محمد عدنان اکبری نقیبی
لائبریرین

اسی اصول پر آپ نے عوام الناس کا علاج بھی شروع کیا، جس سے لوگوں کو بہت فائدہ بھی ہوا لیکن ساتھ ساتھ سائڈ افیکٹ بھی ہو رہے تھے۔ اس مشاہدے کے بعد انھوں نے یہ نظریہ قائم کیا کہ دوا کی صرف اتنی مقدار جسم میں جانی چاہئے، جو جسم کی مدافعت کو بڑھائے اور اس پر ضمنی اثرات مرتب نہ کرے۔ آج200سال بعد میڈیکل سائنس مائیکرو اور نانوگرام ادویات کی مقدار دے رہی ہے۔ لیکن ڈاکٹر ہانمن نے اس سے بھی مقدار کم کردی، جس کو آپ مائیکرو اسکوپ کے ذریعے بھی نہیں دیکھ سکتے بلکہ الیکٹروفوٹو میٹر کے ذریعے معلوم کیا جا سکتا ہے۔ اتنی کم مقدار ایک خاص طریقے سے کم کی گئی ہے، جسے ڈائنا مائزیشن (Dynamisation) کہا جاتا ہے۔ اس طریقۂ کار کےتین فوائد ہیں۔

1۔ اس طریقہ سے دوا کی مقدار نہ ہونے کے برابر ہوتی ہے لیکن اس کی شفایابی قوت (پوٹینسی) بیمار کو تندرست کرنے کے لئے کافی ہوتی ہے۔
2۔ چونکہ دوائی کی مقدار نہ ہونے کے برابر ہوتی ہے اس لئے ضمنی اثرات سے بھی محفوظ رہا جاتا ہے۔
3۔ سب سے بڑا فائدہ یہ کہ جسم کا مدافعتی نظام نہ صرف بحال ہوتا ہے بلکہ موجودہ بیماری بھی ٹھیک ہو جاتی ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ مدافعتی نظام قوت پکڑتا ہے اور آنے والی بیماریوں کے حملے سے بچاؤ کرتا ہے۔
یہ صرف اس وقت ممکن ہے جب ہم کسی ماہر مستند ہومیوپیتھک معالج سے علاج کرائیں اور وہ معالج قانون ہومیوپیتھی کے مطابق دوا کا استعمال کرے یعنی اصول علاج بالمثل (Similinum) ہو۔ اس لئے ڈاکٹرہانمن ’آرگنن آف میڈیسن‘ میں لکھتے ہیں کہ ہوپیتھک علاج میں بالمثل دوا کی قلیل مقدار ’’جلد‘‘ اور ’’مستقل‘‘ طور پر مریض کو اس بیماری سے شفایاب کر دیتی ہے۔
ہومیوپیتھک ادویات کی افادیت
(WHO (1نے ہومیو پیتھک طریقہ علاج کو نہ صرف تسلیم کیا بلکہ واضح کیا ہے کہ یہ دنیا کا دوسرا بڑا طریقہ علاج ہے، جو عوام الناس کوصحت کی بنیادی سہولتیں مہیا کررہا ہے۔
(2) ہومیوپیتھک ادویات سے ذہنی وجسمانی امراض اور سائیکو سومیٹک امراض پر بڑی کامیابی کے ساتھ قابو پایا جاسکتا ہے۔
(3) الرجک امرض کی وجوہات جان کر ان کا شفایاب علاج ممکن ہے۔
(4) یہ بات بارہا مشاہدے میں آئی ہے کہ جولوگ مستقل ہومیوپیتھک علاج کراتے ہیں، ان کامعیار صحت بڑھ جاتاہے۔ یعنی وہ بہت کم بیمار ہوتے ہیں اور اگرہوں توجلدی ٹھیک ہوجاتے ہیں ۔
(5) جن بچوں کو شروع سے ہی ہومیوپیتھک علاج پررکھاجاتاہے، وہ دیگربچوں کے مقابلے میں زیادہ تندرست و توانا ہوتے ہیں۔ ان کامدافعتی نظام زیادہ اچھا ہوتاہے ۔
(6) عورتوں کے امراض کا بہتر علاج ہوتا ہے۔
(7) مردوں کے امراض میں بھرپور شفایابی اثر دکھاتی ہے ۔
(8 ) موذی امراض سے بچاؤبھی ہوتاہے۔
(9) ہومیوپیتھک ادویات کے استعمال سے ان کی عادت نہیں پڑتی۔
(10) وائرل امراض میں بڑی کامیابی کے ساتھ اس کاجلد اور مکمل علاج ہوجاتاہے ۔مثلاً چکن گونیا،ڈینگی وغیرہ میں مریض48گھنٹو ں میں صحتیابی کی طرف قدم رکھ دیتاہے ۔
ڈاکٹر ہانمن کا نظریہ بیماری
ڈاکٹر ہانمن روح کی انسانی زندگی میں اہمیت کے متعلق بیان کرتے ہیں کہ یہ وہ قوت ہے جو نظر نہیں آتی لیکن پورے جسم کوکنٹرول کرتی ہے۔ تمام افعال اسی کے مرہونِ منت ہیں۔ڈاکٹر ہانمن نے اس کو قوتِ حیات کا نام دیا ہے اورکہا کہ جب یہ قوت حیات کمزورپڑتی ہے توپھر جسم بیمارپڑجاتاہے۔اوراس کو بیمار یاکمزورکرنے میں ذہنی دباؤ،پریشانی، غلط سوچ ،فکر ،قناعت نہ کرنا، ہوس، دیرسے سونا، دیرسے اٹھنا یا قدرتی غذا کا استعمال نہ کرنا،طہارت و صفائی بڑا اہم کردار ادا کرتے ہیں۔
اس طرح اگرہم چاہتے ہیں کہ ہماری بیماری مستقل اور جلد ازجلد ٹھیک ہوجائے توروح کو نشوونما ،اس کی محنت کے لئے مندرجہ بالا اسباب کودیکھناہوگااوراس کی نارمل حالت میں لانے کے لئے ایسی ادویات کااستعمال کرنا ہوگا، جواس کی سطح کوٹھیک کرنے کی صلاحیت رکھتی ہو۔ فروٹ و سبزیاں پہلے اند رسے خراب ہوتی ہیں باہرسے بعد میں نظرآتی ہیں،بالکل اسی طرح ہمارے اندرروح بھی پہلے بیمارہوتی ہے اور جسم بعدمیں ۔
صحت کوقائم ودائم رکھنے اوراس کوبحال کرنے کے لئےحفظانِ صحت کے اصولوں کاخیال رکھیں تاکہ روح بیمار نہ ہو۔ اگربیماری لاحق ہوجائے توبالمثل ہومیوپیتھک کی دوا (جوGMP کے مقررکردہ اسٹینڈرڈ کے مطابق تیار کی گئی ہو) استعمال کریں، جسے ایک سند یافتہ ماہروتجربہ کارہومیوپیتھک ڈاکٹرنے ڈاکٹر ہانمن کے اصولوں اور قوانین کے تحت تجویز کیا ہو۔ توکوئی وجہ نہیں کہ مریض کو شفایابی بغیر کسی سائیڈ ایفیکٹ کے مستقل بنیادوں پر نہ ملے۔
ہومیو پیتھک ڈاکٹر زبیر احمد