ہیں کھنڈر میں کمال کی اینٹیں ۔ رفیق اظہر

فرخ منظور

لائبریرین
ہیں کھنڈر میں کمال کی اینٹیں
دیکھ عہدِ زوال کی اینٹیں

مقبرے ہوں کہ سانس لیتے گھر
ہیں یہ خواب و خیال کی اینٹیں

کرے مجنوں خطاب دنیا سے
پھینکتا ہے سوال کی اینٹیں

تن ہے دیوارِ گریہ کے مانند
لال آنکھیں ، ملال کی اینٹیں

ہاتھ سے پیٹتا ہوں زانو کو
میں نے ڈھالی ہیں کھال کی اینٹیں

ہے یہ تھیٹر گزرتی دنیا کا
ہم تو ہیں ماہ و سال کی اینٹیں

گاڑ کر خاک میں تنِ مردہ
جوڑتا ہوں وصال کی اینٹیں

(رفیق اظہر)
 
Top