حضور جانِ ایمان ﷺ کے یومِ ولادت کو شرک و بدعت کہنا شرع کردیا ہے۔ اور اکابرِ امت کہ جن لوگوں نے صدیوں سے جشنِ ولادتِ طیبہ منایا ہے ان کو بدنام کرنے کے درپَے ہیں۔ افسوس کہ ہماری بد بختی اور بدنصیبی اس انتہا کو پہنچ گئی ۔ ہمیں دوبارہ اکنافِ عالم پر چھانے کے لیے پریشانیوں اور مصیبتوں سے نجات حاصل کرنے کے لیے اپنا اندازِ فکر بدلنا ہوگا اور ہمیں معتدل اور اچھی روش اختیار کرناہوگی ، بہ قول فخرِ مشرق علامہ شفیق جون پوری علیہ الرحمہ ؂
ہمیں کرنی ہے شہنشاہِ بطحا کی رضا جوئی
وہ اپنے ہوگئے تو رحمتِ پروردگار اپنی
 
Top