یادگار غالب

جیہ

لائبریرین
روحِ رواں : اس کا مطلب ہوا "رواں کی روح"

اضافت ان معنوں بھی استعمال ہوتی ہے جن معنوں میں شگفتہ سسٹر نے کہا ہے ۔ اس کی مثال " جانِ بابا" سے بھی دی جا سکتی ہے یعنی بابا کی جان
مگر
اضافت صفت کے لئے بھی استعمال ہوتی ہے جیسے "ارضِ پاک" یعنی پاک زمین نہ کہ پاک کی زمین۔ روحِ روان کی معنی میں بھی اضافت صفت کے لئے ۔ اور اس کے معنی ہیں رواں روح ۔
 

فرخ منظور

لائبریرین
اضافت ان معنوں بھی استعمال ہوتی ہے جن معنوں میں شگفتہ سسٹر نے کہا ہے ۔ اس کی مثال " جانِ بابا" سے بھی دی جا سکتی ہے یعنی بابا کی جان
مگر
اضافت صفت کے لئے بھی استعمال ہوتی ہے جیسے "ارضِ پاک" یعنی پاک زمین نہ کہ پاک کی زمین۔ روحِ روان کی معنی میں بھی اضافت صفت کے لئے ۔ اور اس کے معنی ہیں رواں روح ۔

بہت شکریہ جویریہ میرا کہنے کا بھی بالکل یہی مطلب تھا جو آپ نے کہا۔ یعنی ہر جگہ ایک ہی اصول لاگو نہیں ہوتا۔ :)
 

محمد وارث

لائبریرین
فرہنگِ آصفیہ اور لغاتِ کشوری دونوں میں 'روحِ رواں' یا 'روح و رواں' کی ترکیب نظر نہیں آئی۔

عصرِ حاضر کی سب سے مستند لغت (مشتاق احمد یوسفی کی نظر میں) 'علمی اردو لغت' (جامع) از وارث سرہندی میں 'روحِ رواں' ہے:

['روحِ رواں: (ع ف امذ) وہ چیز یا شخص جس پر کسی چیز کا دارومدار ہو۔ زندہ روح۔ اصل چیز]

ص 829، 1993ء ایڈیشن
 

فرخ منظور

لائبریرین
فرہنگِ آصفیہ اور لغاتِ کشوری دونوں میں 'روحِ رواں' یا 'روح و رواں' کی ترکیب نظر نہیں آئی۔

عصرِ حاضر کی سب سے مستند لغت (مشتاق احمد یوسفی کی نظر میں) 'علمی اردو لغت' (جامع) از وارث سرہندی میں 'روحِ رواں' ہے:

['روحِ رواں: (ع ف امذ) وہ چیز یا شخص جس پر کسی چیز کا دارومدار ہو۔ زندہ روح۔ اصل چیز]

ص 829، 1993ء ایڈیشن

حضور ذرا ان الفاظ کی املا بھی بتا دیجیے۔ کہ آخر میں ہمزہ آتا ہے یا نہیں؟ املا، اسما، انشا وغیرہ۔ میری تحقیق کے مطابق تو نہیں آتا۔
 

محمد وارث

لائبریرین
دو الفاظ اسما اور انشا، تینوں لغات (فرہنگِ آصفیہ، لغاتِ کشوری اور علمی اردو لغت جامع) میں بغیر ہمزہ کے ہیں۔

املا، فرہنگِ آصفیہ اور لغاتِ کشوری میں بغیر ہمزہ کے ہے اور علمی لغت میں ہمزہ کے ساتھ یعنی املاء۔

علمی اردو لغت میرے نزدیک مستند ہے سو، املاء کے باب میں دو رائے ہونے کے بعد ان الفاظ کو کسی عربی لغت میں دیکھنے کا خیال دل میں پیدا ہوا تو دل کا ایک "اور" زخم تازہ ہو گیا کہ عربی اردو لغت کافی عرصہ پہلے ایک امام مسجد لے گئے تھے اور اس کی واپسی کا بھی کوئی امکان نہیں کہ جناب آنجہانی ہو چکے!

بہرحال ایک اور مستند قرآنی لغت، قاموس القران از قاضی زین العابدین سجاد میرٹھی، میں دیکھا تو اِملا اس میں نہیں تھا، لیکن اسما اور انشا دونوں ہمزہ کے ساتھ ہیں یعنی اسماء اور انشاء۔

میں اس نتیجے پر پہنچا ہوں، اور میرا پہلے بھی خیال یہی تھا، کہ عربی میں ان الفاظ کے ساتھ ہمزہ موجود ہے اور اردو میں دونوں طرح سے لکھنا رائج ہے یا رہا ہے! سو میرا "ذاتی مذہب" یہ ہوا کہ ان الفاظ کو، اردو لکھتے ہوئے، چاہے ہمزہ کے ساتھ لکھیں یا اسکے بغیر، "مباح" ہے :)
 

محمد وارث

لائبریرین
مزید بر آں یہ کہ فیروز الغات فارسی، اردو میں بھی دیکھا ہے۔

گو فیروز اللغات اردو مستند نہ سہی لیکن فارسی اردو مستند ترین ہے کہ مقبول بیگ بدخشانی نے مرتب کی ہے جنکا نام خود ایک سند ہے اور پھر اسکا نیا ایڈیشن 2004ء میں ڈاکٹر وحید قریشی کی نگرانی میں طبع ہوا ہے سو:

اسما بغیر ہمزہ کے ہے۔
املا اور انشا ہمزہ کے ساتھ۔

گویا اپنے مذہب کیلیے ایک اور "نص" ہاتھ لگا :)
 

فرخ منظور

لائبریرین
مزید بر آں یہ کہ فیروز الغات فارسی، اردو میں بھی دیکھا ہے۔

گو فیروز اللغات اردو مستند نہ سہی لیکن فارسی اردو مستند ترین ہے کہ مقبول بیگ بدخشانی نے مرتب کی ہے جنکا نام خود ایک سند ہے اور پھر اسکا نیا ایڈیشن 2004ء میں ڈاکٹر وحید قریشی کی نگرانی میں طبع ہوا ہے سو:

اسما بغیر ہمزہ کے ہے۔
املا اور انشا ہمزہ کے ساتھ۔

گویا اپنے مذہب کیلیے ایک اور "نص" ہاتھ لگا :)

وارث صاحب اگر آپ کو یاد ہو تو فاتح نے ایک بار کہا تھا کہ عربی کا یہ بھی اصول ہے کہ اگر یہ الفاظ اکیلے آئیں تو ہمزہ گرا دیا جاتا ہے اور اگر کسی لفظ کے ساتھ مل کر آئیں یعنی مرکبات میں ہمزہ لگا دیا جاتا ہے۔ میرا بھی یہی خیال ہے ۔ اب آپ کیا کہتے ہیں؟
 

محمد وارث

لائبریرین
مرکبات میں تو بہرحال ہمزہ موجود ہے!

فاتح صاحب کی بات کچھ پڑھی پڑھی سی لگ رہی ہے لیکن صحیح یاد نہیں، لیکن میرا نہیں خیال کہ عربی میں ان الفاظ کا ہمزہ گرا دیا جاتا ہے بلکہ ہمزہ موجود ہے۔

مزید برآں یہ کہ اس قبیل کے اور جتنے الفاظ ہیں، مثلاً علماء، فضلاء، شعراء، شرفاء حکماء، امراء، عقلاء، خلفاء، رفقاء، وغیرہ (گو یہ سب کے سب جمع کے الفاظ ہیں) وہ جمع مکسر کے وزن 'فُعَلاء' پر بنے ہیں۔

یعنی سب کے سب میں، پہلے حرف پر ضمہ یا پیش، دوسرے پر زبر اور آخر میں ہمزہ ضرور ہوگا وگرنہ لفظ 'خراب' سمجھا جائے گا۔ اور یہ بھی عربی میں علیحدہ سے ہمزہ کا وزن موجود ہے اور الفاظ کے آخر میں متحرک ہمزہ کا آنا عام سی بات ہے۔

لیکن پھر وہی بات کہ یہ عربی کا اصول ہے جسکی وہ لازماً پابندی کرتے ہونگے، اردو میں، اور بہت سے قوانین کی طرح، اسکی پابندی کم از کم 'فرض' نہیں ہے۔

اب ایک کتاب باقی رہ گئی ہے، املا کیسے لکھیں از رشید حسن خان، لیکن گھر کی شفٹنگ کے بعد نہ جانے کس ڈھیر میں پڑی ہے، اب اس رائی کیلیے مشقت کا پہاڑ کیا کھودوں :)
 

فرخ منظور

لائبریرین
شکریہ وارث صاحب! یہ کتاب میرے پاس بھی شاید کہیں پڑی ہوئی ہے۔ میں بھی دیکھتا ہوں۔ کیونکہ املا کی ایک کتاب میرے پاس ہے بھی لیکن معلوم نہیں کہ رشید حسن خان کی ہے یا کسی اور کی۔ بہرحال دیکھتا ہوں۔ :)
 

الف عین

لائبریرین
وارث کا فتویٰ پسند آیا۔ لیکن اس پر دوسری ہی بات یاد آ گئی۔ کچھ لوگ فتوہ بھی لکھتے ہیں، جو میری دانست میں غلط ہے۔ اسی طرح دعویٰ اور دعوہ۔ آخر الذکر عربی میں تو اس کا مطلب وہ دعوہ۔دعویٰ ہوتا ہی نہیں‌جو ببانگِ دہل دیا جاتا ہے! لیکن یہاں میں کنفیوز ہو جاتا ہوں کہ جب ہمزہء اضافت ہو، تو کیا صورت ہو گی املا/املاء کی؟ دعوہء یا دعوائے یا کچھ اور۔
 

فاتح

لائبریرین
الف اور ہمزہ دراصل ایک ہی ہیں۔
عربی نحو کے قواعد کے مطابق چونکہ لفظ کے آخری حرف پر کوئی نہ کوئی حرکت ضرور ہوتی ہے کہ اس سے زمانے اور ضمیر وغیرہ کا تعین ہوتا ہے لیکن اگر آخری حرف الف ہو تو اس پر حرکت ڈالنے سے الف گر جائے گا اور یہی وجہ ہے کہ عربی املا میں الف کے بعد ہمزہ کا مقصد محض حرکت کے لیے کوئی پلیٹ فارم مہیا کرنا ہے۔
جب کہ اردو میں لفظ کا آخری حرف ساکن ہوتا ہے اور یہی وجہ ہے اردو املا میں عربی کے برعکس الف کے بعد ہمزہ کی ضرورت نہیں رہتی۔
لیکن اردو میں بھی جہاں کسی لفظ کے آخر حرکت کی ضرورت پڑے گی اور اس کے آخر میں الف ہو تو وہاں الف کے بعد ہمزہ کا اضافہ درست ہو گا۔

میں ہنوز اپنے قول پر قائم ہوں۔
 

فاتح

لائبریرین
نایاب، یادگار غالب پر کام کا آغاز تو میں نے ہی کئی سال قبل کیا تھا۔ اس کے چند برقیائے گئے صفحات یہاں دیکھے جا سکتے ہیں۔ مجھے جہاں تک یاد پڑتا ہے، شگفتہ نے بھی اس پر کام کیا ہوا ہے۔ اس کے بارے میں وہ خود بہتر بتا سکیں گی۔

السلام علیکم
محترم نبیل بھائی
آپ کے تحریر کردہ صفحات اور اس کتاب کے متن میں بہت فرق ہے ۔






نایاب

نبیل صاحب نے جس کتاب کے برقیائے جانے کا ذکر کیا تھا وہ مشہورِ زمانہ "یادگارِ غالب" تو حالیؔ کی لکھی ہوئی ہے مگر جس کا آپ تذکرہ فرما رہے ہیں یہ شاید دیوانِ غالب کی کوئی شرح ہے۔ کیا واقعی اس کا نام بھی "یادگارِ غالب" ہی ہے؟
 

سیدہ شگفتہ

لائبریرین
السلام علیکم

مزید کوئی رکن / اراکین اگر یہاں پوسٹ کرنا چاہیں تو کر لیں تاکہ پھر یہاں ایک اختتامی پوسٹ میں کر دوں ۔

شکریہ
 

نایاب

لائبریرین
نبیل صاحب نے جس کتاب کے برقیائے جانے کا ذکر کیا تھا وہ مشہورِ زمانہ "یادگارِ غالب" تو حالیؔ کی لکھی ہوئی ہے مگر جس کا آپ تذکرہ فرما رہے ہیں یہ شاید دیوانِ غالب کی کوئی شرح ہے۔ کیا واقعی اس کا نام بھی "یادگارِ غالب" ہی ہے؟

السلام علیکم
محترم فاتح بھائی
اس کتاب کے سرورق پر " یادگار غالب ' ہی لکھا ہوا ہے ۔

نایاب
 

الف عین

لائبریرین
اس سے پہلے کو جو امیج نایاب نے دی تھی، اس میں ضمیمہ کا نام بھی تھا، شاید حالی کی یاد گار کے ضمیمے کے طور پر شرح بھی دی گئ ہے۔ کنفرم تو نایاب ہی کر سکتے ہیں۔ کہ کس کس ٹائٹل پیج کا سکین کیا تھا۔
 
Top