نیرنگ خیال
لائبریرین
کچھ رشتے لفظوں کے نہیں، احساس سے جڑے ہوتے ہیں۔ کچھ محفلیں شور سے نہیں خاموشی سے بسا کرتی ہیں، اور کچھ سفر اختتام کو بھی پہنچ جائیں تو دل کے صفحے پر ان کی مسافت ہمیشہ تروتازہ رہتی ہے۔ جب میں نے اس محفل کی رکنیت اختیار کی تھی، تو شاید یہ بات وہم و گماں میں بھی نہ تھی کہ یہ تعلق اتنا گہرا ہوجائے گا۔ یہاں میں نے صرف اردو کے الفاظ نہیں سیکھے، بلکہ ان الفاظ کی تہذیب، نرمی اور ان کے مختلف رنگوں سے آشنا ہوا۔ یہاں صرف چھیڑ خانیاں نہیں کیں، بلکہ بین السطور توجہ، پیار اور محبت کو گُندھا پایا۔ میرا اردو محفل کا سفر بانیان محفل کی طرح تو نہیں ہے، کہ میں ایک صارف رہا، اور انتظامی امور سے لاپروا۔ بہرحال یہ سفر ایسا مختصر بھی نہیں ہے کہ میں اس کو چند لفظوں، چند جملوں اور لمحوں میں سمیٹ دوں۔ یہ میرے لیے یادوں کاایک خزانہ ہے۔ تحریر وں کی ایک تاریخ ، اور محفلین کے لفظوں میں رچی بسی محبت کی ایک داستاں ہے۔ محفل نے میرے لیے ایک ایسے آنگن کا کردار ادا کیا، جہاں میرے خیالات پروان چڑھتے، جذبات صفحہ قرطاس پر ابھرتے اور دل ہم نوا ہوجاتے تھے۔ میں نے لفظوں کو جڑنا سیکھا، جملوں سے دوستی کی اور خیالات کو تخلیق میں ڈھالنے کا ہنر پایا۔ (گو کہ ابھی بھی بہت ہی نکما ہوں، ظاہر ہے خداداد صلاحیت والوں سے کسی بھی قسم کا تقابل ممکن نہ ہے۔ ) بہت سی ایسی تحاریر ہیں، جو میں نے محض محفل کا ایڈیٹر کھول کر لکھیں، اور پھر شائع کر دیں۔ کبھی نظر ثانی کی، کبھی نہ کی۔ اور میری نظر ثانی کی اوقات ہی کیا۔ لیکن محفلین کی حوصلہ افزائی، داد اور کھلے دل سے سراہنے کی عادات نے میرے قلم کو حوصلہ دیا۔ یہ محفل میرے لفظوں کی گواہ بھی ہے اور ان کی پرورش کرنے والی بھی۔
ابھی کل کی بات ہے میں پائتھون کہانی لکھ رہا تھا۔محب بھائی کے مدرسے میں ، مقدس، میں، منا، احمد بھائی اور وہ پڑھاکو ننھی عائشہ۔۔۔ وہ صرف کمپیوٹر کی زبان سیکھنے کی داستاں نہ تھی، بلکہ محبت، شرارت، سیکھنے کی جستجو کا ایک منفرد انداز تھا۔ اس کہانی کا ہر کردار جیتا جاگتا سانس لیتا تھا۔ احمد بھائی کی کوئی غزل میرے ہاتھ آجاتی، تو میں لایعنیت کے سمندر کا شناور بن جاتا اور اس غزل کے وہ وہ مفاہیم بیان کرتا جو فلک کے اس پار اور اِدھر اُدھر سے دور پرے کہیں سمجھے نہیں سمجھ آتے تھے۔ شاید مجھ ایسے شارحین کے سبب ہی عرب نے مقولہ ایجاد کیا تھا کہ "ا لمعانی فی البطن الشاعر"۔ نیلم کی حکایتوں کا ریکارڈ لگانا بھی یہی شروع کیا۔ اور وہ آپ ایک دوسرے کو کتنا جانتے ہیں والے کھیل اور ان کی تیاریاں۔ ہوتے ہوتے میری ان حرکتوں کا شکار ظہیر بھائی بھی ہونا شروع ہوگئے۔ سب کتنا دلچسپ تھا، سب کتنا خوبصورت ہے۔ الف عین، محمد وارث اور یعقوب آسی جیسے اساتذہ، جو بلا غرض وقت نکال کر، الفاظ کو سنوار کر، خیال کو نکھار کر ایسی اصلاح دیتے کہ عام سے اشعار بھی پرکار ہوتے چلے جاتے۔ احمد بھائی کی سادگی، ظہیر بھائی کی شاعری اور فلک بھائی کے مشکل خیالات، جن کے ہر لفظ میں زندگی بولتی ہے۔ اور پھر قیصرانی بھائی جیسے شرارتی احباب جو طنز کو فن میں ڈھالتےا ور مذاق میں محبتیں بُنتے۔ فرحت سے سستی کے مقابلے بھی، جو وہ ہمیشہ اپنی چستی کی بدولت ہارتی رہیں۔ ہاں مقدس سے زیادہ نہیں بول پایا، اس کا قلق رہے گا۔
ملاقاتوں کے سلسلے بھی ہوئے۔ نبیل سے، زیک سے، قیصرانی بھائی، صائمہ شاہ، فلک شیر، راحیل فاروق، سید زبیر ، تلمیذ سر، فرخ، سید شہزاد ناصر، سید شاکر القادری، فاتح، عاطف بٹ، ساجد بھائی، پردیسی، فراز بھائی، الف نظامی، سعد، تابش، سعادت، ایم بلال، عباس اعوان، امجد میانداد، عاطف کریم، بھلکڑ، عاطف ملک اور حسن محمود جماعتی۔ تلمیذ سر اسلام آباد آئے تو ان کے اور سید زبیر دونوں کے ساتھ ملاقات کا موقع ملا۔ دونوں بزرگوں کی اس مجلس میں بھلے میری حثیت ایک سامع جتنی رہی ہو، پر سیکھنے کو بہت کچھ ملا۔ کچھ دن قبل سید زبیر سے فون پر بات کی تو وہ بہت سی دعاؤں سے نواز رہے تھے۔ اللہ تعالی ان کی صحت کے معاملات میں بہتری لائے۔ کئی محفلین سے ملاقات کی تمنا ہے جس میں کراچی والے تقریبا سبھی شامل ہیں۔کئی ایک سے کبھی ملاقات نہ ہوسکے گی۔ جیسے وارث بھائی۔ اللہ ان کے درجات بلند کرے۔ کتنوں سے دل کے رشتے جڑے، کچھ سے ملاقاتیں ہوئیں، کچھ ہمیشہ پردے کے اُس پار رہے، لیکن موجودگی سبھی کی محسوس ہوتی رہی، کبھی کسی پوسٹ کی شکل میں، کبھی تبصروں کی گونج میں اور کبھی اس خاموش یگانگت میں جو صرف اور صرف خلوص سے جنم لیتی ہے۔
محفل کا ہر دھاگہ ہر لڑی میرے لیے یادگار ہے۔ وہ جن میں حصہ لیا یا وہ جو میرے قیمتی تبصرہ جات سے محفوظ رہے۔ کسی نے غزل سنائی، کسی نے اصلاح مانگی، کسی نے اصلاح دی، کسی نے شعر سنایا، کسی نے تبصروں میں حصہ ڈالا، اور کسی نے فقط سلام کہا، لیکن ہر بار دل تک کچھ پہنچایا۔ ہر بار کچھ نیا سیکھا۔ کچھ بانٹا ، کچھ پایا۔
جب نبیل کی زبانی محفل کے بند ہونے کی خبر ملی ، تو دل کچھ ڈوب سا گیا۔ ایسے جیسے کچھ کھونے جا رہا ہے۔ ایسی بستی جس میں اتنے برس سانس لی، شور مچایا، اُدہم اٹھایا اب خاموشی کی چادر اوڑھنے جا رہی ہے۔ کچھ نامکمل باتیں، کچھ ادھورے مکالمے اور کچھ بےجواب دعائیں، سب وہیں رہ جائیں گے۔ ایسا لگتا ہے جیسے کوئی پرانے مکان کا آخری دروازہ بند کرنے والا ہے، وہ مکان جس کے اندر بیش قیمت یادیں ہیں، ہنسی ہے ، قہقہے ہیں، کچھ ان سنی باتیں اور کچھ ان کہے قصے قید ہیں۔
میں یقیناً دل گرفتہ ہوں، اداس ہوں، لیکن ایک احساسِ شکرگزاری بھی مجھے گھیرے ہے۔ کہ یہ دنیا مجھے ملی۔ میں اس داستاں کا حصہ رہا، حصہ بنا۔ مجھے اس دنیا کی سیر کا موقع ملا، جہاں بےغرضی ، خلوص اور محبت اپنی اصل حالت میں روشن ہے۔ مجھے ایسے لوگ ملے جنہوں نے لفظوں سے دل جوڑ دیے۔ شاید اب پوسٹس نہ آئیں، نئی لڑیاں نہ کھلیں، تبصرے نہ ہوں۔ احباب چونچیں نہ لڑائیں، لیکن جو چراغ اس محفل نے جلا دیے ہیں، وہ بہت سے دلوں کو روشن کرتے رہیں گے۔ یہ محفل بند بھی ہوجائے تو یہ چراغ تحریروں، جذبوں اور خلوص کی روشنیوں میں ہمیشہ جلتے رہیں گے۔ وہ دل جدھر جائیں گے، اپنی روشنی پھیلاتے رہیں گے۔ محفل مجھ سے رخصت نہیں لے سکتی ۔ میں محفل سے رخصت نہیں لوں گا، بس خاموش ہو جاؤں گا کیوں کہ میرا اس کا تعلق ایک احساس کا ہے، اور احساسات سے رخصت نہیں لی جا سکتی۔ ویب سائٹس بند ہو سکتی ہیں مگر احساسات زندہ رہتےہیں۔ میرے تعمیری سفر میں محفل کا جو حصہ ہے، وہ مستقبل میں بھی ان شاء اللہ میری تحریروں سے میری گفتگو سے چھلکتا رہے گا۔
نیرنگ خیال
21 جون 2025
ابھی کل کی بات ہے میں پائتھون کہانی لکھ رہا تھا۔محب بھائی کے مدرسے میں ، مقدس، میں، منا، احمد بھائی اور وہ پڑھاکو ننھی عائشہ۔۔۔ وہ صرف کمپیوٹر کی زبان سیکھنے کی داستاں نہ تھی، بلکہ محبت، شرارت، سیکھنے کی جستجو کا ایک منفرد انداز تھا۔ اس کہانی کا ہر کردار جیتا جاگتا سانس لیتا تھا۔ احمد بھائی کی کوئی غزل میرے ہاتھ آجاتی، تو میں لایعنیت کے سمندر کا شناور بن جاتا اور اس غزل کے وہ وہ مفاہیم بیان کرتا جو فلک کے اس پار اور اِدھر اُدھر سے دور پرے کہیں سمجھے نہیں سمجھ آتے تھے۔ شاید مجھ ایسے شارحین کے سبب ہی عرب نے مقولہ ایجاد کیا تھا کہ "ا لمعانی فی البطن الشاعر"۔ نیلم کی حکایتوں کا ریکارڈ لگانا بھی یہی شروع کیا۔ اور وہ آپ ایک دوسرے کو کتنا جانتے ہیں والے کھیل اور ان کی تیاریاں۔ ہوتے ہوتے میری ان حرکتوں کا شکار ظہیر بھائی بھی ہونا شروع ہوگئے۔ سب کتنا دلچسپ تھا، سب کتنا خوبصورت ہے۔ الف عین، محمد وارث اور یعقوب آسی جیسے اساتذہ، جو بلا غرض وقت نکال کر، الفاظ کو سنوار کر، خیال کو نکھار کر ایسی اصلاح دیتے کہ عام سے اشعار بھی پرکار ہوتے چلے جاتے۔ احمد بھائی کی سادگی، ظہیر بھائی کی شاعری اور فلک بھائی کے مشکل خیالات، جن کے ہر لفظ میں زندگی بولتی ہے۔ اور پھر قیصرانی بھائی جیسے شرارتی احباب جو طنز کو فن میں ڈھالتےا ور مذاق میں محبتیں بُنتے۔ فرحت سے سستی کے مقابلے بھی، جو وہ ہمیشہ اپنی چستی کی بدولت ہارتی رہیں۔ ہاں مقدس سے زیادہ نہیں بول پایا، اس کا قلق رہے گا۔
ملاقاتوں کے سلسلے بھی ہوئے۔ نبیل سے، زیک سے، قیصرانی بھائی، صائمہ شاہ، فلک شیر، راحیل فاروق، سید زبیر ، تلمیذ سر، فرخ، سید شہزاد ناصر، سید شاکر القادری، فاتح، عاطف بٹ، ساجد بھائی، پردیسی، فراز بھائی، الف نظامی، سعد، تابش، سعادت، ایم بلال، عباس اعوان، امجد میانداد، عاطف کریم، بھلکڑ، عاطف ملک اور حسن محمود جماعتی۔ تلمیذ سر اسلام آباد آئے تو ان کے اور سید زبیر دونوں کے ساتھ ملاقات کا موقع ملا۔ دونوں بزرگوں کی اس مجلس میں بھلے میری حثیت ایک سامع جتنی رہی ہو، پر سیکھنے کو بہت کچھ ملا۔ کچھ دن قبل سید زبیر سے فون پر بات کی تو وہ بہت سی دعاؤں سے نواز رہے تھے۔ اللہ تعالی ان کی صحت کے معاملات میں بہتری لائے۔ کئی محفلین سے ملاقات کی تمنا ہے جس میں کراچی والے تقریبا سبھی شامل ہیں۔کئی ایک سے کبھی ملاقات نہ ہوسکے گی۔ جیسے وارث بھائی۔ اللہ ان کے درجات بلند کرے۔ کتنوں سے دل کے رشتے جڑے، کچھ سے ملاقاتیں ہوئیں، کچھ ہمیشہ پردے کے اُس پار رہے، لیکن موجودگی سبھی کی محسوس ہوتی رہی، کبھی کسی پوسٹ کی شکل میں، کبھی تبصروں کی گونج میں اور کبھی اس خاموش یگانگت میں جو صرف اور صرف خلوص سے جنم لیتی ہے۔
محفل کا ہر دھاگہ ہر لڑی میرے لیے یادگار ہے۔ وہ جن میں حصہ لیا یا وہ جو میرے قیمتی تبصرہ جات سے محفوظ رہے۔ کسی نے غزل سنائی، کسی نے اصلاح مانگی، کسی نے اصلاح دی، کسی نے شعر سنایا، کسی نے تبصروں میں حصہ ڈالا، اور کسی نے فقط سلام کہا، لیکن ہر بار دل تک کچھ پہنچایا۔ ہر بار کچھ نیا سیکھا۔ کچھ بانٹا ، کچھ پایا۔
جب نبیل کی زبانی محفل کے بند ہونے کی خبر ملی ، تو دل کچھ ڈوب سا گیا۔ ایسے جیسے کچھ کھونے جا رہا ہے۔ ایسی بستی جس میں اتنے برس سانس لی، شور مچایا، اُدہم اٹھایا اب خاموشی کی چادر اوڑھنے جا رہی ہے۔ کچھ نامکمل باتیں، کچھ ادھورے مکالمے اور کچھ بےجواب دعائیں، سب وہیں رہ جائیں گے۔ ایسا لگتا ہے جیسے کوئی پرانے مکان کا آخری دروازہ بند کرنے والا ہے، وہ مکان جس کے اندر بیش قیمت یادیں ہیں، ہنسی ہے ، قہقہے ہیں، کچھ ان سنی باتیں اور کچھ ان کہے قصے قید ہیں۔
میں یقیناً دل گرفتہ ہوں، اداس ہوں، لیکن ایک احساسِ شکرگزاری بھی مجھے گھیرے ہے۔ کہ یہ دنیا مجھے ملی۔ میں اس داستاں کا حصہ رہا، حصہ بنا۔ مجھے اس دنیا کی سیر کا موقع ملا، جہاں بےغرضی ، خلوص اور محبت اپنی اصل حالت میں روشن ہے۔ مجھے ایسے لوگ ملے جنہوں نے لفظوں سے دل جوڑ دیے۔ شاید اب پوسٹس نہ آئیں، نئی لڑیاں نہ کھلیں، تبصرے نہ ہوں۔ احباب چونچیں نہ لڑائیں، لیکن جو چراغ اس محفل نے جلا دیے ہیں، وہ بہت سے دلوں کو روشن کرتے رہیں گے۔ یہ محفل بند بھی ہوجائے تو یہ چراغ تحریروں، جذبوں اور خلوص کی روشنیوں میں ہمیشہ جلتے رہیں گے۔ وہ دل جدھر جائیں گے، اپنی روشنی پھیلاتے رہیں گے۔ محفل مجھ سے رخصت نہیں لے سکتی ۔ میں محفل سے رخصت نہیں لوں گا، بس خاموش ہو جاؤں گا کیوں کہ میرا اس کا تعلق ایک احساس کا ہے، اور احساسات سے رخصت نہیں لی جا سکتی۔ ویب سائٹس بند ہو سکتی ہیں مگر احساسات زندہ رہتےہیں۔ میرے تعمیری سفر میں محفل کا جو حصہ ہے، وہ مستقبل میں بھی ان شاء اللہ میری تحریروں سے میری گفتگو سے چھلکتا رہے گا۔
نیرنگ خیال
21 جون 2025