یوسف کا بکا جانا

یوسف-2

محفلین
usuf+ka+bika+jana-1.jpg

usuf+ka+bika+jana-2.jpg

usuf+ka+bika+jana-3.jpg
 

شمشاد

لائبریرین
یوسف کا بکا جانا
غیب سے مضامین تو ہمارے خیال میں بھی آتے رہتے ہیں جسے ہم قرطاس پر منتقل کر کے قارئین کے استفادہ کے لئے رسائل و جرائد میں بھیج دیا کرتے ہیں اور پھر سے خالی الذہن ہو کر بیٹھ جاتے ہیں تاکہ مضامین کی آمد کا سلسلہ جاری رہے۔ اسی خاطر ہم نے اپنے خیال میں خیال یار کو بھی کم کم ہی جگہ دی ہے چنانچہ ہمارا ذہن اکثر خالی خالی سا ہی رہتا ہے اور یار لوگ یہ سمجھنے لگتے ہیں کہ ہم کسی کے خیال میں کھوئے ہوئے ہیں۔ اب آپ ہی بتائیں کہ یہ بات کہاں تک درست ہے۔​
لیکن جب کبھی ہم نے نالے کو پابند نے کرنے کی کوشش کی تو ذہن و قلم دونوں نے ایک ساتھ، ساتھ دینے سے انکار کر دیا۔ امتحانی سوالات کے لگے بندھے اور خطوط کے رسمی جوابات دینا، نالے کو پابند نے کرنے کے مترادف ہی تو ہے۔ جی ہاں! کچھ ایسا ہی مسئلہ ہمیں اس وقت بھی درپیش ہے کہ خواتین میں مقبول، ماہنامہ "قبول" کی مدیرہ مسئول "مادام سین" کا خط ہمارے سامنے پڑا ہے اور ہمارے ذہن و قلم کا یہ حال ہے کہ ع​
گویم مشکل وگرنہ گویم مشکل​
 

شمشاد

لائبریرین
یادش بخیر! کبھی ہم نے "ان" سے متاثر ہو کر انہی کی فرمائش پر ان کے "شکوہ" کو (اپنے جواب شکوہ کی نتھی کے ساتھ) "مجازی خدا" کے عنوان سے ایک نظم کا لبادہ پہنایا تھا۔ اگر ناگوار خاطر نہ ہو تو تھوڑی دیر کے لئے ہمیں اقبال ثانی تصور کرتے ہوئے "شکوہ جواب شکوہ" کا نیا روپ ملاحظہ فرمائیے :​
شکوہ
خدا نے مجھ کو​
میں نے جگ کو​
پیدا کیا، سنوارا‘ سجایا!​
خدا کی خدائی میں​
میں حصہ دار تھی۔​
لیکن!​
جسے میں نے پیدا کیا​
منے سے کڑیل جوان کیا​
مجھے صنف نازک قرار دے کر​
میرا مجازی خدا بن بیٹھا۔​
جواب شکوہ
خدا نے مجھ کو​
مجھ سے تجھ کو​
تجھ سے جگ کو​
پیدا کیا، سنوارا‘ سجایا۔​
خدا کی خدائی میں​
خدا کی بڑائی میں​
نہ تو حصہ دار تھی​
نہ میں حصہ دار تھا​
لیکن!​
جس نے مجھ کو​
مجھ سے تجھ کو​
تجھ سے جگ کو پیدا کیا​
اسی نے مجھ کو​
ہاں‘ تجھی پر مجھ کو​
نگراں بنایا" برتر بتایا​
میں کب خدا تھا​
میں کب خدا ہوں​
کہنے کو کہہ لو​
مجازاً خدا ہوں​
جب ہماری یہ نظم مادام "سین" کی نظروں سے گزری تو انہوں نے جھٹ اسے اپنے پرچے کی زینت (امان کے لاحقہ کے بغیر) بنا لیا۔ چنانچہ ہم نے خوش ہو کر ازراہ سرپرستی انہیں اپنی گراں قدر تحریریں شائع کرنے کے جملہ حقوق سونپ ڈالے۔ اور یوں ہمارے تحریریں جو اکثر و بیشتر انشائیہ کا روپ (یا بہروپ) دھارے ہوتی ہیں ماہنامہ مذکورہ میں چھپنے لگیں۔ ابھی ہمارے چند مضامین ہی شائع ہوئے تھے کہ "قبول" کی فضول سی قاریاؤں نے مراسلات کے کالم "محشر خیال" میں ایک حشر برپا کر دیا۔ ان کا خیال تھا کہ اگر ہم اسی طرح لکھتے رہے تو یقیناً ایک نہ ایک دن ہمیں لکھنا آ ہی جائے گا۔ چنانچہ ہماری اس مقبولیت سے متاثر ہو کر فاضل مدیرہ نے ہمارے مضامین کی اشاعت میں وقفہ ڈالنا شروع کر دیا اور یوں ہمیں عملاً یہ سمجھانے کی کوشش کی کہ ع​
وقفہ بہت ضروری ہے​
 

شمشاد

لائبریرین
ماہناموں میں لکھنا اور پھر لکھ کر چھپنے کا انتظار عموماً انتظار یار سے بھی طویل ہو جات اہے۔ مثلاً بچوں کا ایک ماہنامہ "ہاتھی" ہے جسے ہم اپنے تئیں بڑی عمر کا بچہ تصور کرتے ہوئے بڑی باقاعدگی سے پڑھتے ہیں مگر اللہ گواہ ہے کہ ہم نے کبھی اسے اپنی کوئی تحریر بغرض اشاعت ارسال نہیں کی کیونکہ مدیر محترم بار بار اپنے قارئین کو یہ مشورہ دے چکے ہیں کہ تحریر ارسال کرنے کے بعد کم از کم نو ماہ ضرور انتظار کیا کریں۔ اگر آپ بھی اس رسالہ کے قاری ہیں تو یقیناً یہ ہدایت آپ کی نظروں سے بھی گزری ہو گی۔ اب آپ ہی انصاف کریں کہ محض ایک ادبی تخلیق کے منظر عام پر آنے کے لئے نو ماہ کا انتظار ہماری طرح کے کسی بھی سمجھدار فرد کے لئے کس طرح قابل قبول ہو سکتا ہے۔ کیا اس سے بہتر یہ نہیں آدمی دو گواہوں کی موجودگی میں قبول ہے" کہہ کر اس عرصہ میں ۔۔۔​
کچھ یہی حال محترمہ سین کا بھی ہے کہ آخر کو موصوفہ بھی ایک ماہنامہ کی مدیرہ ہیں۔ اپنے اس خط میں جو انہوں نے ہمیں لکھا ہے اور جس کا غیر رسمی‘ جواب‘ ہم مضمون ہذا کی صورت میں دے رہے ہیں‘ آپ لکھتی ہیں "​
"۔۔۔ بہت ممکن ہے آپ ناخوشی کے دور سے گزر رہے ہیں ورنہ مانامہ میں لکھنے کا سلسلہ بند نہ ہوتا۔ صاحب! آپ کے لئے صفحات قبول حاضر ہیں۔۔۔"​
تو صاحبو! ہم انہیں کیسے بتلائیں کہ جو "سلسلہ" ہم نے شروع کیا تھا‘ ہم از خود اسے کیسے بند کر سکتے ہیں۔ آخری مرتبہ ہم نے اپنی دو تحریریں ساتھ ساتھ ارسال کی تھیں۔ پہلی تو خیر فوراً ہی شرمندہ اشاعت ہو گئی۔ مگر دوسری کو شرمندہ" ہونے میں کوئی سات ماہ لگے۔ ہو سکتا ہے صنف نازک ہونے کے ناطے مدیرہ محترمہ کو ایک تخلیق (مجازی ہی سہی) کے منظر عام پر آنے کے لئے یہ عرصہ "معمول" کے مطابق لگا ہو گا۔ مگر ہم جیسے صنف قوی سے تعلق رکھنے والوں کے لئے تو "معمول" کا عرصہ بھی غیر معمولی لگتا ہے۔ ہمارا بس چلے تو ہر قسم کی تخلیق۔۔۔ مگر ہمارا بس توسڑکوں پر دوڑنے والی بس پر بھی نہیں چلتا۔ یہی وجہ ہے کہ گھر ہو یا باہر ہم ہر جگہ بالعموم بے بس ہی رہتے ہیں۔ سو یہاں اس معاملہ میں بھی بے بس ہیں۔​
 

شمشاد

لائبریرین
"ادیب لوگ مزاج نازک رکھتے ہیں۔ ان کی تعریف نہ کی جائے ان سے لکھنے کی درخواست نہ کی جائے تو وہ ناخوش بھی ہو سکتے ہیں۔۔۔" ان جملوں کو پڑھ کر پہلےتو ہم کچھ نہ سمجھے کہ روئے سخن کس طرف ہے۔ شاید متعدد شاہکار ناولوں کی مصنفہ بین السطور یہ کہنا چاہتی ہوں کہ اگر لوگ ان کی تعریف کریں اور ان سے مزید لکھنے کی درخواست کریں تو وہ ایسے اور بھی بہت سے ناول لکھ سکتی ہیں۔ لیکن لفظ "ادیب" یعنی صیغہ تذکیر پر ہم چونکے کہ آخری اطلاع آنے تک تو موصوفہ کا تعلق صیغہ ثانیت ہی سے تھا۔ ہو نہ ہو‘ روئے سخن ہماری طرف ہی ہے اور آگے کی عبارت پڑھ کر اس کی تصدیق بھی ہو گئی ہے۔ چنانچہ ہر خاص و عام کو بذریعہ ہذا مطلع کیا جاتا ہے کہ آج سے ہمارا شمار بھی ادیبوں میں ہو گیا ہے لہذا آئندہ ہمارا نام ادیب کے سابقہ کے ساتھ لکھا اور پکارا جائے۔ اور اگر حفظ ماتقدم کے طور پر ادیب سے پہلے معروف تھی لگایا جائے تو ہمیں کوئی اعتراض نہ ہو گا۔ ہاں اگر کسی اور کو اعتراض ہو تو اندرون نو (۹) ماہ بذریعہ ماہنامہ "قبول" ہمیں مطلع کرے اس کے بعد کوئی دعویٰ قابل قبول نہ ہو گا اور بعد از مدت ہمارے گھر کے نیم پلیٹ پر ہمارے نام کے ساتھ لفظ ادیب لکھا ہوا ملا کرے گا۔ محکمہ ڈاک سے وابستہ کوئی فرد اگر ہمارے یہ تحریر پڑھ رہے ہوں تو متعلقہ ڈاکیہ تک یہ اطلاع پہنچا کر انہی سے شکریہ وصول کر سکتے ہیں۔​
اسی خط میں مادام سین مزید لکھتی ہیں : "امید ہے آپ ہر طرح خیریت سے ہوں گے (خیریت سے تو بفضل تعالیٰ ہیں مگر ہر طرح کی گواہی نہین دے سکتے) چاہیں تو اپنے بارے میں کچھ لکھیں (وہ اگر چاہیں تو پھر کیا چاہیے) کہ آپ کون ہیں؟ کیا کرتے ہیں؟ کہاں رہتے ہیں؟ اور کیوں مشہور ہیں (اگر ہیں تو)"۔ یہ آخر میں اگر والا جملہ انہوں نے یونہی لکھ دیا ہے آپ اس سے گمراہ نہ ہوں تمام سوالات غالباً لازمی ہیں کہ چوائس کی وضاحت نہیں کی گئی ہے۔ گو کہ ہم اپنے بارے میں دیگر کالم نویسوں کی طرح جملہ معلومات اپنے متعدد کالموں میں پیش کر چکے ہیں (حوالے لیے دیکھو ہمارا کالم "من آنم کہ من دانم") پھر بھی مکتوب الیہ اور دیگر قارئین کے استفادہ کے لئے اپنی تعریف قند مکرر کے طور پر پیش کیے دیتے ہیں۔​
ہم کون ہیں؟ ہم آدمی ہیں اور کون ہیں۔ البتہ انسان ہونے کا دعویٰ نہیں کر سکتے کہ بقول شخصے اکثر آدمیوں کو انسان ہونا میسر نہیں۔ نام ظاہر ہے قلمی ہے اصلی نہیں۔ اگر (خدانخواستہ) حقیقتاً یوسف ثانی ہوتے تو آج کے شاعر کو یہ کہنے کی جرات نہ ہوتی کہ :​
ہر ایک زلیخا ہے مگن دھیان میں اپنے​
کیا ایک بھی یوسف نہیں کنعان میں اپنے​
رہا یہ سوال کہ ہم کیا کرتے ہیں تو ہمارے خیال میں پوچھنا یہ چاہیے تھا کہ ہم کیا نہیں کرتے۔ مختصراً عرض کئے دیتے ہیں ہماری ادبی حیثیت تو آپ پر آشکار ہو چکی ہے چنانچہ یہ تو طے ہے کہ ہم ادیب (بھی) ہیں چونکہ اخبارات و رسائل میں (بھی ) لکھتے ہیں اس لئے "سکہ رائج الوقت" کے مطابق صحافی بھی ہیں۔ کوچہ ادب و صحافت کی آوارہ گردی کی وجہ سے اگر آپ ہمیں بالکل ہی "آوارہ" سمجھنے لگے ہیں تو یہ آپ کی بھول ہے کہ مابدولت معروف (معنوں میں نہ سہی) سائنس دان بھی ہیں۔ بھئی آخر کو سائنس میں بیچلر کی ڈگری جو رکھتے ہیں۔ یہاں یہ واضح رہے کہ ہم "بیچلر" (معنی کے لئے دیکھئے لغت) کی جھوٹی "سند" نہیں رکھتے۔ کم از کم تادم تحریر (تادم اشاعت کی ضمانت نہیں) ان سب باتوں کے علاوہ ایک "مقامی افسر" بھی ہیں حالانکہ ع​
کچھ افسری ذریعہ عزت نہیں مجھے​
کہتے ہیں کہ پاکستان میں ہر دوسرا فرد یا تو شاعر ہے یا شاعر بننے کی کوشش کرتا ہے۔ چونکہ آپ کو شاعری سے کوئی لگاؤ نہیں ہے لہذا دوسرا ہونے کے ناطے کبھی کبھی ہمیں یہ رسم نبھانی پڑتی ہے۔ شاعری کیا کرتے ہیں۔ بس بقول میر "درد و غم" جمع کرتے ہیں۔ ویسے بھی ہم اور میر دونوں "چاہ" کے مارے ہوئے ہیں۔ اس سلسلے میں میر کا شکوہ تو آپ بارہا پڑھ چکے ہوں گے، ذرا ہمیں بھی سنتے جائیے ع​
"چاہ" کا مارا یوسف اپنا‘ "چاہ زخنداں" سے بھی ڈرے ہے​
"رہتے کہاں ہیں؟ کا کیا جواب دیں کہ۔ ع​
اپنا کیا کنعان میں رہے یا مصر میں جا آباد ہوئے​
تاہم تادم تحریر اپنے گھر بلکہ مکان میں رہتے ہیں دعا کریں (ہو سکے تو "دوا" بھی) کہ جس مکان میں ہم رہتے ہیں خدا اسے گھر کر دے یا جس "گھر" میں ہم اب تک نہیں رہ سکے خدا اسے ہمارا کر دے۔​
ہمیں نہیں معلوم کہ ہمارا یہ شاہکار خط نما انشائیہ (یا انشائیہ نما خط) محض مدیرہ مسئول کے استفادہ کی خاطر آفس فائل میں جگہ پاتا ہے یا استفادہ عام کے لئے ماہنامہ کے صفحات پر۔ خیر یہ تو ان کی مرضی پر منحصر ہے جن کے نام یہ خط ہے۔ تاہم اگر یہ خط ابھی نہ بھی چھپے تو طالبان ادب مایوس نہ ہوں۔ ان شاء اللہ ہمارے مرنے کے بعد ہمارے خطوط پر کام کرنے والا کوئی نہ کوئی محقق اسے ضرور برآمد کر لے گا۔ ہم اس محقق کو پیشگی مبارکباد دیتے ہیں اور اس سے یہ گزارش کرتے ہیں کہ اپنے پی ایچ ڈی کے مقالے میں یہ ضرور لکھے کہ ہمارے زندگی میں ہمارے "ادبی حیثیت" سے ناواقف ایک مدیرہ (انجانے میں ہی سہی) ہماری کس قدر بے قدری کی مرتکب (بمطابق ذیل) ہوئی تھیں۔​
اسی خط کے آخر میں مادام سین لکھتی ہیں! "صاحب کے لئے صفحات قبول حاضر ہیں۔۔۔ (کیونکہ) مجھے خود بھی آپ کی تحریریں (بے حد) پسند ہیں۔" اسی کے ساتھ ہمارے تحریر کی (قدر و) قیمت بھی لگا دی کہ : "پرچہ آپ کے نام اعزازی جاری کیا جا رہا ہے۔ جب تک آپ کا ماہنامہ کے ساتھ تعلق رہے گا (یعنی مضمون ملتا رہے گا) ماہنامہ بھی یہ تعلق نبھائے گا" – مطلب صاف ظاہر ہے کہ بصورت دیگر پرچہ ملنا بند ہو جائے گا۔ صاحبو! دیکھا آپ نے برسوں قبل میر نے ہمارے بارے میں غلط تھوڑا ہی کہا کہ :​
کیا پانی کے مول آ کر، مالک نے گہر بیچا​
ہے سخت گراں، سستا یوسف کا بکا جانا​
 

شمشاد

لائبریرین
یوسف بھائی غالباًۢ آپ کے سارے ہی مراسلے جو کہ اردو محفل میں تصویری شکل میں تھے تحریری شکل میں ہو گئے ہیں، سوائے ایک کے "خاکے - شہید صحافت"

یا ابھی کوئی باقی ہے؟

مزید کب اپلوڈ کریں گے؟
 

یوسف-2

محفلین
یوسف بھائی غالباًۢ آپ کے سارے ہی مراسلے جو کہ اردو محفل میں تصویری شکل میں تھے تحریری شکل میں ہو گئے ہیں، سوائے ایک کے "خاکے - شہید صحافت"

یا ابھی کوئی باقی ہے؟

مزید کب اپلوڈ کریں گے؟
شمشاد بھائی! آج میں نے پوری کتاب اسکین کر لی ہے۔ اب انہیں باری باری اپ لوڈ کرتا ہوں۔
 
Top