ہیلری کلنٹن کا ایک اعتراف

ہیلری کلنٹن کے اعترافات

کس طرح امریکہ نے پاکستان کو اپنے مقاصد کے لیے استعمال کیا اور پھر اسے تنہا چھوڑ دیا، یہ ویڈیو کلپ دیکھنے سے تعلق رکھتا ہے، جس میں امریکی وزیر خارجہ ہیلری کلنٹن وہ کہانی بیان کر رہی ہیں جسے بہت سے تجزیہ نگار بیان کرتے ہیں مگر بہت سے پاکستانی اس پر یقین نہیں کرتے ، آج وہی کہانی امریکنوں نے خود بیان کر دی۔ایک بات تو ماننی پڑے گی، امریکی جو بھی کام کرتے ہیں دس پندرہ سالوں بعد وہ حقیقت عوام کے سامنے لے آتے ہیں، جبکہ پاکستان میں تو ایسے ایسے واقعات پر ابھی پردہ پڑا ہے جو عوام کو معلوم ہو جائے تو وہ ماتم کرنے لگ جائیں۔ اس سلسلے میں گزشتہ دنوں ایک اور خبر بھی پڑھی جس میں ہیلری کلنٹن صاحبہ اس بات کو تسلیم کر رہی ہیں کہ ایران میں صدارتی انتخابات کے بعد ہونے والے فسادات دراصل امریکہ کی مدد سے ہوے۔ اب انتظار ہے اس دن کا، جب یہ سچ بھی زبان پر آئے کہ اسرائیل اور بھارت کے گٹھ جوڑ پاکستان کا ایٹمی پروگرام تباہ کرنا چاہتا ہے۔


ظاہر ہے ہیلری اردو تو نہیں جانتیں، اور انگریزی میں بات کر رہی ہیں، اس لیے میں ہیلری صاحبہ کے اس بیان کا کچھ متن لکھ دیتا ہوں۔
جن لوگوں سے ہم آج لڑائی کر رہے ہیں ہم نہ خود انہیں پیدا کیا آج سے بیس سال پہلے، اور ہم نے اس لیے ایسا کیا کہ ہم سوویت یونین کے ساتھ سرد جنگ کی حالت میں تھے، جب انہوں نے افغانستان پر حملہ کیا تو ہم انہیں وسطی ایشیا پر تسلط قائم کرتے نہیں دیکھنا چاہتے تھے، تو ہم نے اس جنگ کا آغاز کیا جس میں صدر ریگن، ڈیمو کریٹس اور کانگرس سب شریک تھے، تو ہم نے آئی ایس آئی اور پاکستانی افواج کے ساتھ معاہدے کیے، مجاہدین کو بھرتی کیا، سعودی عرب سے وہابیوں کو بھی شامل کیا، چنانچہ سوویت یونین ٹوٹ گیا، ان کا اربوں ڈالر کانقصان ہوا، اس سے سوویت یونین تو ٹوٹ گیا لیکن ہم نے جو بویا تھا وہ کاٹنا بھی ہمیں ہی تھا، ہم نے پاکستان کو اکیلا چھوڑ دیا اور انہیں کہا کہ آپ خود ان مجاہدین اور تنازیات سے نمٹتے رہیں، ہم نے پاکستان افواج کے ساتھ معاہدے ختم کر دیے اور اب ہم وہ سب بھگت رہے ہیں۔

گذارش:‌ اگر منتظمین ویڈیو کو ایمبیڈ کر دیں تو مہربانی ہو گی۔
 

arifkarim

معطل
بالکل۔ یہ بالکل ایسے ہی ہے کہ کوئی ملک بستر مرگ پر ہو اور کوئی اور ملک اسوقت معافی مانگتے ہوئے آجائے کہ معاف کر دینا ہم سے 10 سال پہلے "غلطی "ہو گئی تھی!
 
اب اس حقیقت کو آگے لاکر کوئی اور مقصد حاصل کرنا ہے
جی ہو سکتا ہے ، بالکل

سو چوہے کھا کے بلی حج کو چلی 1

مع السلام

سچ ہے

بالکل۔ یہ بالکل ایسے ہی ہے کہ کوئی ملک بستر مرگ پر ہو اور کوئی اور ملک اسوقت معافی مانگتے ہوئے آجائے کہ معاف کر دینا ہم سے 10 سال پہلے "غلطی "ہو گئی تھی!
ہاں ہمارے ملک کو تباہ و برباد کرنے کے بعد، بار بار استعمال کرنے کے بعد اب ایسے بیانات دے رہے ہیں، شایہ امریکی عوم کو متاثر کرنے کے لیے


اچھا تو تھریڈ مرج ہوگیا، کوئی بات نہیں جناب:grin:
 

Fawad -

محفلین
Fawad – Digital Outreach Team – US State Department

ميں نے يہ بات ہميشہ تسليم کی ہے کہ امريکی حکومت نے افغانستان ميں سويت حملے کے بعد مجاہدين کی مکمل حمايت کی تھی۔ اس حقیقت سے کوئ انکار نہيں کر سکتا۔ حالات کے تناظر ميں وہ ايک درست اور منصفانہ فيصلہ تھا۔

کيا آپ کے خيال ميں افغانستان کے لوگوں کی مدد نہ کرنا ايک درست متبادل ہوتا؟

يہاں يہ بات ياد رکھنی چاہيے کہ افغانستان پر سوويت افواج کے حملے کے بعد صرف امريکہ ہی وہ واحد ملک نہيں تھا جس نے امداد مہيا کی تھی بلکہ اس ميں مسلم ممالک جيسے سعودی عرب اور شام سميت ديگر بہت سے ممالک بھی شامل تھے۔ دنيا کے مختلف ممالک سے آنے والی فوجی اور مالی امداد براہ راست پاکستان منتقل کی جاتی رہی۔ اور پھر پاکستان کے توسط سے يہ امداد افغانستان پہنچتی۔ اس حقيقت کے ثبوت کے طور پر ميں آپ کو بے شمار دستاويزات اور ريفرنس مہيا کر سکتا ہوں۔ اس ضمن ميں آئ – ايس – آئ کے سابق چيف جرنل حميد گل کا حاليہ انٹرويو آپ اس ويب لنک پر ديکھ سکتے ہیں۔

http://pakistankakhudahafiz.wordpress.com/2009/06/14/loud-clear-episode-3-hamid-gul/

انھوں نے اپنے انٹرويو ميں يہ واضح کيا کہ يہ پاکستانی افسران ہی تھے جنھوں نے يہ فيصلہ کيا تھا کن گروپوں کو اسلحہ اور ديگر سہوليات سپلائ کرنا ہيں۔ انٹرويو کے دوران انھوں نے يہ تک کہا کہ "ہم نے امريکہ کو استعمال کيا"۔

يہ کسی امريکی اہلکار کا بيان نہيں بلکہ شايد پاکستان ميں امريکہ کے سب سے بڑے نقاد کا ہے۔

اور يہ واحد شخص نہيں ہيں جنھوں نے اس ناقابل ترديد حقيقت کو تسليم کيا ہے۔

کچھ ہفتے پہلے اس وقت کے پاکستانی صدر ضياالحق کے صاحبزادے اعجازالحق نے بھی ايک ٹی وی پروگرام ميں يہ تسليم کيا تھا کہ پاکستان افغانستان ميں بيرونی امداد منتقل کرنے ميں واحد کردار تھا۔ اس کے علاوہ بہت سے اہلکار جو اس تناظے کے اہم کردار تھے، انھوں نے بھی اس حقيقت کی تصديق کی ہے۔

يہ ايک تلخ مگر تاريخی حقيقت ہے کہ پاکستان ميں اس وقت کے حکمرانوں نے اس صورتحال کو اپنے مفادات کے ليے استعمال کيا اور مستقبل ميں افغانستان ميں اپنا اثر و رسوخ برقرار رکھنے کے ليے امداد کا رخ دانستہ طالبان کی طرف رکھا اور افغانستان ميں موجود ديگر گروپوں اور قبيلوں کو نظرانداز کيا۔ يہ وہ حقائق ہيں جو ان دستاويز سے بھی ثابت ہيں جو ميں اس فورم پر پوسٹ کر چکا ہوں۔


فواد – ڈيجيٹل آؤٹ ريچ ٹيم – يو ايس اسٹيٹ ڈيپارٹمينٹ

www.state.gov
 
ميں نے يہ بات ہميشہ تسليم کی ہے کہ امريکی حکومت نے افغانستان ميں سويت حملے کے بعد مجاہدين کی مکمل حمايت کی تھی۔ اس حقیقت سے کوئ انکار نہيں کر سکتا۔ حالات کے تناظر ميں وہ ايک درست اور منصفانہ فيصلہ تھا۔

کيا آپ کے خيال ميں افغانستان کے لوگوں کی مدد نہ کرنا ايک درست متبادل ہوتا؟
www.state.gov
امریکہ نے یہ مدد صرف اس لیے کی تھی کیوں کہ وہ سوویت یونین‌کو تباہ کرنا چاہتے تھے، وہ انہیں وسطی ایشیا کا کنٹرول نہیں دینا چاہتے تھے، یہ بات ہیلری بھی کہ رہی ہیں، امریکہ نے پاکستان کو استعمال کیا نہ کہ پاکستان نے امریکہ کو
اور آپ کا حدود اربعہ کیا ہے ؟ میرا مطلب ہے آپ کون ہیں ؟
 

طالوت

محفلین
پاکستان تو پاکستان ، مجھے تو ان لاکھوں عراقیوں کا غم کھائے جاتا ہے ، اس قدر درندگی ، جب میں ایسے حالات دیکھتا ہوں تو مجھے اسامہ بھی اچھا لگنے لگتا ہے اور نو گیارہ بھی ۔ مگر مجبوری ہے کہ اسلام کا قانون آڑے آ جاتا ہے ۔
وسلام
 

Fawad -

محفلین
Fawad – Digital Outreach Team – US State Department

اور آپ کا حدود اربعہ کیا ہے ؟ میرا مطلب ہے آپ کون ہیں ؟


ميرا تعلق يو – ايس – اسٹيٹ ڈيپارٹمنٹ سے ہے اور ميں ڈيجيٹل آؤٹ ريچ ٹيم کے ممبر کی حيثيت سے مختلف اردو فورمز پر امريکی پاليسی کے حوالے سے اٹھائے جانے والے سوالات کا جواب ديتا ہوں۔

ڈيجيٹل آؤٹ ريچ ٹيم کا مقصد امريکہ کی خارجہ پاليسی کے ليے حمايت حاصل کرنا نہيں ہے بلکہ انٹرنيٹ پر موجود قياس آرائيوں اور افواہوں سے ہٹ کرمختلف موضوعات پر امريکی حکومت کا موقف آپ تک پہنچانا ہے۔ ميں آپ سے کبھی بھی امريکہ کی تعريف کرنے کو نہيں کہوں گا ليکن انصاف کا تقاضا يہی ہے کہ کسی بھی ايشو پر اپنی رائے قائم کرنے سے پہلے ہر نقطہ نظر کے حوالے سے دلائل اور اعداد وشمار ديکھيں۔ يہی ڈيجيٹل آؤٹ ريچ ٹيم کے قيام کا مقصد ہے۔

آپ اور ميں اچھی طرح سے جانتے ہيں کہ پاکستان ميں ہر سطح پر امريکہ کے خلاف انتہائ نفرت کے جذبات پائے جاتے ہيں ليکن يہ ميرا اپنا نقطہ نظر ہے کہ ہميشہ تصوير کے دو رخ ہوتے ہيں اور جب تک جذبات سے ہٹ کر دونوں فريقين کے نقطہ نظر کو نہ سمجھا جائے اس وقت تک کسی بھی معاملے کو سلجھايا نہيں جا سکتا۔ ڈيجيٹل آؤٹ ريچ ٹيم کے ممبر کی حيثيت سے مجھے يہ موقع ملتا ہے کہ ميں مختلف فورمز پر اہم موضوعات کے حوالے سے اپنے ہم وطنوں کے الزامات، تحفظات اور انکی شکايات امريکی حکام تک پہنچاؤں اور ان کا موقف حاصل کر کے آپ کے سوالوں کا جواب دوں۔ مقصد آپ کو قائل کرنا نہيں بلکہ آپ کو دوسرے فريق کے نقطہ نظر سے آگاہ کرنا ہے تا کہ آپ حقائق کی روشنی ميں اپنی رائے قائم کر سکيں۔

ڈيجيٹل آؤٹ ريچ ٹيم کے ممبران ميں صرف اردو ہی نہيں بلکہ عربی اور فارسی زبان کے ماہرين بھی شامل ہيں۔ حال ہی ميں ايم – ايس – اين – بی – سی نے ڈيجيٹل آؤٹ ريچ ٹيم پر ايک فيچر بھی دکھايا تھا جو آپ اس ويب لنک پر ديکھ سکتے ہيں۔


http://www.msnbc.msn.com/id/22425001/vp/24857710#24857710

فواد – ڈيجيٹل آؤٹ ريچ ٹيم – يو ايس اسٹيٹ ڈيپارٹمينٹ

www.state.gov
 
پاکستان تو پاکستان ، مجھے تو ان لاکھوں عراقیوں کا غم کھائے جاتا ہے ، اس قدر درندگی ، جب میں ایسے حالات دیکھتا ہوں تو مجھے اسامہ بھی اچھا لگنے لگتا ہے اور نو گیارہ بھی ۔ مگر مجبوری ہے کہ اسلام کا قانون آڑے آ جاتا ہے ۔
وسلام
غم تو ہم سب کو ہے، لیکن آپ کو اسامہ کیوں اچھا لگتا ہے، اسامہ تو سی آئی اے کا آدمی ہے اور اس نے امریکہ کہ کہنے پر سب کچھ کیا
 
ميرا تعلق يو – ايس – اسٹيٹ ڈيپارٹمنٹ سے ہے اور ميں ڈيجيٹل آؤٹ ريچ ٹيم کے ممبر کی حيثيت سے مختلف اردو فورمز پر امريکی پاليسی کے حوالے سے اٹھائے جانے والے سوالات کا جواب ديتا ہوں۔

فواد – ڈيجيٹل آؤٹ ريچ ٹيم – يو ايس اسٹيٹ ڈيپارٹمينٹ
www.state.gov

آپ بڑا عظیم کام کر رہے ہیں :grin:
اب آپ چونکہ امریکی حکومت کا دفاع کر ہی رہے ہیں تو یہ بھی بتا دیں، امریکی حکام نے عراق میں کیمیائی ہتھیاروں کی موجودگی کا دعوہ کیا، پھر عراق پر حملہ کیا، لیکن کوئی کیمیائی ہتھیار برآمد نہیں کر پائے، بعد میں مختلف حکام نے اس بات کا اعتراف کیا کہ انہوں نے عراق پر جھوٹی رپورٹ مرتب کی تھی، جس میں کیمیائی ہتھیاروں کا ذکر جھوٹ پر مبنی تھا۔ لیکن اس جھوٹ کی وجہ سے ایک ملک برباد ہو گیا، جس میں ہزاروں امریکی، برطانوں فوجی اور لاکھوں کی تعداد میں عراقی شہری لقمہ اجل بنے، تو جن افراد نے یہ جھوٹ بولا انہیں کیا سزا دی گئی، اور اب امریکہ کی عراق میں موجودگی کا کیا جواز ہے
کیا امریکی حکومت کو اپنے اس اقدام پر کوئی شرمندگی ہے ؟
اس کے علاوہ امریکہ نے ایک اور ملک افغانستان بھی توڑ دیا، لیکن نتائج صفر
آج کثیر تعداد میں عراقی اور افغانی شہری اور امریکی فوجی مر رہے ہیں، کیا امریکہ کو اب بھی اپنے اقدامات پر کوئی شرمندگی نہیں
اگر آپ نئے دھاگے میں یہ سب جوابات دینا چاہتے ہیں تو میں نیا دھاگہ بنا دیتا ہوں
 

Fawad -

محفلین
Fawad – Digital Outreach Team – US State Department

اب آپ چونکہ امریکی حکومت کا دفاع کر ہی رہے ہیں تو یہ بھی بتا دیں، امریکی حکام نے عراق میں کیمیائی ہتھیاروں کی موجودگی کا دعوہ کیا، پھر عراق پر حملہ کیا، لیکن کوئی کیمیائی ہتھیار برآمد نہیں کر پائے، بعد میں مختلف حکام نے اس بات کا اعتراف کیا کہ انہوں نے عراق پر جھوٹی رپورٹ مرتب کی تھی، جس میں کیمیائی ہتھیاروں کا ذکر جھوٹ پر مبنی تھا۔


ڈبليو – ايم – ڈی ايشو کے حوالے سے امريکی حکومت کا موقف ميں پہلے بھی اس فورم پر پيش کر چکا ہوں۔ آپ کی خواہش پر ايک مرتبہ پھر پوسٹ کر رہا ہوں۔

اس حوالے سے يہ بھی اضافہ کرنا چاہوں گا کہ اگر سال 2003 ميں امريکی حملے سے پہلے عراق کی صورت حال اور اس پر عالمی رائے عامہ کا جائزہ ليں تو يہ واضح ہے کہ عالمی برداری اور بالخصوص امريکہ پر صدام حسين کی جانب سے عراقی عوام پر ڈھائے جانے والے مظالم پر خاموشی اور مناسب کاروائ نہ کرنے پر مسلسل شديد تنقيد کی جاتی رہی ہے۔ کئ غير جانب دار تنظيموں کی جانب سے ايسی بے شمار رپورٹس ريکارڈ پر موجود ہيں جن ميں عراقی عوام پر ڈھائے جانے والے مظالم کی داستانيں رقم ہیں۔

جب ڈبليو – ايم – ڈی کا معاملہ دنيا کے سامنے آيا تو صدام حسين نے اس ضمن ميں تعاون اور عالمی برداری کی جانب سے اٹھائے جانے والے سوالات کا جواب دينے سے صاف انکار کر ديا۔ يہ بات بھی قابل توجہ ہے کہ 911 کے واقعات کے بعد کسی بڑی دہشت گردی کی کاروائ کوئ غير حقيقی يا ناقابل يقين بات نہيں تھی۔

يہ درست ہے کہ امريکہ کی جانب سے عراق ميں کاروائ کی بڑی وجہ ڈبليو – ايم – ڈی ايشو کے حوالے سے امريکہ کے تحفظات تھے۔ يہ بھی درست ہے کہ ڈبليو – ايم – ڈی کے حوالے سے انٹيلی جينس غلط ثابت ہوئ۔ ليکن انٹيلی جينس رپورٹس کی ناکامی کسی بھی صورت ميں صدام حسين کو "معصوم" ثابت نہيں کرتيں۔ صدام حسين ايک ظالم حکمران تھا جس کی حکومت عراق کے ہمسايہ ممالک سميت خود عراق کے اندر بے شمار انسانوں کی موت کا سبب بنی۔ صدام حکومت کے خاتمے کے نتيجے ميں عراق بالخصوص اور يہ خطہ بالعموم ايک بہتر مستقبل کی جانب بڑھ رہا ہے۔ اس حقيقت کا ادراک عراق ميں تشدد کے واقعات ميں بتدريج کمی اور جمہوری نظام کی مضبوطی کے نتيجے ميں بڑھتا جا رہا ہے۔

ڈبليو – ايم – ڈی ايشو – امريکی حکومت کا موقف

امريکہ کی خارجہ پاليسی کے حوالے سے کيے جانے والے سارے فيصلے مکمل اور غلطيوں سے پاک نہيں ہيں اور نہ ہی امريکی حکومت نے يہ دعوی کيا ہے کہ امريکہ کی خارجہ پاليسی 100 فيصد درست ہے۔ اس ميں کوئ شک نہيں کہ عراق ميں مہلک ہتھياروں کے ذخيرے کی موجودگی کے حوالے سے ماہرين کے تجزيات غلط ثابت ہوئے۔ اور اس حوالے سے امريکی حکومت نے حقيقت کو چھپانے کی کوئ کوشش نہيں کی۔ بلکل اسی طرح اور بھی کئ مثاليں دی جا سکتی ہيں جب امريکی حکومت نے پبلک فورمز پر اپنی پاليسيوں کا ازسرنو جائزہ لينے ميں کبھی قباحت کا مظاہرہ نہيں کيا۔

اس ايشو کے حوالے سے بل کلنٹن انتظاميہ اور سابقہ امريکی حکومت کے علاوہ ديگر ممالک کو جو مسلسل رپورٹس ملی تھيں اس ميں اس بات کے واضح اشارے تھے کہ صدام حسين مہلک ہتھياروں کی تياری کے پروگرام کو عملی جامہ پہنانے کا ارادہ رکھتا ہے۔ اس حوالے سے صدام حسين کا ماضی کا ريکارڈ بھی امريکی حکام کے خدشات ميں اضافہ کر رہا تھا۔ نجف، ہلہ،ہلاجہ اور سليمانيہ ميں صدام کے ہاتھوں کيميائ ہتھیاروں کے ذريعے ہزاروں عراقيوں کا قتل اور 1991 ميں کويت پر عراقی قبضے سے يہ بات ثابت تھی کہ اگر صدام حسين کی دسترس ميں مہلک ہتھياروں کا ذخيرہ آگيا تواس کے ظلم کی داستان مزيد طويل ہو جائے گی۔ خود صدام حسين کی جانب سے مہلک ہتھياروں کو استعمال کرنے کی دھمکی ريکارڈ پر موجود ہے۔ 11 ستمبر 2001 کے حادثے کے بعد امريکہ اور ديگر ممالک کے خدشات ميں مزيد اضافہ ہو گيا۔

1995 ميں جب صدام حسين کے داماد حسين کمل نے عراق سے بھاگ کرجارڈن ميں پناہ لی تو انھوں نے بھی صدام حسين کے نيوکلير اور کيميائ ہتھياروں کے حصول کے ليے منصوبوں سے حکام کو آگاہ کيا۔ 2003 ميں امريکی حملے سے قبل اقوام متحدہ کی سيکيورٹی کونسل عراق کو مہلک ہتھياروں کی تياری سے روکنے کے ليے اپنی کوششوں کا آغاز کر چکی تھی۔

يہی وجہ ہے کہ جب اقوام متحدہ کئ تحقيقی ٹيموں کو عراق ميں داخلے سے روک ديا گيا تو نہ صرف امريکہ بلکہ کئ انٹرنيشنل ٹيموں کی يہ مشترکہ رپورٹ تھی کہ صدام حکومت کا وجود علاقے کے امن کے ليے خطرہ ہے۔ ميں آپ کو يو – ايس – اسٹيٹ ڈيپارٹمنٹ کی ايک رپورٹ اور ايک ویب سائيٹ کا لنک دے رہا ہوں جس ميں صدام کے ظلم کی داستان تفصيل سے پڑھ سکتے ہيں۔

http://www.usaid.gov/iraq/pdf/iraq_mass_graves.pdf

http://massgraves.9neesan.com/

يہ رپورٹ پڑھنے کے بعد يہ فيصلہ ميں آپ پر چھوڑتا ہوں کہ عراق کے مستقبل کے ليے کيا صورتحال زيادہ بہتر ہے صدام حسين کا وہ دوراقتدار جس ميں وہ اپنے کسی عمل کے ليے کسی کے سامنے جوابدہ نہيں تھے اور سينکڑوں کی تعداد ميں عراقيوں کو قید خانوں ميں ڈال کر ان پر تشدد کرنا معمول کی بات تھی يا 12 ملين عراقی ووٹرز کی منتخب کردہ موجودہ حکومت جو عراقی عوام کے سامنے اپنے ہر عمل کے ليے جوابدہ ہے۔ اس ميں کوئ شک نہيں کہ حکومت سازی کے حوالے سے ابھی بھی بہت سے مسائل ہيں ليکن مستقبل کے ليے اميد افزا بنياديں رکھ دی گئ ہيں۔


فواد – ڈيجيٹل آؤٹ ريچ ٹيم – يو ايس اسٹيٹ ڈيپارٹمينٹ

www.state.gov
 

dxbgraphics

محفلین
فواد بھائی تو آپ کو لوگوں کی آنکھوں میں دھول جھونکنے کی ذمہ داری سونپی گئی ہے :rolleyes:
 

Fawad -

محفلین
Fawad – Digital Outreach Team – US State Department

اس کے علاوہ امریکہ نے ایک اور ملک افغانستان بھی توڑ دیا، لیکن نتائج صفر


امريکہ سميت دنيا کا کوئ بھی ملک جنگ کی خواہش نہيں رکھتا۔ اس انتہائ نقطے پر پہنچنے سے پہلے تمام ممکنہ متبادل سياسی اور سفارتی امکانات اور آپشنز کو استعمال کيا جاتا ہے۔ ان تمام کوششوں ميں ناکامی کے بعد ہی اجتماعی سطح پر جنگ کا فيصلہ کيا جاتا ہے۔ يہ بھی ايک حقیقت ہے کہ حالات چاہے جيسے بھی ہوں، جنگ کی ايک بھاری سياسی قيمت بھی ہوتی ہے جو برسراقتدار حکومت کو ادا کرنی پڑتی ہے۔ معاشی مشکلات اور بے گناہ افراد کی ہلاکت بھی جنگ کی ايسی حقيقتيں ہيں جن سے انکار نہيں کيا جا سکتا۔

يہ تمام عوامل اس بحث اور حکمت عملی کا حصہ ہوتے ہیں جن پر جنگ کے حتمی فيصلے سے قبل سب کو اعتماد ميں لیا جاتا ہے۔ ليکن اس سارے عمل کے باوجود ملک اور قوم کے دفاع کو درپيش واضح خطرات کو نظرانداز نہيں کيا جا سکتا۔ جب کچھ تجزيہ نگار 911 کے بعد امريکہ کی دہشت گردی کے خلاف جنگ کو غير منطقی اور انتہائ جذباتی ردعمل قرار ديتے ہيں تو وہ ان حقائق اور خطرات کو نظرانداز کر ديتے ہيں جن کا سامنا امريکی حکومت کو اس حادثے کے فوری بعد کرنا تھا۔ اس وقت حقائق کچھ يوں تھے۔

القائدہ کی جانب سے امريکہ کے خلاف باقاعدہ جنگ کے اعلان کے بعد قريب 10 سال کے عرصے ميں دنيا بھر ميں امريکی املاک پر حملے کرنے کے بعد يہ تنظيم اتنی فعال اور منظم ہو چکی تھی کہ امريکہ کے اہم شہروں سميت اس کے عسکری مرکز پينٹاگان پر براہراست حملہ کيا گيا۔

اس واقعے کے بعد امريکہ سميت دنيا کے کئ ممالک ميں القائدہ کی جانب سے مزيد ايسی ہی کاروائياں کرنے کی يقين دہانی بھی ريکارڈ پر موجود ہے۔

حکومت پاکستان کے ذريعے امريکہ نے طالبان کے ساتھ 2 ماہ تک مذاکرات کيے جن کا مقصد اسامہ بن لادن کی گرفتاری اور افغانستان ميں اس تنظيم کو تحفظ فراہم نہ کرانے کی يقين دہانی حاصل کرنا تھا۔ ليکن طالبان نے ان مطالبات کو ماننے سے صاف انکار کر ديا۔

ان حالات ميں امريکہ کے سامنے کيا متبادل راستہ باقی رہ گيا تھا؟

آپ يقينی طور پر امريکی حکومت سے يہ توقع نہيں رکھ سکتے کہ وہ ملکی سلامتی کے اہم ترين فوجی فيصلے رائے عامہ کے رجحانات اور مقبوليت کے گراف کی بنياد پر کرے۔

جب آپ 911 کے بعد امريکہ کی پاليسی کے بارے ميں رائے کا اظہار کرتے ہیں تو يہ حقیقت بھی سامنے رکھنی چاہيے کہ اگر اس واقعے کے بعد بھی القائدہ کے خلاف کاروائ نہ کی جاتی تو اس کے کيا نتائج نکلتے۔ اگر القائدہ کی دو تہائ سے زائد ہلاک اور گرفتار ہونے والی قيادت آج بھی سرگرم عمل ہوتی تو اس تنظيم کی کاروائيوں ميں مزيد اضافہ ہوتا اور القائدہ کا يہ پيغام دہشت گردی کی صفوں ميں شامل ہونے والے نوجوانوں کے ليے مزيد حوصلہ افزائ اور تقويت کا سبب بنتا کہ دنيا کی سب سے بڑی فوجی طاقت رکھنے والے ملک اور اس کی حکومت کو بھی دہشت گردی کے ذريعے سياسی دباؤ ميں لا کر اپنے مطالبات اور مطلوبہ مقاصد حاصل کيے جا سکتے ہیں۔


فواد – ڈيجيٹل آؤٹ ريچ ٹيم – يو ايس اسٹيٹ ڈيپارٹمينٹ

www.state.gov
 

dxbgraphics

محفلین
امريکہ سميت دنيا کا کوئ بھی ملک جنگ کی خواہش نہيں رکھتا۔ اس انتہائ نقطے پر پہنچنے سے پہلے تمام ممکنہ متبادل سياسی اور سفارتی امکانات اور آپشنز کو استعمال کيا جاتا ہے۔ ان تمام کوششوں ميں ناکامی کے بعد ہی اجتماعی سطح پر جنگ کا فيصلہ کيا جاتا ہے۔ يہ بھی ايک حقیقت ہے کہ حالات چاہے جيسے بھی ہوں، جنگ کی ايک بھاری سياسی قيمت بھی ہوتی ہے جو برسراقتدار حکومت کو ادا کرنی پڑتی ہے۔ معاشی مشکلات اور بے گناہ افراد کی ہلاکت بھی جنگ کی ايسی حقيقتيں ہيں جن سے انکار نہيں کيا جا سکتا۔

يہ تمام عوامل اس بحث اور حکمت عملی کا حصہ ہوتے ہیں جن پر جنگ کے حتمی فيصلے سے قبل سب کو اعتماد ميں لیا جاتا ہے۔ ليکن اس سارے عمل کے باوجود ملک اور قوم کے دفاع کو درپيش واضح خطرات کو نظرانداز نہيں کيا جا سکتا۔ جب کچھ تجزيہ نگار 911 کے بعد امريکہ کی دہشت گردی کے خلاف جنگ کو غير منطقی اور انتہائ جذباتی ردعمل قرار ديتے ہيں تو وہ ان حقائق اور خطرات کو نظرانداز کر ديتے ہيں جن کا سامنا امريکی حکومت کو اس حادثے کے فوری بعد کرنا تھا۔ اس وقت حقائق کچھ يوں تھے۔

القائدہ کی جانب سے امريکہ کے خلاف باقاعدہ جنگ کے اعلان کے بعد قريب 10 سال کے عرصے ميں دنيا بھر ميں امريکی املاک پر حملے کرنے کے بعد يہ تنظيم اتنی فعال اور منظم ہو چکی تھی کہ امريکہ کے اہم شہروں سميت اس کے عسکری مرکز پينٹاگان پر براہراست حملہ کيا گيا۔

اس واقعے کے بعد امريکہ سميت دنيا کے کئ ممالک ميں القائدہ کی جانب سے مزيد ايسی ہی کاروائياں کرنے کی يقين دہانی بھی ريکارڈ پر موجود ہے۔

حکومت پاکستان کے ذريعے امريکہ نے طالبان کے ساتھ 2 ماہ تک مذاکرات کيے جن کا مقصد اسامہ بن لادن کی گرفتاری اور افغانستان ميں اس تنظيم کو تحفظ فراہم نہ کرانے کی يقين دہانی حاصل کرنا تھا۔ ليکن طالبان نے ان مطالبات کو ماننے سے صاف انکار کر ديا۔

ان حالات ميں امريکہ کے سامنے کيا متبادل راستہ باقی رہ گيا تھا؟

آپ يقينی طور پر امريکی حکومت سے يہ توقع نہيں رکھ سکتے کہ وہ ملکی سلامتی کے اہم ترين فوجی فيصلے رائے عامہ کے رجحانات اور مقبوليت کے گراف کی بنياد پر کرے۔

جب آپ 911 کے بعد امريکہ کی پاليسی کے بارے ميں رائے کا اظہار کرتے ہیں تو يہ حقیقت بھی سامنے رکھنی چاہيے کہ اگر اس واقعے کے بعد بھی القائدہ کے خلاف کاروائ نہ کی جاتی تو اس کے کيا نتائج نکلتے۔ اگر القائدہ کی دو تہائ سے زائد ہلاک اور گرفتار ہونے والی قيادت آج بھی سرگرم عمل ہوتی تو اس تنظيم کی کاروائيوں ميں مزيد اضافہ ہوتا اور القائدہ کا يہ پيغام دہشت گردی کی صفوں ميں شامل ہونے والے نوجوانوں کے ليے مزيد حوصلہ افزائ اور تقويت کا سبب بنتا کہ دنيا کی سب سے بڑی فوجی طاقت رکھنے والے ملک اور اس کی حکومت کو بھی دہشت گردی کے ذريعے سياسی دباؤ ميں لا کر اپنے مطالبات اور مطلوبہ مقاصد حاصل کيے جا سکتے ہیں۔


فواد – ڈيجيٹل آؤٹ ريچ ٹيم – يو ايس اسٹيٹ ڈيپارٹمينٹ

www.state.gov

جناب گوگل کیمرہ کی سروس، سرحدوں پر باڑ، اسلحہ کی فروخت بہترین کاروبار کر رہا ہے اس وقت امریکہ
 

arifkarim

معطل
فواد: دہشت گرد امریکہ خود پیدا کرتا ہے۔ امریکہ اسلحہ خود پیدا کرتا ہے۔ افغانستان میں جب سے امریکی گئے ہیں، وہاں ڈرگز کی کاشت بڑھ رہی ہے۔ عراق کے تیل پر اب ملٹی نیشل کمپنیوں کا قبضہ ہے۔ اگر آپکے امریکہ کے نزدیک یہ جمہوری عمل ہے اور افغانستان اور عراق کے عوام کیلئے خوشحالی اور ترقی کا باعث ہے تو بیشک سمجھتے رہیں۔ قیامت کے روز سب کچھ سامنے آجائے گا!
 
Top