اسکین دستیاب یورپ کے بانکے کی ٹائپنگ

شمشاد

لائبریرین
تاریخی و جغرافی
صفحہ ۷۶
مضامین شرر

پر نہیں بلکہ اُنکی وضع بدلنے ہی پر پُرانے بانکون کا خاتمہ ہو گیا۔

اس میں شک نہیں کہ جب شریف زادون اور عام سپہ گرون میں بانکے ننے کا شوق بڑھا۔ ادنٰی و اعلٰی ہر گرہ مین بانکے پیدا ہونے لگے۔ اور شہر مین بانکوں کی کثرت ہوئی تو بہت سے ایسے بانکے بھی نظر آنے لگے جن مین نہ ویسی شرافت تھی اور نہ ویسی شجاعت۔ اور جب موقع پڑتا اُن کی کمزوری کُھل جاتی۔ لیکن اصلی بانکپن مُلک و قوم کا ایک بہت ہی اعلٰی درجے کا شریفانہ جوہر تھا۔ جو مسلمانون کے سوا آخر ایام مین بہت سے ہندوؤن سے بھی ظاہر ہوا۔ اس اعلٰی جوہر کا ہندوستان مٹجانا اُسکی تاریخ کا ایک حسرتناک ورق ہے۔

ہمین اس سے انکار نہین ہے کہ بانکون کی کثرت اور ہتھیارون کے بے روک اور بے ضرورت استعمال نے ملک کے امن و امان مین فرق ڈال دیا تھا۔ شہر مین روز خانہ جنگیان ہوتین۔ اور اکثر رہ گذرون پر لاشین پھڑکتی نظر آتین۔ یہی نہین بلکہ روز بروز ثابت ہوتا جاتا کہ بانکے سپہگر خانہ جنگیون اور باہمی جدال و قتال مین جس قدر زیادہ باکمال اور شجاع ہین اُسی قدر غنیم کے حملے روکنے اور میدان جنگ مین اپنے ابناے وطن کے ساتھ شریک ہو کے لڑنے مین ناقص و ناکارہ ہین۔ لیکن اس پر بھی ہم کہتے ہین کہ یہ گروہ مٹنے کے قابل نہ تھا۔ اور مٹانے کی نہین بلکہ اسکے باضابطہ بنانے کی ضرورت تھی۔

یورپ مین بھی ہمین قدیم الایام مین بانکون کا ایک گروہ نظر آتا ہے جو "نائٹ" کہلاتے تھے۔ موجودہ یورپ کے اعلٰی دربارون سے فی الحال معزز لوگون کو جو نائٹ کا خطاب ملا کرتا ہے یہ اُسی پُرانے فنا شدہ گروہ کی یادگار ہے۔ ہم ان مغرب کے بانکون کا حال آیندہ نمبر مین بیان کرین گے۔

یورپ کے بانکے نائٹ ٹمپلرز

(۱)

ہم ہندوستان کے بانکون کا حال ناظرین دلگذار کے سامنے پیش کر چکے ہیں۔ اب اُنکے بڑے بھائی یورپ کے قدیم بانکون کا حال بھی سن لیجیے۔ یورپ کے
 

شمشاد

لائبریرین
صفحہ ۷۷

ان انوکھے سپاہیون نے جو سپہگر ہونے کے ساتھ بانکے رسیلے چھیلا بھی ہوتے تھے اپنے لیے "نائٹ" کا لقب اختیار کیا تھا۔

محققین یورپ کا بیان ہے کہ وہان سپہگری کے پیشےکو خاص معاہدون اور کسی خاص طرف سے اختیار کرنا اہل جرمنی سے شروع ہوا جو رومیون کے عروج کے زمانے میں وحشی و جاہل مگر اسکے ساتھ بڑے جنگجو اور نہایت ہی شجاع خیال کیے جاتے تھے۔ کہتے ہیں کہ اُنھین دنون جرانیا کے جنگلون اور پہاڑون مین بانکے شپاہی بننے کا یہ سادہ اور بھونڈا طریقہ مروج تھا کہ جو نوجوان اس گروہ مین شامل ہونا چاہتا ہے تو پہلے کسی میدان جنگ مین بہادری اور اخلاقی حالت دریافت کرتے۔ اور جب وہ مذکورہ صفات کو اُس مین تسلیم کرتے اور ہر طرح کا اطمینان ہو جاتا تو بزرگون مین سے کوئی شخص اُس کے گال یا شانے پر ایک تھپڑ مارتا۔ جسکے یہ معنی تھے کہ اس ضرب کے بعد وہ پھر کبھی چوٹ نہ کھائے گا۔ وہی بزرگ قوم اُسے ایک ایک ڈھال اور ایک برچھا دیتا۔ اور اُسے اجازت ہوتی کہ اُن اسلحہ کو لیکے میدان جنگ مین جایا کرے۔ جن نوجوانون کو یہ عزت دی جاتی وہ "نخت" کہلاتے۔ اسی نخیت سے بگر کر "نائٹ" کا لفظ نکلا ہے۔ جس کی اگلی شان تو بالکل ہی مفقود ہو گئی مگر نام یورپ کے خطابون مین داخل ہونے کی وجہ سے اس وسعت کے ساتھ دنیا مین پھیلا کہ آج ہمارے راجہ صاحبان جہانگیر آباد و محمود آباد ہی نہین ہندوستان کے اکثر والیان ملک، سوداگر اور ارض عرب تک کے بعض فرمان روا بھی نائٹ ہین۔"

رومیون میں اسکے ہم وان "سلیس" کا لفظ تھا۔ ان مہذب لوگون مین اگرچہ اصلی قوت غریبون ہی کی تھی جو "پلے بین" کہلاتے۔ مگر امرا و لوک گھوڑون پر سوار ہو کے لڑتے اور "بطریق" کہلاتے۔ اور وہ بطارقہ ہی اکثر "سلیس" کے لقب سے یاد کیے جاتے۔

یہ اِس زمانے کا ذکر ہے جب جرمنی اور رومی دونون قومین بُت پرست تھین۔ اور دین مسیحی ابھی دنیا میں نہیں آیا تھا۔ حضرت مسیح کا دین ابتداءً صرف واعظون سے شروع ہوا تھا اور سپگری کے بالکل مخالف تھا۔ مگر مدتون مظلوم رہنے کی
 

شمشاد

لائبریرین
صفحہ ۷۸

وجہ سے مسیحیون کے سینون مین ایک انتقام کی آگ مدت سے دبی چلی آتی تھی جسے قسطنطین اعظم نے اپنی پولیٹکل مصلحتون سے بڑھکا دیا۔ حضرت مسیح کی مصلوبیت کی بنا پر اُس نے صلیب کو مسیحون کا شعار قرار دیا۔ یہ صلیبی علم ہاتھ مین لیا۔ اور جوش انتقام مین ڈوبے ہوے مسیحی دوڑ دوڑ کے اُسکے جھنڈے کے نیچے جمع ہو گئے۔ اس پُرجوش قوت سے اپنے بُت پرست حریف کو شکست دے کے وہ پوری قلمرو روم پر قابض ہو گیا۔ لیکن یہ ایک وقتی اُبال تھا۔ جب مسیحیت کا دلت روم کا مذہب بن گئی تو پھر اُسے سپہگری سے کوئی سروکار نہ رہا۔ اس لیے کہ مسیحیت کون ریزی کی مخالفت اور لڑنے بھڑنے سے متنفر تھی۔ چنانچہ رومی سلطنت ایک مسیحی ددلت بنتے ہی ایسی کمزور ہو گئی کہ گوتھؔ اور ہنؔ قومون نے اُسے خوب خوب پامال کیا۔ اور آخر عرب لوگ اُٹھے۔ جنھون نے مشرق مین ایشیاے کوچک و شام کو افریقہ مین تمام شمالی ممالک کو رومیون سے چھین لیا۔ جزیرۂ صقلیہ اور خود اٹلی کا کسی قدر جنوبی حصہ عربون کے قبضے میں چلا آیا۔ اور آبناے جبرالٹر سے اُتر کے اُنھون نے پورا ملک اسپین بھی اپنے قبضے میں کر لیا۔

ان دنون یورپ مین فیوڈل سسٹم (حکومت امرا) کا طریقہ جاری تھا۔ سارے ملک کی یہ حالت تھی کہ ہر زمیدار اپنے علاقے اور اپنے گاؤن یا شہر کا خودسر حاکم اور بادشاہ بنا ہوا تھا۔ اُسکے زیر علم حسب حثیت سپاہی ہوتے۔ اور اُنھین کے انداز سے اُس کی قوت ہوتی۔ متعدد زمیدارون کے باہم ملنے اور حلیف ہو جانے سے ایک بڑی قوت بن جاتی۔ اور زبردست دشمنون کے مقابلے مین اکثر یہی ہوا کرتا۔

اصلی قوت ان دنون بھی پیدل سپاہیون ہی کی تھی۔ مگر چونکہ وہ ادنیٰ طبقے کے لوگ ہوتے اس لیے اُن کی قدر نہ ہوتی۔ قدر سوارون کی تھی جو عموماً امیرون اور رئیسون کے اعزا و اقارب اور شرفاے قوم ہوتے۔ اور وہ جیسا کہ ہم نے بیان کیا میلس کہلاتے تھے۔ جن ڈیوکون (شہزادون) اور کاونٹون (نوابون) نے شاہی سطوت و شوکگ حاصل کر لی ہوتی وہ اپنی قلمرو کے سوبون کو جن لوگون کے ہاتھ مین دیتے وہ "بائرن" کہلاتے۔ اور بائرن اپنے صوبے کو جن عہدہ دارون میں تقسیم کرتے وہ "فائف" کے لقب سے یاد کیے جاتے۔ اور یہ فائف عموماً "پیر" کہلاتے تھے۔
 

شمشاد

لائبریرین
صفحہ ۷۹

اس تفصیل کے ملاحظے سے ہمارے دوستون کو یورپ کے موجودہ خطابون اور انگریز معززین کے لقبون کی اصلیت بخوبی معلوم ہو جائے گی۔

"پیر" سے لے کے اوپر تک جتنے معززین تھے گھوڑون پر سوار ہو کے لڑتے۔ اور کسی ادنیٰ شخص کو یہ حق نہ تھا کہ بجز پاپیادہ لڑنے کے گھوڑے کی پیٹھ پر سوار ہو کے میدان جنگ میں آئے۔ اور یہی لوگ میلس خیال کیے جاتے تھے۔ جب عربون نے اسپین کو لے لیا۔ پھر کوہسارے پیرنز سے نکل کے فرانس پر حملہ آور ہوے۔ اور اندیشہ ہوا کہ ایسا نہ ہو یہ لوگ ساری مغربی مسیحی دنیا کو فتح کر لین۔ تو نظر آیا کہ بغیر سپہ گری کو زندہ کیے اور اُسے مذہب کا مقدس لبا پنھائے اپنی وطنی اور قومی عزت کا بچانہ دشوار ہے۔ ابتداءً تو کلیسا نے اس ضرورت کو محسوس کر کے "خاموشی نیم رضا" کا اصول اختیار کیا۔ یعنی اُس کا یہ طرز عمل رہا کہ زبان سے تو کچھ نہ کہا جائے مگر سپہگری کی ترقی کو بظاہر استحسان کی نظر سے دیکھا جائے۔ لیکن رومی سپہ گری بوسیدہ و ازکار رفتہ ہو چکی تھی اس لیے جرمنی کا بانکپن اختیار کر لیا گیا۔ وہ اپنے ساتھ اپنے لقب نخیت کو بھی لایا جو انگریزی مین آ کے نائٹ ؔ بن گیا۔ یہ لفظ انگریزی تلفظ مین تو نائٹ ہے لیکن اس کا املا آج تک ایسا واقع ہو ا ہے کہ اگر بولنے مین اُسکی پابندی کی جائے تو لفظ نائٹ ہی نہ ہو گا بلکہ "کثیفت" ہو گا۔ غرض اب جو بہادر میدان جنگ مین کوئی کار نمایان کرتے، اور شجاعت ظاہر کرتے۔ نائٹ مشہور ہو کے ہم وطنون مین معزز و ممتاز ہو جاتے۔ حصول عزت نے لوگون کو زیادہ شوق دلایا۔ اور نائٹون کی تعداد بڑھنا شروع ہوئی۔ اور چند ہی روز مین یہ حالت ہو گئی کہ عوام نائٹون کی بیحد تعظیم و تکریم کرنے اور سلاطین حامیِ ملک و ملت خیال کر کے اُنھین اپنا سرمایۂ ناز بتاتے۔

اب یورپ مین یہ طریقہ تھا کہ صرف "فائف" اور اُن سے ۔۔۔قوق مرتبون کے لوگ نائٹ بن سکتے۔ کسی عامی کی مجال نہ تھی کہ نائٹ ہونے کا دعوے کرے۔ جو اپنے خاندان کو بے داغ و بے عیب ثابت کر سکتا اور چار ہم مرتبہ فائفون سے قربت رکھنے کا مدعی ہو سکتا۔ اُسکے نوجوان لڑکے خاص طریقے اور خاص سوم کے ساتھ نائٹ بنائے جا سکتے۔ کبھی کبھی یہ بھی ہوتا کہ کوئی ادنٰی طبقے کا آدمی سپہ گری
 

شمشاد

لائبریرین
صفحہ ۸۰

کمال دکھا کے اور بڑے بڑے میدانون مین ناموری حاصل کر کے نائٹ کا درجہ حاصل کر لیتا۔ اور ایک نیا پیر بن جاتا۔

فرانس کے بادشاہ شارلمینؔ کے عہد سے جو ۲۴۳؁محمدی (۸۱۴؁ء) مین دنیا سے رخصت ہوا حروب صلیبیہ کے چھڑنے کے فی ما بین جو زمانہ گذرا اُس مین اہل اسپین، فرانس، اور نارمن لوإگون کے اوصناع و اطوار مین ایک انقلاب عظیم ہو گیا تھا۔ جو چند روز کے اندر سارے یورپ مین پھیل گیا۔ اسی انقلاب کا ایک نمونہ یہ بھی تھا کہ سپاہی میلس سے نائٹ بن گئے۔ ابتدا ہی سے نائٹ ہونیوالون کو سلاح جنگ کے ساتھ وہ ذمہ داریان اپنے سر لینی پڑتین۔ ایک تو یہ کہ سپہ گری کو اپنا پیشہ سمھین گے اور دوسرے یہ کہ حسین عورتون کی خاطر داشت اور خدمت گزاری کرین گے۔ اس کا پتہ نہین چلتا کہ نائٹون کو عورتون کے ساتھ کیون خصوصیت تھی؟ اور نازنینان ملک سے خاص تعلقات رکھنا نائٹ ہونے کی ذمہ داریون مین کب اور کیونکر داخل ہوا؟ مگر اس سے یورپ کی اُسوقت کی اخلاقی حالت عالم آشکارا ہو جاتی ہے۔ یہ نوجوان نائٹ ہوتے ہی کسی نہ کسی حسینہ کے عاشقون مین شامل ہو جاتا۔ بلا لحاظ اسکے کہ وہ کس کی بیٹی، کس کی بہن اور کس کی جورو ہے۔ اُس خاتون کو وہ "اپنی خاتون" کہتے اور اُسکے لیے لڑنے بھڑنے اور کٹنے مرنے پر ہر وقت تیار رہتے۔ اس قسم کے بہت سے نائٹ اُن دنون ہسپانیہ اور فرانس مین پھیلے ہوے تھے جو مسلمانون سے لڑتے ۔ اور اکثر ناکام و نامراد میدن جنگ سے واپس جاتے۔ اور یہی تھے جنھون نے ہسپانیہ کے علاقہ قسطلہؔ اور مملکت فرانسؔ کو عربون کے ہاتھ سے بچا لیا۔

نائٹون کی یہی حالت چلی آتی تھی کہ حروب صلیبیہ کا زمانہ شروع ہوا۔ اور راہبون کے شور و غوغا اور پوپ کے فتوے سے مذہب عیسوی کو سپاہیون کی ضرورت پیش آئی۔ جو چیز اسوقت تک ازروے دین ناجائز تصور کی جاتی تھی یعنے سپہ گری، اب وہ عبادات مین داخل ہو گئی۔ اور نائٹ ہونے مین ایک دینی تقدس پیدا ہو گیا۔ لہذا اب بجائے اسکے کہ خود نائٹ کسی کو اپنے زمرے مین شامل کرین مقتدایان ملت ملکے کے بانکے ترچھے نوجوانون کو نائٹ بنانے لگے۔
 

شمشاد

لائبریرین
صفحہ ۸۱

اور پادریون اور اُسقفون نے لوگون کو اِن مقدس زن پرستون کے زمرے میں شامل کرنے کا یہ طریقہ جاری کیا کہ جسے شوق ہو پہلے چند روز تک روزے رکھے۔ شب زندہ داری و ریاضت کرے۔ پھر غسل کر کے سفید کپڑے پہنے (جس مین بپتسما کا اشارہ تھا) اور سب سے بڑے محترم مقتداے دین کے ہاتھ سے تلوار لے جس مین بزرگان دین کی برکت شامل بتائی جاتی۔ اس رسم کے ادا ہو جانے کے بعد وہ "خدا کا سینٹ جارج کا۔ اور سینٹ میکائیل کا بانککا" کہا جاتا۔ اُس سے حلف لی جاتی کہ اپنے بانکپن کے فرائض کو سرگرمی سے ادا کرے گا۔ اپنے آپ کو خدا کا اور حسین عورتون کا سپاہی تصور کرے گا۔ سچ بولے گا۔ حق کا ساتھ دے گا۔ مصیبت زدہ کی مدد کرے گا۔ ہر ایک کے ساتھ خلق و مروت سے پیش آئے گا۔ دشمنان دین سے لڑے گا۔ سہل انکاری، غفلت۔ اور اپنی جان بچانے جذبات کو حقیر سمجھ کے دل سے نکال ڈالے گا۔ اور اپنی عزت برقرار رکھنے کے لیے سخت سے سخت خطرون کو برداشت کرے گا۔

سپ گری کے کامون اور عشق بازی مین ان لوگون کا انہماک اس قدر بڑھا ہوا تھا کہ بعض بعض جہلا مین خیال پیدا ہو گیا کہ سوا سپہ گری کے اور کوئی پیشہ اختیار کرنا نائٹوں کے لیے حرام ہے۔ اور نائٹون کو دین کی برکتون اور فیاضیون سے یہ حق مل گیا ہے کہ مضرت سے بچنے کے لیے جس کسی سے جب انتقام چاہین لے لین۔ یہاں تک کہ قوانین تمدن اور فوجی باضابطگی کے قیود سے وہ آزاد ہین۔ چنانچہ کسی قانون کا پابند ہونا وہ اپنی ذلت تصور کرتے۔

برچھا نائٹ کا خاص سلاح تھا۔ اُس کا گھوڑا اورون کے جانورون سے قد آور، بھاری بھر کم اور طاقتور ہوتا۔ ایک خاص ملازم گھوڑے کا دھانہ پکڑے ہوے ہمیشہ اُس کے ساتھ ساتھ رہتا۔ اور جب تک لڑنے کا وقت نہ آ جاتا نائٹ صاحب اُسپر سوار نہ ہوتے۔ وہ کسی اور تیز قدم یا بو یا معمولی گھوڑے پر سوار رہتے۔ نائٹ کا خود، زرہ، موزے اور تلوار خاص شان اور آن بان کے ہوتے۔ میدان جنگ مین اُن کا قاعدہ تھا کہ برچھے کو دشمن کی طرف جُھکا کے آڑا کر لیتے۔ اور گھوڑے کو ایڑ بتا کے آگے ریل دیتے۔ میدان جنگ مین ہر نائٹ
 

شمشاد

لائبریرین
صفحہ ۸۲

کے ساتھ اُس کا ایک وفادار رفیق رہتا جو "اسکوائر" کہلاتا۔ اسکوائر ہمیشہ اپنے نائٹ کا ہم سن اور شریف النسل ہوا کرتا۔ اور دراصل وہ نائٹ ہونے کا امیدوار ہوتا۔ تیر کمان، شمشیر و خنجر، یا اور حربے جن سے نائٹ صاحب لڑتے ساتھ ساتھ رہتے۔ اور صرف نیزے ہی کا اتنا سامان ہوتا جو پانچ پانچ چھ چھ آدمیون پر لدا ہوتا۔ اور وہ سب لڑائی مین سائے کی طرح اسکے ساتھ رہتے۔ عرصہ جنگ میں اُن کا بانا اور اُن کا شعار ہر ایک مین کوئی جدت اور خصوصیت ہوتی۔

اس گروہ کے پیدا ہوجانے سے یورپ کے زمیندارون اور سربرآوردہ لوگون کو یہ آسانی ہو گئی تھی کہ اپنے ذاتی جھگڑون مین اُن سے مدد لیتے۔ اور اُنکی کارگذاریون کا معاوضہ کرتے۔ گویا خدائی فوجدارون کا ایک گروہ پیدا ہو گیا تھا جن کو معتدبہ رقم دے کر جو چاہتا بُلا لیتا۔ اور اپنے جھنڈے کے نیچے آسانی سے ایک زبردست لشکر جمع کر لیتا۔

(۲)

مگر یورپ کے ان بانکے نائٹون مین اُس وقت اور زیادہ اہمیت پیدا ہو گئی جب صلیبی مجاہدون کا لشکر بیت المقدس کے فتح کرنے کے لیے یورپ سے چلا۔ کلیساے مسیحی نے اپنے برکت کے آغوش مین لے کے اُنھین مذہبی وقعت پہلے ہی دے دی تھی۔ لیکن جب وہ اپنی جان و مال کو دین کی نذر کر کے جان دینے کے لیے گھر سے نکلے اور سینے اور پیٹھ پر صلیبین بنا کے مشرق کی جانب روانہ ہوے تو اُن مین بالکل ایک نئی شان پیدا ہو گئی۔ اور باعتبار ذمہ داریون اور خدمتون کے اُن میں دو تفریقین ہو گئین۔

بیت المقدس مین پہونچنے اور اُس پر قابض ہو جانے کے بعد ان لوگون کو اصلی سروکار تو ہولی سپلکر (کنیسۂ مرقد مسیح) سے تھا مگر حضرت سلیمان کا بنایا ہوا خانۂ خدا جو اب مسلمانون کی مسجد بنا ہوا تھا، جسے مسلمان مسجد اقصیٰ اور مسیحی مسجد عمر کہتے تھے دُنیا کی ایک قدیم یادگار تھا۔ اور عیسائی بھی تسلیم کرتے تھے کہ یہی وہ مبارک مقعہ تھا جس پر اس سرزمین مین پہلے معبد الہی قائم ہوا۔ اس مین جتنے مسلمان پناہ گزین ہوے تھے وہ تو کمال بے رحمی سے شہید کیے گئے۔ اور اُن
 

شمشاد

لائبریرین
صفحہ ۸۳

عامیان توحید سے خالی کرانے کے بعد ضرورت تھی کہ اُس یادگار زمانہ عمارت سے بھی کوئی کام لیا جائے جس کی تعمیر مین خلفاے بنی اُمیہ نے لاکھون روپے صرف کر دیے تھے۔

چنانچہ صلیبی فاتحون مین سے چند شریف النسل اشخاص مسجد اقصٔی مین جمع ہوے اور باہم حلف اُٹھائی کہ جو زائرین یہان آئین گے ہم اُن کی حمایت و خبرگیری کرین گے۔ یہ جماعت نائٹ ٹمپلرز (ہیکل سلیمانی والے بانکے) کے نام سے مشہور ہوئی۔ اور اپنے گروہ کو اِن لوگون نے حصول برکت کے لیے ولی برنارڈ کے نام سے وابستہ کر دیا۔ حرم سلیمانی مین بیٹھ کے اُنھون نے جو حلف اُٹھائی تھی اُسکی رُو سے یہ لوگ صرف دین کے سپاہی بن گئے تھے۔ اُنھون نے دنیا چھوڑ دی تھی۔ وطن بُھلا دیے تھے۔ بیت المقدس کے سوا کسی شہر کو اپنا وطن اور شہر نہ سمجھتے۔ گھربار سے دست بردار ہو گئے تھے۔ اور سوا مسیح کے خاندان کے کسی کو اپنا گھرانا نہ بتاتے۔ جئداد سب کی مشترک رہتی۔ اور مشترک زندگی بسر کرتے۔ ایک ہی سرمایہ سب کی دولت تھا۔ خطرون اور مصیبتون مین ایک دوسرے کے جان نثار تھے۔ گویا ایک قوت اور ایک ہی روح سب پر حکومت کر رہی تھی۔ ان کا سامان زینت صرف ہتھیار تھے۔ ان کے گھرون مین جو عبادت خانون کا حکم رکھتے۔ نہ روپیہ پیسہ ہوتا نہ سامان دولت و حشمت۔ زینت و نمایش کی چیزون سے اُنھین نفرت تھی۔ بہت ہی سادی اور بھدی چیزون سے اپنے ضروریات زندگی کو پورا کرتے۔ نمایش کے لیے وہان صرف ڈھالین، تلوارین، نیزے اور مسلمانون سے چھینے ہوئے علم نظر آتے۔ لڑائی کا نام سُنتے ہی اپنے فولادی اسلحہ لے کے دوڑتے۔ پھر نہ حریف کی کثرت سے ڈرتے اور دشمنون کے جوش و خروش کی پروا کرتے۔ فتحین اُن کا سرمایۂ ناز تھین۔ مسیح کے نام پر جان دینا اُن کی اعلٰی ترین کامیابی تھا۔ اُنھین یقین تھا کہ فتح صرف خدا کی عنایت سے حاصل ہوتی ہے۔ مگر کوشش مین جان دے دینا اپنا فرض ہے۔ غرض ان نائٹون کا پہلا گروہ یہ تھا۔

دوسرے گروہ کی بنیاد یون پڑی کہ صلیبی مجاہدین جب یورپ سے چلے
 

شمشاد

لائبریرین
صفحہ ۸۴

تو ان کے ہمراہ وہان سے ایک ہاسپٹل بھی آیا تھا جو فلاکت زدہ زائرون اور بیت المقدس کے مفلس و شکستہ حال نژرانیون کی خبر گیری کے لیے تھا۔ خصوصاً ان بہادرون کی تیمارداری کےلیے جو مسلمانون سے لڑین۔ اس خدمت کو جن لونون نے اپنے ذمے لیا وہ بھی ایک قسم کے بانکے تسلیم کیے گئے۔ "نائٹ سٹپلرز " کے نام سے مشہور ہوئے۔ اور اُنھون نے اپنی کو ولی یوحنا کی طرف منسوب کر کے اپنا خطاب "نائٹس آف سینٹ جان" یعنی "ولی یوحنا کے بانکے" قرار دیا۔

یہ دونون قسم کے نائٹ فولادی خود اور چار آئینے پہنتے۔ نائٹ آف ہولی سپنکر" ((مرقد مسیح کے بانکے) کہلانے کے باعث سب سے زیادہ معزز خیال کیے جاتے اور چونکہ "لاطینی سلطنت ارض مقدس" کو (جو لاکھون کرورون بندگان خدا کے خون کا سیلاب بہا کے عین مسلمانون کے بیچ مین قائم کی گئی تھی) ان لوگون سے مدد ملتی وہ انکی بے انتہا قدر کرتی۔ اور اپنی زندگی کو انھین کے اسلحہ پر منحصر تصور کرتی۔ زائرین یہان سے واپس جا جا کے ساری مسیحی دنیا مین انکی جان بازی اور بہادری کے قصے بیان کرتے۔ چند ہی روز مین اِن کی اس قدر شہرت ہوئی کہ ہر حصۂ ملک کے اُمرا اور دولتمند خصوصاً وہان کے پُرانے بانکے آ آ کے انکے گروہ مین شامل ہونے لگے۔ اور تھوڑے دنون بعد یورپ کا کوئی نامور اور دولتمند خاندان نہ تھا جس کا کوئی نہ کوئی گروہ اِن مذہبی بانکون اور وضعدار مجاہدون کی جماعت مین نہ شیریک ہو گیا ہو ایک تیسرا گروہ ٹیوٹانک نائٹون کا بھی قائم ہو گیا جو نائٹ ٹمپلرز کا ہم مذاق تھا۔ تینون گروہون مین اتنا فرق اور امتیاز یہ تھا کہ ٹمپلر سفید چُغہ پہنتے جس پر سُرخ صلیب بنی ہوتی۔ ہاسپٹل والے سیاہ چُغہ پہنتے اور اُس پر سفید صلیب ہوتی۔ اور ٹیوٹانک نائٹ سفید چغہ پہنتے جس پر سیاہ صلیب ہوتی۔ نائٹ ٹمپلرز کو جن کے حالات ہم بیان کرنا چاہتے ہین حاص مسجد اقصیٰ مین جگہ دی گئی تھی۔

مسجد اقصیٰ کو مسیحی لوگ متبرک نہ سمجھتے تھے۔ کیونکہ اُن کے اعتقاد مین اُس کا سارا تقدس حضرت مسیح کے بعد جاتا رہا تھا۔ اور خدا نے اُس پُرانے عبادت خانی کو چھوڑ دیا تھا۔ انھین تو صرف حضرت مسیح کے مولد و مرقد یا ارض مقدس کے پُرانے
 

شمشاد

لائبریرین
صفحہ ۸۵

کینسیون سے کام تھا اس لیے عیسائیون کا قبضہ ہوتے ہی وہ عبد الملک بن مروان کی بنائی ہوئی عالیشان مسجد جو ہیکل سلیمانی کے اصلی آثار پر قائم تھی مسلمانون کا قتل و قمع کر کے قصر شاہی قرار دی گئی۔

ان جنگجو بانکون اور مذہبی فدائیون کے گروہ کی بنیاد یون پڑی کہ فرانس کے علاقۂ برگنڈی کے ایک نائٹ "ہیوڈ پکانس" نے مع اپنے آٹھ رفقا کے (۱۱۱۸ء؁ مین بیت المقدس کی اسقف اعظم کے سامنے جا کے حلف اُٹھائی کہ "ہم اپنی زندگی بیت المقدس کے راستون کی نگہبانی اور زائرون کے بحفاظت لے آنے کے نذر کردین گے۔ باضابطہ طور پر قانون ملت کی پابندی کرین گے۔ اور بے انتہا اطاعت کیشی اور خود فراموشی کے ساتھ آسمان کے بادشاہ کی طرف سے جدول و قتال کرین گے۔" یہ پہلا عہد تھا جس نے ان مذہبی بانکون کےپیدا ہونے کی بنیاد قائم کی۔ اور جب شاہ بیت المقدس بلدون ثانی نے خاص مسجد اقصیٰ کے اندر اپنا کلب قائم کرنے کے لیے جگہ دے دی تو اس نئے گروہ کو اور مضبوطی حاصل ہو گئی۔

دس برس بعد شہر ٹرائے مین بمنظوری پوپ ہونیوریوس ثانی ایک کونسل ہوئی جس مین دینی بانکون کے اس گروہ کے لیے ایک دستور العمل مدون ہو گیا۔ اس مین ۷۲ قاعدے تھے جو پوپ اور اُسقف بید المقدس کی منظوری سے رائج ہوے۔ اس کے ساتھ ہی ان لوگون کی دینی جان نثاری اور خاص جانبازی کی اس قدر شہرت ہوئی کہ ساری مسیحی دنیا گرویدہ ہو گئی۔ اور ہر جگہ اور ہر سرزمین مین اُن کے لیے سرمایہ فراہم ہونے لگا۔ جس مین قوم نے اس قدر مستعدی دکھائی کہ ملوک و امرا اپنی سلطنتین اور ریاستین ان کی نذر کیے دیتے تھے۔ اور ایطالیہ سے لے کر سپین تک ہر چھوٹے بڑے حکمران نے بڑی بڑی جائدادین ان لوگون کی نزر کر دین۔ اور یہ گروہ باوجود سادگی اور مشقت و تنگی کی زندگی بسر کرنے کے دنیا کے تمام تاجدارن سے زیادہ دولتمند ہو گیا۔ اسکے ساتھ ہی ہزارہا خلقت بھر بار چھوڑ کے انکے جتھے مین ملنے لگی۔

ان کا پہلا سرغنا جو "ماسٹر ٹمپلر" کہلاتا وہی "ہیو" قرار پایا۔ دوسرا ماسٹر اُسکے
 

شمشاد

لائبریرین
صفحہ ۸۶

بعد رابرٹ ڈکراؤن ہوا۔ اُن کا جانشین "ڈیورآرڈ" قرار پایا۔ اور یونہین ماسٹرون کے انتخاب کا سلسلہ جاری رہا۔ ڈیورآرڈ کے عہد مین ان لوگون کی سپہگری اس قدر کامباب اور باقاعدہ تھی کہ اکثر سلطنتین اپنی فوجین انھین کے قواعد کے مطابق مرتب کرنے لگین۔ اور اب اس وقت سے ان کی تاریخ دیکھنے کا شوق ہو تو حروب صلیبیہ کی تاریخ پڑھنی چاہیے۔ اس لیے کہ صلیبی لڑائی مین اہم فوجی خدمات یہی لوگ انجام دیتے تھے۔

مگر دولتمندی نے چند ہی روز مین اُن کی حالت مین تغیر پیدا کرنا شروع کیا۔ اور ناکامیون مین انکے طرز عمل پر بدگمانیان کی جانے لگین۔ جب ۵۷۷؁محمدی (۱۱۴۸ء؁) مین فرمن فرمان روا کونراڈ بیت المقدس مین پہونچا ان لوگون نے اپنے کلب مین اسکی دعوت کی اور اُسے اپنا گرویدہ بنا لیا۔ مگر اسی سال جب دمشق کے محاصرے مین مسلمانون نے صلیبیوں کو شکست فاش دی اور انھین محاصرہ چھوڑکے بدحواس بھاگنا پڑا تو اس شکست کا الزام انھین بانکون کے سر تھوپا گیا۔ اور کہا جانے لگا کہ صرف نائٹ ٹمپلرز کی دغابازی سے یہ شکست ہوئی۔ اسکے دوسرے برس شہر غزہ کا قلعہ ان لوگون کے حوالے کیا گیا جسے اُنھون نے خوب مضبوط کیا۔ اسکے چار سال بعد اُن کا ماسٹر ٹمپلرز برنارڈ چالین نائٹون کو ہمراہ رکاب لے کے بڑی بہادری سے شہر عسقلان مین گُھس پڑا۔ مگر مسلمانون نے گھیر کے اس طرح مارا کہ ان مین سے ایک کو بھی زندہ واپس آنا نہ نصیب ہوا۔ سب مارے گئے۔ اور ہم مذہبون سے یہ داد ملی کہ یہ لوگ خود اپنی حماقت کی نذر ہو گئے اور طمع نے ان کو فنا کر دیا۔ چند روز بعد مشہور ہوا کہ ایک مصری شاہزادہ جو عیسائیون کے ہاتھ مین گرفتار ہو گیا تھا اور دین مسیحی قبول کرنے پر نیم راضی تھا اُسے ان نائٹون نے روپیہ لے کے اہل مصر کے حوالے کر دیا اور اسی طمع مین انکی وجہ سے اور بھی کئی خون ہوئے۔

۵۹۵؁محمدی (۱۱۶۶ء؁) مین ان نائٹون کو یہ الزام دیا گیا کہ یرونؔ کے پار کا ایک مضبوط قلعہ اُنھون نے روپیہ لے کے نورؔ الدین زنگی کے کسی سردار کے حوالے کر دیا۔ چنانچہ اس جُرم کی پاداش مین خود مسیحی بادشاہ بیت المقدس املؔ ریق نے
 

شمشاد

لائبریرین
صفحہ ۸۷

بارہ ٹمپلرون کو پھانسی پر لٹکا دیا۔ یہی واقعات پیش آ رہے تھے کہ سلطان صلاح الدین اعظم لشکر لے کے مصر سے آ پہونچا۔ ہزارون نائٹ مختلف میدانون میں لقمۂ نہنگ شمشیر ہوے۔ اور بیت المقدس اور شام کے تمام شہرون پر اُن نے قبضہ کر کے مسیحی سلطنت کا خاتمہ کر دیا۔ اُسوقت ٹمپلرز مسجد اقصیٰ اور بہت المقدس کو چھوڑ کے ساحلی شہر ھکہؔ مین پہونچے۔ اور جب ایک زمانے کے بعد ھکہ بھی مسیحون کے ہاتھ سے نکل گیا تو طرابلس" الشام مین جا کے پناہ گزین ہوے۔

(۳)

اگرچہ ان لوگون کے بہت سے حالات نومبر ۱۹۱۴؁ء کے دلگداز مین درج ہو چکے ہین مگر اُن کے صدیون کے واقعات اتنے نہین ہین کہ چند صفحون مین ختم ہو جائین۔ ہمن اس سلسلے مین ابھی بہت سے حالات و خصائص کا بتانا باقی ہے جو کہ لطف سے خالی نہیں ہین۔ انکے گروہ یا ان کی سوسائٹی میں تین طرح کے لوگ ہوتے تھے۔ اول خود نائٹ۔ دوسرے چیپلین۔ تیسرے اسلحہ بردار۔ نائٹ دو طرح کے تھے۔ ایک تو وہ جو زندگی بھر کے لیے شریک جماعت ہوتے اور عہد کر لیتے تھے کہ مرتے دم تک اسی گروہ مین رہین گے۔ اور دوسرے وہ جو کسی محدود مدت تک کے لیے اپنی زندگی نذر کرتے۔ مگر دونون کو ایک ہی قسم کے اصول و ضوابط کی پابندی کرنا پڑتی۔ لازم تھا کہ وہ بلا ناغہ گرجے مین آ کے شریک جماعت ہون۔ صرف وہ نائٹ جو رات کی خدمت مین تھک جاتے اُنھین خاص صورتون مین ماسٹر کی اجازت سے گھر پر ٹھہرنے کی اجازت عطا کر دی جاتی۔ روز دو وقت اُنھین قاعدے کے ساتھ کھانا ملتا۔ اور اگر ماسٹر کسی وجہ موجہ سے اجازت دے دے تو غروب آفتاب کے وقت ایک تیسری نہایت ہلکی غذا بھی مل سکتی۔ گوشت ہفتے مین صرف تین بار ملتا۔ اسکے سوا ہر وقت کے کھانے مین ساگ پات یا نباتی غذائین ملتین۔ اور اُن میں بھی وہ جو زود ہضم تصور کی جاتین۔ کھاتے وقت دو دو آدمی ساتھ بیٹھتے اور دونون کی نظر ایک دوسرے کے کھانے پر لگی رہتی تاکہ کسی سے کوئی نامناسب حرکت یا خلاف اصول
 

شمشاد

لائبریرین
صفحہ ۸۸

بے اعتدالی نہ ہونے پائے۔ شراب تو ہر غذا کے ساتھ مل جاتی مگر یورپ کی آجکل کی "ٹیبل ٹاک" (کھاتے وقت کی گپ شپ) نہ تھی۔ یہ ہر نائٹ کےلیے لازم تھا کہ جب تک کھانا کھائے خاموش رہے۔ اُسوقت ایک مذہبی دعا پڑھی جاتی تھی جس کا سُننا اور اُسپر کان لگائے رہنا فرض تھا۔ معمر و مریض ارکان کے ساتھ خاص رعایتین تھین اور اُنکی دوشت کا اہتمام بھی اچھا تھا۔ ہر ممبر پر اپنے افسر اعلیٰ یعنی اپنے ماسٹر کی اطاعت فرض تھی۔ اور اسکے احکام بعینہ خدا کے احکام تصور کیے جاتے۔ نامناسب نمایشین عما ازین کہ اسلحہ مین ہون یا گھوڑے کے ساز و براق مین ممنوع تھین۔ وہ لباس بھی اُن کے لیے جائز نہ تھا جس مین کئی رنگون سے رنگ آمیزیان کی گئی ہون۔ اور سوا نائٹون کے باقی تمام اراکان سیاہ یا بھورے رنگ کے کپڑے پہنتے۔ سب کا لباس علی العموم اُون کا ہوتا۔ صرف ایک مذہبی تقریب کے زمانے مین تو اُنھین ایک سُوتی کُرتا پہننے کی اجازت ملجاتی باقی اور کبھی کوئی روئی کے کپڑے نہ پہن سکتا۔ بال سب کے چھوٹے چھوٹے رہتے اور جھنڈولی بے کنگھی کی ہوئی ڈاڑھی ٹمپلرون کی پہچان قرار پا گئی تھی۔ شکار کھیلنا یا شکاری کتون کو پالنا بھی اُن کے لیے ممنوع تھا۔ فقط شیر کے شکار کی اجازت تھی اس لیے کہ شیر اُن لوگون کے خیال مین بُرائی اور جبر و جور کا شعار قرار پا گیا تھا۔ اور اسکی بھی اجازت نہ تھی کہ اپنی گذشتہ بغویتون کو وہ کبھی زبان پر لائین اور عیش و عشرت کے گذرے واقعات کو یاد کرین۔

یہ لوگ کہین باہر جاتے تو انکے آنے جانے کی خاص نگرانی کیجاتی اور کوئی نہ کوئی انکے ساتھ موجود رہتا۔ سوا اُس وقت کے جبکہ رات کو وہ حضرت مسیح کے مقبرے (ہولی سپلکر) کی زیارت کو جاتے۔ بڑی نگرانی اسس بات کی رہتی کہ کوئی نائٹ یا اور رُکن کسی سے خط و کتابت نہ کرنے پائے۔ اپنے کسی عزیز و قریب کا خط بھی وہ بغیر ماسٹر کی موجودگی کے نہ کھول سکتے۔ کسی کے پاس اُسکے کسی عزیز یا دوست کے پاس سے کوئی سوغات یا کھانے کی چیز آتی تو پولبندہ ماسٹر کے سامنے کھولا جاتا۔ اور ماسٹر کو اختیار تھا کہ اُسےدے یا اُسکے سوا کسی اور شخص کو ضرورت خیال کر کے دے دے اور اگر ایسی صورت پیش آئے تو اصل مالک کو اُس پر بُرا ماننا یا پیشانی پر بل لانا بھی گناہ
 

شمشاد

لائبریرین
صفحہ۸۹

تھا۔ سب جدا جدا بچھونون پر سوتے۔ اور شب خوابی کا لباس کُرتا اور کسا ہوا گھٹنا تھا۔ خواب گاہ مین جس کی حیثیت خانقاہ کی سی ہوتی ایک چراغ رات بھر روشن رہتا۔ بچھانے کے لیے عموماً جٹائیان مروج تھین۔ اگر کسی کے پاس چٹائی نہ ہو تو اُسے ایک دری کے بچھانے کی اجازت مل جاتی۔ لیکن اس بات کا لحاظ کر کے اس مین راحت طلبی اور عیش پسندی کو ذرا بھی دخل نہ ہو۔

وقتاً فوقتاً جو مہتم باشان معاملات پیش آتے اُن کے تصفیے کے لیے کمیٹیان ہوتین۔ کمیٹیان دو قسم کی تھین۔ ایک تو معمولی کمیٹیان جو خفیف باتون کے طے کرنے کے لیے جمع ہوتین۔ اُن مین صرف سوسائٹی کے چند ہوشیار رُکن بُلا لیے جاتے۔ مگر بڑی کمیٹیان جو اہم امور کے تصفیے کے لیے طلب کی جاتین اُن کی شرکت کےلیے گرینڈ ماسٹر کُل اراکان کو طلب کرتا۔ کسی نئے رکن کو شریک جماعت کرنا یا کسی اراضی اور علاقے کو کسی کے حوالے کرنا اُن بڑی کمیٹیون کا کام تھا۔

ہر ممبر کو داخلے سے پیشتر چند روز آزمایش مین رہنا پڑتا۔ نابالغ لڑکے جو ہتھیار اُٹھانے کے قابل نہ ہون نہ لیے جاتے۔ اور آخر آخر شاید اراکان کی بے اعتدالیان دیکھ کے یہ قاعدہ بھی سختی سے جاری ہو گیا تھا کہ کوئی رکن عرت کا بوسہ نہ لے سکے عام اس سے کہ وہ شوہر والی ہو یا بیوہ۔ یا اُس کی کوئی عزیز قریب مان خالہ پھوپھی چچی یا بہن ہو۔ جو قواعد اول مین طے ہوے تھے آخر تک اُنھین پر عمل درآمد رہا۔ مگر جب کمیٹی کے قبضے مین بہت سے دولت جمع ہو گئی اور دنیا کے مختلف ملکون مین اُس کی مملکتین اور جائدادین پیدا ہو گئین تو حسب ضرورت نئے قوانین منظور ہوے۔

اب اتنظام کی یہ صورت تھی کہ سب کا حاکم اعلیٰ گرینڈ ماسٹر ہوتا۔ اُس کے احکام واجب التعمیل تھے۔ اور قانون مین بھی رد و بدل کا اُسے حق حاصل تھا۔ لیکن باوجود اسکے وہ اس کا مجاز نہ تھا کہ اشتہار جنگ دے دے۔ یا سوسائٹی کے کسی علاقے کو کسی کے حوالے کر دے۔ یا کسی نئے ممبر کو شریک جماعت کرے۔ اِن اُمور کے لیئے وہ ارباب حل و عقد کی رضا مندی حاصل کرنے پر مجبور تھا۔ خود اُسکا انتخاب تیرہ رکنون کی منظوری سے ہوتا۔ مگر انتخاب کی کمیٹی مین جہان تک بنتا مختلف
 

شمشاد

لائبریرین
صفحہ ۹۰

قومون اور ملکون کے ارکان رکھے جاتے۔

اس کے بعد ایک دوسرے عہدہ دار کا درجہ تھا جو "سنشل" کہلاتا۔ یہ وائس پریسیڈنٹ تھا۔ اوور گرینڈ ماسٹر کے عدم موجودگی مین اُس کا نائب اور قائم مقام تسلیم کیا جاتا۔ اُس کے علاوہ ایک عہدہ دار مارشل ہوتا۔ فوجی ساز و سامان اصطبل اور گھوڑون کا ساز ویراق اسی کے اہتمام مین رہتا۔ اور نائٹ ہونے کے تمام امیدوار یعنی اسلحہ بدار براہ راست اُس کے مطیع فرمان ہوتے۔ مگر لڑائی کے وقت سپہ سالار کے ماتحت ہو جاتا۔

ان عہدہ دارون کے علاوہ سوسائٹی کے ضلعدار تھے۔ مگر چونکہ بڑے بڑے ملک اور وسیع ریاستین ان لوگون کے ہاتھ مین آ گئی تھین۔ اس لیے ان کی حیثیت گورنرون بلکہ اُس عہد کے بادشاہون کی سی ہوتی۔ سوسائٹی کی قلمرو چونکہ ایشیا اور یورپ کے ملکون اور دور دراز مقامات مین پھیلی ہوئی تھی۔ اس لیے ان گورنرون کی تعدادبارہ کے قریب رہتی اور کبھی اس سے زیادہ ہو جاتی۔ مگر ان لوگون کے لیے بغیر گرینڈ ماسٹر کی منظوری حاصل کیے سمندر کا سفر اختیار کرنا اور ایک ملک سے دوسرے ملک مین جانا ممنوع تھا۔ یہان تک کہ یورپ کا کوئی اعلیٰ حاکم بھی بے اجازت ایسی جرأت نہ کر سکتا۔ ان گورنرون کے انتخاب کے وقت جملہ ارکان کی شرکت ضروری تھی۔ انھین گورنرون کے زیر اختیار اُن کا خزانہ بھی رہتا جس کی کُنجی خود گرینڈ ماسٹر کو بھی نہ مل سکتی۔ سوسائٹی کی طرف سے جو گورنر ارض مقدس کے اضلاع کا منتظم و نگران تھا وہی اصلی صلیب کا محافظ و حکمران بھی رہتا۔ جس کی نسبت ساری مسیحی دنیا کا اعتقاد تھا کہ یہ خاص وہی صلیب ہے جس پر حضرت مسیح کا جسد انور لٹکایا گیا تھا۔

ٹمپلرون کی سوسائٹی کے قبضے مین جہازون کا بیڑہ بھی تھا جس کا غالب حصہ اُن کے والی و حاکم کے زیر فرمان رہتا۔ غرض ٹمپلرون نے اپنے کارنامون سے ساری مسیحی دنیا کو اپنا گرویدہ بنا لیا تھا۔ اور چند ہی روز کے اندر اُنکے ہاتھ مین اتنی بڑی قلمرو آ گئی اور اُنکے خزانے مین اتنی دولت جمع ہو گئی کہ اُن دنون نہ اُن سے زیادہ زبردست کوئی سلطنت تھی۔ اور نہ اُن سے زیادہ کوئی بادشاہ
 

شمشاد

لائبریرین
صفحہ ۹۱

دولتمند تھا۔ ساری عیسائی دنیا مین اُن کا سکہ بیٹھا ہوا تھا۔ سلاطین و امرا اُن سے ڈرتے اور کانپتے تھے۔ اور عوام الناس اُن کے معتقد اور اُن پر جانین نثار کرنے کو تیار تھے۔ اور اُن کے سب سے بڑے مرکز دو (۲) تھے۔ مشرق مین شہر عکہ جس ساحلی شہر مین بیت المقدس سے نکالے جانے کے بعد عیسائیون نے پناہ لی تھی۔ اور بڑی مضبوطی سے زمین پکڑ رکھی تھی۔ اور مغرب یعنی یورپ مین پیرس۔ جہان تاجدارون اور فرمان رواؤن کو اُن سے دبنا اور اُن کے آگے سر جھکانا پڑتا اور صاحبان تاج و دہہییم اور مقتدایان ملک و ملت دونون کے مقابل مین اُن کا اثر غالب تھا۔

اب اس زمانے مین اُن کا قانون یہ تھا کہ جو شخص شریک جماعت ہونا چاہتا مذکورۂ بالا شرائط کے علاوہ اس بات کی حلف اُٹھاتا کہ مجھ پر کسی کا قرض نہیں ہے اور دین سے بالکل سبکدوش ہون۔ اور اس وقت کسی اور جماعت یا گروہ مین نہیں شریک ہون۔ اپنے بالا دست سردارون کی بے عذر اطاعت و فرمانبرداری کرون گا۔ ہمیشہ عفت پاکدامنی کی زندگی بسر کرون گا۔ اور اپنی باقیماندہ زندگی ارض مقدس کی خدمت و حمایت کی نذر کرون گا۔" اپنے ان فرائض اور حمایت دین و کلیسا کی اس خدمت پر ان لوگون کو بڑا فخر و ناز تھا۔ اور مسیحی دنیا کا اُنکی جماعت کی طرف اس قدر رُحجان تھا کہ وہ مصرع "ہر کہ خدمت کردا و مخدوم شد" کا اعلیٰ ترین نمونہ بن گئے تھے۔ اور اُن کے بھائیون اور سوسائٹی کے رکن بانکون کی تعداد پندرہ ہزار تک پہونچ گئی تھی۔ الحاد و بے دینی۔ یا مسلمانون کے مقابل بھاگ کھڑے ہونے کے الزامون پر وہ سوسائٹی سے نکال دیے جاتے۔ اور بعض چھوٹے چھوٹے قصورون مثلاً لڑائی مین اپنے جھنڈے کو سرنگون کر دینے۔ اور اسی قسم کی بند اور خفیف باتون پر وہ چند روس کےلیے اپنے درجے اور مرتبے سے ترا دیے جاتے۔

روم کے پاپاؤن کی ابتداءً یہ کوشش رہی کہ اس طاقت کو جو اُنکی منظوری سے اُس جماعت کے لیے قائم ہو گئی تھی حتی الامکان قوت پہونچائین۔ اور روز بروز بڑھاتے رہین تاکہ بیت المقدس کے مسلمانون سے چھیننے کی کوشش اسی طرح برابر
 
Top