ہومیو پیتھی کی وسعتیں

549127_7355076_magazine.jpg

وہ گرمیوں کی تپتی دوپہر تھی جب میں تندور پر روٹی لینے گیا، تو دیکھا کہ اس موسم میں روٹی پکانے والا گرم چائے پی رہا تھا۔ ہم سے تو وہاں کھڑے ہونا مشکل ہو رہا تھا اور وہ تھا کہ مزے سے گرم چائے کی چسکیاں لے رہا تھا۔ ہماری پریشانی کو بھانپتے ہوئے اس نے کہا کہ صاحب گرمی گرمی کو مارتی ہے۔ اگر میں یہاں بیٹھ کر ٹھنڈا پانی پی لوں تو پھر شام کو تندور پر روٹی نہیں پک سکے گی۔ اس کی بات کا میں نے کوئی جواب نہیں دیاکیوں کہ میںڈاکٹر ہانمن (بانی ہومیو پیتھک طریقہ علاج) کے اس تجربے کے متعلق سوچنے لگا، جس میں انہوں نے21دن تک آدھا اونس کونین کھائی اور اس کے بعد ان کو ملیریا کا بخار ہوگیا اور پھر جب انہوں نے اس کو کھانا چھوڑا تو خود بخود نارمل ہونا شروع ہو گئے۔ اس تحقیق کو انہوں نے1796ء میں بعنوان ’’ادویات کی شفایابی جانچنے کا نیا اصول‘‘ ہوف لینڈ کے جنرل میں شائع کرایا کہ جو دوا صحت کی حالت میں انسان کو بیمار کرتی ہے وہ ہی دوا اس جیسی بیماری کو ٹھیک بھی کرے گی۔ یہیں سے ہومیوپیتھی کی ابتدا ہوئی، جسے علاج بالمثل کہا جاتاہے۔ ڈاکٹر ہانمن نے تقریباً 99ادویات کی اپنے اوپر آزمائش کی اور ان تمام تجربات کا ذکر باقاعدہ علم الادویہ کی کتاب ’’پیورا‘‘ میں کیا۔

اسی اصول پر آپ نے عوام الناس کا علاج بھی شروع کیا، جس سے لوگوں کو بہت فائدہ بھی ہوا لیکن ساتھ ساتھ سائڈ افیکٹ بھی ہو رہے تھے۔ اس مشاہدے کے بعد انھوں نے یہ نظریہ قائم کیا کہ دوا کی صرف اتنی مقدار جسم میں جانی چاہئے، جو جسم کی مدافعت کو بڑھائے اور اس پر ضمنی اثرات مرتب نہ کرے۔ آج200سال بعد میڈیکل سائنس مائیکرو اور نانوگرام ادویات کی مقدار دے رہی ہے۔ لیکن ڈاکٹر ہانمن نے اس سے بھی مقدار کم کردی، جس کو آپ مائیکرو اسکوپ کے ذریعے بھی نہیں دیکھ سکتے بلکہ الیکٹروفوٹو میٹر کے ذریعے معلوم کیا جا سکتا ہے۔ اتنی کم مقدار ایک خاص طریقے سے کم کی گئی ہے، جسے ڈائنا مائزیشن (Dynamisation) کہا جاتا ہے۔ اس طریقۂ کار کےتین فوائد ہیں۔
549127_6429690_magazine.jpg

1۔ اس طریقہ سے دوا کی مقدار نہ ہونے کے برابر ہوتی ہے لیکن اس کی شفایابی قوت (پوٹینسی) بیمار کو تندرست کرنے کے لئے کافی ہوتی ہے۔
2۔ چونکہ دوائی کی مقدار نہ ہونے کے برابر ہوتی ہے اس لئے ضمنی اثرات سے بھی محفوظ رہا جاتا ہے۔
3۔ سب سے بڑا فائدہ یہ کہ جسم کا مدافعتی نظام نہ صرف بحال ہوتا ہے بلکہ موجودہ بیماری بھی ٹھیک ہو جاتی ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ مدافعتی نظام قوت پکڑتا ہے اور آنے والی بیماریوں کے حملے سے بچاؤ کرتا ہے۔
یہ صرف اس وقت ممکن ہے جب ہم کسی ماہر مستند ہومیوپیتھک معالج سے علاج کرائیں اور وہ معالج قانون ہومیوپیتھی کے مطابق دوا کا استعمال کرے یعنی اصول علاج بالمثل (Similinum) ہو۔ اس لئے ڈاکٹرہانمن ’آرگنن آف میڈیسن‘ میں لکھتے ہیں کہ ہوپیتھک علاج میں بالمثل دوا کی قلیل مقدار ’’جلد‘‘ اور ’’مستقل‘‘ طور پر مریض کو اس بیماری سے شفایاب کر دیتی ہے۔

ہومیوپیتھک ادویات کی افادیت
(WHO (1نے ہومیو پیتھک طریقہ علاج کو نہ صرف تسلیم کیا بلکہ واضح کیا ہے کہ یہ دنیا کا دوسرا بڑا طریقہ علاج ہے، جو عوام الناس کوصحت کی بنیادی سہولتیں مہیا کررہا ہے۔
(2) ہومیوپیتھک ادویات سے ذہنی وجسمانی امراض اور سائیکو سومیٹک امراض پر بڑی کامیابی کے ساتھ قابو پایا جاسکتا ہے۔
(3) الرجک امرض کی وجوہات جان کر ان کا شفایاب علاج ممکن ہے۔
(4) یہ بات بارہا مشاہدے میں آئی ہے کہ جولوگ مستقل ہومیوپیتھک علاج کراتے ہیں، ان کامعیار صحت بڑھ جاتاہے۔ یعنی وہ بہت کم بیمار ہوتے ہیں اور اگرہوں توجلدی ٹھیک ہوجاتے ہیں ۔
(5) جن بچوں کو شروع سے ہی ہومیوپیتھک علاج پررکھاجاتاہے، وہ دیگربچوں کے مقابلے میں زیادہ تندرست و توانا ہوتے ہیں۔ ان کامدافعتی نظام زیادہ اچھا ہوتاہے ۔
(6) عورتوں کے امراض کا بہتر علاج ہوتا ہے۔
(7) مردوں کے امراض میں بھرپور شفایابی اثر دکھاتی ہے ۔
(8 ) موذی امراض سے بچاؤبھی ہوتاہے۔
(9) ہومیوپیتھک ادویات کے استعمال سے ان کی عادت نہیں پڑتی۔
(10) وائرل امراض میں بڑی کامیابی کے ساتھ اس کاجلد اور مکمل علاج ہوجاتاہے ۔مثلاً چکن گونیا،ڈینگی وغیرہ میں مریض48گھنٹو ں میں صحتیابی کی طرف قدم رکھ دیتاہے ۔

ڈاکٹر ہانمن کا نظریہ بیماری
ڈاکٹر ہانمن روح کی انسانی زندگی میں اہمیت کے متعلق بیان کرتے ہیں کہ یہ وہ قوت ہے جو نظر نہیں آتی لیکن پورے جسم کوکنٹرول کرتی ہے۔ تمام افعال اسی کے مرہونِ منت ہیں۔ڈاکٹر ہانمن نے اس کو قوتِ حیات کا نام دیا ہے اورکہا کہ جب یہ قوت حیات کمزورپڑتی ہے توپھر جسم بیمارپڑجاتاہے۔اوراس کو بیمار یاکمزورکرنے میں ذہنی دباؤ،پریشانی، غلط سوچ ،فکر ،قناعت نہ کرنا، ہوس، دیرسے سونا، دیرسے اٹھنا یا قدرتی غذا کا استعمال نہ کرنا،طہارت و صفائی بڑا اہم کردار ادا کرتے ہیں۔
اس طرح اگرہم چاہتے ہیں کہ ہماری بیماری مستقل اور جلد ازجلد ٹھیک ہوجائے توروح کو نشوونما ،اس کی محنت کے لئے مندرجہ بالا اسباب کودیکھناہوگااوراس کی نارمل حالت میں لانے کے لئے ایسی ادویات کااستعمال کرنا ہوگا، جواس کی سطح کوٹھیک کرنے کی صلاحیت رکھتی ہو۔ فروٹ و سبزیاں پہلے اند رسے خراب ہوتی ہیں باہرسے بعد میں نظرآتی ہیں،بالکل اسی طرح ہمارے اندرروح بھی پہلے بیمارہوتی ہے اور جسم بعدمیں ۔
صحت کوقائم ودائم رکھنے اوراس کوبحال کرنے کے لئےحفظانِ صحت کے اصولوں کاخیال رکھیں تاکہ روح بیمار نہ ہو۔ اگربیماری لاحق ہوجائے توبالمثل ہومیوپیتھک کی دوا (جوGMP کے مقررکردہ اسٹینڈرڈ کے مطابق تیار کی گئی ہو) استعمال کریں، جسے ایک سند یافتہ ماہروتجربہ کارہومیوپیتھک ڈاکٹرنے ڈاکٹر ہانمن کے اصولوں اور قوانین کے تحت تجویز کیا ہو۔ توکوئی وجہ نہیں کہ مریض کو شفایابی بغیر کسی سائیڈ ایفیکٹ کے مستقل بنیادوں پر نہ ملے۔
ہومیو پیتھک ڈاکٹر زبیر احمد
 
جس میں انہوں نے21دن تک آدھا اونس کونین کھائی اور اس کے بعد ان کو ملیریا کا بخار ہوگیا اور پھر جب انہوں نے اس کو کھانا چھوڑا تو خود بخود نارمل ہونا شروع ہو گئے۔
اس تجربہ کی سمجھ نہیں آئی۔
کونین کھائی تو ملیریا ہوا، چھوڑ دی تو ختم ہو گیا۔
 

الف نظامی

لائبریرین
ایک آدمی ساڑھے تین سال میرا پڑوسی رہا ۔ ساڑھے تین سال بعد ایک دن گلی میں ملا تو کہنے لگا ڈاکٹر صاحب! مجھے تو آج پتہ چلا ہے کہ تسیں وی ہومیو پیکٹ لگے او
(ڈاکٹر گلزار احمد)
 
آخری تدوین:

الف نظامی

لائبریرین
کسی بھی طریقہ علاج سے نفرت نہ کریں۔
حکیم دوست محمد صابر ملتانی ساری زندگی ایلوپیتھی کے خلاف لکھتا رہا لیکن وفات ایلوپیتھک ہسپتال میں ہی ہوئی۔ حکیم صابر ملتانی کا تعارف کرانا میں اپنا فرض سمجھتا ہوں۔ میں نے اس کی کتب سے بہت کچھ سیکھا۔ اس نے طب جدید کی بنا ڈالی ۔ طب یونانی چار مزاجوں کو مانتی ہے جو گرم خشک ، گرم تر، سرد خشک اور سرد تر ہیں۔ صابر ملتانی نے چھ مزاج بنائے۔ سردی کے دو مزاجوں کو چھوڑ دیا۔ انہوں نے نظریہ مفرد اعضاء پیش کیا۔ نظریہ بے شک غلط ہے لیکن اس سے مجھے نئی راہ ملی۔
(ڈاکٹر گلزار احمد)
 

فاتح

لائبریرین
میں ڈاکٹر ہانمن (بانی ہومیو پیتھک طریقہ علاج) کے اس تجربے کے متعلق سوچنے لگا، جس میں انہوں نے21دن تک آدھا اونس کونین کھائی اور اس کے بعد ان کو ملیریا کا بخار ہوگیا اور پھر جب انہوں نے اس کو کھانا چھوڑا تو خود بخود نارمل ہونا شروع ہو گئے۔
کونین کھانے سے پلازموڈیم نامی یک خلوی طفیلیہ (ملیریا کا پیراسائٹ) وجود میں آ گیا؟
 
آخری تدوین:

فاتح

لائبریرین
اس تجربہ کی سمجھ نہیں آئی۔
کونین کھائی تو ملیریا ہوا، چھوڑ دی تو ختم ہو گیا۔
شاید یہ تجربہ علاج بالمثل کی تاویل کے حوالے سے بتایا جاتا ہے اور میرے لیے یہی بات انتہائی حیران کن (ناقابل یقین) ہے کہ جسم میں ایک نیا جاندار (پلازموڈیم جو ملیریا کا پیراسائٹ ہے)، جس کا وجود کبھی تھا ہی نہیں، صرف کونین کھانے سے پیدا ہو گیا۔
 
آخری تدوین:

الف نظامی

لائبریرین
دھتوا کو سٹرامونیم کہتے ہیں اس دوا کی ساخت رکھنے والا آدمی بہت ذہین ہوتا ہے ۔ بہت مسخرہ ہوتا ہے اور بہت غصے والا ہوتا ہے۔ چہرہ بھاری اور جسم مضبوط ہوتا ہے۔ عموما لکنت کی شکایت بھی پیدائشی ہوتی ہے۔ غصے میں کسی کو بددعا دے دے تو بددعا لگ جاتی ہے۔
---
سٹرامونیم ، ہایو سائمس ، اگاری کس ، کینابس انڈیکا اور وراٹرم البم دماغ پر اثر کرنے والی دوائیں ہیں۔ ان دواوں کی ساخت رکھنے والے بلا کے ذہین ہوتے ہیں اور یہی دوائیں پاگلوں کی بھی دوائیں ہیں۔
---
کینابس انڈیکا بھنگ کو کہتے ہیں۔ اس دوا کی ساخت رکھنے والا تھیورائزنگ میں کمال کرتا ہے حسن بن صباح اور محمد تغلق اس دوا کی ساخت پر تھے۔
----
جو آدمی پیدائشی بیلاڈونا ہوتا ہے اس کی رنگت گوری ہوتی ہے۔ آنکھیں نیلی ، سبز یا گرے ہوتی ہیں۔ چہرا بھاری ہوتا ہے۔ بہت زندہ دل ہوتا ہے لیکن تکلیف برداشت کرنے کی اہلیت کم ہوتی ہے۔ سٹرامونیم کا چہرہ بھاری ہوتا ہے۔ کندھے چوڑے ہوتے ہیں ، آنکھیں سیاہ ہوتی ہیں ۔ رنگت گندمی یا سیاہ ہوتی ہے۔
۔۔۔
ایک لڑکا میرے پاس آیا کہنے لگا سر میں ہیروئن پیتا ہوں مجھے 50 روپے دے دیں۔ میں نے اسے کہا میرے کلینک پر کام کرو۔ روزانہ 50 روپے دوں گا اور کھانا بھی۔ وہ میرے ساتھ کام کرنے لگا۔ مجھے پتہ چلا پوڈریوں کے پاس انکساری بہت ہوتی ہے۔ قدرت نے اس لڑکے کو تب تک میرے پاس رکھا جب تک مجھ میں اچھی خاصی انکساری نہ آگئی اور میرے ساتھ رہ کر وہ اس قابل ہو گیا کہ اب اسے کوئی نہ کوئی ایسا کام مل جاتا ہے جس سے ہیروئن خریدنے کے لیے پیسے مل جائیں۔ اس نے میری "میں" کو کم کیا اور میں نے اس کی "میں" کو اجاگر کیا۔
میں نے اسے کہا کہ نیٹرم فاس اور ایسڈ فاس کھایا کر۔ نیٹرم فاس سے بھوک بڑھے گی اور ایسڈ فاس سےجسمانی کمزوری دور ہوگی۔
ایک دن کہنے لگا سر میں جب بھی نیٹرم فاس کھاتا ہوں کوئی نہ کوئی پریشانی آجاتی ہے۔ میں نے اسے بتایا کہ کینو مالٹا کھانے سے بھی ایسا ہوتا ہے۔ پریشانی کی حالت میں کھایا جائے تو کوئی خوشی ملتی ہے اگر نارمل حالت میں کھایا جائےتو کوئی پریشانی آجاتی ہے۔
---
چاندی کو زمین پر پھینکا جائے تو آواز نہیں دیتی۔ اس کی ساخت والا آدمی میسنا ہوتا ہے۔
---
(ڈاکٹر گلزار احمد)
 

الف نظامی

لائبریرین
رسٹاکس کا معروف نام poison ivy ہے
اس پودے کے پتے بکریاں بڑے شوق سے کھاتی ہیں لیکن انسانی جسم کے لئے زہر ہے۔ اس کو جوڑوں کے درد کی پہلی دوا کہا جاتا ہے۔ اگر یہ دوا خام حالت میں کھائی جائے تو جسم میں اس طرح درد ہونے لگتا ہے جیسے سرد گرم ہونے سے ہوتا ہے۔ پورا جسم اکڑ جاتا ہے۔ مریض چپ چاپ نہیں لیٹ سکتا۔ پہلو بدلتا رہتا ہے۔ اس دوا کی ایک خوراک کھا کر چادر اوڑھ لی جاتی ہے تو پسینہ آجاتا ہے اور جسم کھل جاتا ہے۔
(ڈاکٹر گلزار احمد)
 
Top