فنا بلند شہری ہے تیرا تصور تیری لگن دل تجھ سے لگائے بیٹھے ہیں (فنا بلند شہری)

ہے تیرا تصور تیری لگن دل تجھ سے لگائے بیٹھے ہیں
اک یاد میں تیری جانِ جہاں ہم خود کو بھلائے بیٹھے ہیں

جھکتی ہے نظر سجدے کے لئے ہوتی ہے نمازِ عشق ادا
معراجِ عبادت کیا کہئیے وہ سامنے آئے بیٹھے

نظروں کا تقاضہ پورا کر ایک بار تو جلوہ دکھلا دے
یہ اہلِ جنوں یہ دیوانے اُمید لگائے بیٹھے ہیں

تسلیم و رضا کی منزل میں دل جان تو کوئی چیز نہیں
ہم تیری اداؤں پر جاناں ایماںٓن لٹائے بیٹھے ہیں

دیکھو تو ذرا یہ بھولا پن اس ناز و ادا کو کیا کہئیے
دل لے کے ہمارا محفل میں نظروں کو چھپائے بیٹھے ہیں

اِس حسن پہ دنیا مرتی ہے اک ہم ہی نہیں شیدا ان کے
معلوم نہیں یہ کتنوں کو دیوانہ بنائے بیٹھے ہیں

ہستی ہے سرور مستی میں اب ہوش کا دعویٰ کون کرے
وہ مست نظر سے ہم کو فناؔ مستانہ بنائے بیٹھے ہیں​
فناؔ بلند شہری
 
Top