اسکین دستیاب یورپ کے بانکے کی ٹائپنگ

شمشاد

لائبریرین
صفحہ ۹۲

جاری رہے اور کامیاب ہو۔ چنانچہ گریگوری عاشر۔ نوئی تاسع۔ نکولس رابع۔ اور بنی فیس ثامن (پوپون) نے فتوے دیےکہ ٹیوٹن نائٹ۔ اور سینٹ جان کے بانکے بھی ٹمپلرون کے گروہ مین شامل ہو جائین۔ باہمی محبت و اتحاد کو ترقی دیکر اپنی قوت بڑھائین۔ اور یہ تینون طرح کے بانکے ملکے ایک گروہ بن جائین۔ پوپ بی فیس ثامن کو مرتے دم تک اسی بات کی دُھن رہی کہ بیت المقدس پر عیسائیون کا قبضہ ہو۔ اور ٹمپلرون کے بڑھانے اور انکی تقویت مین اُس نے کوئی دقیقہ نہین اُٹھا رکھا۔

مگر بجاے اسکے کہ اُس کی یہ تمنا برآئے اُسکے ہاتھ سے پاپائی کی وقعت بھی چھن گئی۔ اسوقت تک پاپاؤن کا ایسا زور رہا تھا کہ اصلی قوت اُنھین کے قبضۂ قدرت مین تھی۔ اور مسیحی دنیا کے وہ بادشاہ گر تھے جسے چاہتے بادشاہ بنا دیتے اور جسے چاہتے تاج و تخت سے محروم کر دیتے۔ مگر بنی فیس کے زمانے مین فرانس کے بادشاہ فلبؔ رابع نے اپنے تدبُر سے ایسا زور پکڑ لیا تھا کہ دربار پاپائی کا سارا زور ٹوٹ گیا۔ اور بنی فیس بجاے مسجود قوم ہونے کے فلپ کے ہاتھ مین گرفتار ہو کے اُسی کی قید مین مرا۔ اور اُسکے بعد جب نئے پوپ کے منتخب ہونے کا وقت آیا تو فلپؔ نے رشوتین دے دے کے اور ڈرا دھمکا کے کارڈنلون (یعنی پوپ کی محترم مجلس کے ممبرون) کو اپنا ایسا غلام بنا لیا کہ سوا اُس شخص کے جسے وہ پیش کرے اور کسی کو وہ لوگ پوپ منتخب کرنے کی جرأت ہی نہ کر سکتے تھے۔ یہ انتظام کر کے اُس نے ۷۳۴ محمدی (۱۳۰۵ء؁) مین کلیمنٹ خامس کو منتخب کرایا۔ اور انتخاب سے پہلے اُس سے چھ شرطین اپنی مرضی کے موافق منوا کے اُن پر حلف اُٹھوالی۔ اُن چھ شرطون مین سے ایک آخر تک راز مین رہی اور کسی کو نہ معلوم ہو سکا کہ کیا تھی مگر واقعات اور پوپ کلیمنٹ کے طرز عمل سے لوگون نے پتہ لگایا کہ وہ شرط ٹمپلرون یعنی اُن مذہبی بانکون کی پامالی تھی۔

تقریباً نصف صدی پیشتر سے عوام مین ان بانکون کی نسبت طرح طرح کی افواہین اُڑنا شروع ہو گئی تھین۔ ان کی رازداری اور مخفی کاروائیون نے لوگون مین بدگمانیان پیدا کین۔ اور وہی لوگ جو ملک و ملت کے سب سے
 

شمشاد

لائبریرین
صفحہ ۹۳

بڑے محسن تھے مورد سہام ملامت بننے لگے۔ کہا جاتا کہ اپنی آدھی رات کی کمیٹیون مین وہ لوگ شرمناک اور ناپاک ترین جرائم کے مرتب ہوتے ہین۔ اُس وقت وہ لوگ خدا اور مسیح سے بدعقیدگی پر قسمین کھاتے ہین۔ صلیب پر حقارت سے تھوکتے ہین۔ فحش اور مجرمانہ افعال کے مرتکب ہوتے ہین۔ اور باہم عہد کرتے ہین کہ اپنی ان مخفی سیہ کاریون کو کبھی کسی پر نہ کُھلنے دین گے۔ اور اپنے گرینڈ ماسٹر کے سوا کسی کا کہنا نہ مانین گے۔ مشہور تھا کہ عبادت کی دعاؤن مین بھی اُنھون تصرف کے کے قطع و بُرید کر دی ہے۔ "گُڈ فرائیڈے" (یعنی جس جمعے کو حضرت مسیح کا مصلوب ہونا مانا جاتا) کے دن مقدس صلیب پانؤن کے نیچے روندی جاتی۔ اور خیرات کا مروجہ مسیحی طریقہ ترک کر دیا گیا تھا۔ عہد اولین مین ان لوگون کی نسبت شہرت تھی کہ عورتون سے نہایت ہی پاکبازی کے اور شریفانہ تعلقات رکھتے ہین اور کبھی اُن کی نیت بُری نہین ہوتی۔ مگر اب یہ اعتبار اُٹھ گیا تھا۔ اور سمجھا جاتا کہ وہ نہایت ہی فحش بدکاریون اور ناپاک ترین شہوت رانیون مین مبتلا ہین۔اور اپنے آدھی رات کے جلسون مین وہ عورتون کو فریب دے کے لیجاتے ہین اور کمال بے رحمی سے ذلیل و بے آبرو کرتے ہین۔ اسی قدر نہین اُن پر اغلام کے الزام بھی عائد کیے جاتے۔ بعض باپون نے اپنے نو عمر بیٹون کو صرف اس وہم پر مار ڈالا کہ رات کو وہ ٹمپلرون کی صحبت مین چلے گئے تھے۔ کیونکہ اُنھین یقین تھا کہ وہانے جانے کے معنی یہی ہین کہ اُن کی شہوت پرستیون کے شکار ہوے ہون۔ یہ بدگمانی اس حد تک بڑھی ہوئی تھی کہ انگلستان تک مین لڑکے ایک دوسرے کو متنبہ کرتے کہ خبردار کسی ٹمپلر کو اپنا مُنہ نہ چومنے دینا۔ مختلف حاکمون اور اُسقفون کے سامنے اس قسم کے واقعات پیش ہوے کہ باپون نے اپنے کم عمر لڑکون کو اس ندامت مین مار ڈالا کہ وہ کبھی ٹمپلرون کی صحبت شب مین شریک ہو گئے تھے۔

اسی قدر نہین اب اُن پر طرح طرح کے مذہبی الزام بھی عائد کیے جاتے تھے۔ یقین کر لیا گیا تھا کہ جو شخص ٹمپلرون مین شریک ہو جاتا ہے اُس کا اعتقاد نہ خدا پر رہتا ہے نہ مسیح پر۔ صلیب کو وہ بُرا سمجھتا اور اُسے حقیر جان کے اُسپر تھوکتا ہے۔ رات کو جلون مین وہ ایک بت کو پوجتے ہین جس کی شکل بلی یا بچھڑے یا کسی
 

شمشاد

لائبریرین
صفحہ ۹۴

اور چوپائے کی سی ہے۔ اُن کا گرینڈ ماسٹر اپنی راز کی محفلون مین اُنکے سامنے یہ عقیدہ ظاہر کرتا ہے کہ مسلمانون کی ڈاڑھی کا ایک بال مسیحی کے سارے جسم سے زیادہ واجب التعظیم ہے۔ فرانس مین مشہور تھا کہ ٹمپلر اپنے حرامی بچون کو بھون ڈالتے ہین اور اُن کی جلتی ہوئی چربی اپنے دیوتاؤن کی مورت مین چپڑتے ہین۔

ان سب باتون کی اصلیت یہ معلوم ہوتی ہے کہ ایک طرف ٹمپلرون کی وقعت و سطوت اور دولت و حکومت کو روز بروز بڑھتے دیکھ کے تمام مسیحی فرمان رواؤن اور خود رام کے پاپاؤن کو اُن پر حسد معلوم ہوا۔ جس طرح شاہان فرنگ اپنے تخت و تاج کے لیے اُن سے خائف تھے ویسے ہی مقتداے ملت پوپ ڈرتا تھا کہ ایسا نہ ہو میرا ۔۔۔۔ تاج مقتدائی میرے ہاتھ سے چِھن جائے۔ اور دوسری طرف خود ٹمپلرون کو مدتون بلکہ صدیون تک مسلمانون کے قریب رہنے اور اُنکے حالات سے روز بروز زیادہ آشنا ہوتے جانے کے باعث اسلام سے ایک قسم کا اُنس ہو گیا تھا۔ پادریون نے مسلمانون کی نسبت جو غلط اور بے بنیاد افواہین مسیحی دنیا میں اُڑا رکھی تھین اُن سے وہ واقف ہو گئے تھے اور دین محمدی کی خالص و بے غش توحید اُن پر آشکارا ہو گئی تھی۔ اُن کے دلون مین دین اسلام کی طرف ایک میلان و رحجان پیدا ہو گیا تھا۔ جسے دیکھ کے مسیحیون نے اُن کی نسبت ویسی ہی بے بنیاد افواہین اُڑانا شروع کر دین جیسی کہ خود مسلمانون کی نسبت اُنھون نے مشہور کر رکھی تھین کہ اپنی مسجدون مین بت پرستی کرتے۔ محمد (صلعم) کو خدا مانتے۔ اور اُن کی ایک فیل نشین مورت کو اپنے معبدون مین رکھ کے پوجا کرتے ہین۔

اور مسلمانون کی نسبت ان دونون یورپ مین پیشوایان ملت نے ایسا تعصب پھیلا رکھا تھا کہ کسی کو اُن سے ذرا بھی لگاؤ ثابت ہوتا تو وہ مغرب کی ساری دنیا مین واجب القتل تھا۔ اسی چیز نے غیرب ٹمپلرون کے تمام سابقہ حقوق اور اُن کی ساری خوبیون کو خاک مین ملا کے اُنھین تباہ کرایا۔

(۴)

چودھوین صدی عیسوی گویا یورپ کے ان نائٹون کے تباہ کرتے ہی کے
 

شمشاد

لائبریرین
صفحہ ۹۵

لیے آئی تھی۔ اس لیے کہ شاہ فرانس فلپ کے دل سے لگی ہوئی تھی کہ ٹمپلرون کو غارت کر کے اُن کے ملک و دولت پر قبضہ کر لے۔ دو سال تک اُس نے انتظار کیا کہ اُس کے منتخب کرائے ہوئے پوپ کلیمنٹ کے ہاتھ سے کاروائی شروع ہو مگر کلیمنٹ کو کسی طرح جرأت نہ ہوتی تھی۔ ناگہان یہ واقعہ پیش آیا کہ فرانس کے شہر طولونؔ کے جیل مین ایک ٹمپلر کسی جرم کی بنیاد پر قید تھا۔ اُس نے بادشاہ فلپ پر ظاہر کیا کہ اگر مجھے آزادی دی گئی تو ایک ایسا راز بتا دون گا جو سلطنت کے لیے نہایت ہی قابل قدر اور مایۂ ترقی ہو گا۔ بادشاہ نے ۱۴ دسمبر ۱۳۰۷؁ء کو اس کا اظہار کیا۔ اور ۱۳-اکتوبر کی شب کو ناگہان حکم دیا کہ مملکت فرانس مین جتنے ٹمپلر ملین سب گرفتار کر لیے جائین۔ اسی قدر نہین بلکہ قرب و جوار کے دیگر حکمرانون کے پاس بھی پیام بھیجا گیا کہ اپنی اپنی قلرو مین بھی یہی حکم نافذ کر دین۔ اور سب مقامات مین جو ٹمپلر اسیر و پابزنجیر کیے گئے اُن کے علاوہ خاص پیرس مین ٹمپلرون کا ماسٹر جنرل جیمسؔ ڈی مولائی اپنی سوسائٹی کے ساٹھ ممرون کے ساتھ گرفتار کیا گیا۔ اور بعد والے ہفتے کے روز وہ بے بے گناہ اسیر پیرس یونیورسٹی کے سامنے لائے گئے۔ کہ اپنے جُرمون کی فہرست اور اپنی فرد قرار دادِ جُرم سُنین۔ دوسرے دن اتوار کو پیرس کے شاہی باغون کے اندر عوام الناس جمع ہوے۔ اور مختلف واچظون نے جو فلپ کی طرف سے مامور ہوے تھے۔ اُنھین بھڑکانا اور سمجھانا شروع کیا کہ ٹمپلر لوگ سخت مجرم۔ بڑے بڑے خوفناک جُرمون کے مرتکب۔ انتہا درجے کے بے دین و ملحد۔ اور کشتنی و گردن زدنی ہین۔ اور عوام کو اطمینان دلانے کے ساتھ ہی مقدمہ کی کاروائی شروع کر دی گئی۔

تفتیش و تحقیقات کے بہانے اسیر شدہ ٹمپلرون پر ایسے مظالم ہونے لگے اور انھین ایسی جان گزا اذیتین پہونچائی جانے لگین کہ اُنھون نے بہت سی ایسی باتون کا اقرار کر لیا جو نہایت خوفناک اور سنگین جرم تھے۔ اس بے رحمی و جو ر کا اندازہ اس سے ہو سکتا ہے کہ فقط اکیلے پیرس مین چھبیس ٹمپلر حوالات کے اندر مر گئے۔ ۱۹ سے ۲۴ نومبر تک ایک سو چالیس ٹمپلرون کا بیان لیا گیا۔ ان مین سے بعض اس قدر سن رسیدہ تھے کہ اُن کے بیان کا اثر ٹمپلرون کی گذشتہ پچاس
 

شمشاد

لائبریرین
صفحہ ۹۶

سال کی تاریخ پر پڑتا تھا۔ قریب قریب سب نے تسلیم کر لیا کہ ہم صلیب اور مصلوبیت مسیح کی توہین کرتے ہین۔ بہتون نے بعض اور بے دینی کے الزام قبول کیے۔ اور فحاشی اور سیہ کاری کے جو شرمناک الزام لگائے گئے تھے اُن کا بھی اُن غریبون نے جبراً و قہراً اقرار کیا۔

پوپ کلیمنٹ نے شاید ترس کھا کے ۲۷-اکتوبر کو اپنا ایک حکم جاری کر کے تفتیش کرنے والون کے ظالمانہ اقتدارات روک دیے تھے۔ مگر نومبر کے ختم ہونے سے پہلے غالباً فلپ کے اشارے پر اُس نے شاہ انگلستان ایدورڈ دوم کو لکھا کہ جتنے انگریز ٹمپلر تمھارے علاقے مین ہون اُنھین بھی گرفتار کر لو۔ ۱۰ جنوری ۱۳۰۸ء؁ کو انگلستان مین اس حکم کی تعمیل ہوئی۔ اور اسی زمانے کے قریب یورپ کے تمام ممالک مین ہر جگہ ٹمپلرون پر آفت نازل ہو گئی۔ پھر ۲۴ جنوری کو سسلیؔ مین اور ۲۷ مئی کو سائپرس مین (جو ٹمپلرون کا خاص مرکز تھا) یہی کاروائی ہوئی۔ اور کوئی مقام نہ تھا جہان یہ بیچارے بیگناہ پکڑے اور مارے نہ جاتے ہون۔

باوجود ایسے احکام جاری کر دینے کے پوپ روم ذرا رُک رُک کے اور پچتا پچتا کے ان احکام کو جاری کرتا تھا۔ یہ دیکھ کے فلپؔ سات سو مسلح سپہ گرون کے ساتھ اُسکے سر پر ا نازل ہوا۔ اور وہ بالکل اُسکے بس مین تھا اور سب نے باتفاق طے کر دیا کہ بادی النظر مین اسپر ٹمپلر اُن کا روپیہ اور اُن کی اراضی و علاقے سب پوپ کے کمشنرون کے ہاتھ مین رکھے جائین۔ مگر اصل مین حکیم دینے والا خود فلپ تھا۔

۵-جولائی ۱۳۰۸ء؁ کو پھر مقدس و معصومانہ دربار پوپ سے یہ حکم جاری ہوا کہ تفتیش کرنے والے اسیرون پر جیسی سختیان چاہین کرین۔ اور اسکے ساتھ یہ بھی طے پایا کہ ضبط شدہ جائداد ارض مقدس کی بازیافت کی کوشش کی جائے۔ کلیمنٹ کا اب حکم تھا کہ ٹمپلرون کے جرائم کی از سرنو تحقیقات کی جائے۔ بہتر اقراری مجرمون کا بیان وہ خود سُن چکا تھا۔ اب شہر سنون مین گرینڈ ماسٹر مولائی اور تین پری سپٹرون کا بیان از سرنو لیا گیا۔ اور اُنھون نے اذیتون کے خوف سے پھر جرمون کا اقرار کیا۔
 

شمشاد

لائبریرین
صفحہ ۹۷

آخر کار یکم اکتوبر ۱۳۱۰؁ء کو ایک بڑی بھاری کونسل شہر ویاناؔ مین جمع ہوئی تاکہ ٹمپلرون کے جرائم پر غور کرے۔ مقدمے کی کاروائی ۱۱-۱پریل ۱۱ء؁ کو شروع ہوئی۔ ۲۳-اپریل کو اخباؔلد پروانیو نے اعتراض کیا کہ کاروائی انصاف سے نہین ہو رہی ہے۔ مگر کون سُنتا ہے؟ ۱۲-مئی کو ۵۴ ٹمپلر شہر سانؔ کے اسقف اعظم کے حکم سے زندہ جلا ڈالے گئے۔ اور چند روز بعد چار اور ٹمپلرون کا بھی یہی حشر ہوا۔

ان واقعات کے مشہور ہوتے ہی لوگون پر ایک ہیبت چھا گئی۔ چنانچہ چھیالیس ٹمپلرون نے جوابدہی اور پیروی مقدمہ سے انکار کر دیا۔ مجبوراً کمشنرون نے نومبر تک کے لیے کاروائی ملتوی کر دی۔ اسکے بعد دوبارہ تحقیقات ۱۸-دسمبر ۱۳۱۰ء؁ کو شروع ہوئی اور ۵ جون ۱۳۱۱ء؁ کو اُس کی کاروائی ختم ہوئی۔ اس کاروائی کے دوران مین پوپ کلیمنٹ اور شاہ فلپؔ کے مابین سمجھوتہ ہو گیا۔ جسکی بنا پر پوپ نے ٹمپلرون کو مجرم قرار دیا۔ اور ویانا کی کونسل مین اس مسئلے پر غور ہونے لگا کہ ٹمپلرون کو جواب دہی و عذر داری مین کچھ کہنے سننے کا موقع بھی دیا جائے یا نہیں۔ اور کہتے ہین کہ جیسے ہی اس مسئلے پر بحث چھڑی پوپ نے فوراً کاروائی ملتوی کرا دی۔ تاکہ ایسے مسئلے پر غور ہی نہ کیا جائے جس سے اُس کی مرضی کے خلاف نتیجہ ظاہر ہونے کا اندیشہ ہو۔ اور جن سات ٹمپلرون نے مختار کی حیثیت سے جوابدہی کا دعویٰ اور ارادہ کیا تھا وہ گرفتار کر کے قید خانے مین بھیجدیے گئے۔

شروع مارچ ۱۳۲۲ء؁ مین شاہ فلپؔ ویاناؔ مین آ کے خود کونسل مین شریک ہوا۔ پوپ کے داہنے بازو پر بیٹھا۔ اور اُسکی موجودگی مین پوپ نے تمپلرون کے خلا اپنا روحانی فیصلہ اور اپنا حکم سُنایا۔ اس کے بعد ۲-مارچ سنہ مذکورۂ بالا کو پاپ نے اس مضمون کا حکم شایع کیا کہ "ٹمپلرون کی تمام جائداد سینٹ جارج کے نائٹون کو دے دی جائے۔ بجز اُس غیر منقولہ جائداد و مملک کے جو ممالک کیسٹائلؔ۔ ارغونؔ۔ پورچگلؔ۔ اور مجورقہؔ کے علاقون مین واقع ہے۔"

جو ٹمپلر ملزم و مجرم قرار دیے گئے تھے تین گروہون مین تقسیم کر دیے گئے۔ اول
 

شمشاد

لائبریرین
صفحہ ۹۸

وہ جنھون نے پکڑے جاتے ہی اقرا جرم کر لیا۔ دوسرے وہ جنھون نے انکار کیا۔ اور اپنے انکار پر آخر تک قائم رہے۔ تیسرے وہ جنھون نے ابتداءً اقرار کیا تھا اور بعد کو دوران مقدمہ مین انکار کر دیا۔ اور اپنے پہلے اقرار کی نسبت ظاہر کیا کہ ہمارا وہ قبول کر لینا محض تکلیفون۔ ظلمون اور اذیتون سے بچنے کے لیے تھا۔ ان تینون گروہون کے لیے سزائین یہ تجویز ہوئین کہ گروہ اول کے مجرم اپنے گناہون سے توبہ کرین اور اپنے بے دینی کے افعال پر نادم ہون۔ دوسرے گروہ والے دائم الحبس کیے جائین۔ اور تیسرے گروہ والے زندہ آگ مین جلا کے مارے جائین۔ لیکن ان مجرمون مین سے گرینڈ ماسٹر مولائی اور دو ایک اور معزز عہدہ دارانِ سوسائٹی مستثنیٰ کر لیے گئے۔ اور کہا گیا کہ ان کے بارے مین پوپ جو فیصلہ کرینگے اُسپر عمل کیا جائے گا۔ آخر ۱۳۱۴ء؁ کے آغاز مین وہ اس بات پر مجبور کیے گئے کہ علانیہ مجمع عام مین اپنے جرمون کا اقرار کرین۔ اور اگر ایسا کرتے تو اُن کے لیے دائم الحبس رہنے کا حکم نافذ ہو جاتا۔ مگر اتفاقاً نارمنڈی کے ماسٹر ٹمپلر اور ایک اور عہد دار نے بجائے اقرار گناہ کے اپنی بیگناہی کا علانیہ دعوٰے کیا۔ اور شاہ فلپ نے بغیر اس کے کہ پوپ کے مشورے کا انتظار کرے۔ اُنھین ایک چھوٹے جزیرے مین زندہ جلا کے مار ڈالا۔

(۵)

ٹمپلرون کے آخری ماسٹر جنرل اور سردار و سرغنا غریب مولائی کے زندہ جلا دیے جانے کے بعد ٹمپلرون کی قوت ہر گإجگہ ٹوٹ گئی۔ اور پھر کبھی اُنکی وہ اگلی وقعت و عزت قائم نہ ہو سکی۔ لیکن چند ہی روز مین ثابت ہو گیا کہ ٹمپلر بے گناہ و بے قصور تھے۔ اور اُن کے خلاف جتنی کاروائیان ہوئین فلپ شاہ فرانس کی عداوت و سازش اور حصولِ دولت کے ہوس کی وجہ سے تھین۔

فرانس کے سوا جہان جہان اور جن جن ملکون مین اُن کے بارے مین تحقیقات کی گئی یہی ثابت ہوا کہ وہ بے گناہ ہین۔ اور اُن فیصلون کے دیکھنے سے صاف آشکارا ہو جاتا ہے کہ فرانس مین اُن پر کیسی بے رحمی اور اُن کے ساتھ کیسا سنگدلی کا برتاؤ کیا گیا۔ اسپین کی سلطنت قسطلہؔ مین ابتداءً فرانس کی تحریک پر سارے نائٹ
 

شمشاد

لائبریرین
صفحہ ۹۹

ٹمپلر پکڑ کے قید کر لیے گئے تھے مگر سلامانکاؔ کی کونسل کے سامنے مقدمہ پیش ہوا تو فوراً چھوڑ دیے گئے۔ اسی طرح ہسپانیہ کی ریاست اراغونؔ مین اگرچہ اُنھون نے اطاعت قبول کرنے سے انکار کیا تھا اور اپنی ایک گڑھی مین قلعہ بند ہو کے لڑے بھی تھے۔ مگر جب طراغونہؔ کی کونسل نے اُن کے الزامات پر غور کیا تو پوری تفتیش کے بعد نومبر ۱۹۱۳ء؁ (یہ سن غلط ہے، یہ ۱۳۱۳ ہونا چاہیے) مین یہی فیصلہ صادر کیا کہ یہ لوگ بیگناہ ہین۔پورچگلؔ ین بھی اُن کی تحقیقات ہوئی۔ اور سلطنت کی جانب سے جو کمشنر مامور ہوئے تھے اُنھون نے رپورٹ کی کہ ہمین ان لوگون کے مجرم قرار دینے کی کوئی وجہ ہی نہین نظر آتی۔ علاقۂ منیزمین اُنکی تحقیقات ہوئی۔ سختی کے ساتھ چھان بنان کی گئی۔ مگر وہان بھی اُنکی بیگناہی کا اعتراف کیا گیا۔ اسی طرح مقامات ٹریوسؔ۔ سیناؔ۔ بولونیاؔ۔ رومانیاؔ اور جزیرہ قبرسؔ مین بھی ٹمپلر پکڑے گئے۔ اُن پر مقدمہ چلایا گیا۔ کامل تحقیقات کی گئی۔ مگر نتیجہ یہی ہوا کہ یا تو اُن کے خلاف کوئی شہادت تھی ہی نہین۔ اور یا تھی تو ایسی نہ تھی اُس پر وثوق کر کے اُنھین سزا دی جائے۔ چنانچہ سب جگہ وہ پری کر دیے گئے۔ فرانس کے علاوہ بعض اور مقامات مین بھی بعض ٹمپلرون نے اُن جرمون کا اقرار کیا جو اُن پر عائد کیے جاتے تھے۔ مگر عدالت کو یہی راے اختیار کرنا پڑی کہ اُن لوگون کا یہ اقرار محض جور و تشدد اور ایذا رسانی کی وجہ سے ہے۔

شہر فلارنس مین چند ٹمپلرون نے عدالت کے سامنے جو بیان کیا تھا وہ بعض مورخین نے بجنسہ نقل کر دیا ہے۔ وہ ایک عجیب احمقانہ طریقے سے اور بے حسی و بے عقلی کی شان سے یہ اقرار کرتے ہین کہ "ہم پر جتنے الزام عائد کیے جاتے ہین سب صحیح ہین۔ اور ہماری نسبت جو کچھ بیان کیا جاتا ہے اُس مین ایک لفظ بھی غلط نہین ہو سکتا۔ کسی کا سکھایا ہوا ہے۔ اور جو کچھ بتا دیا گیا ہے اُسے وہ کسی خطرناک قوت کے ڈر سے بلا تکلف اور بے سمجھے بوجھے زبان سے ادا کر رہے ہین۔

انگلستان مین غالباً اُن پر کسی قسم کا جور و تشدد نہین ہوا تھا۔ وہان بھی اسی اسیر شدہ ٹمپلرون کا اظہار عدالت کے سامنے ہوا۔ اُن اسی مین سے صرف چار
 

شمشاد

لائبریرین
صفحہ ۱۰۰

نے اقرار کیا کہ ہم مسیح سے انکار کرتےہین اور صلیب کی توہین و تحقیر کرتے ہین۔

اس قسم کے الزامات کی اصلیت بھی ہے۔ مسلمانون کے عقائد سے واقف ہونے اور اپنے اصول کی کمزوریون سے آگاہ ہو جانے کے بعد اُنھین اُن عقائد سے اختلاف ہو گیا تھا جن سے اصلی مسیحیت کو تعلق نہ تھا بلکہ یونان و روم کی بت پرستی کے اثر سے دین عیسوی مین مل گئے تھے۔ مسیحی رُہبان تعصت کے جوش مین اُن کو منکر و ملحد قرار دیتے تھے اور وہ چاہتے تھے کہ ہم دین مسیحی مین سے اُن جاہلانہ عقائد کو نکال ڈالین جنہون نے حضرت مسیح کے لائے ہوے دین کو غارت کر دیا ہے۔ مثلاً اُنکے مختلف بیانون پر غائر نظر ڈالنے سے کُھلتا ہے کہ وہ حضرت مسیح کی نبوت کے منکر نہ تھے بلکہ اُس مسیح کے منکر تھے جو خدا بتایا جاتا تھا۔ اُن دنون تمام گرجون مین حضرت مسیح کی فرضی تصویرین مصلوبیت کی وضع مین قائم تھین اُن کو بُرا اور بُت پرستی کا نمونہ تصور کرتے۔ بعض نے یہ کہدیا کہ "جس مسیح نے گناہون کا اقرار کر کے اور اُنھین اپنے سر لے کے اُن کا خمیازہ بُھگتا اُس کے ماننے سے ہمارے گروہ کو انکار ہے۔ ہم دائے واحدہ و ذوالجلال پر ایمان رکھتے ہین۔ اسی طرح صلیب کی نسبت اُنھون نے کہا کہ ہمین نفس صلیب سے انکار نہین بلکہ صلیب کی جو تصویرین اور نقلین گرجون کے در و دیوار پر نصب ہین اور لوگون کے گلون مین لٹکتی نظر آتی ہینج ہمین اُن سے انکار ہے۔ یہ عقائد صاف بتا رہے ہین کہ نائٹ لوگ ارض شام مین اور مسلمانون کے زیر سایہ رہتے رہتے اُن کے معتقدات کے دلدادہ ہو گئے تھے۔ اور اگر مسلمان نہ بھی ہوے ہون تو چاہتے تھے کہ مسیحیت کو وہی اصلی مسیحیت بنا دین جو دنیا کو حضرت مسیح سے ملی تھی۔ اور جس کی تصدیق اسلام کر رہا تھا۔

لیکن یہ امر کس قدر قابل مضحکہ ہے کہ اُنھین مذکورۂ عقائد کی بنا پر ٹمپلر ملحد بائے جاتے تھے۔ اور کہا جاتا ہے کہ اُنھون نے یہ عقیدے بعض بت پرست قومون سے اخذ کیے۔جو تحریک بت پرستی کا استیصال کرنا چاہتی ہو اُسکو بت پرستی بتانا اور اپنی صنم پرستی کو بھول جانا سچ یہ ہے کہ یورپ کے عجائبات مین سے ہے۔ اور اسپر زیادہ حیرت کی یہ بات ہے کہ ٹمپلرون کے عقائد کو اکثر محققن یورپ دُور و دراز کے بُت پرست فرقون مین ڈھونڈھتے ہین اور اسلام پر نظر نہین ڈالتے جس نے
 

شمشاد

لائبریرین
صفحہ ۱۰۱

ٹمپلرون کو ایک باضابطہ قانون توحید بتا کے اپنا والۂ و شیدا بنا لیا تھا۔

کوریا

براعظم ایشیا کے مشرق مین کوریا ایک سلطنت ہے جس کا زیادہ تر حصہ ایک جزیرہ نما مین شامل ہے جو سلطنت چین کے شمال و مشرق مین ایک عضو معطل کی طرح جھول رہا ہے۔ اسکے شمال مین منچوریا کا زرخیز میدان ہے۔ مشرق مین بحیرۂ جاپان اور جنوب مین ایک آبناے ہے جو اسی کے نام سے موسوم ہے اور مغرب مین بحیرہ اصفر ہے۔ کوریا کا شمار بھی دنیا کے اُن چند ملکون مین ہے جن کا حال باہر کے لوگون کو بہت کم معلوم ہو سکا ہے۔ وہان کے باشندون کا دعویٰ ہے کہ ملک کا طول تین ہزار لیس یعنی تقریباً ایک ہزار میل اور عرض تیرہ سو لیس یعنی چار سو ساٹھ میل ہے۔ مگر اس مین یقیناً مبالغہ ہے کیونکہ پورا رقبہ ۷۹۴۰۰ مربعہ میل سےزیادہ نہین۔

کوریا کا بادشاہ اگرچہ پہلے چین کا اور اب روس و جاپان کی لڑائی کے بعد سے جاپان کا ماتحت ہے مگر یہ ماتحتی برائے نام ہے۔ کیونکہ اپنے ملک کے بڑے سے بڑے امیر کی زندگی اور موت اُسکے اختیار مین ہے۔ ملک مین وہ ایک نہایت غیر معمولی عزت کی چیز سمجھا جاتا ہے۔ اُس کا نام اس قدر اعلیٰ اور ارفع ہے کہ رعایا مین سے کوئی شخص زبان سے نہین نکال سکتا۔ بادشاہ کے مرنے کے بعد اس کا ایک لقب قرار پاتا ہے جسے اس کا جانشین تجویز کرتا ہے۔ اُسکے جسم کو لوہے کے کسی اوزار یا ہتھیار سے چھونا اتنا بڑا جرم ہے کہ کسی طرح معاف ہی نہین ہو سکتا۔ اور اس طرز عمل مین یہان تک سختی ہے کہ ۱۸۰۰ء؁ مین بادشاہ کے ایک پھوڑا نکلا اور علاج بغیر عمل جراحی کے غیر ممکن تھا مگربادشاہ نے مر جانا گوارا کیا اور یہ نہ پسند کیا کہ جراح کا نشتر اُسکے جسم کو مس کرے۔ شاہی قصر کے سامنے سے کوئی شخص گھوڑے پر سوار ہو کے نہین گذر سکتا۔ یہ لازم ہے کہ اُس کے قریب پہنچتے ہی انسان گھوڑے یا سواری پر سے اُتر پڑے اور قصر کے سامنے کا راستہ پا پیادہ طے کرے۔ جو شخص در دولت کے اندر قدم رکھے ۔ اسپر فرض ہے کہ تخت کے سامنے
 
اس کتاب کا برقی نسخہ یہاں اپلوڈ کر دیا گیا۔ :)

BookReaderImages.php

BookReaderImages.php
 

شمشاد

لائبریرین
شعیب بھائی یہ آپ نے سرورق پر میرا نام لکھ دیا ہے، میں نے تو ساری کتاب کی ٹائیپنگ نہیں کی۔ دوسرے اراکینِ محفل بھی شامل ہوں گے۔
 
Top