جون ایلیا ہے بکھرنے کو یہ محفلِ رنگ و بو، تم کہاں جاؤ گے ہم کہاں جائیں گے ۔ جون ایلیا

فرخ منظور

لائبریرین
ہے بکھرنے کو یہ محفلِ رنگ و بو، تم کہاں جاؤ گے ہم کہاں جائیں گے
ہر طرف ہو رہی ہے یہی گفتگو، تم کہاں جاؤ گے ہم کہاں جائیں گے

ہر متاعِ نفس نذرِ آہنگ کی، ہم کو یاراں ہوس، تھی بہت رنگ کی
گل زمیں سے ابلنے کو ہے اب لہو، تم کہاں جاؤ گے ہم کہاں جائیں گے

اوّلِ شب کا مہتاب بھی جا چکا صحنِ مے خانہ سے اب افق میں کہیں
آخرِ شب ہے، خالی ہیں جام و سبو، تم کہاں جاؤ گے، ہم کہاں جائیں گے

کوئی حاصل نہ تھا آرزو کا مگر، سانحہ یہ ہے کہ اب آرزو بھی نہیں
وقت کی اس مسافت میں بے آرزو، تم کہاں جاؤ گے، ہم کہاں جائیں گے

کس قدر دور سے لوٹ کر آئے ہیں، یوں کہو عمر برباد کر آئے ہیں
تھا سراب اپنا سرمایۂ جستجو، تم کہاں جاؤ گے، ہم کہاں جائیں گے

اک جنوں تھا کہ آباد ہو شہر جاں، اور آباد جب شہرِ جاں ہو گیا
ہیں یہ سرگوشیاں در بہ در کو بہ کو، تم کہاں جاؤ گے، ہم کہاں جائیں گے

دشت میں رقصِ شوق بہار اب کہاں، باد پیمائی دیوانہ وار اب کہاں
بس گزرنے کو ہے موسم ہائے و ہو، تم کہاں جاؤ گے، ہم کہاں جائیں گے

ہم ہیں رسوا کنِ دلی و لکھنؤ ، اپنی کیا زندگی اپنی کیا آبرو
میرؔ دلی سے نکلے گئے لکھنؤ، تم کہاں جاؤ گے، ہم کہاں جائیں گے

(جون ایلیا)
 
Top