یاد کرنے میں مجھے کل شب یہ دشواری رہی

نمرہ

محفلین
یاد کرنے میں مجھے کل شب یہ دشواری رہی
کیا تھی وہ صورت کہ عرصہ ذہن پر طاری رہی

شاید اب اس گل بدن کو دیکھ لے باد بہار
نامہ بر بننے سے اس سے قبل انکاری رہی

بارہا رکھے گئے دنیا کے بازاروں میں ہم
کچھ رہی تو ناشناسوں میں خریداری رہی

نام اس شیریں سخن نے یوں لیا اک مرتبہ
از سماعت تا بہ دل مدت ہی سرشاری رہی

ہجر کا تارا تو کب کا بجھ گیا دل کی طرح
ہاں مگر آنکھوں میں وہ راتوں کی بیداری رہی

کار دنیا میں بہت الجھے مگر دل کے لیے
روز و شب میں ایک بے معنی سی بے کاری رہی

قیس خود دشت جنوں کی خاک ہو کر رہ گیا
رسم اک صحرا نوردی کی مگر جاری رہی

دل کے ایوانوں میں پیہم ایسی خاموشی نہ تھی
ٹوٹتے خوابوں کی اک مدت عزاداری رہی​
 
مدیر کی آخری تدوین:
Top