الوداعی تقریب ہیں یہ سرگوشیاں در بہ در کو بہ کو تم کہاں جاؤ گے ہم کہاں جائیں گے از قلم نیرنگ خیال

نیرنگ خیال

لائبریرین
کچھ رشتے لفظوں کے نہیں، احساس سے جڑے ہوتے ہیں۔ کچھ محفلیں شور سے نہیں خاموشی سے بسا کرتی ہیں، اور کچھ سفر اختتام کو بھی پہنچ جائیں تو دل کے صفحے پر ان کی مسافت ہمیشہ تروتازہ رہتی ہے۔ جب میں نے اس محفل کی رکنیت اختیار کی تھی، تو شاید یہ بات وہم و گماں میں بھی نہ تھی کہ یہ تعلق اتنا گہرا ہوجائے گا۔ یہاں میں نے صرف اردو کے الفاظ نہیں سیکھے، بلکہ ان الفاظ کی تہذیب، نرمی اور ان کے مختلف رنگوں سے آشنا ہوا۔ یہاں صرف چھیڑ خانیاں نہیں کیں، بلکہ بین السطور توجہ، پیار اور محبت کو گُندھا پایا۔ میرا اردو محفل کا سفر بانیان محفل کی طرح تو نہیں ہے، کہ میں ایک صارف رہا، اور انتظامی امور سے لاپروا۔ بہرحال یہ سفر ایسا مختصر بھی نہیں ہے کہ میں اس کو چند لفظوں، چند جملوں اور لمحوں میں سمیٹ دوں۔ یہ میرے لیے یادوں کاایک خزانہ ہے۔ تحریر وں کی ایک تاریخ ، اور محفلین کے لفظوں میں رچی بسی محبت کی ایک داستاں ہے۔ محفل نے میرے لیے ایک ایسے آنگن کا کردار ادا کیا، جہاں میرے خیالات پروان چڑھتے، جذبات صفحہ قرطاس پر ابھرتے اور دل ہم نوا ہوجاتے تھے۔ میں نے لفظوں کو جڑنا سیکھا، جملوں سے دوستی کی اور خیالات کو تخلیق میں ڈھالنے کا ہنر پایا۔ (گو کہ ابھی بھی بہت ہی نکما ہوں، ظاہر ہے خداداد صلاحیت والوں سے کسی بھی قسم کا تقابل ممکن نہ ہے۔ ) بہت سی ایسی تحاریر ہیں، جو میں نے محض محفل کا ایڈیٹر کھول کر لکھیں، اور پھر شائع کر دیں۔ کبھی نظر ثانی کی، کبھی نہ کی۔ اور میری نظر ثانی کی اوقات ہی کیا۔ لیکن محفلین کی حوصلہ افزائی، داد اور کھلے دل سے سراہنے کی عادات نے میرے قلم کو حوصلہ دیا۔ یہ محفل میرے لفظوں کی گواہ بھی ہے اور ان کی پرورش کرنے والی بھی۔

ابھی کل کی بات ہے میں پائتھون کہانی لکھ رہا تھا۔محب بھائی کے مدرسے میں ، مقدس، میں، منا، احمد بھائی اور وہ پڑھاکو ننھی عائشہ۔۔۔ وہ صرف کمپیوٹر کی زبان سیکھنے کی داستاں نہ تھی، بلکہ محبت، شرارت، سیکھنے کی جستجو کا ایک منفرد انداز تھا۔ اس کہانی کا ہر کردار جیتا جاگتا سانس لیتا تھا۔ احمد بھائی کی کوئی غزل میرے ہاتھ آجاتی، تو میں لایعنیت کے سمندر کا شناور بن جاتا اور اس غزل کے وہ وہ مفاہیم بیان کرتا جو فلک کے اس پار اور اِدھر اُدھر سے دور پرے کہیں سمجھے نہیں سمجھ آتے تھے۔ شاید مجھ ایسے شارحین کے سبب ہی عرب نے مقولہ ایجاد کیا تھا کہ "ا لمعانی فی البطن الشاعر"۔ نیلم کی حکایتوں کا ریکارڈ لگانا بھی یہی شروع کیا۔ اور وہ آپ ایک دوسرے کو کتنا جانتے ہیں والے کھیل اور ان کی تیاریاں۔ ہوتے ہوتے میری ان حرکتوں کا شکار ظہیر بھائی بھی ہونا شروع ہوگئے۔ سب کتنا دلچسپ تھا، سب کتنا خوبصورت ہے۔ الف عین، محمد وارث اور یعقوب آسی جیسے اساتذہ، جو بلا غرض وقت نکال کر، الفاظ کو سنوار کر، خیال کو نکھار کر ایسی اصلاح دیتے کہ عام سے اشعار بھی پرکار ہوتے چلے جاتے۔ احمد بھائی کی سادگی، ظہیر بھائی کی شاعری اور فلک بھائی کے مشکل خیالات، جن کے ہر لفظ میں زندگی بولتی ہے۔ اور پھر قیصرانی بھائی جیسے شرارتی احباب جو طنز کو فن میں ڈھالتےا ور مذاق میں محبتیں بُنتے۔ فرحت سے سستی کے مقابلے بھی، جو وہ ہمیشہ اپنی چستی کی بدولت ہارتی رہیں۔ ہاں مقدس سے زیادہ نہیں بول پایا، اس کا قلق رہے گا۔

ملاقاتوں کے سلسلے بھی ہوئے۔ نبیل سے، زیک سے، قیصرانی بھائی، صائمہ شاہ، فلک شیر، راحیل فاروق، سید زبیر ، تلمیذ سر، فرخ، سید شہزاد ناصر، سید شاکر القادری، فاتح، عاطف بٹ، ساجد بھائی، پردیسی، فراز بھائی، الف نظامی، سعد، تابش، سعادت، ایم بلال، عباس اعوان، امجد میانداد، عاطف کریم، بھلکڑ، عاطف ملک اور حسن محمود جماعتی۔ تلمیذ سر اسلام آباد آئے تو ان کے اور سید زبیر دونوں کے ساتھ ملاقات کا موقع ملا۔ دونوں بزرگوں کی اس مجلس میں بھلے میری حثیت ایک سامع جتنی رہی ہو، پر سیکھنے کو بہت کچھ ملا۔ کچھ دن قبل سید زبیر سے فون پر بات کی تو وہ بہت سی دعاؤں سے نواز رہے تھے۔ اللہ تعالی ان کی صحت کے معاملات میں بہتری لائے۔ کئی محفلین سے ملاقات کی تمنا ہے جس میں کراچی والے تقریبا سبھی شامل ہیں۔کئی ایک سے کبھی ملاقات نہ ہوسکے گی۔ جیسے وارث بھائی۔ اللہ ان کے درجات بلند کرے۔ کتنوں سے دل کے رشتے جڑے، کچھ سے ملاقاتیں ہوئیں، کچھ ہمیشہ پردے کے اُس پار رہے، لیکن موجودگی سبھی کی محسوس ہوتی رہی، کبھی کسی پوسٹ کی شکل میں، کبھی تبصروں کی گونج میں اور کبھی اس خاموش یگانگت میں جو صرف اور صرف خلوص سے جنم لیتی ہے۔

محفل کا ہر دھاگہ ہر لڑی میرے لیے یادگار ہے۔ وہ جن میں حصہ لیا یا وہ جو میرے قیمتی تبصرہ جات سے محفوظ رہے۔ کسی نے غزل سنائی، کسی نے اصلاح مانگی، کسی نے اصلاح دی، کسی نے شعر سنایا، کسی نے تبصروں میں حصہ ڈالا، اور کسی نے فقط سلام کہا، لیکن ہر بار دل تک کچھ پہنچایا۔ ہر بار کچھ نیا سیکھا۔ کچھ بانٹا ، کچھ پایا۔

جب نبیل کی زبانی محفل کے بند ہونے کی خبر ملی ، تو دل کچھ ڈوب سا گیا۔ ایسے جیسے کچھ کھونے جا رہا ہے۔ ایسی بستی جس میں اتنے برس سانس لی، شور مچایا، اُدہم اٹھایا اب خاموشی کی چادر اوڑھنے جا رہی ہے۔ کچھ نامکمل باتیں، کچھ ادھورے مکالمے اور کچھ بےجواب دعائیں، سب وہیں رہ جائیں گے۔ ایسا لگتا ہے جیسے کوئی پرانے مکان کا آخری دروازہ بند کرنے والا ہے، وہ مکان جس کے اندر بیش قیمت یادیں ہیں، ہنسی ہے ، قہقہے ہیں، کچھ ان سنی باتیں اور کچھ ان کہے قصے قید ہیں۔

میں یقیناً دل گرفتہ ہوں، اداس ہوں، لیکن ایک احساسِ شکرگزاری بھی مجھے گھیرے ہے۔ کہ یہ دنیا مجھے ملی۔ میں اس داستاں کا حصہ رہا، حصہ بنا۔ مجھے اس دنیا کی سیر کا موقع ملا، جہاں بےغرضی ، خلوص اور محبت اپنی اصل حالت میں روشن ہے۔ مجھے ایسے لوگ ملے جنہوں نے لفظوں سے دل جوڑ دیے۔ شاید اب پوسٹس نہ آئیں، نئی لڑیاں نہ کھلیں، تبصرے نہ ہوں۔ احباب چونچیں نہ لڑائیں، لیکن جو چراغ اس محفل نے جلا دیے ہیں، وہ بہت سے دلوں کو روشن کرتے رہیں گے۔ یہ محفل بند بھی ہوجائے تو یہ چراغ تحریروں، جذبوں اور خلوص کی روشنیوں میں ہمیشہ جلتے رہیں گے۔ وہ دل جدھر جائیں گے، اپنی روشنی پھیلاتے رہیں گے۔ محفل مجھ سے رخصت نہیں لے سکتی ۔ میں محفل سے رخصت نہیں لوں گا، بس خاموش ہو جاؤں گا کیوں کہ میرا اس کا تعلق ایک احساس کا ہے، اور احساسات سے رخصت نہیں لی جا سکتی۔ ویب سائٹس بند ہو سکتی ہیں مگر احساسات زندہ رہتےہیں۔ میرے تعمیری سفر میں محفل کا جو حصہ ہے، وہ مستقبل میں بھی ان شاء اللہ میری تحریروں سے میری گفتگو سے چھلکتا رہے گا۔

نیرنگ خیال
21 جون 2025
 

محمداحمد

لائبریرین
کچھ رشتے لفظوں کے نہیں، احساس سے جڑے ہوتے ہیں۔ کچھ محفلیں شور سے نہیں خاموشی سے بسا کرتی ہیں، اور کچھ سفر اختتام کو بھی پہنچ جائیں تو دل کے صفحے پر ان کی مسافت ہمیشہ تروتازہ رہتی ہے۔ جب میں نے اس محفل کی رکنیت اختیار کی تھی، تو شاید یہ بات وہم و گماں میں بھی نہ تھی کہ یہ تعلق اتنا گہرا ہوجائے گا۔ یہاں میں نے صرف اردو کے الفاظ نہیں سیکھے، بلکہ ان الفاظ کی تہذیب، نرمی اور ان کے مختلف رنگوں سے آشنا ہوا۔ یہاں صرف چھیڑ خانیاں نہیں کیں، بلکہ بین السطور توجہ، پیار اور محبت کو گُندھا پایا۔ میرا اردو محفل کا سفر بانیان محفل کی طرح تو نہیں ہے، کہ میں ایک صارف رہا، اور انتظامی امور سے لاپروا۔ بہرحال یہ سفر ایسا مختصر بھی نہیں ہے کہ میں اس کو چند لفظوں، چند جملوں اور لمحوں میں سمیٹ دوں۔ یہ میرے لیے یادوں کاایک خزانہ ہے۔ تحریر وں کی ایک تاریخ ، اور محفلین کے لفظوں میں رچی بسی محبت کی ایک داستاں ہے۔ محفل نے میرے لیے ایک ایسے آنگن کا کردار ادا کیا، جہاں میرے خیالات پروان چڑھتے، جذبات صفحہ قرطاس پر ابھرتے اور دل ہم نوا ہوجاتے تھے۔ میں نے لفظوں کو جڑنا سیکھا، جملوں سے دوستی کی اور خیالات کو تخلیق میں ڈھالنے کا ہنر پایا۔ (گو کہ ابھی بھی بہت ہی نکما ہوں، ظاہر ہے خداداد صلاحیت والوں سے کسی بھی قسم کا تقابل ممکن نہ ہے۔ ) بہت سی ایسی تحاریر ہیں، جو میں نے محض محفل کا ایڈیٹر کھول کر لکھیں، اور پھر شائع کر دیں۔ کبھی نظر ثانی کی، کبھی نہ کی۔ اور میری نظر ثانی کی اوقات ہی کیا۔ لیکن محفلین کی حوصلہ افزائی، داد اور کھلے دل سے سراہنے کی عادات نے میرے قلم کو حوصلہ دیا۔ یہ محفل میرے لفظوں کی گواہ بھی ہے اور ان کی پرورش کرنے والی بھی۔

ابھی کل کی بات ہے میں پائتھون کہانی لکھ رہا تھا۔محب بھائی کے مدرسے میں ، مقدس، میں، منا، احمد بھائی اور وہ پڑھاکو ننھی عائشہ۔۔۔ وہ صرف کمپیوٹر کی زبان سیکھنے کی داستاں نہ تھی، بلکہ محبت، شرارت، سیکھنے کی جستجو کا ایک منفرد انداز تھا۔ اس کہانی کا ہر کردار جیتا جاگتا سانس لیتا تھا۔ احمد بھائی کی کوئی غزل میرے ہاتھ آجاتی، تو میں لایعنیت کے سمندر کا شناور بن جاتا اور اس غزل کے وہ وہ مفاہیم بیان کرتا جو فلک کے اس پار اور اِدھر اُدھر سے دور پرے کہیں سمجھے نہیں سمجھ آتے تھے۔ شاید مجھ ایسے شارحین کے سبب ہی عرب نے مقولہ ایجاد کیا تھا کہ "ا لمعانی فی البطن الشاعر"۔ نیلم کی حکایتوں کا ریکارڈ لگانا بھی یہی شروع کیا۔ اور وہ آپ ایک دوسرے کو کتنا جانتے ہیں والے کھیل اور ان کی تیاریاں۔ ہوتے ہوتے میری ان حرکتوں کا شکار ظہیر بھائی بھی ہونا شروع ہوگئے۔ سب کتنا دلچسپ تھا، سب کتنا خوبصورت ہے۔ الف عین، محمد وارث اور یعقوب آسی جیسے اساتذہ، جو بلا غرض وقت نکال کر، الفاظ کو سنوار کر، خیال کو نکھار کر ایسی اصلاح دیتے کہ عام سے اشعار بھی پرکار ہوتے چلے جاتے۔ احمد بھائی کی سادگی، ظہیر بھائی کی شاعری اور فلک بھائی کے مشکل خیالات، جن کے ہر لفظ میں زندگی بولتی ہے۔ اور پھر قیصرانی بھائی جیسے شرارتی احباب جو طنز کو فن میں ڈھالتےا ور مذاق میں محبتیں بُنتے۔ فرحت سے سستی کے مقابلے بھی، جو وہ ہمیشہ اپنی چستی کی بدولت ہارتی رہیں۔ ہاں مقدس سے زیادہ نہیں بول پایا، اس کا قلق رہے گا۔

ملاقاتوں کے سلسلے بھی ہوئے۔ نبیل سے، زیک سے، قیصرانی بھائی، صائمہ شاہ، فلک شیر، راحیل فاروق، سید زبیر ، تلمیذ سر، فرخ، سید شہزاد ناصر، سید شاکر القادری، فاتح، عاطف بٹ، ساجد بھائی، پردیسی، فراز بھائی، الف نظامی، سعد، تابش، سعادت، ایم بلال، عباس اعوان، امجد میانداد، عاطف کریم، بھلکڑ، عاطف ملک اور حسن محمود جماعتی۔ تلمیذ سر اسلام آباد آئے تو ان کے اور سید زبیر دونوں کے ساتھ ملاقات کا موقع ملا۔ دونوں بزرگوں کی اس مجلس میں بھلے میری حثیت ایک سامع جتنی رہی ہو، پر سیکھنے کو بہت کچھ ملا۔ کچھ دن قبل سید زبیر سے فون پر بات کی تو وہ بہت سی دعاؤں سے نواز رہے تھے۔ اللہ تعالی ان کی صحت کے معاملات میں بہتری لائے۔ کئی محفلین سے ملاقات کی تمنا ہے جس میں کراچی والے تقریبا سبھی شامل ہیں۔کئی ایک سے کبھی ملاقات نہ ہوسکے گی۔ جیسے وارث بھائی۔ اللہ ان کے درجات بلند کرے۔ کتنوں سے دل کے رشتے جڑے، کچھ سے ملاقاتیں ہوئیں، کچھ ہمیشہ پردے کے اُس پار رہے، لیکن موجودگی سبھی کی محسوس ہوتی رہی، کبھی کسی پوسٹ کی شکل میں، کبھی تبصروں کی گونج میں اور کبھی اس خاموش یگانگت میں جو صرف اور صرف خلوص سے جنم لیتی ہے۔

محفل کا ہر دھاگہ ہر لڑی میرے لیے یادگار ہے۔ وہ جن میں حصہ لیا یا وہ جو میرے قیمتی تبصرہ جات سے محفوظ رہے۔ کسی نے غزل سنائی، کسی نے اصلاح مانگی، کسی نے اصلاح دی، کسی نے شعر سنایا، کسی نے تبصروں میں حصہ ڈالا، اور کسی نے فقط سلام کہا، لیکن ہر بار دل تک کچھ پہنچایا۔ ہر بار کچھ نیا سیکھا۔ کچھ بانٹا ، کچھ پایا۔

جب نبیل کی زبانی محفل کے بند ہونے کی خبر ملی ، تو دل کچھ ڈوب سا گیا۔ ایسے جیسے کچھ کھونے جا رہا ہے۔ ایسی بستی جس میں اتنے برس سانس لی، شور مچایا، اُدہم اٹھایا اب خاموشی کی چادر اوڑھنے جا رہی ہے۔ کچھ نامکمل باتیں، کچھ ادھورے مکالمے اور کچھ بےجواب دعائیں، سب وہیں رہ جائیں گے۔ ایسا لگتا ہے جیسے کوئی پرانے مکان کا آخری دروازہ بند کرنے والا ہے، وہ مکان جس کے اندر بیش قیمت یادیں ہیں، ہنسی ہے ، قہقہے ہیں، کچھ ان سنی باتیں اور کچھ ان کہے قصے قید ہیں۔

میں یقیناً دل گرفتہ ہوں، اداس ہوں، لیکن ایک احساسِ شکرگزاری بھی مجھے گھیرے ہے۔ کہ یہ دنیا مجھے ملی۔ میں اس داستاں کا حصہ رہا، حصہ بنا۔ مجھے اس دنیا کی سیر کا موقع ملا، جہاں بےغرضی ، خلوص اور محبت اپنی اصل حالت میں روشن ہے۔ مجھے ایسے لوگ ملے جنہوں نے لفظوں سے دل جوڑ دیے۔ شاید اب پوسٹس نہ آئیں، نئی لڑیاں نہ کھلیں، تبصرے نہ ہوں۔ احباب چونچیں نہ لڑائیں، لیکن جو چراغ اس محفل نے جلا دیے ہیں، وہ بہت سے دلوں کو روشن کرتے رہیں گے۔ یہ محفل بند بھی ہوجائے تو یہ چراغ تحریروں، جذبوں اور خلوص کی روشنیوں میں ہمیشہ جلتے رہیں گے۔ وہ دل جدھر جائیں گے، اپنی روشنی پھیلاتے رہیں گے۔ محفل مجھ سے رخصت نہیں لے سکتی ۔ میں محفل سے رخصت نہیں لوں گا، بس خاموش ہو جاؤں گا کیوں کہ میرا اس کا تعلق ایک احساس کا ہے، اور احساسات سے رخصت نہیں لی جا سکتی۔ ویب سائٹس بند ہو سکتی ہیں مگر احساسات زندہ رہتےہیں۔ میرے تعمیری سفر میں محفل کا جو حصہ ہے، وہ مستقبل میں بھی ان شاء اللہ میری تحریروں سے میری گفتگو سے چھلکتا رہے گا۔

نیرنگ خیال
21 جون 2025
واہ!

لگتا ہے کہ آپ جامِ جمشید لیے بیٹھے ہیں اور ماضی کے دنوں کی پرتوں پر پرتیں کھولتے جا رہے ہیں، میں نم آنکھوں سے سب دیکھ رہا ہوں۔ کبھی مسکرا رہا ہوں۔ کبھی مطمین اور کبھی مضطرب ہوں۔ ایک جہان ہے اس تحریر میں۔ ایک ذرا سی تحریر میں برسوں کی عکس بندی کر دی آپ نے۔ بہت ہی خوب لکھا۔ بلکہ میرے دل کی ترجمانی کی۔ میں تو کافی دنوں سے کچھ نہ کچھ لکھنا چاہ رہا ہوں۔ لیکن نہیں لکھ پایا۔ لکھ بھی لیتا تو اتنا اچھا نہیں لکھ پاتا۔ ❤️

محفل ہم سب کے لئے وہ ہے کہ اس کا بدل شاید ہمیں زندگی میں کبھی نہ مل سکے۔ لیکن محفل سے جو کچھ ہمیں ملا ہے اس کا بدلہ بھی ہم چاہیں تو شاید کبھی نہ دے سکیں۔ ❤️❤️❤️
 

سیما علی

لائبریرین
اردو کے الفاظ نہیں سیکھے، بلکہ ان الفاظ کی تہذیب، نرمی اور ان کے مختلف رنگوں سے آشنا ہوا۔ یہاں صرف چھیڑ خانیاں نہیں کیں، بلکہ بین السطور توجہ، پیار اور محبت کو گُندھا پایا۔
بہت خوبصورت انداز میں اپنے الفاظ میں سادگی سے کہہ دیا
جو ہم سب کے دلوں کی تر جمان ہے
ایک ایک لفظ محبت سے گندھا ہے ۔
جیتے رہیے بہت کم لوگ زندگی میں ایسے ہوتے ہیں جن سے رشتہ یوں جڑ جاتا ہے جیسے وہ ہمارے سگے اور قریب ترین ہوں اور یہ ہیں احساس کے رشتے جو واقعی محبت سے جُڑے ہیں اور انکی وجہ محفل ہے جس نے ہمیں جوڑا
اور یہ رشتے یونہی جُڑے رہیں گے ۔۔۔
ان شاء اللہ
 

ظہیراحمدظہیر

لائبریرین
ہزار رنگ ہیں بجھتے دیے کی تابش میں

نیرنگِ خیال ہر سال کے پہلے روز ایک سنجیدہ تحریر لکھ کر قارئین کو دلاسا دیا کرتے ہیں کہ ابھی ان کے قلم کی روشنائی میں سنجیدگی کا کچھ لہو باقی ہے۔ معاشرے میں ناسور کی طرح پھیلی بدعنوانی ہو یا گھُن کی کی طرح اندر ہی اندر کھاتے ہوئے اخلاقی مسائل یا مادیت کا وہ عفریت کہ جو ہمیں ہماری تہذیب و ثقافت سمیت مسلسل نگلتا جا رہا ہے، ان کا قلم پہلی جنوری کی صبح انگڑائی لے کر نیم وا آنکھوں سے اس ساری صورتحال کو دیکھتا ہے اور پھر سچ اگلنا شروع کر دیتا ہے۔ شرافت اور ہمدردی کے عدسے سے اپنے ماحول کا جائزہ لیتے ہوئے وہ ان حقیقتوں کی تہہ میں پوشیدہ کچھ وجوہات کو بے نقاب کرتے ہیں اور پھر کوشش کرتے ہیں کہ کچھ زخموں پر امید و رجا کے پھائے رکھ دیے جائیں۔ کچھ مرہمِ محبت و اخوت بہم پہنچایا جائے کہ شاید کسی دکھتے دل کو تسلی دے سکے۔ سسکتی ہوئی انسانیت کو شاید کچھ دیر کے لیے امید کی کوئی کرن نظر آجائے!
قارئینِ کرام ، اگر آپ میری اب تک کی اس تحریر سے متفق ہیں تو جان لیجیے کہ آپ بھی میری طرح بیوقوف بن گئے۔ بنانے کا یہ کام ذوالقرنین المعروف بہ نیرنگِ خیال ایک عرصے سے بہت کامیابی سے کرتے آ رہے ہیں۔یکم جنوری کو ہونے والی اس سالانہ ملاقات میں قارئین کو فلسفیانہ بھاشن اور محترمہ سنجیدگی کو سال بھر کا راشن دینے کے بعد بقیہ تین سو چونسٹھ دنوں میں ان کی نوکِ قلم سے پھلجھڑیوں کے علاوہ شاید ہی کبھی کچھ دیکھنے کو ملتا ہے۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ یہ سب کچھ ایک اسموک اسکرین ہے کہ جس کے پیچھے وہ اپنے آپ کو کسی پراسرار ننجا کی طرح چھپائے رکھتے ہیں تاکہ عین کسی موقع پر یک لخت نمودار ہو کر سب کو حیران کر دیں۔
اور آج انہوں نے ایسا ہی کیا ہے!
جاننے والے جانتے ہیں کہ ہر پردۂ تبسم میں ایک دکھ اور ہر خندۂ پرشور کے لبادے میں ایک نالۂ خاموش چھپا ہوتا ہے۔ اپنی جذباتیت اور حساسیت کا وہ رنگ جو وہ خندۂ جا و بیجا کی اسکرین میں سال بھر چھپائے پھرتے ہیں اس الوداعی تحریر میں بے لبادہ سامنے آگیا ہے۔ نیرنگِ خیال کی یہ تحریر سب رنگیِ خیال سے جگمگا رہی ہے۔ اس تحریر پر متفق ، پسندیدہ ، زبردست یا ماورائے زبردست اگر کوئی ریٹنگ ہے تو وہ میں دے سکتا ہوں لیکن اس تحریر پر کوئی تبصرہ میرے خیال کی قوت اور قلم کی استطاعت سے باہر ہے۔ ویسے بھی احمد بھائی اوپر اپنے مراسلے میں بہت جامع انداز میں میری ترجمانی کر چکے۔ ان کا بہت شکریہ!
اردو محفل کے اس دشتِ طلسمات میں ذوالقرنین اور احمد بھائی کا سفر مجھ سے کہیں زیادہ طویل ہے۔ انہوں نےاس محفلِ ہفت رنگ کا وہ سنہری دور بھی دیکھا ہے کہ جب لکھنے والوں کے مراسلات پر پچاس ساٹھ پڑھنے والوں کی مہریں عام ثبت ہوا کرتی تھیں۔ نہ صرف انہوں نے وہ دور دیکھا ہے بلکہ اس کی رنگا رنگی میں اضافے کا باعث بھی رہے ہیں۔ ذوالقرنین کی بعض تحریریں محفل کی سب سے زیادہ پڑھی جانے والی تحاریر میں سے ایک ہیں۔ مجھے کبھی کبھی ذوالقرنین اور احمد بھائی پر رشک آتا ہے کہ وہ مجھ سے بہت پہلے یہ بزم آرائی دریافت کر بیٹھے اور اُس صحبتِ صد نابغانِ علم وہنر کا حصہ رہے کہ جو اس محفل کا ایک لازوال ورثہ ہے۔
اگرچہ آج یکم جنوری نہیں ہے لیکن نیرنگِ خیال نے اپنی اس تحریر میں حسبِ معمول ان خاموش محفلین اور قارئین کی جامع انداز میں نمائندگی کی ہے کہ جو اس الوداع کے موقع پر دل گیر و دل گرفتہ ہیں ، اپنے احساسات و جذبات کا اظہار کرنا چاہتے ہیں لیکن اپنے رنجیدہ قلم میں کماحقہ اظہار کی ہمت اور طاقت نہیں پاتے۔ میں سمجھتا ہوں کہ اگر ذوالقرنین یہ رخصت نامہ نہ لکھتا تو شاید خود بھی دیر تک ایک تشنگی کا احساس لیے رہتا اور محفل کی یہ الوداعی تقریب بھی نامکمل رہتی!
الوداع کے اس موقع پر مختلف قسم کی تحاریر لکھی جارہی ہیں۔ کہیں غم و اندوہ کےاشک ہیں تو کہیں ذکرِ رفتگاں کےپھول۔ کوئی تحریرپر شکوہ ماضی کا نوحہ بیان کرتی نظر آتی ہے تو کسی میں آئندہ کے لیے امید اور حوصلہ مندی کا سخن سجا ہوا ہے ، نئی منزلوں کی نوید ہے۔
خمارِ شام ، غمِ تیرگی ، امیدِ سحر
ہزار رنگ ہیں بجھتے دیے کی تابش میں
یہ سب باتیں اپنی جگہ درست لیکن اس میں قطعی کوئی شک نہیں کہ اس بے مثال بزم کا نہ کوئی ثانی رہا ہے اور نہ ہو سکے گا۔ نیرنگ نے اپنی تحریر کے عنوان میں جو سوال اٹھایا ہے وہ زیرِ لب سبھی کا مشترکہ استفسار ہے۔ آپ ، میں اور نیرنگ ۔ ۔ ۔ ہم سب اس محفل کی بساط لپٹنے کے بعد کہیں بھی جائیں ، کہیں بھی ڈیرا ڈالیں جب جب یہ محفل یاد آئے گی یقیناً ہر دل سے یہی آواز نکلے گی۔
ملتی نہیں کہیں بھی سوائے خیال کے
اٹھے ہیں ایسی صحبتِ نایاب چھوڑ کو
 
آخری تدوین:

محمداحمد

لائبریرین
ہزار رنگ ہیں بجھتے دیے کی تابش میں

نیرنگِ خیال ہر سال کے پہلے روز ایک سنجیدہ تحریر لکھ کر قارئین کو دلاسا دیا کرتے ہیں کہ ابھی ان کے قلم کی روشنائی میں سنجیدگی کا کچھ لہو باقی ہے۔ معاشرے میں ناسور کی طرح پھیلی بدعنوانی ہو یا گھُن کی کی طرح اندر ہی اندر کھاتے ہوئے اخلاقی مسائل یا مادیت کا وہ عفریت کہ جو ہمیں ہماری تہذیب و ثقافت سمیت مسلسل نگلتا جا رہا ہے، ان کا قلم پہلی جنوری کی صبح انگڑائی لے کر نیم وا آنکھوں سے اس ساری صورتحال کو دیکھتا ہے اور پھر سچ اگلنا شروع کر دیتا ہے۔ شرافت اور ہمدردی کے عدسے سے اپنے ماحول کا جائزہ لیتے ہوئے وہ ان حقیقتوں کی تہہ میں پوشیدہ کچھ وجوہات کو بے نقاب کرتا ہے اور پھر کوشش کرتا ہے کہ کچھ زخموں پر امید و رجا کے پھائے رکھ دیے جائیں۔ کچھ مرہمِ محبت و اخوت بہم پہنچایا جائے کہ شاید کسی دکھتے دل کو تسلی دے سکے۔ سسکتی ہوئی انسانیت کو شاید کچھ دیر کے لیے امید کی کوئی کرن نظر آجائے!
قارئینِ کرام ، اگر آپ میری اب تک کی اس تحریر سے متفق ہیں تو جان لیجیے کہ آپ بھی میری طرح بیوقوف بن گئے۔ بنانے کا یہ کام ذوالقرنین المعروف بہ نیرنگِ خیال ایک عرصے سے بہت کامیابی سے کرتے آ رہے ہیں۔یکم جنوری کو ہونے والی اس سالانہ ملاقات میں قارئین کو فلسفیانہ بھاشن اور محترمہ سنجیدگی کو سال بھر کا راشن دینے کے بعد بقیہ تین سو چونسٹھ دنوں میں ان کی نوکِ قلم سے پھلجھڑیوں کے علاوہ شاید ہی کبھی کچھ دیکھنے کو ملتا ہے۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ یہ سب کچھ ایک اسموک اسکرین ہے کہ جس کے پیچھے وہ اپنے آپ کو کسی پراسرار ننجا کی طرح چھپائے رکھتے ہیں تاکہ عین کسی موقع پر یک لخت نمودار ہو کر سب کو حیران کر دیں۔
اور آج انہوں نے ایسا ہی کیا ہے!
جاننے والے جانتے ہیں کہ ہر پردۂ تبسم میں ایک دکھ اور ہر خندۂ پرشور کے لبادے میں ایک نالۂ خاموش چھپا ہوتا ہے۔ اپنی جذباتیت اور حساسیت کا وہ رنگ جو وہ خندۂ جا و بیجا کی اسکرین میں سال بھر چھپائے پھرتے ہیں اس الوداعی تحریر میں بے لبادہ سامنے آگیا ہے۔ نیرنگِ خیال کی یہ تحریر سب رنگیِ خیال سے جگمگا رہی ہے۔ اس تحریر پر متفق ، پسندیدہ ، زبردست یا ماورائے زبردست اگر کوئی ریٹنگ ہے تو وہ میں دے سکتا ہوں لیکن اس تحریر پر کوئی تبصرہ میرے خیال کی قوت اور قلم کی استطاعت سے باہر ہے۔ ویسے بھی احمد بھائی اوپر اپنے مراسلے میں بہت جامع انداز میں میری ترجمانی کر چکے۔ ان کا بہت شکریہ!
اردو محفل کے اس دشتِ طلسمات میں ذوالقرنین اور احمد بھائی کا سفر مجھ سے کہیں زیادہ طویل ہے۔ انہوں نےاس محفلِ ہفت رنگ کا وہ سنہری دور بھی دیکھا ہے کہ جب لکھنے والوں کے مراسلات پر پچاس ساٹھ پڑھنے والوں کی مہریں عام ثبت ہوا کرتی تھیں۔ نہ صرف انہوں نے وہ دور دیکھا ہے بلکہ اس کی رنگا رنگی میں اضافے کا باعث بھی رہے ہیں۔ ذوالقرنین کی بعض تحریریں محفل کی سب سے زیادہ پڑھی جانے والی تحاریر میں سے ایک ہیں۔ مجھے کبھی کبھی ذوالقرنین اور احمد بھائی پر رشک آتا ہے کہ وہ مجھ سے بہت پہلے یہ بزم آرائی دریافت کر بیٹھے اور اُس صحبتِ صد نابغانِ علم وہنر کا حصہ رہے کہ جو اس محفل کا ایک لازوال ورثہ ہے۔
اگرچہ آج یکم جنوری نہیں ہے لیکن نیرنگِ خیال نے اپنی اس تحریر میں حسبِ معمول ان خاموش محفلین اور قارئین کی جامع انداز میں نمائندگی کی ہے کہ جو اس الوداع کے موقع پر دل گیر و دل گرفتہ ہیں ، اپنے احساسات و جذبات کا اظہار کرنا چاہتے ہیں لیکن اپنے رنجیدہ قلم میں کماحقہ اظہار کی ہمت اور طاقت نہیں پاتے۔ میں سمجھتا ہوں کہ اگر ذوالقرنین یہ رخصت نامہ نہ لکھتا تو شاید خود بھی دیر تک ایک تشنگی کا احساس لیے رہتا اور محفل کی یہ الوداعی تقریب بھی نامکمل رہتی!
الوداع کے اس موقع پر مختلف قسم کی تحاریر لکھی جارہی ہیں۔ کہیں غم و اندوہ اشکے ہیں تو کہیں ذکرِ رفتگاں کےپھول۔ کوئی تحریر شکوہ ماضی کا نوحہ بیان کرتی نظر آتی ہے تو کسی میں آئندہ کے لیے امید اور حوصلہ مندی کا سخن سجا ہوا ہے ، نئی منزلوں کی نوید ہے۔
خمارِ شام ، غمِ تیرگی ، امیدِ سحر
ہزار رنگ ہیں بجھتے دیے کی تابش میں
یہ سب باتیں اپنی جگہ درست لیکن اس میں قطعی کوئی شک نہیں کہ اس بے مثال بزم کا نہ کوئی ثانی رہا ہے اور نہ ہو سکے گا۔ نیرنگ نے اپنی تحریر کے عنوان میں جو سوال اٹھایا ہے وہ زیرِ لب سبھی کا مشترکہ استفسار ہے۔ آپ ، میں اور نیرنگ ۔ ۔ ۔ ہم سب اس محفل کی بساط لپٹنے کے بعد کہیں بھی جائیں ، کہیں بھی ڈیرا ڈالیں جب جب یہ محفل یاد آئے گی یقیناً ہر دل سے یہی آواز نکلے گی۔
ملتی نہیں کہیں بھی سوائے خیال کے
اٹھے ہیں ایسی صحبتِ نایاب چھوڑ کو
اللہ اللہ !

ایک ہی دن میں ایسی ایسی تحریریں پڑھنا کہ کلیجہ منہ کو آنے لگے اور آنکھوں کے سامنے اسکرین دھندلانے لگے۔ دل تو یہی چاہتا ہے کہ کہوں:

آ عندلیب مل کے کریں آہ و زاریاں
تو ہائے گل پکار میں چلاؤں ہائے دل

بلکہ شاید یہی ہم سب کر رہے ہیں۔ تاہم میرے پاس تو الفاظ تک نہیں ہیں کہ میں اپنے جذبات کا اظہار کر سکوں۔ جس روز سے آپ نے "چند پھول تشکر کے" لکھی ہے۔ تب سے ہی میں سوچ رہا ہوں کہ میں بھی کچھ لکھوں۔ لیکن کچھ لکھنے کی ہمت نہیں ہو رہی۔ بس دل کو یہ اطمینان ہے کہ یاروں کے قلم سے ہی سہی لیکن میرے دل کی ترجمانی بہرکیف ہو رہی ہے۔ ❤️

اللہ اس محفل والوں کو ہمیشہ شاد آباد رکھے۔ ❤️❤️❤️
 

نیرنگ خیال

لائبریرین
واہ!

لگتا ہے کہ آپ جامِ جمشید لیے بیٹھے ہیں اور ماضی کے دنوں کی پرتوں پر پرتیں کھولتے جا رہے ہیں، میں نم آنکھوں سے سب دیکھ رہا ہوں۔ کبھی مسکرا رہا ہوں۔ کبھی مطمین اور کبھی مضطرب ہوں۔ ایک جہان ہے اس تحریر میں۔ ایک ذرا سی تحریر میں برسوں کی عکس بندی کر دی آپ نے۔ بہت ہی خوب لکھا۔ بلکہ میرے دل کی ترجمانی کی۔ میں تو کافی دنوں سے کچھ نہ کچھ لکھنا چاہ رہا ہوں۔ لیکن نہیں لکھ پایا۔ لکھ بھی لیتا تو اتنا اچھا نہیں لکھ پاتا۔ ❤️

محفل ہم سب کے لئے وہ ہے کہ اس کا بدل شاید ہمیں زندگی میں کبھی نہ مل سکے۔ لیکن محفل سے جو کچھ ہمیں ملا ہے اس کا بدلہ بھی ہم چاہیں تو شاید کبھی نہ دے سکیں۔ ❤️❤️❤️
احمد بھائی۔۔۔۔۔ :in-love:
احمد بھائی آپ کتنی انکساری سے کہتے ہیں کہ ایسا اچھا نہ لکھ پاتا۔۔۔ اور میں واقعتاً کسی بچے کی طرح خوش ہوجاتا ہوں۔۔۔۔
 

نیرنگ خیال

لائبریرین
بہت خوبصورت انداز میں اپنے الفاظ میں سادگی سے کہہ دیا
جو ہم سب کے دلوں کی تر جمان ہے
ایک ایک لفظ محبت سے گندھا ہے ۔
جیتے رہیے بہت کم لوگ زندگی میں ایسے ہوتے ہیں جن سے رشتہ یوں جڑ جاتا ہے جیسے وہ ہمارے سگے اور قریب ترین ہوں اور یہ ہیں احساس کے رشتے جو واقعی محبت سے جُڑے ہیں اور انکی وجہ محفل ہے جس نے ہمیں جوڑا
اور یہ رشتے یونہی جُڑے رہیں گے ۔۔۔
ان شاء اللہ
سچ کہا آپا۔۔۔۔ بالکل سچ۔۔۔۔
 

نیرنگ خیال

لائبریرین
ہزار رنگ ہیں بجھتے دیے کی تابش میں

نیرنگِ خیال ہر سال کے پہلے روز ایک سنجیدہ تحریر لکھ کر قارئین کو دلاسا دیا کرتے ہیں کہ ابھی ان کے قلم کی روشنائی میں سنجیدگی کا کچھ لہو باقی ہے۔ معاشرے میں ناسور کی طرح پھیلی بدعنوانی ہو یا گھُن کی کی طرح اندر ہی اندر کھاتے ہوئے اخلاقی مسائل یا مادیت کا وہ عفریت کہ جو ہمیں ہماری تہذیب و ثقافت سمیت مسلسل نگلتا جا رہا ہے، ان کا قلم پہلی جنوری کی صبح انگڑائی لے کر نیم وا آنکھوں سے اس ساری صورتحال کو دیکھتا ہے اور پھر سچ اگلنا شروع کر دیتا ہے۔ شرافت اور ہمدردی کے عدسے سے اپنے ماحول کا جائزہ لیتے ہوئے وہ ان حقیقتوں کی تہہ میں پوشیدہ کچھ وجوہات کو بے نقاب کرتے ہیں اور پھر کوشش کرتے ہیں کہ کچھ زخموں پر امید و رجا کے پھائے رکھ دیے جائیں۔ کچھ مرہمِ محبت و اخوت بہم پہنچایا جائے کہ شاید کسی دکھتے دل کو تسلی دے سکے۔ سسکتی ہوئی انسانیت کو شاید کچھ دیر کے لیے امید کی کوئی کرن نظر آجائے!
قارئینِ کرام ، اگر آپ میری اب تک کی اس تحریر سے متفق ہیں تو جان لیجیے کہ آپ بھی میری طرح بیوقوف بن گئے۔ بنانے کا یہ کام ذوالقرنین المعروف بہ نیرنگِ خیال ایک عرصے سے بہت کامیابی سے کرتے آ رہے ہیں۔یکم جنوری کو ہونے والی اس سالانہ ملاقات میں قارئین کو فلسفیانہ بھاشن اور محترمہ سنجیدگی کو سال بھر کا راشن دینے کے بعد بقیہ تین سو چونسٹھ دنوں میں ان کی نوکِ قلم سے پھلجھڑیوں کے علاوہ شاید ہی کبھی کچھ دیکھنے کو ملتا ہے۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ یہ سب کچھ ایک اسموک اسکرین ہے کہ جس کے پیچھے وہ اپنے آپ کو کسی پراسرار ننجا کی طرح چھپائے رکھتے ہیں تاکہ عین کسی موقع پر یک لخت نمودار ہو کر سب کو حیران کر دیں۔
اور آج انہوں نے ایسا ہی کیا ہے!
جاننے والے جانتے ہیں کہ ہر پردۂ تبسم میں ایک دکھ اور ہر خندۂ پرشور کے لبادے میں ایک نالۂ خاموش چھپا ہوتا ہے۔ اپنی جذباتیت اور حساسیت کا وہ رنگ جو وہ خندۂ جا و بیجا کی اسکرین میں سال بھر چھپائے پھرتے ہیں اس الوداعی تحریر میں بے لبادہ سامنے آگیا ہے۔ نیرنگِ خیال کی یہ تحریر سب رنگیِ خیال سے جگمگا رہی ہے۔ اس تحریر پر متفق ، پسندیدہ ، زبردست یا ماورائے زبردست اگر کوئی ریٹنگ ہے تو وہ میں دے سکتا ہوں لیکن اس تحریر پر کوئی تبصرہ میرے خیال کی قوت اور قلم کی استطاعت سے باہر ہے۔ ویسے بھی احمد بھائی اوپر اپنے مراسلے میں بہت جامع انداز میں میری ترجمانی کر چکے۔ ان کا بہت شکریہ!
اردو محفل کے اس دشتِ طلسمات میں ذوالقرنین اور احمد بھائی کا سفر مجھ سے کہیں زیادہ طویل ہے۔ انہوں نےاس محفلِ ہفت رنگ کا وہ سنہری دور بھی دیکھا ہے کہ جب لکھنے والوں کے مراسلات پر پچاس ساٹھ پڑھنے والوں کی مہریں عام ثبت ہوا کرتی تھیں۔ نہ صرف انہوں نے وہ دور دیکھا ہے بلکہ اس کی رنگا رنگی میں اضافے کا باعث بھی رہے ہیں۔ ذوالقرنین کی بعض تحریریں محفل کی سب سے زیادہ پڑھی جانے والی تحاریر میں سے ایک ہیں۔ مجھے کبھی کبھی ذوالقرنین اور احمد بھائی پر رشک آتا ہے کہ وہ مجھ سے بہت پہلے یہ بزم آرائی دریافت کر بیٹھے اور اُس صحبتِ صد نابغانِ علم وہنر کا حصہ رہے کہ جو اس محفل کا ایک لازوال ورثہ ہے۔
اگرچہ آج یکم جنوری نہیں ہے لیکن نیرنگِ خیال نے اپنی اس تحریر میں حسبِ معمول ان خاموش محفلین اور قارئین کی جامع انداز میں نمائندگی کی ہے کہ جو اس الوداع کے موقع پر دل گیر و دل گرفتہ ہیں ، اپنے احساسات و جذبات کا اظہار کرنا چاہتے ہیں لیکن اپنے رنجیدہ قلم میں کماحقہ اظہار کی ہمت اور طاقت نہیں پاتے۔ میں سمجھتا ہوں کہ اگر ذوالقرنین یہ رخصت نامہ نہ لکھتا تو شاید خود بھی دیر تک ایک تشنگی کا احساس لیے رہتا اور محفل کی یہ الوداعی تقریب بھی نامکمل رہتی!
الوداع کے اس موقع پر مختلف قسم کی تحاریر لکھی جارہی ہیں۔ کہیں غم و اندوہ کےاشک ہیں تو کہیں ذکرِ رفتگاں کےپھول۔ کوئی تحریرپر شکوہ ماضی کا نوحہ بیان کرتی نظر آتی ہے تو کسی میں آئندہ کے لیے امید اور حوصلہ مندی کا سخن سجا ہوا ہے ، نئی منزلوں کی نوید ہے۔
خمارِ شام ، غمِ تیرگی ، امیدِ سحر
ہزار رنگ ہیں بجھتے دیے کی تابش میں
یہ سب باتیں اپنی جگہ درست لیکن اس میں قطعی کوئی شک نہیں کہ اس بے مثال بزم کا نہ کوئی ثانی رہا ہے اور نہ ہو سکے گا۔ نیرنگ نے اپنی تحریر کے عنوان میں جو سوال اٹھایا ہے وہ زیرِ لب سبھی کا مشترکہ استفسار ہے۔ آپ ، میں اور نیرنگ ۔ ۔ ۔ ہم سب اس محفل کی بساط لپٹنے کے بعد کہیں بھی جائیں ، کہیں بھی ڈیرا ڈالیں جب جب یہ محفل یاد آئے گی یقیناً ہر دل سے یہی آواز نکلے گی۔
ملتی نہیں کہیں بھی سوائے خیال کے
اٹھے ہیں ایسی صحبتِ نایاب چھوڑ کو
ظہیر بھائی جذباتی کر دیا آپ نے۔۔۔۔ میں ہرگز ایسا نہیں ہوں۔۔۔ خدائے بزرگ و برتر سے گزارش ہے کہ مجھے آپ کے حسن گماں جیسا بنا دے۔۔۔۔ یعقوب آسی صاحب کا ایک شعر تھا
کم مائیگی حرف تشکر مجھے بتلا
یہ قرض محبت کے ادا ہو بھی سکیں گے

یقینا نہیں ہو سکتے۔۔۔ اشعار بہت خوبصورت ہے۔۔۔ یقیناً یہ تحریر میرے دل کی آواز ہے ۔۔۔۔ اور محفل کے بارے میں جو کچھ کہا۔۔۔ حق کہا۔۔۔۔ ظہیر بھائی۔۔۔۔۔ظہیر بھائی۔۔۔۔۔
 

نیرنگ خیال

لائبریرین
اللہ اللہ !

ایک ہی دن میں ایسی ایسی تحریریں پڑھنا کہ کلیجہ منہ کو آنے لگے اور آنکھوں کے سامنے اسکرین دھندلانے لگے۔ دل تو یہی چاہتا ہے کہ کہوں:

آ عندلیب مل کے کریں آہ و زاریاں
تو ہائے گل پکار میں چلاؤں ہائے دل

بلکہ شاید یہی ہم سب کر رہے ہیں۔ تاہم میرے پاس تو الفاظ تک نہیں ہیں کہ میں اپنے جذبات کا اظہار کر سکوں۔ جس روز سے آپ نے "چند پھول تشکر کے" لکھی ہے۔ تب سے ہی میں سوچ رہا ہوں کہ میں بھی کچھ لکھوں۔ لیکن کچھ لکھنے کی ہمت نہیں ہو رہی۔ بس دل کو یہ اطمینان ہے کہ یاروں کے قلم سے ہی سہی لیکن میرے دل کی ترجمانی بہرکیف ہو رہی ہے۔ ❤️

اللہ اس محفل والوں کو ہمیشہ شاد آباد رکھے۔ ❤️❤️❤️
بس آپ تحریر لکھ کر میرے اور ظہیر بھائی کے دانت کھٹے کر دیں۔۔۔۔۔ جلدی لکھیں۔۔۔۔
 

محمداحمد

لائبریرین
بہتر ہے کہ بڑی بڑی بالٹیاں ہوں تاکہ باقی محفلین بھی مستفید ہوں۔
یعنی نین بھائی کے فارمولے کے مطابق آپ تمام محفلین کے دانت کھٹے کروانا چاہ رہی ہیں۔ :ROFLMAO:

یہ کام نین بھائی یا ظہیر بھائی ہی کر سکتے ہیں۔ :)

ایں "سعادت" بزورِ بازوئے احمد نیست :) :)
 

نیرنگ خیال

لائبریرین
اس سے بہتر ہے میں آپ دونوں کے لئے سکنجبین کا انتظام کر دوں۔ :)
واہ واہ ۔۔۔۔ کیا ہی خوبصورت خیال ہے۔۔۔ لوگ شوق شوق میں دانت کھٹے کروائیں۔۔۔

بہتر ہے کہ بڑی بڑی بالٹیاں ہوں تاکہ باقی محفلین بھی مستفید ہوں۔
اُدھر بات ہوئی نہیں۔۔۔ اِدھر دو گلاس بھی کوئی پی نہ لے۔۔۔ سماج فورا آ دھمکا۔۔۔
 
Top