ہیلری کلنٹن کا ایک اعتراف

طالوت

محفلین
ڈبليو – ايم – ڈی ايشو کے حوالے سے امريکی حکومت کا موقف ميں پہلے بھی اس فورم پر پيش کر چکا ہوں۔ آپ کی خواہش پر ايک مرتبہ پھر پوسٹ کر رہا ہوں۔

اس حوالے سے يہ بھی اضافہ کرنا چاہوں گا کہ اگر سال 2003 ميں امريکی حملے سے پہلے عراق کی صورت حال اور اس پر عالمی رائے عامہ کا جائزہ ليں تو يہ واضح ہے کہ عالمی برداری اور بالخصوص امريکہ پر صدام حسين کی جانب سے عراقی عوام پر ڈھائے جانے والے مظالم پر خاموشی اور مناسب کاروائ نہ کرنے پر مسلسل شديد تنقيد کی جاتی رہی ہے۔ کئ غير جانب دار تنظيموں کی جانب سے ايسی بے شمار رپورٹس ريکارڈ پر موجود ہيں جن ميں عراقی عوام پر ڈھائے جانے والے مظالم کی داستانيں رقم ہیں۔

جب ڈبليو – ايم – ڈی کا معاملہ دنيا کے سامنے آيا تو صدام حسين نے اس ضمن ميں تعاون اور عالمی برداری کی جانب سے اٹھائے جانے والے سوالات کا جواب دينے سے صاف انکار کر ديا۔ يہ بات بھی قابل توجہ ہے کہ 911 کے واقعات کے بعد کسی بڑی دہشت گردی کی کاروائ کوئ غير حقيقی يا ناقابل يقين بات نہيں تھی۔

يہ درست ہے کہ امريکہ کی جانب سے عراق ميں کاروائ کی بڑی وجہ ڈبليو – ايم – ڈی ايشو کے حوالے سے امريکہ کے تحفظات تھے۔ يہ بھی درست ہے کہ ڈبليو – ايم – ڈی کے حوالے سے انٹيلی جينس غلط ثابت ہوئ۔ ليکن انٹيلی جينس رپورٹس کی ناکامی کسی بھی صورت ميں صدام حسين کو "معصوم" ثابت نہيں کرتيں۔ صدام حسين ايک ظالم حکمران تھا جس کی حکومت عراق کے ہمسايہ ممالک سميت خود عراق کے اندر بے شمار انسانوں کی موت کا سبب بنی۔ صدام حکومت کے خاتمے کے نتيجے ميں عراق بالخصوص اور يہ خطہ بالعموم ايک بہتر مستقبل کی جانب بڑھ رہا ہے۔ اس حقيقت کا ادراک عراق ميں تشدد کے واقعات ميں بتدريج کمی اور جمہوری نظام کی مضبوطی کے نتيجے ميں بڑھتا جا رہا ہے۔

ڈبليو – ايم – ڈی ايشو – امريکی حکومت کا موقف

امريکہ کی خارجہ پاليسی کے حوالے سے کيے جانے والے سارے فيصلے مکمل اور غلطيوں سے پاک نہيں ہيں اور نہ ہی امريکی حکومت نے يہ دعوی کيا ہے کہ امريکہ کی خارجہ پاليسی 100 فيصد درست ہے۔ اس ميں کوئ شک نہيں کہ عراق ميں مہلک ہتھياروں کے ذخيرے کی موجودگی کے حوالے سے ماہرين کے تجزيات غلط ثابت ہوئے۔ اور اس حوالے سے امريکی حکومت نے حقيقت کو چھپانے کی کوئ کوشش نہيں کی۔ بلکل اسی طرح اور بھی کئ مثاليں دی جا سکتی ہيں جب امريکی حکومت نے پبلک فورمز پر اپنی پاليسيوں کا ازسرنو جائزہ لينے ميں کبھی قباحت کا مظاہرہ نہيں کيا۔

اس ايشو کے حوالے سے بل کلنٹن انتظاميہ اور سابقہ امريکی حکومت کے علاوہ ديگر ممالک کو جو مسلسل رپورٹس ملی تھيں اس ميں اس بات کے واضح اشارے تھے کہ صدام حسين مہلک ہتھياروں کی تياری کے پروگرام کو عملی جامہ پہنانے کا ارادہ رکھتا ہے۔ اس حوالے سے صدام حسين کا ماضی کا ريکارڈ بھی امريکی حکام کے خدشات ميں اضافہ کر رہا تھا۔ نجف، ہلہ،ہلاجہ اور سليمانيہ ميں صدام کے ہاتھوں کيميائ ہتھیاروں کے ذريعے ہزاروں عراقيوں کا قتل اور 1991 ميں کويت پر عراقی قبضے سے يہ بات ثابت تھی کہ اگر صدام حسين کی دسترس ميں مہلک ہتھياروں کا ذخيرہ آگيا تواس کے ظلم کی داستان مزيد طويل ہو جائے گی۔ خود صدام حسين کی جانب سے مہلک ہتھياروں کو استعمال کرنے کی دھمکی ريکارڈ پر موجود ہے۔ 11 ستمبر 2001 کے حادثے کے بعد امريکہ اور ديگر ممالک کے خدشات ميں مزيد اضافہ ہو گيا۔

1995 ميں جب صدام حسين کے داماد حسين کمل نے عراق سے بھاگ کرجارڈن ميں پناہ لی تو انھوں نے بھی صدام حسين کے نيوکلير اور کيميائ ہتھياروں کے حصول کے ليے منصوبوں سے حکام کو آگاہ کيا۔ 2003 ميں امريکی حملے سے قبل اقوام متحدہ کی سيکيورٹی کونسل عراق کو مہلک ہتھياروں کی تياری سے روکنے کے ليے اپنی کوششوں کا آغاز کر چکی تھی۔

يہی وجہ ہے کہ جب اقوام متحدہ کئ تحقيقی ٹيموں کو عراق ميں داخلے سے روک ديا گيا تو نہ صرف امريکہ بلکہ کئ انٹرنيشنل ٹيموں کی يہ مشترکہ رپورٹ تھی کہ صدام حکومت کا وجود علاقے کے امن کے ليے خطرہ ہے۔ ميں آپ کو يو – ايس – اسٹيٹ ڈيپارٹمنٹ کی ايک رپورٹ اور ايک ویب سائيٹ کا لنک دے رہا ہوں جس ميں صدام کے ظلم کی داستان تفصيل سے پڑھ سکتے ہيں۔

http://www.usaid.gov/iraq/pdf/iraq_mass_graves.pdf

http://massgraves.9neesan.com/

يہ رپورٹ پڑھنے کے بعد يہ فيصلہ ميں آپ پر چھوڑتا ہوں کہ عراق کے مستقبل کے ليے کيا صورتحال زيادہ بہتر ہے صدام حسين کا وہ دوراقتدار جس ميں وہ اپنے کسی عمل کے ليے کسی کے سامنے جوابدہ نہيں تھے اور سينکڑوں کی تعداد ميں عراقيوں کو قید خانوں ميں ڈال کر ان پر تشدد کرنا معمول کی بات تھی يا 12 ملين عراقی ووٹرز کی منتخب کردہ موجودہ حکومت جو عراقی عوام کے سامنے اپنے ہر عمل کے ليے جوابدہ ہے۔ اس ميں کوئ شک نہيں کہ حکومت سازی کے حوالے سے ابھی بھی بہت سے مسائل ہيں ليکن مستقبل کے ليے اميد افزا بنياديں رکھ دی گئ ہيں۔


فواد – ڈيجيٹل آؤٹ ريچ ٹيم – يو ايس اسٹيٹ ڈيپارٹمينٹ

www.state.gov
اس تفصیلی جواب کے لئے شکریہ فواد ۔ میری نظر سے شاید پہلے نہیں گزرا ۔ مگر سوال یہ ہے کہ آیا امریکہ یا اس کے اتحادیوں کو کس قانون کے تحت یہ حق پہنچتا ہے کہ وہ عراقی عوام کو انصاف دلانے کے لئے ان پر حملہ آور ہوں اور ان کے قتل عام میں بالواسطہ یا بلاواسطہ شریک ہوں ۔ یہی کاروائی امریکہ برما میں کب کر رہا ہے ؟ مصر جہاں بلاگ لکھنا بھی جرم ہے اور حسنی مبارک کی بدمعاشیاں عروج پر ہیں اس پر کب شروع کی جا رہی ہے ؟ فلسطین میں اسرائیل کے مظالم پر کب امریکہ اسرائیل پر حملہ کر رہا ہے ؟ مشرف کے آمرانہ دور میں جو رویہ پاکستان کی عوام کے ساتھ رکھا گیا اس پر کونسا ڈرون مشرف پر حملہ آور ہوا ؟ ابھی حال ہی میں روس نے ایک پڑوسی کی اینٹ سے اینٹ بجا دی اور چیچنیا کا بیڑا غرق کر رکھا ہے انھیں انصاف کیوں نہیں دیا جا رہا ؟ سعودی عرب اور ایران بھی امریکی ازادی پالیسی کے تحت مجرم ہیں ان پر یہ انصاف کیوں لاگو نہیں کیا جاتا ؟
کیا صرف صدام حسین ہی دنیا میں ظالم ترین فرد ہے ؟ کہ اسے پھانسی پر لٹکا دیا جائے ؟ اور ان امریکیوں کو محض چند سال کی قید ہو جو پہلے ریپ کرتے ہیں اور پھر خاندان کا خاندان بھون ڈالتے ہیں ؟
فواد میاں بلاشبہ امریکہ ایک عظیم ملک ہے اور امیریکیوں کی انسانیت کے لئے خدمات عظیم تر ہیں مگر روٹی کے ٹکڑے کے لئے کوئی اپنا یا اپنے کسی کا خون بہتا نہیں دیکھ سکتا ۔ عبداللہ کا مراسلہ فکر میں مبتلا کر دینے کے لئے کافی ہے مگر نہیں ! چوروں ، ڈاکوؤں ، غنڈوں کی نسل سے اس کے علاوہ اور امید بھی کیا کی جا سکتی ہے ۔ پہلے مقامی امریکیوں کا قتل عام کیا ، پھر افریقیوں پر انسانیت سوز ظلم کئے اب عربوں اور ایشائی لوگوں کے خون سے ہاتھ رنگنے والے امریکی بھی امریکہ میں بھی سکون سے نہ رہ سکیں گے ۔
وسلام
 

arifkarim

معطل
اس تفصیلی جواب کے لئے شکریہ فواد ۔ میری نظر سے شاید پہلے نہیں گزرا ۔ مگر سوال یہ ہے کہ آیا امریکہ یا اس کے اتحادیوں کو کس قانون کے تحت یہ حق پہنچتا ہے کہ وہ عراقی عوام کو انصاف دلانے کے لئے ان پر حملہ آور ہوں اور ان کے قتل عام میں بالواسطہ یا بلاواسطہ شریک ہوں ۔ یہی کاروائی امریکہ برما میں کب کر رہا ہے ؟ مصر جہاں بلاگ لکھنا بھی جرم ہے اور حسنی مبارک کی بدمعاشیاں عروج پر ہیں اس پر کب شروع کی جا رہی ہے ؟ فلسطین میں اسرائیل کے مظالم پر کب امریکہ اسرائیل پر حملہ کر رہا ہے ؟ مشرف کے آمرانہ دور میں جو رویہ پاکستان کی عوام کے ساتھ رکھا گیا اس پر کونسا ڈرون مشرف پر حملہ آور ہوا ؟ ابھی حال ہی میں روس نے ایک پڑوسی کی اینٹ سے اینٹ بجا دی اور چیچنیا کا بیڑا غرق کر رکھا ہے انھیں انصاف کیوں نہیں دیا جا رہا ؟ سعودی عرب اور ایران بھی امریکی ازادی پالیسی کے تحت مجرم ہیں ان پر یہ انصاف کیوں لاگو نہیں کیا جاتا ؟
کیا صرف صدام حسین ہی دنیا میں ظالم ترین فرد ہے ؟ کہ اسے پھانسی پر لٹکا دیا جائے ؟ اور ان امریکیوں کو محض چند سال کی قید ہو جو پہلے ریپ کرتے ہیں اور پھر خاندان کا خاندان بھون ڈالتے ہیں ؟
فواد میاں بلاشبہ امریکہ ایک عظیم ملک ہے اور امیریکیوں کی انسانیت کے لئے خدمات عظیم تر ہیں مگر روٹی کے ٹکڑے کے لئے کوئی اپنا یا اپنے کسی کا خون بہتا نہیں دیکھ سکتا ۔ عبداللہ کا مراسلہ فکر میں مبتلا کر دینے کے لئے کافی ہے مگر نہیں ! چوروں ، ڈاکوؤں ، غنڈوں کی نسل سے اس کے علاوہ اور امید بھی کیا کی جا سکتی ہے ۔ پہلے مقامی امریکیوں کا قتل عام کیا ، پھر افریقیوں پر انسانیت سوز ظلم کئے اب عربوں اور ایشائی لوگوں کے خون سے ہاتھ رنگنے والے امریکی بھی امریکہ میں بھی سکون سے نہ رہ سکیں گے ۔
وسلام
ان سوالات کا تسلی بخش جواب آپکو موت کے بعد ہی مل سکتا ہے! :thumbsdown:
 

dxbgraphics

محفلین
ارے بھئی یہاں بھی ہمارے فورم کی ایک خاتون کیطرح فواد صاحب ایسے نئے موڑ موڑیں گے کہ آپ پرانے سوالات بھول کر نئے آنے والے سوالات کے بارے میں سوچیں گے
 

طالوت

محفلین
اللہ ان کی مغفرت کرے ، سلطان وہ شخصیت ہیں جن کے بنو امیہ کے سلطان اندلس کی طرح دشمن بھی معترف تھے ۔ خیر بات کہیں اور چل نکلے گی ۔
وسلام
 
فواد: دہشت گرد امریکہ خود پیدا کرتا ہے۔ امریکہ اسلحہ خود پیدا کرتا ہے۔ افغانستان میں جب سے امریکی گئے ہیں، وہاں ڈرگز کی کاشت بڑھ رہی ہے۔ عراق کے تیل پر اب ملٹی نیشل کمپنیوں کا قبضہ ہے۔ اگر آپکے امریکہ کے نزدیک یہ جمہوری عمل ہے اور افغانستان اور عراق کے عوام کیلئے خوشحالی اور ترقی کا باعث ہے تو بیشک سمجھتے رہیں۔ قیامت کے روز سب کچھ سامنے آجائے گا!

اتفاق کرتا ہوں، امریکہ کے ہاتھ بکے ہوے افراد کو یہ نہیں معلوم کہ انہوں نے ایک دن جان خالق حقیقی کی سپرد کرنی ہے
بلاشبہ ایسا کرنا ایسے افراد کی نوکری کے تقاضا ہے لیکن ایسی نوکری ہی کیوں کریں جس میں جھوٹ بولنا پڑے
میں سو فیصد یقین سے کہہ سکتا ہوں کہ فواد صاحب جو کچھ ہمیں سمجھا رہے ہیں ، دل سے ان باتوں پر یہ خود بھی یقین‌نہیں رکھتے، یہ بس رٹا رٹایا سبق پڑھ رہے ہیں :flag:
 

arifkarim

معطل
فواد صاحب کو اردو محفل کے حقیقت پسند افراد نے کئی بار شرمندہ کیا ہے، لیکن ڈالر کے ڈھیٹ پن کے آگے کسی کی نہیں چلتی!
 

Fawad -

محفلین
Fawad – Digital Outreach Team – US State Department

یہی کاروائی امریکہ برما میں کب کر رہا ہے ؟ مصر جہاں بلاگ لکھنا بھی جرم ہے اور حسنی مبارک کی بدمعاشیاں عروج پر ہیں اس پر کب شروع کی جا رہی ہے ؟ فلسطین میں اسرائیل کے مظالم پر کب امریکہ اسرائیل پر حملہ کر رہا ہے ؟ مشرف کے آمرانہ دور میں جو رویہ پاکستان کی عوام کے ساتھ رکھا گیا اس پر کونسا ڈرون مشرف پر حملہ آور ہوا ؟ ابھی حال ہی میں روس نے ایک پڑوسی کی اینٹ سے اینٹ بجا دی اور چیچنیا کا بیڑا غرق کر رکھا ہے انھیں انصاف کیوں نہیں دیا جا رہا ؟ سعودی عرب اور ایران بھی امریکی ازادی پالیسی کے تحت مجرم ہیں ان پر یہ انصاف کیوں لاگو نہیں کیا جاتا ؟


امريکی حکومتی حلقے خود کو "عالمی تھانيدار" نہيں سمجھتے اور ديگر امور کی طرح خارجہ پاليسی کے حوالے سے مختلف ايشوز پر بھی ہر سطح پر بحث اور نقطہ چينی کا عمل جاری رہتا ہے۔ کسی بھی ملک کی طرح امريکی حکومت بھی مختلف عالمی امور پر اپنا نقطہ نظر اور موقف عالمی برادری اور متعلقہ حکومتوں تک باہمی طے شدہ سفارتی اور انتظامی ذرائع اور فورمز کے ذريعے پہنچاتی ہے۔ يہ ايک غير منطقی اور اور ناقابل فہم سوچ ہے کہ امريکہ ہر اس ملک کے خلاف جنگی محاذ کھول لے جہاں پر طرز حکومت اور انسانی حقوق سے متعلق قوانين امريکی معاشرے ميں رائج اصولوں سے مطابقت نہيں رکھتے۔

ريکارڈ کی درستگی کے ليے يہ واضح کر دوں کہ صدام کی حکومت کے خلاف فوجی کاروائ اس بنا پر نہيں کی گئ تھی کہ امريکہ وہاں پر مخصوص اقدار يا نضام رائج کرنے کا خواہش مند تھا۔ اس ضمن ميں ايک دہائ پر محيط واقعات کا تسلسل، سفارتی طور پر مکمل ڈيڈ لاک اور اس تاريخی تناظر کو بھی مد نظر رکھنا ضروری ہے جو صدام حکومت کے خلاف امريکی اقدامات کی وجہ بنا۔

ستمبر 11، 2001 کے سانحے کے بعد امريکہ ميں يہ تشويش پائ جاتی تھی کہ حکومت کو ہر وہ قدم اٹھانا چاہيے جو مستقبل ميں امريکہ اور عالمی برادری کو دہشت گردی کے مزيد واقعات سے محفوظ رکھ سکے۔ اس ضمن ميں عراق کی جانب سے اپنے ہمسايہ ممالک پر حملوں کی تاريخ، کيميائ ہتھياروں کا بے دريخ استعمال اور دہشت گرد تنظيموں کی پشت پناہی امريکی تشويش ميں اضافے کا سبب بن رہی تھی۔

اس کے علاوہ عراق کی حکومت کی جانب سے اقوام متحدہ کو کيمياوی ہتھياروں کے ضمن ميں معلومات کی فراہمی سے انکار سال 1991 ميں جنگ بندی کے خاتمے کے معاہدے اور منظور شدہ مينڈيٹ کی واضح خلاف ورزی تھی۔ عراق کی حکومت نے وہ شرائط پوری نہيں کی تھيں جن کا مطالبہ اقوام متحدہ کی جانب سے کيا گيا تھا۔

اس بات ميں کوئ شک نہيں کہ اس بات پر بحث کی جا سکتی ہے کہ آيا سال 2003 ميں عراق کے خلاف طاقت کا استعمال ہی بہترين آپشن تھا يا نہيں – ليکن صدام حسين کی تشدد سے پر تاريخ سے انکار نہيں کيا جا سکتا۔

ميں يہ واضح کرنا چاہتا ہوں کہ عراق کے خلاف فوجی کاروائ کا فيصلہ کسی غير متعلقہ ملک کے خلاف کيا جانے والا جذباتی فيصلہ ہرگز نہيں تھا۔ حکومت کی ہر سطح پر کئ ماہ تک اس مسلئے پر بحث کی گئ تھی جس کے بعد اجتماعی سطح پر يہ فيصلہ کيا گيا تھا

فواد – ڈيجيٹل آؤٹ ريچ ٹيم – يو ايس اسٹيٹ ڈيپارٹمينٹ

www.state.gov
 

dxbgraphics

محفلین
امريکی حکومتی حلقے خود کو "عالمی تھانيدار" نہيں سمجھتے اور ديگر امور کی طرح خارجہ پاليسی کے حوالے سے مختلف ايشوز پر بھی ہر سطح پر بحث اور نقطہ چينی کا عمل جاری رہتا ہے۔ کسی بھی ملک کی طرح امريکی حکومت بھی مختلف عالمی امور پر اپنا نقطہ نظر اور موقف عالمی برادری اور متعلقہ حکومتوں تک باہمی طے شدہ سفارتی اور انتظامی ذرائع اور فورمز کے ذريعے پہنچاتی ہے۔ يہ ايک غير منطقی اور اور ناقابل فہم سوچ ہے کہ امريکہ ہر اس ملک کے خلاف جنگی محاذ کھول لے جہاں پر طرز حکومت اور انسانی حقوق سے متعلق قوانين امريکی معاشرے ميں رائج اصولوں سے مطابقت نہيں رکھتے۔

ريکارڈ کی درستگی کے ليے يہ واضح کر دوں کہ صدام کی حکومت کے خلاف فوجی کاروائ اس بنا پر نہيں کی گئ تھی کہ امريکہ وہاں پر مخصوص اقدار يا نضام رائج کرنے کا خواہش مند تھا۔ اس ضمن ميں ايک دہائ پر محيط واقعات کا تسلسل، سفارتی طور پر مکمل ڈيڈ لاک اور اس تاريخی تناظر کو بھی مد نظر رکھنا ضروری ہے جو صدام حکومت کے خلاف امريکی اقدامات کی وجہ بنا۔

ستمبر 11، 2001 کے سانحے کے بعد امريکہ ميں يہ تشويش پائ جاتی تھی کہ حکومت کو ہر وہ قدم اٹھانا چاہيے جو مستقبل ميں امريکہ اور عالمی برادری کو دہشت گردی کے مزيد واقعات سے محفوظ رکھ سکے۔ اس ضمن ميں عراق کی جانب سے اپنے ہمسايہ ممالک پر حملوں کی تاريخ، کيميائ ہتھياروں کا بے دريخ استعمال اور دہشت گرد تنظيموں کی پشت پناہی امريکی تشويش ميں اضافے کا سبب بن رہی تھی۔

اس کے علاوہ عراق کی حکومت کی جانب سے اقوام متحدہ کو کيمياوی ہتھياروں کے ضمن ميں معلومات کی فراہمی سے انکار سال 1991 ميں جنگ بندی کے خاتمے کے معاہدے اور منظور شدہ مينڈيٹ کی واضح خلاف ورزی تھی۔ عراق کی حکومت نے وہ شرائط پوری نہيں کی تھيں جن کا مطالبہ اقوام متحدہ کی جانب سے کيا گيا تھا۔

اس بات ميں کوئ شک نہيں کہ اس بات پر بحث کی جا سکتی ہے کہ آيا سال 2003 ميں عراق کے خلاف طاقت کا استعمال ہی بہترين آپشن تھا يا نہيں – ليکن صدام حسين کی تشدد سے پر تاريخ سے انکار نہيں کيا جا سکتا۔

ميں يہ واضح کرنا چاہتا ہوں کہ عراق کے خلاف فوجی کاروائ کا فيصلہ کسی غير متعلقہ ملک کے خلاف کيا جانے والا جذباتی فيصلہ ہرگز نہيں تھا۔ حکومت کی ہر سطح پر کئ ماہ تک اس مسلئے پر بحث کی گئ تھی جس کے بعد اجتماعی سطح پر يہ فيصلہ کيا گيا تھا

فواد – ڈيجيٹل آؤٹ ريچ ٹيم – يو ايس اسٹيٹ ڈيپارٹمينٹ

www.state.gov

کون سے امریکی قانون کی بات کرتے ہیں جہاں نو اعشاریہ دو فیصد ہوموسیکس میں لوگ مبتلا ہیں جہاں ایک منٹ میں تین درجن سے زائد خواتین کا ریپ ہوتا ہے ۔
امریکہ کی ایک ہی مقصد ہے صلیب کے مقابلے میں مسلمانو‌ں پر تسلط ۔
 

Fawad -

محفلین
Fawad – Digital Outreach Team – US State Department

امریکہ کی ایک ہی مقصد ہے صلیب کے مقابلے میں مسلمانو‌ں پر تسلط ۔


مسلمان تو امريکی اسٹيٹ ڈيپارٹمنٹ اور فوج سميت امريکی معاشرے کے ہر شعبہ زندگی ميں موجود ہيں۔ ايک مسلمان ہونے کی حيثيت سے ميں آپ کو اپنے ذاتی تجربے کی روشنی ميں يہ بتا سکتا ہوں کہ امريکی معاشرے بلکہ امريکی حکومتی اداروں ميں بھی مسلمانوں کو اپنی مذہبی رسومات کی ادائيگی ميں کسی پابندی يا رکاوٹ کا سامنا نہيں کرنا پڑتا۔ ہميں عيد اور رمضان سميت تمام اہم مذہبی مواقع پر امريکی صدر سميت تمام اہم حکومتی عہديداروں کی جانب سے ای ميل اور پيغامات موصول ہوتے ہيں۔

اسی ضمن ميں آپ کو ليفٹينينٹ کمانڈر ابن نول کا حوالہ دے سکتا ہوں جو کہ اس وقت امريکی نيوی ميں سب سے سينير مسلم امام ہيں۔ يہ اپنی ملازمت کے دوران مسلمان ہوئے تھے اور اس وقت امريکی نيوی ميں باقاعدہ اسلام کی تبليغ اور مسلمان افسران کی دينی درس وتدريس کے فرائض انجام ديتے ہيں۔


http://findarticles.com/p/articles/mi_m0IBQ/is_/ai_n25353736

اگر امريکی حکومت کو اسٹيٹ ڈيپارٹمنٹ اور امريکی نيوی ميں ان "داڑھی والے مسلم کرداروں" کی موجودگی اور انکے مذہبی عقائد سے کوئ خطرہ نہيں ہے تو يہ کيسے ممکن ہے کہ ہزاروں ميل دور کسی ملک ميں ان "کرداروں" کی مذہبی طرز زندگی امريکی حکومت کے ليے خطرہ بن جائے؟

فواد – ڈيجيٹل آؤٹ ريچ ٹيم – يو ايس اسٹيٹ ڈيپارٹمينٹ

www.state.gov
 

dxbgraphics

محفلین
امریکہ سےباہر نکل کر دیکھیں۔ ہر کسی کی شلوار میں اپنا پیر ڈالا ہوا ہے امریکہ ہے۔
ویسے آپ کو ذپ کیا تھا۔ وزیرستان والے تھریڈ پر آپ کے چند پھول بھرے الفاظ چاہئیں تھے
 
امریکہ سےباہر نکل کر دیکھیں۔ ہر کسی کی شلوار میں اپنا پیر ڈالا ہوا ہے امریکہ ہے۔
ویسے آپ کو ذپ کیا تھا۔ وزیرستان والے تھریڈ پر آپ کے چند پھول بھرے الفاظ چاہئیں تھے

سیدھی طرح کہیں، وہاں بھی ان بھائی صاحب سے جواب لکھوا کر پھر بیستی کرنا چاہتے ہیں ان کی ، خیر لگے رہیں :grin:
زبان سے جہاد :biggrin:
 

arifkarim

معطل
مجھے حیرت ہے کہ آپ لوگ ابھی تک امریکہ کی دوغلی پالیسیز کو سمجھ ہی نہیں‌پائے ہیں۔ ایک طرف مسلمان ممالک پر بمباری تو دوسری طرف اسی قوم کے مسلمان امریکی ڈالرز کے عوض انکے قصیدے پڑھتے ہیں! :)
 

گرائیں

محفلین
مسلمان تو امريکی اسٹيٹ ڈيپارٹمنٹ اور فوج سميت امريکی معاشرے کے ہر شعبہ زندگی ميں موجود ہيں۔ ايک مسلمان ہونے کی حيثيت سے ميں آپ کو اپنے ذاتی تجربے کی روشنی ميں يہ بتا سکتا ہوں کہ امريکی معاشرے بلکہ امريکی حکومتی اداروں ميں بھی مسلمانوں کو اپنی مذہبی رسومات کی ادائيگی ميں کسی پابندی يا رکاوٹ کا سامنا نہيں کرنا پڑتا۔ ہميں عيد اور رمضان سميت تمام اہم مذہبی مواقع پر امريکی صدر سميت تمام اہم حکومتی عہديداروں کی جانب سے ای ميل اور پيغامات موصول ہوتے ہيں۔

اسی ضمن ميں آپ کو ليفٹينينٹ کمانڈر ابن نول کا حوالہ دے سکتا ہوں جو کہ اس وقت امريکی نيوی ميں سب سے سينير مسلم امام ہيں۔ يہ اپنی ملازمت کے دوران مسلمان ہوئے تھے اور اس وقت امريکی نيوی ميں باقاعدہ اسلام کی تبليغ اور مسلمان افسران کی دينی درس وتدريس کے فرائض انجام ديتے ہيں۔


http://findarticles.com/p/articles/mi_m0ibq/is_/ai_n25353736

اگر امريکی حکومت کو اسٹيٹ ڈيپارٹمنٹ اور امريکی نيوی ميں ان "داڑھی والے مسلم کرداروں" کی موجودگی اور انکے مذہبی عقائد سے کوئ خطرہ نہيں ہے تو يہ کيسے ممکن ہے کہ ہزاروں ميل دور کسی ملک ميں ان "کرداروں" کی مذہبی طرز زندگی امريکی حکومت کے ليے خطرہ بن جائے؟

فواد – ڈيجيٹل آؤٹ ريچ ٹيم – يو ايس اسٹيٹ ڈيپارٹمينٹ

www.state.gov

اس سادگی پہ کوننہ مر جائے اے خدا۔۔۔

آپ صرف اہم مواقع پر ای میل وصل کر کے خوش ہوتے رہئے، آپ کے لئےیہ ہی کا فی ہے۔ لگے رہو مُنا بھائی۔لگتا ہے آپ اپنی جاب میں کافی مصروف ہو، ادھر اُدھر کی باتوں کا پتہ ہی نہیں ہے آپ کو۔ ویسے داڑھی والے کرداروں سے خطرہ ہونے والی بات سے کیاان چھے اماموں کا قصہ یاد ہے جن کو فلائٹ سے زبردستی اتار دیا گیا تھا کہ یہ لوگ دہشت گرد ہیں، اگر اس سے ملتا جُلتا قصہ یہاں ہوتا، تو شائد آپ کا میڈیا اسے سر پر اٹھا لیتا اورآپ کےانسانی حقوق کے ادارے پاکستان میں اقلیتوں کی مخدوش صورت حال پر پوری دنیا مں رولا ڈالتے پھرتے۔
ب میں کوئی بھی ثابت نہیں کر سکا تھا کہ یہ چھےامام دہشت گرد ہیں۔

اورکیٹ سٹیونز کا قصہ تو ابھی تازہ ہے، کیٹ سٹیونز نے اسلام قبول کرنے کے بعد اپنا نام یوسف اسلام رکھ لیا ہے۔ ان کو امریکہ میں داخلے کی اجازت ہی نہیں ملی تھی، وہ تو مشہور بندہ ہے، اس لئے دوبارہ اسے آنے دیا گیا تھا۔

آپسے ایک ذاتی سوال ہے: کیا آپنے سنت رسول صلی اللہ علیہ وسلم اپنائی ہوئی ہے؟
اور یہ بات بتا دیں کہ امریکی افواج میں مسلمان اماموں میں نومسلم امریکی اور عرب النسل یا دوسرے مسلمان اماموں‌کا کیا تناسب ہے؟

اور بھی بہت سی باتیں ہیں، مگر ۔۔۔۔۔

چھوڑیں۔
باقی قارئین کے لئے، میرا خیال ہے فواد صاحب کے امریکی سپروائزر ان کی پوسٹس ضرور پڑھتے ہوں گے، یہ امریکی اپنی ماں پر بھی اعتبار نہیں کرتے، فواد صاحب پر کیسے کر لیں؟ اس لئے فواد ہم سے متفق ہونے کے باوجود ایک سرکاری ٹون اپنائے ہوئے ہیں، لہٰذا ان پر ذاتی حملے کرنا بند کردیں۔ اگر یہ امریکی ملازمت کر تے ہیں تو اس کا یہ مطلب نہیں ہم ان کو مطعون کرنا شروع کردیں۔ میرا خیال ہے یہ بُری بات ہے۔ اس لئے سب سے پہلے میں فواد صاحب سے معذرت طلب کرتا ہوں۔ دانستہ یا نادانستہ طور پر آپ کی ذات پر کوئی حملہ کرنے پر میں آپ سے معافی چاہتا ہوں فواد صاحب۔
 

Fawad -

محفلین
Fawad – Digital Outreach Team – US State Department

کیاان چھے اماموں کا قصہ یاد ہے جن کو فلائٹ سے زبردستی اتار دیا گیا تھا کہ یہ لوگ دہشت گرد ہیں، اگر اس سے ملتا جُلتا قصہ یہاں ہوتا، تو شائد آپ کا میڈیا اسے سر پر اٹھا لیتا اورآپ کےانسانی حقوق کے ادارے پاکستان میں اقلیتوں کی مخدوش صورت حال پر پوری دنیا مں رولا ڈالتے پھرتے۔
ب میں کوئی بھی ثابت نہیں کر سکا تھا کہ یہ چھےامام دہشت گرد ہیں۔

اورکیٹ سٹیونز کا قصہ تو ابھی تازہ ہے، کیٹ سٹیونز نے اسلام قبول کرنے کے بعد اپنا نام یوسف اسلام رکھ لیا ہے۔ ان کو امریکہ میں داخلے کی اجازت ہی نہیں ملی تھی، وہ تو مشہور بندہ ہے، اس لئے دوبارہ اسے آنے دیا گیا تھا۔


يہ حقيقت ہے کہ 11 ستمبر 2001 کے حادثے کے بعد ائرپورٹس اور ديگر چيک پوسٹس پر بہت سے لوگوں کو تفتيش کے اضافی مگر ضروری مراحل سے گزرنا پڑتا ہے۔ ليکن ميں آپ کو يہ بات پورے وثوق سے بتا سکتا ہوں کہ امريکی اسٹيٹ ڈيپارٹمنٹ کی جانب سے ايسی کوئ ہدايت يا پاليسی نہيں جاری کی گئ ہے جس کے تحت کسی خاص قوم يا مذہب کے لوگوں کو نشانہ بنايا جائے۔

بلکہ ايسے کئ واقعات ريکارڈ پر موجود ہيں جب امريکی اسٹيٹ ڈيپارٹمنٹ کے سينير اہلکاروں کو اضافی تفتيش کے انھی مراحل سے گزرنا پڑا ہے۔ اس ضمن ميں کسی کے ساتھ بھی امتيازی سلوک نہيں کيا جاتا اوراس ضمن ميں کسی خاص مذہب يا طبقے سے تعلق رکھنے والے افراد کے ليے دوہرا معيار نہيں ہے۔ اپنی بات کی وضاحت کے ليے ميں آپ کو نيويارک ٹائمز کے ايک آرٹيکل کا لنک دے رہا ہوں جس ميں سينيٹر ايڈورڈ کينيڈی کے حوالے سے يہ انکشاف کيا گيا ہے کہ انھيں 5 مختلف موقعوں پر پوچھ کچھ کے اضافی مراحل سے گزرنا پڑا کيونکہ ان کا نام دہشت گردی کے حوالے سے مطلوب افراد کی لسٹ ميں موجود کسی شخص سے مشہابت رکھتا تھا۔ سب جانتے ہيں کہ سينيٹرکينيڈی کا نام امريکہ کے سياسی منظر نامے پر چند مقبول ناموں ميں سے ہے ليکن اس کے باوجود انھيں بھی طے شدہ طريقہ کار کے مطابق کسی رعايت کے بغير انتظاميہ کی کاروائ کا سامنا کرنا پڑا۔

http://query.nytimes.com/gst/fullpage.html?res=940DE7DF163EF933A1575BC0A9629C8B63

فواد – ڈيجيٹل آؤٹ ريچ ٹيم – يو ايس اسٹيٹ ڈيپارٹمينٹ

www.state.gov
 

dxbgraphics

محفلین
نو اعشاریہ دو فیصد ہومو سیکس اور ایک منٹ میں دو درجن سے زائد خواتین کے ساتھ زیادتی امریکی رپورٹ ہی ہے اس کا جواب تو آپ گول کر گئے فواد صاحب ۔ تھوڑی سی ٹارچ کی روشنی اس جانب بھی پھینکیں
 
Top